خوبصورت نظمیں

شائستہ

محفلین
ضروری نہیں ہے جو ساحل کی گیلی ریت پر
ہاتھ میں‌ ہاتھ دے کر
سفر اور طلاطم کے قصے سنائے
جزیروں ، ہواؤں اور رنگوں ان دیکھے موسم
اور آنکھوں سے اوجھل کناروں پر کھڑے ہوئے
منظروں ، ذائقوں اور رنگوں کی باتیں کرے
وہ ان واردتوں سے گزرا بھی ہو
گر کہے آؤ ان پریشاں موجوں پیچھا کریں
جو تیرے اور میرے قدم چومتی ہیں
طلاطم کی بے نام منزل سے گزرتی ہیں
یہ دیکھیں کسے ڈھونڈتی ہیں
تو چلنے سے پہلے ذرا سوچ لینا
ضروری نہیں ہے جو ان دیکھے راستوں کی خبریں سنائے
وہ ان راستوں کا شناسا بھی ہو
کہیں یہ نہ ہو جب سمندر میں‌تم اس کو ڈھونڈو
تو وہ ساحل پر کھڑا مسکراتا رہے
 

ظفر احمد

محفلین
میری اپنی اک خوبصورت تحریر دوستوں کی نظر کر رہا ہوں اپنی رائے کا اظہار کیجئے۔

تیرے آنے سے پہلے
میری زندگی
کیا تھی!
کچھ نہیں،
ایک بے نام زندگی
ایک خود غرض محبت
جلتی جھلستی دھوپ
لیکن!
تیرے آنے کے بعد
میری جان! میں نے یہ جانا
زندگی محبت کا خوبصورت نام ہے
ایک انمول تحفہ ہے با وفا محبت کا
ایک سایہ ہے جلتی جھلستی دھوپ میں۔
لیکن!
تمھیں کیا معلوم
میری پہلی محبت اور پہلی زندگی
تم سے ملنے سے پہلے
وہ محبت، وہ زندگی
ایسی تو نہ تھی
جتنی محبت، جتنی چاہت، جتنی شدت
اب ہے!
تیرے آنے کے بعد
 

شائستہ

محفلین
ہم ایسے لوگ طلب بھی نہ تھے محبت میں
کہ جلتی آگ کے دریا میں بے خطر جاتے
( یقین جان ، میری جاں کہ ہم ٹھہرے جاتے)
تمھاری آنکھ کے آنسو تھے، سیل آب نہ تھا
چھلک جاتے گر، رزق خاک ہوجاتے
( مثال قطرہ شبنم ، چمکتے، کھوجاتے)
رہا وہ حرف وفا جس کی سبز کونپل پر
تمھارے بوسئہ لب سے گلاب جاگے ہیں
( سو وہ گلاب تو کونپل سے کٹ بھی سکتے ہیں )
رہے وہ خواب جو آنکھوں کے آبگینوں میں
دھنک کے رنگ لئے ڈولتے سے رہتے ہیں
( ایسے خواب تو آکر پلٹ سکتے ہیں )
سو بات حرف وفا کی ہے اور نہ خوابوں کی
نہ ڈولتے ہوئے رنگوں سے پر گلابوں کی
سمے کے چڑھتے اترتے سمندر میں
سب ایک پل کی حقیقت
سب ایک پل کا سراب
دلوں میں ترک تمنا کا حوصلہ ہو اگر
تو کیسا حرف وفا!
اور کہاں کے خواب و گلاب!!
یہ کیسے دشت ندامت میں گھر گئے اے جاں
کہ اک تو ترک تمنا کا حوصلہ بھی نہیں
اور اس پہ یہ بھی قیامت
اگر ۔۔۔۔۔ بفرض محال
تمھاری راہ سے پھرنے کا حوصلہ بھی ملے
پلٹ کے جائیں کہاں ، گھر کا راستہ بھی ملے !!!!
 

