خوبصورت نظمیں

نوید ملک

محفلین
کہانی اور محبت میں
ازل سے جنگ جاری ہے
محبت میں ایک ایسا موڑ آتا ہے کہ جہاں
آ کر کہانی ہار جاتی ہے
کہانی میں تو کچھ کردارہم خود فرض کرتے ہیں
محبت میں کوئی کردار بھی فرض نہیں ہوتا
کہانی تو کئی کردار مل جل کر آگے چلاتے ہیں
محبت اپنے کرداروں کو خود اۤگے بڑھاتی ہے
کہانی میں کئی کردار زندہ ہی نہیں رہتے
لیکن
محبت اپنے کرداروں کو مرنے ہی نہیں دیتی
(اور اس طرح محبت کی کہانی چلتی رہتی ہے)
 

نوید ملک

محفلین
بے سبب بے وجہ
اک کمی کا ہے گماں
کبھی دور رہ کہ پاس لگے
کبھی پاس رہ کر دور سا
گر یہ کہوں کہ یہ پیار ہے
تو اس پیار نے کس کو کیا دیا
کوئی مضطرب
کوئی دربدر
کوئی کسی سے ٹکرا گیا
کوئی اۤس میں ، کوئی تلاش میں
کہیں کوئی دل میں سمایا ہوا
گر اتنی مشکلیں درمیاں
تو یہی سوچ کہ میں خوش بہت
کہ یہ گماں ہے بے سبب !
کہ یہ گماں ہے بے وجہ !
 

عمر سیف

محفلین
درختوں سے ہرے پّتے، ہوا کیوں نوچ لیتی ہے ۔۔۔۔ !
وہ ان چڑیوں کے ٹوٹے پَر، کہاں پر بیچ دیتی ہے ۔۔۔۔۔ !!
انہیں جو مول کوئی لے،دُکھوں سے تول کوئی لے
اگر دل میں یہ چُبھ جائیں، تو گہرے نقش کھب جائیں
اگر ہم وقت سے چھپ کر کہیں، بے وقت ہوجائیں
اور ان چڑیوں کی صورت وقعت اپنی ہم بھی کھو جائیں
تو کیا پھر بھی، لگاتار ایسے سناٹوں کی گہری دھول
یہاں اُڑ اُڑ کر آئے گی !
تو کیا پھر سوکھی سوکھی ٹہنیوں کی کوکھ میں غمناک سانسوں کو
وہی بپتا سنائے گی !
ہرے پتّوں کی ہر کونپل
جو اپنی خشک آنکھوں میں، نمی کے پھول چُنتی ہے
ٹپک کر بوند کی مانند، رشتے توڑ جائے گی !
ہم اپنی سسکیاں چل کر کسی خندق کی گہرائی میں
جا کر دفن کر آئیں !
ہوا کے تیز ناخن پھر تراش آئیں
تو پھر ان ٹوٹے پَر چڑیوں کو بھی، پرواز آ جائے
ہماری بےصدا باتوں میں بھی، آواز آجائے !!!
فرزانہ نیناں
 

نوید ملک

محفلین
بارہا مجھ سے کہا دل نے کہ اے شعبدہ گر!
تو کہ الفاظ سے اصنام گری کرتا ہے
کبھی اس حسنِ دل اۤراء کی بھی تصویر بنا
جو تری سوچ کے خاکوں میں لہو بھرتا ہے
بارہا دل نے یہ اۤواز سُنی اور چاہا
مان لوں، مجھ سے جو وجدان مِرا کہتا ہے
لیکن اس عِجز سے ہارا مِرے فن کا جادو
چاند کو چاند سے بڑھ کر کوئی کیا کہتا ہے

(احمد فراز)
 

سارہ خان

محفلین
ہمیں جب الوداع کہنے لگو تو
مسکرا دینا
ستارہ ساتھ کر دینا
کہ راستے میں اندھیرے بھی آئیں گے
کہ حرفِ دعا ساتھ کر دینا
ہمیں زادِ سفر کو
تمھاری یاد کی سوغات کافی ہے
تمھارے ساتھ بھی گزرا ہوا پل غنیمت ہے
کہیں ٹھرے جو راستے میں
سنہری یاد کی صورت
تمھیں ہمراہ پائیں گیں
تو تم تنہا کہاں ہو گے
مگر پھر بھی
ہمیں جب الوداع کہنے لگو تو مسکرا دینا
ستارا ساتھ کر دینا
کسی حرفِ دعا کا استعارہ ساتھ کر دینا
 

عمر سیف

محفلین
اک تمہارے روٹھ جانے سے
کسی کو کچھ نہیں ہوتا
پھول بھی مہکتے ہیں
رنگ بھی دمکتے ہیں
سورج بھی نکلتا ہے
تارے بھی چمکتے ہیں
لیکن اتنا ضرور ہوتا ہے
اک تیرے روٹھ جانے سے
کوئی ہنسنا بھول جاتا ہے
 

عمر سیف

محفلین

کوئی زنجیر ہو
آہن کی، چاندی کی،روایت کی
محبت توڑ سکتی ہے !

