خوبصورت نظمیں

روز

محفلین
اتنا معلوم ہے!
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪

اپنے بستر پہ میں بہت دیر سے نیم دراز
سوچتی تھی کہ وہ اس وقت کہاں پر ہوگا
میں یہاں ہوں مگر اُس کوچہء رنگ و بو میں
روز کی طرح سے وہ آج بھی آیا ہوگا
اور جب اُس نے وہاں مجھ کو نہ پایا ہوگا ؟

آپ کو علم ہے ، وہ آج نہیں آئی ہیں ؟
میری ہر دوست سے اُس نے یہی پوچھا ہوگا
کیوں نہیں آئی وہ کیا بات ہوئی ہے آخر
خود سے اس بات پہ سو بار وہ اُلجھا ہوگا
کل وہ آئے گی تو میں اُس سے نہیں بولوں گا
آپ ہی آپ کئی بار وہ روٹھا ہوگا
وہ نہیں ہے تو بلندی کا سفر کتنا کٹھن
سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اُس نے یہ سوچا ہوگا
راہداری میں ،ہرے لان میں ، پھولوں کے قریب
اُس نے ہر سمت مجھے ڈھونڈا ہوگا
نام بھولے سے جو میرا کہیں آیا ہوگا
غیر محسوس طریقے سے وہ چونکا ہوگا
ایک جملے کو کئی بار سُنایا ہوگا
بات کرت ہوئے سو بار وہ بھولا ہوگا
یہ جو لڑکی نئی آئی ہے ، کہیں وہ تو نہیں
اُس نے ہر چہرہ یہی سوچ کے دیکھا ہوگا
جانِ محفل ہے ، مگر آج فقط میرے بغیر
ہائے کس درجہ بھری بزم میں تنہا ہوگا
کبھی سنّاٹوں سے وحشت جو ہوئی ہوگی اُسے
اُس نے بے ساختہ پھر مجھ کو پکارا ہوگا
چلتے چلتے کوئی مانوس سی آہٹ پا کر
دوستوں کو بھی کسی عذّر سے روکا ہوگا
یاد کر کے مجھے ، نم ہوگئی ہوں گی پلکیں
آنکھ میں پڑ گیا کچھ کہہ کہ یہ ٹالا ہوگا
اور گھبرا کے کتابوں میں جو لی ہوگی بناہ
ہر سطر میں میرا چہرہ اُبھر آیا ہوگا
جب ملی ہوگی اُسے میری علالت کی خبر
اُس نے آہستہ سے دیوار کو تھاما ہوگا
سوچ کر یہ کہ بہل جائے پریشانیء دل
یونہی بے وجہ کسی شخص کو روکا ہوگا
اتفاقاً مجھے اُس شام میری دوست ملی
میں نے پوچھا کہ سنو آئے تھے وہ ؟ کیسے تھے ؟
مجھ کو پوچھا تھا ؟ مجھے ڈھونڈا تھا چاروں جانب
اُس نے اِک لمحے کو دیکھا مجھے اور پھر ہنس دی
اُس ہنسی میں تو وہ تلخی تھی کہ اُس سے آگے
کیا کہا اُس نے مجھے یاد نہیں ہے ! لیکن ۔۔۔۔۔
اتنا معلوم ہے ، خوابوں کا بھرم ٹوٹ گیا!​
[align=left:228bf14f1f](پروین شاکر)[/align:228bf14f1f]
 
اس رائیگانی میں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

سو وہ آنسو ہمارے “آخری آنسو “ تھے
جو ہم نے گلے مل کر بہائے تھے

نہ جانے وقت ان آنکھوں سے کس طور پیش آیا؟
مگر فریب وقت کی بہکی ہوئی آنکھوں نے
اس کے بعد بھی
آنسو بہائے ہیں
میرے دل نے بہت سے دکھ رچائے ہیں۔ ۔ ۔ ۔

مگر ہوں ہے کہ
ماہ و سال کی اس رائیگانی میں
میری آنکھیں
گلے ملتے ہوئے رشتوں کی فرقت کے وہ
“آنسو“
پھر نہ رو پائیں

(جون ایلیا)


 