فرذوق احمد

محفلین
ظفر صاحب اور شائستہ صاحبہ آپ دونوں کی نطمیں بہت اچھی ہیں ۔۔اب میری بھی سنیئے
----
آنکھوں ميں جو خواب ہيں ان کو باتيں کرنے دو
ہونٹوں سے وہ لفظ کہو جو کاجل کہتا ہے
موسم جو سنديسہ لايا اس کو پڑھ تو لو
سن تو لو وہ راز جو پياسا ساحل کہتا ہے
آتي جاتي لہروں سے کيا پوچھ رہي ہے ريت؟
بادل کي دہليز پہ تارے کيونکر بيٹھے ہيں
جھرنوں نے اس گيت کا مکھڑا کيسے ياد کيا
جس کے ہر اک بول ميں ہم تم باتيں کرتے ہيں

راہ گزر کا مومسم کا ناں بارش کا محتاج
وہ دريا جو ہر اک دل کے اندر رہتا ہے
کھا جاتا ہے ہر اک شعلے وقت کا آتش دن
بس اک نقش محبت ہے جو باقي رہتا ہے

آنکھوں ميں جو خواب ہيں ان کو باتيں کرنے دو
ہونٹوں سے وہ لفظ کہو جو کاجل کہتا ہے
امجد اسلام امجد
 

عمر سیف

محفلین
جو بھی کچھ ہے محبت کا پھیلاؤ‌ ہے
تیرے میرے اَبد کا کنارا ہے یہ
استعارہ ہے یہ

روپ کا داؤ ہے
پیار کا گھاؤ ہے
جو بھی کچھ ہے محبت کا پھیلاؤ ہے

صبح دم جس گھڑی، پھول کی پنکھڑی
اُوس کا آئینہ جگمگانے لگا
ایک بھنورا وہیں، دیکھ کر ہر کہیں
شاخ کی اوٹ سے سر اٹھانے لگا
پھول، بھنورا، تلاطم ہے، ٹھہراؤ ہے
جو بھی کچھ ہے محبت کا پھیلاؤ ہے

خواب کیا کیا چُنے، جال کیا کیا بُنے
موج تھمتی نہیں، رنگ رکتے نہیں
وقت کے فرش پر، خاک کے رقص پر
نقش جمتے نہیں، اَبر جھکتے نہیں
ہر مسافت کی دوری کا سمٹاؤ ہے
جو بھی کچھ ہے محبت کا پھیلاؤ ہے
( امجد اسلام امجد )
 

نوید ملک

محفلین
جدائی دینے والے تم سے امیدِ وفا کیسی
تعلق ٹوٹ جائے جب
محبت روٹھ جائے جب
تو پھر رسم دعا کیسی
ملن کی التجا کیسی
بھنور میں ڈوبتی کشتی پہ ساحل کی تمنا کیا
اکھڑتے سانس ہوں تو زندگی کی آرزو بھی کیا
جو منزل کھو چکی ہو اسکی پھر سے جستجو بھی کیوں
رضائے دوست پر اچھا سرِ تسلیم خم کرنا
سسکنے سے یہی بہتر ہے ناامید ہی مرنا
مگر دل نے تمہیں کس واسطے سے یاد رکھا ہے
تمہیں کیوں شاعری میں آج تک آباد رکھا ہے
ابھی تک میں نے کیوں خود کو بہت برباد رکھا ہے
ہوا کے دوش ہر کیوں نغمہء فریاد رکھا ہے
جدائی دینے والے آشنائی کی قسم تم کو
تمہارے بے وفائی ، کج ادائی کی قسم تم کو
مجھے اتنا بتا دینا
وفا کی چاہتوں کی مشعلیں کس طرح بجھاتے ہیں
نشاں کیسے مٹاتے ہیں
بھلانا ہو جنہیں انکو بھلا کیسے بھلاتے ہیں

(اظہر جاوید)
 

فرذوق احمد

محفلین
ماشاءاللہ نوید بھائی بہت ہی خوبصورت نظم لکھی ہے آپ نے ۔بلکہ کمال چیز ہے ۔۔۔
اب یہ بھی سنیئے
ایبٹ آباد
دن کے وقت
پہاڑوں کے دامن سے لپٹی ہوئی
یہ حسین اور سرسبز وادی کہ جیسے
کوئی خوبصورت سی ،،ننھی سی بچی
محبت کا اظہار کرتے ہوئے
ماں کے سینے سے چمٹی ہوئی
جس کے چہرے کے نقش اور شادابیاں
آنے والی جوانی کی
بے مثُل حُسنِ تجسم کی
جھلکی دکھائیں
رات کے وقت
یہ شہرِنگاراں ہے یاکوئی
دوشیزہ سلمہ ستارا کےجوڑے میں
ملبوس شرمیلے پن سے کھڑی ہے
اگر اس کے تن پر
یہ سلمہ ستارا کا جوڑا نہیں ہے
تو پھر اُس کے اپنے بدن میں
ہزاروں کروڑوں ستارے فروزاں ہیں
آنکھوں کو خیرہ کئے دے رہے ہیں
کبھی اُس کی جادوگری دیکھ کر
ایسے لگتا ہے جیسے
فلک کے ستارے ہی یہ
جگمگاتا ہواآسماں لے کے
وادئ دل نشیں میں اُتر آئے ہیں
یا میں خود آسماں پر
کروڑوں ستاروں کی جھرمٹ میں
چلتا جا رہا ہوں