یہ ایسی ڈھال ہےجس پر
زمانے کی کسی تلوار کا لوہا نہیں چلتا !
یہ ایسا شہر ہے جس میں
کسی آمر، کسی سلطان کا سکہ نہیں چلتا !
اگر چشمِ تماشہ میں ذرا سی بھی ملاوٹ ہو
یہ آئینہ نہیں چلتا
یہ ایسی آگ ہے جس میں
بدن شعلوں میں جلتے ہیں تو رُوحیں مسکراتی ہیں
یہ وہ سیلاب ہے جس کو
دلوں کی بستیاں آواز دے کر خود بُلاتی ہیں
یہ جب چاہے کسی بھی خواب کی تعبیر مل جائے
جو منظر بجھ چُکے ہیں ان کو بھی تنویر مل جائے
دعا، جو بے ٹھکانہ تھی، اسے تاثیر مل جائے
کسی رستے میں رستہ پوچھتی تقدیر مل جائے
محبت روک سکتی ہے سمے کے تیز دھارے کو !
کسی جلتے شرارے کو، فنا کے استعارے کو !
محبت روک سکتی ہے، کسی گرتے ستارے کو !
یہ چکنا چور آئینے کے ریزے جوڑ سکتی ہے
جدھر چاہے یہ باگیں موسموں کی موڑ سکتی ہے
کوئی زنجیر ہو، اس کو محبت توڑ سکتی ہے


امجد اسلام امجد
 

عمر سیف

محفلین
تم سے کہنا تھا
اک نظر کی فرصت میں
سطحِ دل پہ کھل اٹھے
لفظ بھی، معانی بھی
خامشی کی جھلمل میں
آگ بھی تھی پانی بھی
دل نے دھڑکنوں سے بھی
جو کہی نہیں اب تک
اَن کہی کہانی بھی
انَ کہی کہانی میں
آنکھ بھر تمنا تھی
ہاتھ بھر کی دوری پر
لمس بھر کی قربت تھی
لمحہ بھر کا سپنا تھا ۔۔۔


ایوب خاور
 

نوید ملک

محفلین
بارشوں کا موسم ہے!
روح کی فضاؤں میں
غم زداہوائیں ہیں
بے سبب اداسی ہے
اس عجب موسم میں
بے قرار راتوں میں
بے شمار باتیں ہیں
اَن گِنت فسانے ہیں
جو بہت خموشی سے
دل پہ ہنستے پھرتے ہیں
اور بہ امرِ مجبوری
سب سے کہتے پھرتے ہیں
اۤج موسم اچھا ہے۔۔۔
اۤج ہم بہت خوش ہیں
 

عمر سیف

محفلین
کس طرح سجاتے ہو
مصلحت کی شاموں میں
محفلیں محبت کی
اور محبتیں بھی وہ
سال بھر مہک جن کی
دل کی ساری گلیوں میں
رقص کرتی پھرتی ہے

کس طرح جلاتے ہو
آندھیوں کے موسم میں
تم دئیے رفاقت کے
تم جو پیار کی دولت
اپنے ہاتھوں سے
خوشبوؤں کی باتوں سے
اس طرح لٹاتے ہو
جس طرح کوئی جگنو
شب کے ریگزاروں پر
روشنی لٹاتا ہے

تم جو حبس موسم میں
اِک ہوا کا جھونکا ہو
کس طرح سجاتے ہو
مصلحت کی شاموں میں
محفلیں محبت کی
کچھ ہمیں بھی بتلاؤ
کچھ ہمیں بھی سکھلاؤ
ہم تو اپنے صحرا کے
بے نوا مسافر ہیں
ہم تمہارے جذبوں کی
نیک سی فضاؤں میں
پھول جیسے گیتوں کی
رقص کرتی خوشبو کے
بے قرار شاعر ہیں


نوشی گیلانی
 

نوید ملک

محفلین
اے صبح کے ستارے
ڈوبیں گے ساتھ تیرے
کچھ لوگ غم کے مارے
اے صبح کے ستارے

بھولے ہوئے منظر ، آنکھوں میں تیرتے ہیں
کچھ عکس دوستی کے ، سانسوں میں پھیلتے ہیں
خوابوں میں ڈولتے ہیں
کچھ نقش بے سہارے
اے صبح کے ستارے

ہر راہ ڈھونڈتی ہے ، گزرے مسافروں کو
لمحے ترس رہے ہیں ، مانوس اۤہٹوں کو
ہم اور سجن ہیں جیسے
دریا کے دو کنارے
اے صبح کے ستارے
ڈوبیں گے ساتھ تیرے
کچھ لوگ غم کے مارے

(امجد اسلام امجد)
 

