خوبصورت نظمیں

دوست

محفلین
:roll:
آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے۔۔۔۔وہ تو ہوا ہے نا۔۔۔
آپ تو عیشل ہیں۔۔
کیا خیال ہے؟؟
 

عمر سیف

محفلین
محبّت ہم نے بھی کی ہے
ہم کو ازل سے بھی قبل کا کوئی چہرہ یاد آتا ہے
ہمیں بھی رات کے پچھلے پہر آواز آتی ہے
(کسی کی یاد آتی ہے)
ہمیں ویران رستوں پر
کسی ہستی کے ہونے کا
عجب احساس رہتا ہے
!کوئی ہر دم ہمارے پاس رہتا ہے
یوں لگتا ہے
کہیں ماضی کے رستوں
پر کوئی اک موڑ آیا ہے
کسی کا ساتھہ چھوٹا ہے
ہمارا دل بھی ٹوٹا ہے
مگر لمحوں کی مُٹھی سے جو پل بھی چھوٹ جاتے ہیں
پلٹ کر آ نہیں سکتے
ابد کے بے ارادہ راہرو
واپس ازل تک جا نہیں سکتے
جہانِ ذات میں لیکن بتائیں کس طرح ہم بھی
کسی “ بےاسم“ ہستی کی جُدائی دل پہ سہتے ہیں
کوئی تو ہے کہ جس کی یاد نگری میں
ہمارے خواب رہتے ہیں
جو اکثرہم سے کہتے ہیں
محبّت ہم نے بھی کی ہے
 

عمر سیف

محفلین
مجھے مت بتانا
کہ تم نے مجھے چھوڑنے کا ارادہ کیا تھا
تو کیوں
اور کس وجہ سے
ابھی تو تمہارے بچھڑنے کا دُکھہ بھی نہیں کم ہوا
ابھی تو میں
باتوں کے، وعدوں کے شہرِطلسمات میں
آنکھہ پر خوش گمانی کی پٹّی لیے
تم کو پیڑوں کے پیچھے، درختوں کے جھنڈ
اور دیوار کی پشت پر ڈھونڈنے میں مگن ہوں
کہیں پر تمہاری صدا اور کہیں پر تمہاری مہک
مجھہ پر ہنسنے میں مصروف ہے
ابھی تک تمہاری ہنسی سے نبرد آزما ہوں
اور اس جنگ میں
میرا ہتھیار، اپنی وفا پر بھروسہ ہے اور کچھہ نہیں
اسے کُند کرنے کی کوشش نہ کرنا
مجھے مت بتانا۔۔۔
 

عیشل

محفلین
بساط ِ جاں پہ اُترتے ہیں کس طرح
شب و روز دل پہ عتاب اُترتے ہیں کس طرح
کبھی عشق ہو تو پتہ چلے
یہ جو لوگ سے ہیں چُھپے ہوئے پس ِ دوستاں
تو یہ کون ہیں؟
یہ جو روگ ہیں چھپے ہوئے پس ِ جسم و جاں
تو یہ کس لیئے؟
یہ جو کان ہیں میرے آہٹوں پہ لگے ہوئے
تو یہ کیوں بھلا؟
یہ جو اضطراب ہے رچا ہوا وجود میں
تو یہ کیوں بھلا؟
یہ جو سنگ سا کوئی آ گرا ہے جمود میں
تو یہ کس لیئے؟
یہ جو دل میں درد چڑھا ہوا ہے لطیف سا
تو یہ کب سے ہے؟
یہ جو آنکھ میں کوئی برف سی ہے جمی ہوئی
تو یہ کس لیئے؟
یہ جو دوستوں میں نئی نئی ہے کمی ہوئی
تو یہ کیوں بھلا؟
یہ جو لوگ پیچھے پڑے ہوئے ہیں فضول میں
انہیں کیا پتا،انہیں کیا خبر؟
کسی راہ کے کسی موڑ پر جو انہیں ذرا
کبھی عشق ہو تو پتہ چلے!!!!
 