عمر سیف

محفلین
بہار آئی ہے مجھ سے کہنے
کہ بھر لے مٹھی میں ساری خوشبو
یہی تو لمحہ ہے تیرا لمحہ
جو تو نے اس کو گنوا دیا تو
کھڑی رہے گی ہمیشہ تنہا
یہ کیا ضروری ہے
تو جو چاہے نہ پا سکے وہ؟
یہ لازمی ہے
کہ نامرادی تیرے لیے ہو؟
کہاں لکھا ہے
کہ ہار تیرے نصیب میں ہو؟
کہ اس کی نظریں
تیرے ہی اندر نہ جھانک پائیں؟
جو خوف کھایا
ذرا بھی سوچا
تو آج کل میں بدل نہ جائے
جو دل کی دھڑکن میں آ بسا ہے
وہ عکس ماضی میں کھو نہ جائے
یہ ایک لمحے کا فیصلہ ہے
نہ کل تیرا تھا
نہ آنے والا تیرا ہی ہوگا
تیرے لیے تو ہے بس یہ لمحہ
اس ایک لمحے میں چاہے گر تو
بہار آنچل میں بھر لے اپنے
کہ پھول اپنا لباس کر لے
کہ تتلیوں کے سجا لے گجرے
فضا میں شہنائی گونج اٹھے
مگر تو لمحے کو قید تو کر
یہ ڈر جھٹک سب
تو فیصلہ کر ۔۔۔!!!
 

نوید ملک

محفلین
کیا ملا محبت سے؟
خواب کی مسافت سے
وصل کی تمازت سے
روز و شب ریاضت سے
کیا ملا محبت سے
ایک ہجر کا صحرا
ایک شام یادوں کی
اِک تھکا ہوا آنسو

نوشی گیلانی
 
تیرے نام
دل کا اک خزانہ میں نے
تیرے نام کیا ہے
چاہت کا انمول خزانہ
تیرے نام کیا ہے
اپنی ساری خوشیاں میں نے
تیرے نام لکھی ہیں
اور تیرا ہر اک غم کا لمحہ
اپنے نام کیا ہے​
 

عمر سیف

محفلین
نظم الجھی ہوئی ہے سینے میں
شعر اٹکے ہوئے ہیں ہونٹوں پر
لفظ کاغذ پہ بیٹھتے ہی نہیں
اُڑتے پھرتے ہیں تتلیوں کی طرح
کب سے بیٹھا ہوا ہوں میں جانم
سادہ کاغذ پہ لکھ کہ نام تیرا
کس ترا نام ہی مکمل ہے
اس سے بہتر بھی نظم کیا ہوگی۔!!


گلزار
 

عمر سیف

محفلین
ہم دونوں جو حرف تھے
ہم اک روز ملے،
اک لفظ بنا
اور ہم نے اک معنی پائے
پھر جانے کیا ہم پر گزری
اور اب یوں ہے
تم اک حرف ہو اک خانے میں
میں اک حرف ہوں اک خانے میں
بیچ میں کتنے لمحوں کے خانے خالی ہیں
پھر سے کوئی لفظ بنے
اور ہم دونوں اک معنی پائیں
ایسا ہوسکتا ہے، لیکن سوچنا ہوگا
ان خالی خانوں میں ہم کو بھرنا کیا ہے !!!


جاوید اختر
 

عمر سیف

محفلین
جب بچھڑتے ہیں
تو یوں لگتا ہے جیسے جسم کا حصہ کوئی کٹ کر
صدا کرتا ہے
اور جیسے ہوا کی سسکیاں کہتی ہیں
ہاں تم میرے اپنے تھے
جب بچھڑتے ہیں
تو گزری ساعتوں کی روشنی ہم کو بلاتی ہے
فضا کہتی ہے
ہاں تم وہ پرندے تھے جو مجھ میں سانس لیتے تھے