عمر سیف

محفلین
یہ گزرتے دن ہمارے
نرم بوندوں میں مسلسل بارشوں کے سامنے
آسماں کے نیل میں، کومل سروں کے سامنے
یہ گزرتے دن ہمارے پن چھیوں کے روپ میں
تنگ شاخوں میں کبھی خوابیدگی کی دھوپ میں
ہیں کبھی اور اوجھل کبھی سکھ کی حدوں کے سامنے
چہچہاتے، گیت گاتے بادلوں کے شہر میں
اک جمالِ بے سکوں کی حسرتوں کے سامنے
سبز میداں، بنوں میں، کوہساروں میں کبھی
زرد پتوں میں کبھی، اجلی بہاروں میں کبھی
قید غم میں یا کھلی آزادیوں کے سامنے


منیر نیازی
 

شائستہ

محفلین
کون سے دکھ کی بات کریں
تم تو بس ایک ہی دکھ پوچھتے ہو
کون سے دکھ کی کریں بات ذرا یہ تو بتا
موسموں ، سرد ہواؤں کی مسیحائی کا دکھ
راہ کی دھول میں‌بکھری ہوئی بینائی کا دکھ
سنگ کے شہر میں خود سے شناسائی کا دکھ
یا کسی بھیگتی برسات میں‌تنہائی کا دکھ
کون سے دکھ کی کریں بات کہ دل کا دریا
اتنی طغیانی کی زد پر ہے کہ کچھ یاد نہیں
کب ہمیں بھول گیا کون سے ہرجائی کا دکھ
تم تو بس ایک ہی دکھ پوچھتے ہو
 

عمر سیف

محفلین
محبت کو چلو کسی در پر چھوڑ آئیں
اس سبز سنہری شیشے کو
کسی پتھر پہ توڑ آئیں
چلو اپنی آنکھیں پھوڑ آئیں
اس شہر طلسم کی جانب
دو قدم چلیں،کچھ پل رکیں
کچھ کہہ جائیں کچھ بھول آئیں
چلو باتیں کچھ دہرائیں
کبھی ہر بات سے مکر جائیں
کبھی رستے سے پلٹ آئیں
کبھی در پر گزار عمر آئیں
کچھ دل کے ساتھ چلیں ہم
کسی رات سنگ ڈھلیں ہم
چاہے جتنے موڑ آئیں
ہم اپنی ہستی بھول آئیں
کہیں اپنی انا چھوڑ آئیں
چلو خود کو کسی گلی،کسی نگر چھوڑ آئیں
اس دل کے شیشے کو کسی پتھر پر پھوڑ آئیں
 

عمر سیف

محفلین

اسے لوحِ دل پر لکھا تو ہے
بڑی شان سے ۔۔۔ بڑے مان سے
تو یہ سوچ گہری سی کس لیے ۔۔۔ ؟
یہ جو سوچ ہوتی ہے جانِ جاں !
یہ عدو ہے دل کے سوال کی
یہ کڑی ہے اصل زوال کی
ہوں کہن وفاؤں کے نقش پا،
یہ مٹانے دیتی ہے برملا
چلو، اس طرح سے تو ٹھیک ہے
ہوں جفا کے جتنے بھی سلسلے یا خیال ہوں
ہوں جو بھول جانے کے فیصلے یا ملال ہوں
نہیں حرج ان کو مٹا ہی دو
ہنو بن پڑے تو یہ سوچنا
مرا پیار حرفِ غلط نہیں


فاخرہ بتول
 

عمر سیف

محفلین
اُسے روکتے بھی تو کس لیے
وہ جو شہرِ دل تھا اُجڑ گیا
وہ جو خواب تھا وہ بکھر گیا
کبھی موسموں کی نظر لگی
کبھی واہموں نے ڈرا دیا
کبھی منزلوں کے سراب نے
کبھی زندگی کی کتاب سے
ہمیں جس نے چاہا مٹا دیا
بس اسی لیے ۔۔۔
وہ جو جا رہا تھا دور تک
اُسے دیکھتے ہی رہے مگر
نہیں دی صدا ۔۔
اسے روکتے بھی تو کس لیے ۔۔۔ ؟؟؟
 

عمر سیف

محفلین
ہم نے سوچ رکھا ہے
چاہے دل کی ہر خواہش
زندگی کی آنکھوں سے اشک بن کے
بہہ جائے
چاہے اب مکینوں پر
گھر کی ساری دیواریں چھت سمیت گر جائیں
اور بے مقدر ہم
اس بدن کے ملبے میں خود ہی کیوں نہ دب جائیں
تم سے کچھ نہیں کہنا
کیسی نیند تھی اپنی،کیسے خواب تھے اپنے
اور اب گلابوں پر
نیند والی آنکھوں پر
نرم خو سے خوابوں پر
کیوں عذاب ٹوٹے ہیں
تم سے کچھ نہیں کہنا
گھر گئے ہیں راتوں میں
بے لباس باتوں میں
اس طرح کی راتوں میں
کب چراغ جلتے ہیں،کب عذاب ٹلتے ہیں
اب تو ان عذابوں سے بچ کے بھی نکلنے کا راستہ نہیں جاناں!
جس طرح تمہیں سچ کے لازوال لمحوں سے واسطہ نہیں جاناں!
ہم نے سوچ رکھا ہے
تم سے کچھ نہیں کہنا
 
Top