حیدر قریشی
--------------------یہ دو پہرے ہیں ایک کا نام ہے دن کے وقت اور دوسرے کا نام رات کے وقت ---------------------------------
 

عمر سیف

محفلین
اے شام اسے بتانا
سراب اس کی جستجو کے
نصاب اس کی آرزو کے
چہار سُو بکھرے ہوئے ہیں
کسک رُتوں کی داستانیں
ہر لفظ میں بند ہیں
میری آنکھیں سائے کی مانند چُپ ہیں
مگر ان میں بسا انتظار
اب بھی زندہ ہے

اے شام اسے بتانا
اُسے اپنے اندر زندہ رکھتے رکھتے
میرے سارے جذبے جھلس گئے ہیں
پاسِ وفا کے بھرم میں
میرا سکوں جل چکا ہے
میری آنکھوں میں سب
راکھ ہی راکھ ہے
جن میں‌ ہر لمحہ
اُس کی محبت کی چنگاری
بھڑکتی رہتی ہے

اے شام اسے بتانا
پہلے بھی پانیوں میں رہتے تھے
اب بھی سمندر میں گھر بنایا ہے
ڈوبتے سورج کی زرد روشنی سے
خود کو اضطراب کے سنگھار سے سجایا ہے
ڈھلتی شام سے لے کر
ڈھلتی شام تک
لہو نے اُسی کا ریاض کیا ہے
جس سے
میری خلوتیں، میری جلوتیں
ہر گھڑی آباد ہیں

اے شام اس سے پوچھنا
کیا میری ساری راتیں
فراق کی رُت میں بسر ہونگی؟
اور مجھے بتانا کہ
میں خود کو کیسے سمجھاؤں
کہ ادھوری خواہش
ہونٹوں‌ کو خشک
اور آنکھوں کو نم رکھتی ہے

اے شام اسے بتانا
کہ اس برباد، گیلے نگر میں
میں ہی نہیں
وہ بھی رہتا ہے
اس سے کہنا
کہ میرے اندر وہ اس طرح ہے
جس طرح عشاء میں وتر
میرے ساتھ ساتھ بھی
مجھ سے جُدا بھی

اے شام اسے بتانا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ناہید ورک )
 

ظفری

لائبریرین

پھرتے ہیں کب سے دربدر، اب اس نگر اب اُس نگر
ایک دوسرے کے ہمسفر، میں اور میری آوارگی
نا آشنا ہر رہگزر، نہ مہرباں ہر اک نظر
جائیں تو اب جائیں کدھر، میں اور میری آوارگی


ہم بھی کبھی آباد تھے ، ایسے کہاں برباد تھے
بےفکر تھے، آزاد تھے، مسرور تھے، دلشاد تھے
وہ چال ایسی چل گیا ، ہم بجھ گئے دل جل گیا
نکلے جلا کے اپنا گھر، میں اور میری آوارگی

جینا بہت آساں تھا ، اک شخص کا احسان تھا
ہم کو بھی اک ارمان تھا ، جو خواب کا سامان تھا
اب خواب ہے نہ آرزو ، ارمان ہے نہ جستجو
یوں بھی چلو خوش ہیں مگر ، میں اور میری آوارگی

وہ مہوش وہ ماہ رو ، وہ ماہِ کامل ہوبہو
تھیں جسکی باتیں کوبہ کو، اس سے عجب تھی گفتگو
پھر یوں ہوا وہ کھو گئی ، تو مجھ کو ضِد سی ہوگئی
لائیں گے اسکو ڈھونڈ کر ، میں اور میری آوارگی

یہ دل ہی تھا جو سہہ گیا ، وہ بات ایسی کہہ گیا
کہنے کو پھر کیا رہ گیا، اشکوں کا دریا بہہ گیا
جب کہہ کے وہ دلبر گیا ، ترے لئیے میں مر گیا
روتے ہیں اسکو رات بھر، میں اور میری آوارگی

