خوبصورت نظمیں

حسینی

محفلین
[اک خوبصورت غزل]

اک شخص کو دیکھا تھا

تاروں کی طرح ہم نے

اک شخص کو چاہا تھا

اپنوں کی طرح ہم نے

اک شخص کو سمجھا تھا

پھولوں کی طرح ہم نے

وہ شخص قیامت تھا

کیا اس کی کریں باتیں؟

دن اس کے لیے پیدا

اور اس کی ہی تھیں راتیں

کم ملتا کسی سے تھا

ہم سے تھیں ملاقاتیں

رنگ اس کا شہابی تھا

زلفوں میں تھیں مہکاریں

آنکھیں تھیں کہ جادو تھا

پلکیں تھیں کہ تلواریں؟

دشمن بھی اگر دیکھے

توجاں سے دل ہارے

کچھ تم سے وہ ملتا تھا

باتوں میں شباہت تھی

ہاں تم سا ہی لگتاتھا

شوخی میں شرارت میں

لگتا بھی تمہیں سا تھا

دستور محبت میں

وہ شخص ہمیں اک دن

اپنوں کی طرح بولا

تاروں کی طرح ڈوبا

پھولوں کی طرح ٹوٹا

پھر ہاتھ نہ آیا وہ

ہم نے بھی بہت ڈھونڈا

تم کس لیے چونکے ہو

کب ذکر تمہارا ہو؟

کب تم سے تقاضا ہے؟

کم تم سے شکایت ہے؟

اک تازہ حکایت ہے

سن لو تو عنایت ہے
اک شخص کو دیکھا تھا

تاروں کی طرح ہم نے

اک شخص کو چاہا تھا

اپنوں کی طرح ہم نے
 
محبت اب نہیں ہوگی۔ ۔ ۔ ۔

ستارے جو دمکتے ہیں
کسی کی چشم حیراں میں
ملاقاتیں جو ہوتی ہیں
جمال ابر باراں میں

یہ نا آباد وقتوں میں
دل نا شاد میں ہوگی
محبت اب نہیں ہوگی ۔ ۔ ۔
یہ کچھ دن بعد میں ہوگی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

گزر جائیں گے جب یہ دن
ان کی یاد میں ہوگی

محبت اب نہیں ہوگی۔ ۔ ۔ ۔
کچھ دن بعد میں ہوگی۔ ۔ ۔ ۔ ۔

(امجد اسلام امجد)
ََِِِِٰ
یہ نظم منیر نیازی صاحب کی ہے امجد صاحب کی نہیں
 
Top