خوبصورت نظمیں

عمر سیف

محفلین
میں تم کو تنگ کرتا ہوں
تمہیں غصہ بھی آتا ہے
کبھی تم مسکراتے ہو
کبھی آنکھیں دکھاتے ہو
کبھی تم شوخ لگتے ہو
کبھی گھبرا بھی جاتے ہو
تمہاری سب ادائیں کس قدر حیران کرتی ہیں
کبھی میں سوچتا ہوں
لطف تو آتا ہے تم کو بھی !
کبھی محسوس ہوتا ہے تمہارا دل دکھاتا ہوں
مگر پھر بھی ستاتا ہوں
فقط یہ سوچ کر،
خدارا !
اس شرارت پر نہ مجھ کو بددعا دینا !
ذرا سا مسکرا دینا ،
یہ سب باتیں بھلا دینا

نوٹ: کسی کو شاعر کا نام معلوم ہو تو بتائے۔
 
تجھے کیا پتا تیری یاد نے مجھے کیسے کیسے ستا دیا
کبھی محفل میں رُلا دیا کبھی خلوتوں میں ہنسا دیا
کبھی یوں ہوا تیری یاد میں نماز اپنی قضا ہوئی
کبھی یوں ہوا تیری یاد نے میرے رب سے مجھکو ملا دیا
 

عمر سیف

محفلین
فرض کرو ہم تارے ہوتے
اِک دوجے کو دور دور سے دیکھ دیکھ کر جلتے بُجھتے
اور پھر اِک دن
شاخِ فلک سے گرتے اور تاریک خلاؤں میں کھو جاتے
دریا کے دو دھارے ہوتے
اپنی اپنی موج میں بہتے
اور سمندر تک اس اندھری، وحشی اور منہ زور مسافت
کے جادو میں تنہا رہتے
فرض کرو ہم بھور سمے کے پنچھی ہوتے
اُڑتے اُڑتے اِک دوجے کو چھوتے۔۔۔ اور پھر
کھلے گگن کی گہری اور بے صرفہ آنکھوں میں کھو جاتے!
ابرِ بہار کے جھونکے ہوتے
موم کے اِک بے نقشہ سے خواب میں ملتے
ملتے اور جُدا ہو جاتے
خشک زمینوں کے ہاتھوں پر سبز لکیریں کندہ کرتے
اور اَن دیکھے سپنے بوتے
اپنے اپنے آنسو رو کر چین سے سوتے
فرض کرو ہم جو کچھ اب ہیں وہ نہ ہوتے ۔۔۔۔ ؟

امجد اسلام امجد
 
سُنا ہو گا یہ تم نے بھی
محبت پاک ہے ایسی
جیسے سیپ میں موتی
فقط تم سے کہنا ہے
اگرتم کو کوئی غم ہو
اُداسی تم کو آ گھیرے
بھٹک جاؤ کبھی راہ سے
ستائے تم کو تنہائی
سہارا بھی نہ ہو کوئی
مجھے آواز دے لینا!
کہ تم مجھکو
رگِ جاں سے بھی قریب پاؤ گے۔
 
تُونے میخانہ نگاہوں میں چھُپا رکھا ہے
ہوش والوں کو بھی دیوانہ بنا رکھا ہے
ناز کیسے نہ کروں بندہ نوازی پہ تیری
مجھ سی نا چیز کو جب اپنا بنا رکھا ہے
اے میرے پردہ نشیں تیری توجہ پہ نثار
میں نے دنیا سے تیرا عشق چھُپا رکھا ہے
 
بڑا دشوار ہوتا ہے ذرا سا فیصلہ کرنا
کہ جیون کی کہانی کوبیان بے زبانی کو
کہاں سے یاد رکھنا ہے کہاں سے بھول جانا ہے
کسے کتنا بتانا ہے، کس سے کتنا چھپانا ہے
کہاں رو رو کے ہنسنا ہے، کہاں ہنس ہنس کے رونا ہے
کہاں‌آواز دینی کہاں خاموش رہنا ہے
کہاں رستا بدلنا ہے کہاں سے لوٹ آنا ہے
بڑا دشوار ہوتا ہے ذرا سا فیصلہ کرنا!
 