اب غم اٹھائیں کس کے لئیے، آنسو بہائیں کس کے لئیے
یہ دل جلائیں کس کے لئیے، یوں جان گنوائیں کس کے لئیے
پیشہ نہ ہو جسکا ستم ، ڈھونڈیں گے اب ایسا صنم
ہوں گے کہیں تو کارگر ، میں اور میری آوارگی

آثار ہیں سب کھوٹ کے، امکان ہیں سب چھوٹ کے
گھر بند ہیں سب گھٹ کے، اب ختم ہیں سب ٹوٹ کے
قسمت کا سب یہ پھیر ہے ، اندھیر ہے اندھیر ہے
ایسے ہوئے ہیں بےآثار ، میں اور میری آوارگی

جب ہمدم و ہمراز تھا ، تب اور ہی انداز تھا
اب سوز ہے تب ساز تھا ، اب شرم ہے تب ناز تھا
اب مجھ سے ہو تو ہو بھی کیا ، ساتھ ہو وہ تو وہ بھی کیا
ایک بے ہنر، اک بےثمر، میں اور میری آوارگی​
 

سارہ خان

محفلین
سوچ کے پھیلے صحراؤں میں
آگ سے دن اور برف سی راتیں
کاٹ کے بھی جب ہاتھ نہ آئیں
لفظ بھی آہو لگتے ہیں

جب دل درد کے ویرانوں میں
ریزہ ریزہ چن کر لائے
اُن سے کوئی یاد جگمگائے
لفظ بھی آنسو لگتے ہیں

جب میرے کھوئے خوابوں کو
میری کویتا ڈھونڈ کے لائے
گیت بنائے اور تُو گائے
لفظ بھی جادو لگتے ہیں

احمد فراز
 

نوید ملک

محفلین
farzooq ahmed نے کہا:
ماشاءاللہ نوید بھائی بہت ہی خوبصورت نظم لکھی ہے آپ نے ۔بلکہ کمال چیز ہے ۔۔۔
اب یہ بھی سنیئے
ایبٹ آباد
دن کے وقت
پہاڑوں کے دامن سے لپٹی ہوئی
یہ حسین اور سرسبز وادی کہ جیسے
کوئی خوبصورت سی ،،ننھی سی بچی
محبت کا اظہار کرتے ہوئے
ماں کے سینے سے چمٹی ہوئی
جس کے چہرے کے نقش اور شادابیاں
آنے والی جوانی کی
بے مثُل حُسنِ تجسم کی
جھلکی دکھائیں
رات کے وقت
یہ شہرِنگاراں ہے یاکوئی
دوشیزہ سلمہ ستارا کےجوڑے میں
ملبوس شرمیلے پن سے کھڑی ہے
اگر اس کے تن پر
یہ سلمہ ستارا کا جوڑا نہیں ہے
تو پھر اُس کے اپنے بدن میں
ہزاروں کروڑوں ستارے فروزاں ہیں
آنکھوں کو خیرہ کئے دے رہے ہیں
کبھی اُس کی جادوگری دیکھ کر
ایسے لگتا ہے جیسے
فلک کے ستارے ہی یہ
جگمگاتا ہواآسماں لے کے
وادئ دل نشیں میں اُتر آئے ہیں
یا میں خود آسماں پر
کروڑوں ستاروں کی جھرمٹ میں
چلتا جا رہا ہوں

حیدر قریشی
--------------------یہ دو پہرے ہیں ایک کا نام ہے دن کے وقت اور دوسرے کا نام رات کے وقت ---------------------------------

