سید عاطف علی

لائبریرین
مست می عشق را ۔۔۔عیب مکن سعدیا
مست بیفتی تو نیز گر ہم از این می‌چشی


ا ے سعدی تو ان عشق کے سرمستوں کی عیب جوئی نہ کر۔
اگر تو ان کےذوق کا آشنا ہوجائے تو تو بھی انہی کی طرح سرمست ہو جائے گا ۔
 
اگرآں ترک شیرازی بدست آرددل مارا
بخال ہندوش بخشم ثمر قندوبخارا را
اگر وہ شیرازی محبوب ہمارا دل لے لے تو ہم اس کے خال کے بدلے میں اسے ثمرقند و بخارا بخش دیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
(دوبیتی)
پرسیدم از بتی که: "تو را در جهان چرا،
شام و سحر تعرضِ عشاق عادت است؟"
گفتا که: "هست رغبتِ عشقِ بتان خطا،
آزارِ اهلِ عشق، بتان را عبادت است."

(محمد فضولی بغدادی)

میں نے ایک بت سے پوچھا کہ اس دنیا میں عشاق پر شام و سحر ستم کرنا آخر تمہاری عادت کیوں ہے؟ اُس نے جواب دیا کہ بتوں کے عشق کی رغبت رکھنا خطا ہے کیونکہ بتوں کی عبادت ہی اہلِ عشق کو آزار دینا ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
معنیِ یک بیت بودیم از طریقِ اتحاد
چوں دو مصرع گرچہ در ظاہر جدا بودیم ما
(صائب تبرِیزی)
ہم بظاہر تو دو مصرعوں کی طرح ایک دوسرے سے جدا تھے، لیکن ہم دراصل اُسی طرح متحد تھے جس طرح ایک شعر میں موجود دو مصرعے معنی کے لحاظ سے متحد ہوتے ہیں۔

گنجور پر تو صائب تبریزی کا صرف برگزیدہ کلام موجود ہے، لیکن یہاں پر آپ جنابِ صائب کی پوری کلیات کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔ حتیٰ کہ یہاں اُن کی ترکی غزلیات بھی موجود ہیں۔
http://www.nosokhan.com/Library/Book/1Z
 

حسان خان

لائبریرین
ستم است اگر ہوسَت کشد کہ بہ سیرِ سرو و سمن در آ
تو ز غنچہ کم ندمیدہ ای، درِ دل کشا بہ چمن در آ
(بیدل دہلوی)

مفہوم: بڑا ہی ستم کا معاملہ ہے، بڑا ظلم ہے کہ تجھے خواہشِ نفس کھینچ کر لے جاتی ہے کہ چلو باغ میں سرو و سمن کی بہار دیکھیں۔ حالانکہ حقیقت تو یہ ہے کہ تو خود ایک کھلا ہوا غنچہ ہے، اپنے دل کا دروازہ کھول اور جو چمن تیرے باطن میں کھلا ہوا ہے کبھی اس کی سیر بھی کر! گویا تم جو خارج کے پھولوں کی سیر کرتے پھرتے ہو کبھی اپنے دل میں ڈوب کر بھی دیکھو۔
 
کشتگانِ خنجر تسلیم را
ہر زماں از غیب جانے دیگر است

یہ شعر حضرت سُلطان باہو کا نہیں ان کی کتاب میں ویسے ہی لکھا ہوگا۔ یہ شعر حضرت احمد جام چشتی ایرانی کا ہے۔ یہ پوری غزل میرے پاس موجود ہے اور اس کا مقطع یہ ہے۔۔۔۔

احمدا تا گُم نہ کردی ہوش را۔۔۔۔
ایں جَرس از کاروانِ دیگر است۔۔۔۔۔!!
 

سید عاطف علی

لائبریرین
ز من مپرس کہ در دست او دلت چونست
ازو بپرس کہ۔۔۔۔ انگشت ہاش در خونست


سعدی

مجھے اپنے دل کی تو پرواہ نہیں ہے،مگر ڈر رہا ہوں یہ کمسن کی ضد ہے
کہیں پائے نازک میں موچ آ نہ جائے دلِ سخت جاں کو ۔۔مسلتے مسلتے

قمر جلالوی
 

حسان خان

لائبریرین
آ‌ن را که نیست وسعتِ مشرب در این سرا
در زندگی به تنگیِ قبر است مبتلا

(صائب تبریزی)

اس دنیا میں جو شخص وسیع المشرب نہ ہو، وہ زندگی میں ہی قبر کی تنگی میں مبتلا ہو جاتا ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
دل و می هر دو روشن شد، ‌نمی‌دانم که تابِ می
زد آتش‌ها به دل، یا تابِ می شد ز آتشِ دل‌ها

(امیر علی شیر نوائی)
دل اور شراب دونوں روشن ہو گئے ہیں، لیکن میں نہیں جانتا کہ شراب کی حرارت نے دل میں آگ لگائی ہے یا پھر شراب کی حرارت دل کی آگ سے پیدا ہوئی ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
با هر کس، ای سیمین بدن، منمایی روی خویشتن
باید چو چشم پاک من زان سان جمال پاک را
(امیر علی شیر نوائی)
اے سیمیں بدن! ہر کسی کے سامنے اپنا چہرہ آشکار مت کرو، کیونکہ اس طرح کے پاک حُسن کے لیے میری طرح کی پاک آنکھ ہی درکار ہے۔