فرذوق احمد

محفلین
nazam.jpg
 

عمر سیف

محفلین
ہم نے سوچ رکھا ہے
چاہے دل کی ہر خواہش
زندگی کی آنکھوں سے اشک بن کے
بہہ جائے
چاہے اب مکینوں پر
گھر کی ساری دیواریں چھت سمیت گر جائیں
اور بے مقدر ہم
اس بدن کے ملبے میں خود ہی کیوں نہ دب جائیں
تم سے کچھ نہیں کہنا
کیسی نیند تھی اپنی،کیسے خواب تھے اپنے
اور اب گلابوں پر
نیند والی آنکھوں پر
نرم خو سے خوابوں پر
کیوں عذاب ٹوٹے ہیں
تم سے کچھ نہیں کہنا
گھر گئے ہیں راتوں میں
بے لباس باتوں میں
اس طرح کی راتوں میں
کب چراغ جلتے ہیں،کب عذاب ٹلتے ہیں
اب تو ان عذابوں سے بچ کے بھی نکلنے کا راستہ نہیں جاناں!
جس طرح تمہیں سچ کے لازوال لمحوں سے واسطہ نہیں جاناں!
ہم نے سوچ رکھا ہے
تم سے کچھ نہیں کہنا
 

ظفری

لائبریرین

ہم کتنے نادان تھے یارو
آج یہ سمجھے ، آج یہ جانا
سچ ہے اگر تو ایک محبت
جھوٹ ہے باقی سارا فسانہ

پڑگئے جیسے ان آنکھوں پہ
ظلم کے ، نفرت کے پردے
زندگی تیرا مجرم ہوں میں
ہوسکے تو معاف کردے
اندھی راہ کے ، اندھے سفر میں
بیت گیا جینے کا زمانہ

اب یہ محبت کا احساں ہے
یہ جو تھوڑی جاں ہے مجھ
آپ ہی میں جس کا قاتل ہوں
زندہ وہ انساں ہے مجھ میں
اب دل کے ہیں ارماں کیا کیا
یہ تو ابھی دیکھے گا زمانہ

ہم کتنے نادان تھے یارو
آج یہ سمجھے ، آج یہ جانا
سچ ہے اگر تو ایک محبت
جھوٹ ہے باقی سارا فسانہ​
 
کچھ دُور ہمارے ساتھ چلو ہم دل کی کہانی کہہ دیں گے
سمجھے نہ جسے تم آنکھوں سے وہ بات زبانی کہہ دیں‌گے
پھولوں کی طرح جب ہونٹوں پہ اک شوخ تبسم بکھرے گا
دھیرے سے تمہارے کانوں میں اک بات پرانی کہہ دیں گے
اظہارِ وفا تم کیا جانو اقرارِ وفا تم کیا جانو
ہم ذکر کریں گے غیروں کا اور اپنی کہانی کہہ دیں گے!
 

عمر سیف

محفلین
نہ گفتگو کا کمال آہنگ
نہ بات کے بے مثال معنی
نہ خد و خال میں وہ جاذبیت
جو جسم و جاں کو اسیر کر لے
نہ مشترک کوئی عکس ِ خواہش
مگر یہ کیا ہے
وفا کے رستوں پہ لکھ رہی ہوں
مُسافرت کی نئی کہانی
نوشی گیلانی
 