عمر سیف

محفلین
عیشل خوب۔


میں نے اس شخص کی آنکھوں میں فروزاں دیکھی
اس کے نکھرے ہوئی باطن کی چمک
اس کی تحریر کی خوشبو میں گُلفشاں دیکھی
اس کے مہکے ہوئے لہجے کی کھنک
اس کے کردار پردے میں نمایاں دیکھی
عظمتِ آدمِ خاکی کی جھلک
اس نے بتلایا مجھے !
کیسے فنکار کا فن
اس کے احساس کی قوّت سے جنم لیتا ہے
اس نے سکھلایا مجھے
کس طرح کوئی زمانے کو مسرّت دے کر
اپنے حصّے میں الم لیتا ہے
آسماں کون سے لوگوں کے قدم لیتا ہے !!
 

عمر سیف

محفلین
اس جھیل سی گہری آنکھوں میں
اک شام کہیں آباد تو ہو
اُس جھیل کنارے پل دو پل
اک خواب کا نیلا پھول کھلے
وہ پھول بہا دیں لہروں میں
اِک روز ہم شام ڈھلے
اس پھول کے بہتے رنگوں میں
جس وقت لرزتا چاند چلے
اُس وقت کہیں ان آنکھوں میں
اس گزرے پل کی یاد تو ہو
اُن جھیل سی گہری آنکھوں میں
اک شام کہیں آباد تو ہو
پھر چاہے عمر سمندر کی
ہر موج پریشاں ہو جائے
پھر چاہے آنکھ دریچے سے
ہر خواب گریزاں ہوجائے
پھر چاہے پھول سے چہرے پر
ہر درد نمایاں ہوجائے
اُس جھیل کنارے پل دو پل
وہ روپ نگر ایجاد تو ہو
دن رات کسی کے آنے سے
وہ عکس کہیں آزاد تو ہو
اُن جھیل سی گہری آنکھوں میں
اک شام کہیں آباد تو ہو ۔۔۔
 

عمر سیف

محفلین
تیرے ملنے کا اک لمحہ
بس اک لمحہ سہی لیکن
بکھر جائے تو موسم ہے
وفا کا بیکراں موسم
ازل سے مہرباں موسم
یہ موسم آنکھ میں اُترے تو
رنگوں سے بہکتی روشنی کا عکس کہلائے
یہ موسم دل میں ٹھہرے تو
سنہری سوچ کی صدیوں کا گہرا نقش بن جائے
تیرے ملنے کا ایک لمحہ
مقدر کی لکیروں میں دھنک بھر نے کا موسم ہے
یہ موسم خوبصورت شاعری کرنے کا موسم ہے
 

عمر سیف

محفلین
عجب پاگل سی لڑکی ہے
مجھے ہر خط میں لکھتی ہے
مجھے تم یاد کرتے ہو؟ تمھیں میں یاد آتی ہوں؟
میری باتیں ستاتی ہیں
مری نیندیں جگاتی ہیں
مری آنکھیں رُلاتی ہیں
دسمبر کی سنہری دھوپ میں اب بھی ٹہلتے ہو
کسی خاموش رستے سے کوئی آواز آتی ہے؟
ٹھٹھرتی سرد راتوں میں تم اب بھی چھت پہ جاتے ہو
فلک کے سب ستاروں کو میری باتیں سناتے ہو
کتابوں سے تمھارے عشق میں کوئی کمی آئی؟
یا میری یاد کی شدّت سے آنکھوں میں نمی آئی؟
عجب پاگل سی لڑکی ہے
مجھے ہر خط میں لکھتی ہے