شکریہ فرزوق بھائی ۔۔۔ آپکا انتخاب بھی کمال کا ہے
 

شائستہ

محفلین
نوید ملک نے کہا:
farzooq ahmed نے کہا:
ماشاءاللہ نوید بھائی بہت ہی خوبصورت نظم لکھی ہے آپ نے ۔بلکہ کمال چیز ہے ۔۔۔
اب یہ بھی سنیئے
ایبٹ آباد
دن کے وقت
پہاڑوں کے دامن سے لپٹی ہوئی
یہ حسین اور سرسبز وادی کہ جیسے
کوئی خوبصورت سی ،،ننھی سی بچی
محبت کا اظہار کرتے ہوئے
ماں کے سینے سے چمٹی ہوئی
جس کے چہرے کے نقش اور شادابیاں
آنے والی جوانی کی
بے مثُل حُسنِ تجسم کی
جھلکی دکھائیں
رات کے وقت
یہ شہرِنگاراں ہے یاکوئی
دوشیزہ سلمہ ستارا کےجوڑے میں
ملبوس شرمیلے پن سے کھڑی ہے
اگر اس کے تن پر
یہ سلمہ ستارا کا جوڑا نہیں ہے
تو پھر اُس کے اپنے بدن میں
ہزاروں کروڑوں ستارے فروزاں ہیں
آنکھوں کو خیرہ کئے دے رہے ہیں
کبھی اُس کی جادوگری دیکھ کر
ایسے لگتا ہے جیسے
فلک کے ستارے ہی یہ
جگمگاتا ہواآسماں لے کے
وادئ دل نشیں میں اُتر آئے ہیں
یا میں خود آسماں پر
کروڑوں ستاروں کی جھرمٹ میں
چلتا جا رہا ہوں

حیدر قریشی
--------------------یہ دو پہرے ہیں ایک کا نام ہے دن کے وقت اور دوسرے کا نام رات کے وقت ---------------------------------

شکریہ فرزوق بھائی ۔۔۔ آپکا انتخاب بھی کمال کا ہے
نوید، فرزوق نے کب شمولیت اختیار کی انجمن میں ،،،،، نوید مبارک ہو ، خیر سے آپ بھی محسن بن گئے ہیں ، الگ سے فورم بنانا مجھے نہیں آتا اس لیے یہاں ہی لکھ رہی ہوں
 

شائستہ

محفلین
خبر نہیں تُم کہاں ہو یارو
ہماری اُفتادِ روز و شب کی، تمہیں خبر مل سکی، کہ تُم بھی
رہینِ دستِ خزاں ہو، یارو
دنوں میں تفریق مٹ چکی ہے، کہ وقت سے خوش گماں ہو ، یارو
ابھی لڑکپن کے حوصلے ہیں، کہ بے سرو سائباں ہو، یارو
ہماری اُفتادِ روز و شب میں:
نجانے کتنی ہی بار اب تک دھنک بنی، اور بکھر چکی ہے
عروسِ شب اپنی خلوتوں سے سحر کو محروم کر چکی ہے
دہکتے صحرا میں دھوپ کھا کر: شفق کی رنگت اُتر چکی ہے
بہار کا تعزیہ اُٹھائے، نگارِ یک شب، گُزر چکی ہے
اُمیدِ نو روز ہے، کہ تُم بھی بہار کے نوحہ خواں ہو، یارو
تمھاری یادوں کے قافلے کا: تھکا ہوا، اجنبی مسافر
ہر اک کو آواز دے رہا ہے: خفا ہو، یا بے زباں ہو یارو
 

شائستہ

محفلین
گزرتے لمحو، میں‌ تھک گیا ہوں ، بکھر گیا ہوں
میں‌ساتھیوں سے بچھڑ گیا ہوں
یہ ساتھیوں کی مفارقت بھی عجیب شے ہے
کہ جتنا عرصہ یہ ساتھ چلتے ہیں
چھوٹی چھوٹی فضول باتوں پہ روٹھ جاتے ہیں اور لڑتے ہیں
دوستوں کے جواں ارادے شکست کرتے ہیں

راستے کی صعوبتوں سے انھیں ڈارتے ہیں اور آپ ڈرتے ہیں
منزلوں کو پکارتے ہیں
مگر انہی کے وجود ہیں جو مسافتوں کو نکھارتے ہیں
گزرتے لمحو، میں ساتھیوں سے بچھڑ‌گیا ہوں
میں‌ اپنی تنہائی کے تحیر سے ڈر گیا ہوں
میں وہ مسافر ہوں جس کے پاؤں میں منزلیں ہیں نہ رہگزر ہے
 