شائستہ

محفلین
‌‌‌‌دائرے

ہم دلوں کے اندازے اس طرح بھی کرتے ہیں
ملنے جلنے والوں سے بے وجہ بھی ڈرتے ہیں

مطمعن بھی رہتے ہیں، ہے عجب سی الجھن بھی
ڈولتی ہیں ، دیواریں ناچتا ہے آنگن بھی

دھوپ سے شکایت ہے چاندنی سے کیا کہیے
ہر کسی سے کہتےہیں ہر کسی سے کیا کہیے

یہ بھی ایک بہانہ ہے کس طرف نہیں جاتے
اس طرف بھی جانا ہے جس طرف نہیں جاتے

آنچ جیسی لگتی ہے جسم کی یہ برفابی
دھندلکے بناتی ہے ہر فضائے مہتابی

سوچتی ہیں یہ آنکھیں منظروں میں منظر کو
ڈھونڈتی ہو جیسے موج اپنے ہی سمندر کو

ریت پر بنے پیکر کھیل ہیں لکیروں کے
پانیوں کے اندر ہیں خواب کچھ جزیروں کے

کوئی پھانس جیسی چیز ذہن میں کھٹکتی ہے
روشنی کے اندر سے تیرگی جھلکتی ہے

ہر سکون باطن میں اضطرار جیسا ہے
ارتکاز بھی جیسے انتشار جیسا ہے

دائروں کے اندر بھی دائرے ہی پنہاں ہیں
جسم ہے کہ ساکت ہے اور سائے رقصاں ہیں

خامشی میں گم صم ہے عرض حال کی صورت
ہے عروج پر اپنے ہر زوال کی صورت

کیا خیال کیا مضمون ، سب کے سب ہیں لایعنی
حرف حرف بے حرمت، لفظ لفظ بے معنی
 

شائستہ

محفلین
سُخن کے آئینوں کو پاش پاش کرتے رہے
ہم اپنے لفظوں میں معنی تلاش کرتے رہے

بچا تھا کچھ جو رگوں میں لہو، تمنّا کا
اُسی کو بیچ کے حاصل معاش کرتے رہے


سُلگ رہے تھے جو لمحے، وہ برق تو نہ بنے
لہو میں پیدا، مگر، ارتعاش کرتے رہے

بچھڑ گئے تھے سرِ شام ہی وہ ہم سے، کرم
ہم ان ستاروں کو شب بھر تلاش کرتے رہے
 

شائستہ

محفلین
مرے ہم سفر ، تجھے کیا خبر
یہ جو وقت ہے کسی دھوپ چھاؤں کے کھیل سا
اسے دیکھتے، اسے جھیلتے
مری آنکھ گرد سے اٹ‌گئی
مرے خواب ریت میں‌کھو گئے
مرے ہاتھ برف سے ہوگئے
مرے بے خبر، ترے نام پر
وہ جو پھول کھلتے تھے ہونٹ پر
وہ جو دیپ جلتے تھے بام پر
وہ نہیں‌رہے
وہ نہیں‌رہے کہ جو ایک ربط تھا درمیاں وہ بکھر گیا
وہ ہوا چلی
کسی شام ایسی ہوا چلی
کہ جو برگ تھے سر شاخ جاں ، وہ گرا دیئے
وہ جو حرف درج تھے ریت پر، وہ اڑادیئے
وہ جو راستوں کا یقین تھے
وہ جو منزلوں کے امین تھے
وہ نشان پا بھی مٹادئیے
مرے ہم سفر، ہے وہی سفر
وہ جو ہاتھ بھر کا تھا فاصلہ
کئی موسموں میں بدل گیا
اسے ناپتے، اسے کاٹتے
مرا سارا وقت نکل گیا
تو مرے سفر کا شریک ہے
میں ترے سفر کا شریک ہوں
یہ جو درمیاں سے نکل گیا
اسی فاصلے کے شمار میں
اسی بے یقیں سے غبار میں
اسی رہگزر کے حصار میں
ترا راستہ کوئی اور ہے
مرا راستہ کوئی اور ہے
 

عمر سیف

محفلین
تمھارا کہنا ہے
تم مجھے بے پناہ شّدت سے چاہتے ہو
تمھاری چاہت
وصال کی آخری حدوں تک
مرے فقط میرے نام ہوگی
مجھے یقین ہے مجھے یقین ہے،
مگر قسم کھانے والے لڑکے !
تمھاری آنکھوں میں ایک تِل ہے !