جواباَ اس کو لکھتا ہوں
میری مصروفیت دیکھو
صبح سے شام آفس میں چراغِ عمر جلتا ہے
پھر اس کے بعد دُنیا کی کئی مجبوریاں پاؤں میں بیڑی ڈال رکھتی ہیں
مجھے بےفکر، چاہت سے بھرے سسپنے نہیں دِکھتے
ٹہلنے، جاگنے، سونے کی فرصت ہی نہیں ملتی
ستاروں سے ملے عرصہ ہوا ناراض ہوں شاید
کتابوں سے شغف میرا ابھی ویسے ہی قائم ہے
فرق اتنا پڑا ہے اب انہیں عرصہ میں پڑھتا ہوں
تمھیں کس نے کہا پگلی تمھیں میں یاد کرتا ہوں؟
کہ میں خود کو بھلانے کی مسلسل جستجو میں ہوں
تمھیں نہ یاد آنے کی مسلسل جستجو میں ہوں
مگر یہ جستجو میری بہت ناکام رہتی ہے
مرے دن رات میں اب بھی تمھاری شام رہتی ہے
مرے لفظوں کی ہر مالا تمھارے نام رہتی ہے

تمھیں کس نے کہا پگلی مجھے تم یاد آتی ہو؟
پُرانی بات ہے جو لوگ اکثر گنگناتے ہیں
انہیں ہم یاد کرتے ہیں جنھیں ہم بھول جاتے ہیں
عجب پاگل سی لڑکی ہو
مری مصروفیت دیکھو
تمھیں دل سے بھلاؤں تو تمھاری یاد آئے نا!
تمھیں دل سے بھلانے کی مجھے فرصت نہیں ملتی
اور اس مصروف جیون میں
تمھارے خط کا اِک جملہ
" تمھیں میں یاد آتی ہوں "
مری چاہت کی شدت میں کمی ہونے نہیں دیتا
بہت راتیں جگاتا ہے مجھے سونے نہیں دیتا
سو اگلی بار اپنے خط میں یہ جملہ نہیں لکھنا!
عجب پاگل سی لڑکی ہے، مجھے پھر بھی یہ لکھتی ہے
مجھے تم یاد کرتے ہو؟ تمھیں میں یاد آتی ہوں؟

عاطف سعید
 

عمر سیف

محفلین
کہیں گُم ہوا تیری کھوج میں

میں گرہ میں باندھ کے حادثات، نکل پڑا تیری کھوج میں
کہیں تارکول کی تھی سڑک، جہاں آگ بانٹتی دھوپ تھی
کبھی کچی راہ کی دھول میں جہاں سانس لینا محال تھا
سرِ رزمِ جاں کبھی دل کے درد سے ہار کر
میں تو خانقاہوں پہ مانگتا پھرا منّتیں
کبھی رات رات بَسر دعاؤں میں ہو گئی
کبھی قافلے مری آس کے کسی دشتِ یاس میں کھو گئے
میرا پیرہن تھا پھٹا ہوا کہیں گََرد گَرد اَٹا ہوا
میں ادھورے پن کے سراب میں
تجھے دھونڈتا پھرا در بدر
کسی اجنبی کے دیار میں
کوئی دُکھہ ملا کسی موڑپہ، کوئی غم ملا کسی چوک میں
کسی راہگزر کے سکوت میں کوئی درد آکے ڈرا گیا
کبھی چل پڑا، کبھی رُک گیا، کسی کشمکش کے غبار میں
مجھے کیا ملا تیرے پیار میں
میں گرہ میں باندھہ کے حادثات
کہیں گُم ہوا تیری کھوج میں


شفیق احمد
 

عیشل

محفلین
ہزاروں پل تمہارے بن
نہ پوچھو کیسے کاٹے ہیں
کبھی یادیں ستاتی ہیں
کبھی موسم رلاتے ہیں
ہمارا مان رکھ لینا
ہمیں دل میں بسا لینا
بہت ٹوٹے ہوئے دل سے
بہت روٹھا نہیں کرتے
محبت تو عبادت ہے
زمانے سے چھپاتے ہیں
اسے رسوا نہیں کرتے
سنو ایسا نہیں کرتے
سنو ایسا نہیں کرتے!!!!!!!!!!!!!
 