نعتیہ شعر:
تویی بی‌سایه، لیکن عالمی در آفتابِ حشر
پنه سازند هر سو سایهٔ عالم پناهت را
(امیر علی شیر نوائی)
آپ بے سایہ ہیں، لیکن جب آفتابِ محشر ظاہر ہو گا اُس وقت دنیا کے لوگ ہر طرف آپ کے عالم پناہ سائے کو اپنی پناہ بنائیں گے۔

رباعی:
ای، پرگل و لاله از رخت گلشن چشم
روشن ز چراغ عارضت مسکن چشم
گر وا نشود به چهره‌ات روزن چشم
تاریک شود دو مشعل روشن چشم
(امیر علی شیر نوائی)
اے کہ تیرے چہرے سے آنکھوں کا گلشن گل و لالہ سے بھرا ہوا ہے، اور اے کہ تیرے رخسار کے چراغ سے آنکھوں کا مسکن روشن ہے۔ اگر آنکھوں کی کھڑکی تیرے چہرے پر وا نہ ہو تو آنکھوں کی یہ دو روشن مشعلیں تاریک ہو جائیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
ز خاطرم نمی‌رود آن ساقِ سیمگون
مشکل خیالِ سیم ز یادِ گدا رود

(قاآنی شیرازی)

وہ چاندی جیسی پنڈلی میری یادداشت سے محو نہیں ہو پا رہی؛ ویسے بھی گدا کے ذہن سے چاندی کا خیال نکل جانا مشکل ہی ہوتا ہے۔
 
آخری تدوین:

mohsin ali razvi

محفلین
گل نسرین
آزاده زنی همچوتو ای گل نتوان بود
در بحر غمی شادو معطر نتوان بود
زندان وستم جورو جفا پای به زنجیر
خوش بوی وفا همچو تو ای گل نتوان بود
جرمت که بود حرمت انسان گل نسرین
درخلق خدا همچو تو ای گل نتوان بود
آرسته شدی در دو جهانم گل نسرین
چون در دو جهان همچو تو ای گل نتوان بود
ایستاده و پایمردی زه تو آموخته فولاد
در عشق وطن همچو تو ای گل نتوان بود
روزی رسد ای عطر گل نسرین ستوده
چشمان جهان باز شود با کمک تو
آزاده و پیروز شوند مردم آزرده ایران
اعدام جوانان وطن در همه روزان
ایستاد شود باز شود چون در زندان
در عشق وطن ناز وطن ای گل نسرین
جان داده گلی همچو تو ای گل نتوان بود
عامل تو نما رهبر خود آن گل نسرین
در بحر وفا همچو تو ای گل نتوان بود

عامل شیرازی
1236391_555771764482752_212998070_n.jpg
 

منصور آفاق

محفلین
ز خاطرم نمی‌رود آن ساقِ سیمگون
مشکل خیالِ سیم ز یادِ گدا رود
(قاآنی شیرازی)

حسان خان کے نام
چاندی سی وہ پنڈلی بھول نہیں سکتا ۔۔ذہنِ گدا سے کیسے نکلے مال وزر۔۔ منصور آفاق
 

منصور آفاق

محفلین
معنیِ یک بیت بودیم از طریقِ اتحاد
چوں دو مصرع گرچہ در ظاہر جدا بودیم ما
(صائب تبرِیزی)
حسان خان کے نام
اکائی ہے مثالِ شعر اپنی ۔۔۔۔اگرچہ ہم جدا مصرعے ہیں دونوں۔۔۔۔ منصور آفاق
 

mohsin ali razvi

محفلین
ہر کجا رفتم غبارِ زندگی درپیش بُود
یارب این خاکِ پریشاں از کجا برداشتم
جس راہ پر بھی چلتا ہوں زندگی کا غبار میرے آڑے آتا ہے ای رب اس پریشان کن خاک کہاں سے مری نصیب میں‌ آیا
 

mohsin ali razvi

محفلین
ندامت عامل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
معاف فرمانا جناب
کل جو گستاخی کی
غصہ میں تہی میں حظور
کل جو گستاخی کی
غربت و فکر معاش
تنگی دور و عذاب
زندگی جیسے سراب
معاف فرمانا جناب
کس قدرپست ہوں میں
سخت نادان ہو ں میں
ساحل عشق ہو تم\
وادی رشم ہو تم
معاف فرمانا جناب،
غصہ میں تہی میں حظور
عامل اشک ہوں میں
نادم وگریہ کناں

معاف فرمانا حظور معاف فرماناحظور
عامل شیرازی
جناب مری اردوشاعری میں پہلی کوشش اصلاح فرمایے مشکور عامل شیرازی
 

حسان خان

لائبریرین
ما دهانِ یار را از غنچه بهتر گفته‌ایم
غنچه هم این حرف خواهد گفت گر گویا شود

(محمد فضولی بغدادی)
ہم نے دہانِ یار کو غُنچے سے بہتر کہا ہے۔۔۔ غُنچہ اگر بولنے لگ جائے تو وہ بھی یہی سُخن کہے گا۔
 
آخری تدوین:

mohsin ali razvi

محفلین
گر عامل نداند زبان اردو عیب نیست
عیب آن است که در قلب تو نیست
عاملا کوشش نما اردو بیاب
گر نیابیی عاملت در کار نیست
عامل شیرازی = ۶/۹/۲۰۱۳
 

mohsin ali razvi

محفلین
بلبلان فارس گویند فارسی شکر است
عامل شیراز بگوید آری خوب فرمودند
گر شکر از فارس باشد در لغت
اردوی پاک هم شهد و شکر است

عامل شیرازی = ۶/۹/۲۰۱۳
 
Top