پروین شاکر
 

سارہ خان

محفلین
بھیگے موتی
تمہاری یاد کے آنسو
میری پلکوں پہ ٹِکے تھے
پھرمیں نے
انہیں
اپنے ہاتھوں کی لکیروں میں
جذب کر لیا
کہ شائد
تمہاری یاد کے یہ
بھیگے موتی
میرے مقدر کی لکیروں کو
چمکا دیں
اور
میں
تمہیں پا لوں
 

عمر سیف

محفلین
ہم نے تم سے خوابوں کے
کتنے سلسے جوڑے
ہم نے کتنی برساتیں،جگنوؤں بھری راتیں
کتنے پھول سے لمحے، کتنی خواب سی گھڑیاں
کتنی شبنمی سوچیں،کتنی دھڑکنیں دل کی
کتنے سوچ کے رشتے
تیرے نام کر ڈالے
ہم نے اپنے خوابوں میں
سوچ کے سرابوں میں
کیسے کام کر ڈالے
 

شائستہ

محفلین
اک بار کہو تم میری ہو
ہم گھوم چکے بستی بن میں
اک آس کی پھانس لیے من میں
کوئی ساجن ہو، کوئی پیارا ہو
کوئی دیپک ہو، کوئی تارا ہو
جب جیون رات اندھیری ہو

اک بار کہو تم میری ہو

جب ساون بادل چھائے ہوں
جب پھاگن پھول کھلائے ہوں
جب چندا روپ لٹاتا ہو
جب سورج دھوپ نہاتا ہو
یا شام نے بستی گھیری ہو

اک بار کہو تم میری ہو

ہاں دل کا دامن پھیلا ہے
کیوں گوری کا دل میلا ہے
ہم کب تک پیت کے دھوکے میں
تم کب تک دور جھروکے میں
کب دید سے دل کو سیری ہو

اک بار کہو تم میری ہو

کیا جھگڑا سود خسارے کا
یہ کاج نہیں بنجارے کا
سب سونا روپا لے جائے
سب دنیا، دنیا لے جائے
تم ایک مجھے بہتیری ہو

اک بار کہو تم میری ہو
 

ظفری

لائبریرین
راتیں سچی ہیں ، دن جھوٹے ہیں

چاہے تم میری بینائی کھرچ ڈالو پھر بھی میں اپنے خواب نہیں چھوڑوں گا
اِن کی لذت اور اذیت سے میں اپنا عہد نہیں توڑوں گا
تیز نظر نابیناؤں کی آبادی میں ،
کیا میں اپنے دھیان کی یہ پونجی بھی گنوا دوں
ہاں میرے خوابوں کو تمھاری صبحوں کی سرد اور سایہ گوں تعبیر
اِن صبحوں نے شام کے ہاتھوں اب تک جتنے سورج بیچے
وہ سب اک برفانی بھاپ کی چمکیلی اور چکر کھاتی گولائی تھے
سو میرے خوابوں کی راتیں جلتی اور دہکتی راتیں
ایسی یخ بستہ تعبیر کے ہر دن سے اچھی ہیں اور سچی بھی ہیں
جس میں دھندلا چکر کھاتا چمکیلا پن چھ اطراف کا روگ بنا ہے
میرے اندھیرے بھی سچے ہیں
اور تمھارے روگ اُجالے بھی جھوٹے ہیں
راتیں سچی ، دن جھوٹے
جب تک دن جھوٹے ہیں جب تک
راتیں سہنا اور اپنے خوابوں میں رہنا
خوابوں کو بہانے والے دن کے اجالے سے اچھے ہے
ہاں میں بہکاؤں کی دھند سے اڑھوں گا
چاہے تم میری بینائی کھرچ ڈالو میں پھر بھی اپنے خواب نہیں چھوڑوں گا
اپنا عہد نہیں توڑوں گا
یہی تو بس میرا سب کچھ ہے
ماہ و سال کے غارت گر سے میری ٹھنی ہے
میری جان پر آن بنی ہے
چاہے کچھ ہو میرے آخری سانس تلک اب چاہے کچھ ہو​
 

نوید ملک

محفلین
ترا راستہ کوئی اور ہے ، مرا راستہ کوئی اور ہے

بہت خوب شائستہ 8) ۔ اور ظفری آپکی سچی راتوں اور چھوٹے دنوں کی بھی کیا ہی بات
 
Top