عمر سیف

محفلین
میں اپنے گھر میں ہی اجنبی سا ہو گیا ہوں آکر
مجھے یہاں دیکھ کر میری روح ڈر گئی ہے
شام کی سب آرزوئیں کونوں میں جا چھپی ہیں
لوئیں بُجھا دیں ہیں اپنے چہرے کی، حسرتوں نے
کہ شوق پہچانتا ہی نہیں
مرا دِیں دہلیز ہی پر سر رکھ کر مَر گیا ہے
میں کس وطن کی تلاش میں یوں چلا تھا گھر سے
کہ اپنے گھر میں بھی اجنبی ہو گیا ہوں آکر۔۔۔
 

عمر سیف

محفلین
تمہارا نام میں لکھتا ہوں کاغذ پر
دیکھتا ہوں ، سوچتا ہوں
وہ کاغذ پھاڑ دیتا ہوں
پھر اُن کاغذ کے ٹُکڑوں کو
مُٹّھی میں بھینچتا ہوں
پھینک دیتا ہوں
وہیں پر بیٹھ کر لڑتا ہوں خود سے
وہی کاغذ اُٹھاتا ہوں
آنکھوں سے لگاتا ہوں
پھر اپنے پاس رکھے پانی کے پیالے میں
وہ کاغذ ڈال دیتا ہوں
میں تُم کو سوچتا ہوں
پھر اُس پانی کو
تعویذِ محبت جان کر پی لیتا ہوں ۔۔
 

عمر سیف

محفلین
مجھ کو بھی ترکیب سکھا کوئی یار جولاہے!
اکثر تجھ کو دیکھا ہے کہ تانا بُنتے
جب کوئی تانا ٹوٹ گیا یا ختم ہوا
پھر سے باندھ کے
اور سرا کوئی جوڑ کے اس میں
آگے بُننے لگتے ہو
تیرے اس تانے میں لیکن
اک گانٹھ گرا بُنتر کی
دیکھ نہیں سکتا کوئی
میں نے تو اک بار بُنا تھا ایک ہی رشتہ
لیکن اس کی ساری گرہیں
صاف نظر آتی ہیں میرے یار جُلاہے ۔۔!!


گلزار
 

عمر سیف

محفلین
رات کا غالباَ، آخری پہر تھا
مجھ سے تنہا ستارہ یوں گویا ہوا
ہم نشیں ۔۔۔ الوادع !!!
اے میرے ہم نشیں، مجھ کو نیند آگئی
کل ملیں گے یہیں
یہ سُن کر میں ہلکہ سا مسکرا دیا
اُس کو بتلا دیا
جانے والے یہاں لوٹتے ہی نہیں
تم نہ آؤ گے کل
مجھ کو ہے یہ یقیں
بات سُن کر میری
وہ رُک سا گیا
اور کہنے لگا
“ تم سے وعدہ کروں، پھر نہ پورا کروں
ایسا ممکن نہیں
سُن میری ہم نشیں، میں تو انساں نہیں ۔۔۔!!!
 

نوید ملک

محفلین
Difference

بچھڑنے اور جدائی میں ذرا سا فرق ہوتا ہے
جدا ہو کر کسی سے پھر کبھی کوئی نہیں ملتا
بچھڑ جائیں تو ملنے کا کوئی امکان رہتا ہے
جدا ہو کر کسی کی یاد دل میں رہ نہیں سکتی
بچھڑ جائیں تو دل میں اِک دیا جلتا ہی رہتا ہے
جدا ہو کر کسی کا پیار دل میں رہ نہیں سکتا
بچھڑ جائیں تو دل میں بس اسی کا پیار رہتا ہے
تو پھر اے ہم سخن میرے
تو میرا فیصلہ سن لے
مجھے تم سے بچھڑنا ہے
جدا تم سے نہیں ہونا
 

