محمد وارث

لائبریرین
غافل بہ من رسید و وفا را بہانہ ساخت
افگند سر بہ پیش و حیا را بہانہ ساخت


(میرزا قلی میلی ہروی)

وہ غافل چلتا ہوا ہم تک پہنچ گیا اور وفا کا بہانہ بنا لیا (کہ ملاقات کا وعدہ وفا کر دیا)، اور اس سے پہلے (ہمیں دیکھتے ہی) سر (منہ) موڑ لیا اور (پوچھا تو) کہہ دیا کہ حیا آتی ہے۔

اسی زمیں میں، میرزا قلی سے کافی بعد کے شاعر میرزا قتیل کی غزل کے کچھ اشعار یہاں دیکھے جا سکتے ہیں۔ میرزا قلی دورِ اکبری کے شاعر تھے، افسوس کہ ملا عبدالقادر شاہ بدایونی نے 'منتخب التواریخ' میں میرزا قلی کی اس غزل کا صرف یہی شعر دیا ہے۔
 
آپ 'جن' سے استدعا کر رہے ہیں انہیں علم ہو تو ضرور بتانا چاہیئے، اگر آپ اس تھریڈ کا مطالعہ کریں یا اس تھریڈ میں تلاش کریں تو شاید پہلے دو اشعار کے متعلق معلومات مل جائیں، تیسرا شعر کن کا ہے معذرت کہ میں نہیں جانتا۔

میں نے کسی کا نام لے کر 'استدعا' نہیں کی تھی۔ لیکن اگر منشاء یہی ہے کہ میں نام لے کر فریاد کروں تو میری التجا قبول فرمائیے، اور مجھے تلاش کی زحمت سے بچاتے ہوئے جتنا آپ جانتے ہیں، عنایت فرمادیں۔ آپ کی فارسی دانی اور اعلٰی ظرفی کا ہمیشہ قائل رہوں گا۔
 

کاشفی

محفلین
طالباں را خستگی دَر راہ نیست
عشق خود راہ است وہم خود منزل است

(نشاط اصفہانی)

طالبانِ شوق کو راہ میں خستگی کبھی پست نہیں‌ کرتی ہے
عشق تو خود ہی اپنی راہ اور خود ہی اپنی منزل ہوا کرتا ہے
 

الف نظامی

لائبریرین
اگرست در دلت آرزو کہ نظر بخوش نظرے رسد
بحریمِ جلوہ خود نشیں کہ تُرا ازو خبرے رسد

(سید نصیر الدین نصیر)

اگر تیرے دل میں‌ یہ آرزو ہے کہ تیری نظر کسی خوش نظر تک پہنچ جائے تو پھر اپنے جلووں کی چار دیواری میں بیٹھ جا ، تاکہ اس کٰی کوئی خبر مل سکے۔

یا

دو جہاں‌ چھوڑ! دل میں ڈھونڈ اسے
دیکھ موجود ہو یہیں‌نہ کہیں
 
الہی بہ زیبائی سادگی
بہ والائی اوج افتادگی

رہایم مکن جز بہ بند غمت
اسیرم مکن جز بہ آزادگی

قیصر امین پور

خدایا تجھے سادگی کی خوبصورتی کی قسم
تجھے تواضع کی بلندی کی قسم
مجھے اپنے غم کے ذریعے آزاد کر
مجھے آزادگی کی اسارت عطا کر
 
در کُنجِ قفس پشتِ خَمی دارد شیر
گردن بہ کَمندِ ستمی دارد شیر

در چشمِ تَرَش سایہ ای از جنگلِ دور
ای وای خدایا، چہ غمی دارد شیر

امیر ہوشنگ ابتہاج، سایہؔ

ترجمہ:
پنجرے میں پھنسا ہوا ہے یہ شیر
زنجیر اسارت میں بندھا ہے یہ شیر

آنکھوں میں ہے اک جنگل سرسبز کی تصویر
غمگین عجب میرے خدا ہے یہ شیر

(میں نے خود منظوم ترجمہ کرنے کی کوشش کی ہے، خامی ہو تو اصلاح فرما دیں)
 

محمد وارث

لائبریرین
عمریست دل بَغَفلتِ خود گریہ می کُنَد
ایں نامۂ سیہ چہ قدر ابرِ رحمت است


(ابوالمعانی مرزا عبدالقادر بیدل عظیم آبادی)

تمام عمر، میرا دل اپنی غفلت پر آنسو بہاتا رہا، یہ میرا سیاہ اعمال نامہ کس قدر ابرِ رحمت ہے (کی مانند ہے)۔
 

محمد وارث

لائبریرین
بہ سلطان از غلامانش ہمیں یک التجا باشد
کہ ما در پائے او مانیم و او در چشمِ ما باشد


سلطان سے انکے غلاموں کی یہی ایک التجا ہے ک ہم انکے پاؤں میں ہیں، وہ ہماری آنکھوں میں سما جائیں۔