خالد شریف
 

عمر سیف

محفلین
زندگی سے ڈرتے ہو !!
زندگی تو تم بھی ہو، زندگی تو ہم بھی ہیں
آدمی سے ڈرتے ہو
آدمی تو تم بھی ہو، آدمی تو ہم بھی ہیں
آدمی زباں بھی ہے، آدمی بیاں بھی ہے
اس سے تم نہیں ڈرتے
حرف اور معنی کے رشتہ ہائے آہن سے
آدمی ہے وابستہ
اس سے تم نہیں ڈرتے
“اَن کہی“ سے ڈرتے ہو
جو ابھی نہیں آئی، اس گھڑی سے ڈرتے ہو
اس گھڑی کی آمد کی آگہی سے ڈرتے ہو
۔۔۔۔ پہلے بھی تو گزرے ہیں
دور نارسائی کے، بےریا خدائی کے
پھر بھی یہ سمجھتے ہو، ہیج آرزومندی
یہ شبِ زباں بندی، ہے راہِ خداوندی
تم مگر یہ کیا جانو،
لب اگر نہیں ہلتے
ہاتھ جاگ اٹھتے ہیں
ہاتھ جاگ اٹھتے ہیں راہ کا نشاں بن کر
نور کی زباں بن کر
ہاتھ بول اٹھتے ہیں صبح کی اذاں بن کر
روشنی سے ڈرتے ہو؟
۔۔۔ شہر کی فصیلوں میں
دیو کا جو سایہ تھا، پاک ہوگیا آخر
رات کا لبادہ بھی
چاک ہوگیا آخر، خاک ہوگیا آخر
اژدہامِ انساں سے فرد ی نوا آئی
ذات کی صدا آئی
راہِ شوق میں جیسے راہرو کا خون لپکے
اک نیا جنوں لپکے
آدمی چھلک اٹھے
آدمی ہنسے دیکھو، شہر پھر بسے دیکھو
تم ابھی سے ڈرتے ہو ؟؟؟

ن۔م۔ راشد
 
ضبط نے کہا:
نظم الجھی ہوئی ہے سینے میں
شعر اٹکے ہوئے ہیں ہونٹوں پر
لفظ کاغذ پہ بیٹھتے ہی نہیں
اُڑتے پھرتے ہیں تتلیوں کی طرح
کب سے بیٹھا ہوا ہوں میں جانم
سادہ کاغذ پہ لکھ کہ نام تیرا
کس ترا نام ہی مکمل ہے
اس سے بہتر بھی نظم کیا ہوگی۔!!


گلزار

بہت عمدہ! بہت اعلٰی ذوق ہے آپ کا، ماشااللہ !!
 

عمر سیف

محفلین
اعجازعظیم نے کہا:
ضبط نے کہا:
نظم الجھی ہوئی ہے سینے میں
شعر اٹکے ہوئے ہیں ہونٹوں پر
لفظ کاغذ پہ بیٹھتے ہی نہیں
اُڑتے پھرتے ہیں تتلیوں کی طرح
کب سے بیٹھا ہوا ہوں میں جانم
سادہ کاغذ پہ لکھ کہ نام تیرا
کس ترا نام ہی مکمل ہے
اس سے بہتر بھی نظم کیا ہوگی۔!!


گلزار

بہت عمدہ! بہت اعلٰی ذوق ہے آپ کا، ماشااللہ !!
پسندیدگی کا شکریہ۔
 

عمر سیف

محفلین
مگر یہ زندگی کی ہائی وے پہ چلنے والے کب سمجھتے ہیں
غلط ایگزٹ سے مُڑ جائیں تو منزل چھوٹ جاتی ہے
مجھے بھی ایک ایگزٹ پہلے مُڑنے کی اذیّت ہے
مرے پیشِ نظر بھی ایک اَن دیکھی مسافت ہے
یہاں سے لوٹنا نہ منزل تک پہنچ پانا
مرے بس میں نہیں شاید
میں پھر بھی جا رہی ہوں ایک اَن دیکھے بیاباں میں
یہاں کوئی پرندہ ہے نہ سایہ ہے نہ پانی ہے
نہ اس میں کوئی ایگزٹ کی نشانی ہے
مسلسل رائیگانی ہے
یہاں کس کو پکاروں میں
کہ اب اپنی صدا بھی اپنے کانوں میں نہیں آتی
بلا کی سرگرانی ہے
یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں شاید
میں کس سے رستہ پوچھوں
یہاں تو نَو سو گیارہ کی سہولت بھی نہیں حاصل
میں جس دُنیا کی ہوں اس کی حکومت بھی نہیں حاصل
بتا قُطبی ستارے یہ کہاں کی بے ثباتی ہے
نہ مجھ کو چین پڑتا ہے نہ مجھ کو نیند آتی ہے
غلط ایگزٹ سے مُڑ جائیں تو منزل چھوٹ جاتی ہے