عمر سیف

محفلین
بھلے دنوں کی بات ہے بھلی سی ایک شکل تھی
نہ یہ کہ حُسن نام ہو نہ دیکھنے میں عام سی
نہ یہ کی وہ چلے تو کہکشاں سی رہ گزر لگے
مگر وہ ساتھ ہو تو پھر بھلا بھلا سفر لگے
کوئی بھی رُت ہو اُس کی چھب فضا کا رنگ وروپ تھی
وہ گرمیوں کی چھاؤں تھی وہ سردیوں کی دھوپ تھی
نہ مدتوں جدا رہے نہ ساتھ صبح وشام ہو
نہ رشتہء وفا پہ ضد نہ یہ کہ اُذنِ عام ہو
نہ ایسی خوش لباسیاں کے سادگی گلہ کرے
نہ اتنی بے تکلفی کہ آئینہ حیا کرے
نہ عاشقی جنون کی کہ زندگی عذاب ہو
نہ اس قدر کٹھور پن کے دوستی خراب ہو
کبھی تو بات بھی خفی کبھی سکوت بھی سُخن
کبھی تو کشتِ زعفران کبھی اُداسیوں کا بن
سنا ہے ایک عمر ہے معاملاتِ دل کی بھی
وصالِ جاں فزا تو کیا فراقِ جانگسل کی بھی
سو ایک روز کیا ہوا وفا پہ بحث چھڑ گئی
میں عشق کو امر کہوں وہ میری بات سے چڑ گئی
میں عشق کا اسیر تھا وہ عشق کو قفس کہے
کہ عمر بھر کے ساتھ کو بدتر ہوس کہے
شجر ہجر نہیں کہ ہم ہمیشہ پابہ گِل رہیں
نہ ڈھور ہیں کہ رسیاں گلے میں مستقل رہیں
میں کوئی پینٹنگ نہیں کہ ایک فریم میں رہوں
وہی جو من کا میت ہو اُسی کے پریم میں رہوں
نہ اُس کو مجھ پہ مان تھا نہ مجھ کو اُس پہ زعم ہی
جب عہد ہی کوئی نہ ہو تو کیا غمِ شکستگی
سو اپنا اپنا راستہ ہنسی خوشی بدل لیا
وہ اپنی راہ چل پڑی میں اپنی راہ چل دیا
بھلی سی ایک شکل تھی بھلی سی اُس کی دوستی
اب اُس کی یاد رات دن ،نہیں،مگر ”کبھی کبھی
 

نوید ملک

محفلین
کہا تھا نہ !
مجھے تم اس طرح سوتے ہوئے مت چھوڑ کے جانا
مجھے بیشک جگا دینا
بتا دینا
محبت کے سفر میں ساتھ میرے چل نہیں سکتیں
جدائی میں ، ہجر میں ، ساتھ میرے جل نہیں سکتیں
تمہیں رستہ بدلنا ہے
مری حد سے نکلنا ہے
تمہیں کس بات کا ڈر تھا
تمہیں جانے نہیں دیتا
کہیں پہ قید کر لیتا
ارے پگلی ! محبت کی طبیعت میں
زبردستی نہیں ہوتی
جسے رستہ بدلنا ہو ، اسے رستہ بدلنے سے
جسے حد سے نکلنا ہو ، اسےحد سے نکلنےسے
نہ کوئی روک پایا ہے
نہ کوئی روک پائے گا
تمہیں کس بات کا ڈر تھا
مجھے بیشک جگا دیتے
میں تم کو دیکھ ہی لیتا
تمہیں کوئی دعا دیتا
کم از کم یوں تو نہ ہوتا
مرے ساتھی حقیقت ہے
تمہارے بعد کھونے کیلئے کچھ بھی نہیں باقی
مگر کھونے سے ڈرتا ہوں
میں اب سونے سے ڈرتا ہوں

(عاطف سعید)
 

عمر سیف

محفلین
یہ تصویریں
نجات ان سے نہ پاؤ گے
دبے پاؤں بڑھے آتے ہیں سائے
صداؤں کے حصاروں سے
چلو مانا
نکل کر چل دئیے اک دن
کہاں تک پھر بھی جاؤ گے
لگی جب جسم و جاں کو آگ جل اٹھا
فتیلہ بھی مرے دل کا
مجھے معلوم ہے اک دن
دھماکہ سا کہیں ہو گا
گرا ہوا اک مکاں جیسے
پھٹا ہوا آسماں جیسے
یہی لمحہ ہے جس سے خوف آتا ہے مجھے
لیکن مجھے معلوم ہے۔ اس سے ذرا پہلے
سنوں گا باز گشت ایسی جو مجھ میں ہی نہاں ہو گی
مرے جاں سے گزرنے کی صدائے بے اماں ہوگی

جمشید مسرور
 
Top