اگر خونش حیاتِ تازہ بخشَد جسمِ مذہب را
بخوں غلطیدنِ ملّت، بہ کیشِ ما روا باشد


اگر اسکا خون، مذہب کے جسم کو نئی جان بخشتا ہے تو ملت کو خون میں غلطاں کر دینا، ہمارے طریقے میں روا ہے۔

(مولانا ظفر علی خان)
 

محمد وارث

لائبریرین
وقت است کہ بکشائم مے خانۂ رومی باز
پیرانِ حرَم دیدم در صحنِ کلیسا مست


(اقبال)

(اب) وقت ہے کہ میں رومی کا میخانہ دوبارہ کھولوں (کیونکہ) میں نے حرم کے پیروں کو کلیسا کے صحن میں مست دیکھا ہے۔
 
صلاح کار کجا و من خراب کجا
ببین تفاوت ره کز کجاست تا به کجا

دلم ز صومعه بگرفت و خرقه سالوس
کجاست دیر مغان و شراب ناب کجا

چه نسبت است به رندی صلاح و تقوا را
سماع وعظ کجا نغمه رباب کجا

ز روی دوست دل دشمنان چه دریابد
چراغ مرده کجا شمع آفتاب کجا

چو کحل بینش ما خاک آستان شماست
کجا رویم بفرما از این جناب کجا

مبین به سیب زنخدان که چاه در راه است
کجا همی روی ای دل بدین شتاب کجا

بشد که یاد خوشش باد روزگار وصال
خود آن کرشمه کجا رفت و آن عتاب کجا

قرار و خواب ز حافظ طمع مدار ای دوست
قرار چیست صبوری کدام و خواب کجا

خواجہ محمد شمس الدین حافظِ شیراز​
 

محمد وارث

لائبریرین
یادِ رخسارِ ترا، در دل نہاں داریم ما
در دلِ دوزخ، بہشتِ جاوداں داریم ما


تیرے رخسار کی یاد، ہم دل میں چھپائے ہوئے ہیں، (یہ ایسے ہی ہے کہ) دوزخ کے دل میں ہم ایک جاوداں بہشت رکھتے ہیں۔

گر چہ صائب دستِ ما خالیست از نقدِ جہاں
چو جرَس آوازۂ در کارواں داریم ما

صائب اگرچہ ہمارے ہاتھ دنیا کے مال و دولت سے خالی ہیں لیکن ہم کارواں میں وہی حیثیت رکھتے ہیں جو جرس کی آواز کی ہوتی ہے (کہ اسی آواز پر کارواں چلتے ہیں)۔

(صائب تبریزی)
 

کاشفی

محفلین
چوں‌عُہدہ نمیشود کسی فردا را
حالی خوشدار این دل پُرسودا را

می نوش بماہتاب ای ماہ کہ ماہ
بسیار بتابد و نیابد مارا

(عمر خیام)

کل کون نوء جئے کس کو خبر ہے بابا؟
تو آج ہی خوش کر لے ذرا دل اپنا

مے پی تو شب ماہ میں‌اے ماہ کہ ماہ
چمکے گا بہت، ہمیں کہاں‌پائے گا؟

(نامعلوم)

Yon rising Moon that looks for us again
How oft hereafter will she wax and wane;
How oft hereafter rising look for us
Through this same Garden – and for one in vain!

(Edward Fitzgerald - ایڈورڈ فٹزجیرالڈ )​
 

محمد وارث

لائبریرین
نہ من ز بے عَمَلی در جہاں ملولم و بس
ملالتِ عُلَما ہم ز علمِ بے عمَل است

(حافظ شیرازی)

زمانے میں صرف میں (بے علم و مست عاشق) ہی بے عملی کی وجہ سے ملول نہیں ہوں بلکہ علما (جاننے والوں، ہشیاروں، عقلمندوں) کو بھی اپنے علمِ بے عمل کا رنج ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
شاہدِ دِلرُبائے مَن، می کُنَد از برائے مَن
نقش و نگار و رنگ و بُو، تازہ بتازہ نو بنو


(نامعلوم)

میرا دلربا محبوب، میرے لیے (ہی تو) کرتا ہے (بناتا ہے)، نقش و نگار و رنگ و بو (یہ جہانِ رنگ و بو) تازہ بتازہ نئے سے نئے (ہر پل)۔
 

محمد وارث

لائبریرین
یادِ وصلَش نورِ جاں، چوں رونقِ آئینہ، آب
داغِ عشقَش زیبِ دل، چوں زینتِ دستار، گُل


(مرزا عبدالقادر بیدل)

اسکے وصل کی یاد میری جاں کا نور ہے جیسے آئینے کی رونق، چمک ہوتی ہے۔ اسکے عشق کا داغ میرے دل کی خوشنمائی ہے جیسے دستار میں لگا پھول اسکی زینت ہوتا ہے۔
 

jaamsadams

محفلین
کوئی ذیل کے اشعار کی تصحیح کرسکتا ہے؟ اگر حوالہ بھی بتاسکے تو بہت اچھا

منم ادنی ثنا خواں محمد

غلام از غلامان محمد

نہ تنہا ہست جامی نعت خواں اش

خدائے ما ثنا خواں محمد
 
Top