ریحانہ قمر
 

عمر سیف

محفلین
بچھڑنے اور جدائی میں ذرا سا فرق ہوتا ہے
جُدا ہو کر کسی سے پھر کبھی کوئی نہیں ملتا
بچھڑ جائیں تو ملنے کا کوئی امکان رہتا ہے
جُدا ہو کر کسی کی یاد دل میں رہ نہیں سکتی
بچھڑ جائیں تو دل میں اک دیا جلتا ہی رہتا ہے
جُدا ہو کر کسی کا پیار دل میں رہ نہیں سکتا
بچھڑ جائیں تو دل میں بس اسی کا پیار رہتا ہے
تو پھر اے ہم سخن میرے، تو میرا فیصلہ سُن لے
مجھے تم سے بچھڑنا ہے جُدا تم سے نہیں ہونا !!!

عاطف سعید
 

شمشاد

لائبریرین
جب بھی آتی ہے تیری یاد کبھی شام کے بعد
اور بڑھ جاتی ہے افسردہ دلی شام کے بعد

اب ارادون پہ بھروسہ ہے نہ توبہ پہ یقیں
مجھ کو لے جائے کہاں تشنہ لبی شام کے بعد

یوں تو ہر لمحہ تیری یاد کا بوجھل گزرا
دل کو محسوس ہوئی تیری کمی شام کے بعد

یوں تو کچھ شام سے پہلے بھی اداسی تھی ‘ ادیب ‘
اب تو کچھ اور بڑھی دل کی لگی شام کے بعد
(کرشن ادیب)
 

ظفری

لائبریرین

میں اس کی آنکھوں میں دیکھتا رہتا ہوں
مگر میری سمجھ میں‌کچھ نہیں آتا
میں اس کی باتیں سنتا رہتا ہوں
مگر میری سمجھ میں‌کچھ نہیں آتا
اب اگر وہ کبھی مجھ سے ملے
تو میں اس سے بات نہیں‌کروں گا
اس کی طرف دیکھوں گا بھی نہیں
میں کوشش کروں گا
میرا دل کہیں اور مبتلا ہوجائے
اب میں اُسے یاد بنا دینا چاہتا ہوں

(منیر نیازی )
 

ظفری

لائبریرین

چلو اس شام کوئی اور ہی قصّہ سناتے ہیں
چلو اِس شام اُس کو ہم سِرے سے بھول جاتے ہیں
چلو اِس شام کوئی آنے والا خواب بُنتے ہیں
چلو اِس شام کلیاں نہیں، کانٹوں کو چُنتے ہیں
چلو اِس شام جشنِ تِیرگی ہنس کر منائیں ہم
چلو اِس شام کواُس کو پھر سِرے سے بھول جائیں ہم​
 

عمر سیف

محفلین
بہت ہی مدت کے بعد کل جب
کتاب ماضی کو میں نے کھولا
بہت سے چہرے نظر میں اُترے
بہت سے ناموں پہ دل پسیجا
اک ایسا صفحہ بھی اس میں آیا
لکھا ہوا تھا جو آنسوؤں سے
کہ جسکا عنوان ہم سفرتھا
جو صفحہ سب سے ہی معتبر تھا
کچھ اور آنسو پھر اس پہ ٹپکے
پھر اس سے آگے میں پڑھ نہ پایا
کتاب ماضی کو بند کر کے
تمہاری یادوں میں کھو گیا میں
اگر تو ملتا تو کیسا ہوتا
انہی خیالوں میں سو گیا میں
 

ظفری

لائبریرین


پہلے اِک بوجھ تھا کیوں خواب نہیں دیکھتے ہیں

پہلے اِک بوجھ تھا کیوں خواب نہیں دیکھتے ہیں
اور جب خواب نظر آیا تو یہ فکر ہوئی
اس کی تعبیر خُدا جانے کہ کیسی ہوگی
اور تعبیر نظر آئی تو دل کانپ گیا
آنکھ گھبرائی کہ تعبیر یہ کیسی پائی
اب اگر سوئے تو پھر خواب دِکھائی دے گا
اور اگر جاگے تو تعبیر نظر آئے گی
اب اسی خوف میں یہ عمر گزر جائے گی

طارق عزیز​
 
Top