عمر سیف

محفلین
کوئی زنجير
آہن کی چاندی کی روايت کی
محبت توڑ سکتی ہے
يہ ايسی ڈھال ہے جس پر
زمانے کی کسی تلوار کا لوہا نہيں چلتا
يہ ايسا شہر ہے جس
ميں کسی آمر کسی سلطان کا سکہ نہيں چلتا
اگر چشم تماشا ميں ذرا سی بھی ملاوٹ ہو
يہ آئينہ نہيں چلتا
يہ ايسی آگ ہے جس ميں
بدن شعلون ميں جلتے ہيں تو روحيں مسکراتی ہيں
يہ وہ سيلاب ہے جس کو
دلوں کی بستياں آواز دے کر خود بلاتی ہيں
يہ جب چاہے کسی بھی خواب کو تعبير مل جائے
جو منظر بجھ چکے ہيں انکو بھی تنورير مل جائے
دعا جو بے ٹھکانہ تھی اسے تاثير مل جائے
کسی رستے ميں رستہ پوچھتی تقدير مل جائے
محبت روک سکتی ہے سمے کے تيز دھارے کو
کسی جلتے شرارے کو، فنا کے استعارے کو
محبت روک سکتی ہے کسی گرتے ستارے کو
يہ چکنا چور آئينے کے ريزے جوڑ سکتی ہے
جدھر چاھے يہ باگيں موسموں کي موڑسکتی ہے
کوئی زنجير ہو اس کو محبت توڑ سکتی ہے ۔۔۔
 

عمر سیف

محفلین
چاندی کے ہالے میں کس کو کھوجتی ہو تم
چُھپ کے یوں اُداسی میں کس کو سوچتی ہو تم
بار بار چوڑی کے سُر کسے سُناتی ہو
شور سے صدا کس کی توڑ توڑ لاتی ہو
بزم میں بہاروں کی، کھوئی کھوئی لگتی ہو
دوستوں کے مجمع میں، کیوں اکیلی رہتی ہو
جھالروں سے پلکوں کی، ٹوٹ ٹوٹ جاتی ہو
بُلبلے کی صورت میں، پھوٹ پھوٹ جاتی ہو
دُھند سے لپٹ کر کیوں، سونی راہ تکتی ہو
کھڑکیوں سے برکھا کو، دیکھ کر بلکتی ہو
سارے سپنے آنکھوں سے ایک بار بہنے دو
رات کی ابھاگن کو تارا تارا گہنے دو
ماضی، حال، مستقبل، کچھ تو کورا رہنے دو
پُل کے نیچے بہنے دو آنسوؤں کی یہ ندیاں
وقت چلتا جائے گا، بیت جائیں گی صدیاں
بےحسوں کی بستی میں، بےحسی کو رہنے دو
دل تو پورا پاگل ہے اس کو پورا رہنے دو
یہ جو کہتا رہتا ہے، اس کو بھی وہ کہنے دو
اس کو کورا رہنے دو
تم یہ کورا رہنے دو ۔۔۔!!!


فرزانہ نیناں
 

عمر سیف

محفلین
محبت کی اپنی الگ ہی زباں ہے
محبت سے خردمندی اگر مشروط ہوتی تو
نہ مجنوں دشت میں جاتا
نہ کوئی کوہکن، عشرت گہِ خسرو سجانے کو
کبھی تیشہ اٹھاتا
اور
نہ کوئی سوہنی کچے گھڑے پہ پار کرتی
چڑھتے دریا کو
نہ تم برباد کرتے اس طرح میری تمنا کو
نہ میں الزام دیتا اپنی ناکامی پہ دنیا کو
محبت سے خرد مندی اگر مشروط ہوتی تو


امجد اسلام امجد
 
Top