حسان خان

لائبریرین
از رقیبِ خُرد اے دل در جہاں غافل مباش
موش ویراں می نماید دَکّۂ بقّال را
(ملک الشعراء محمد تقی بہار)

اے دل! اپنے کوتاہ قامت (اور بظاہر بے ضرر) دشمن سے بھی اس دنیا میں کبھی غافل نہ ہونا کیونکہ ایک چھوٹا سا چوہا ہی غلہ فروش کی دکان کو ویران کر دیتا ہے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
قدم دریغ مدار۔۔۔۔۔۔۔۔ از جنازهء حافظ
کہ گر چہ غرقِ گناه است۔ می‌رود بہ بہشت


حافظ کے جنازے سے دریغ نہ کرو۔ کہ اگرچہ وہ گناہ میں ڈوبا ہوا تھا ۔مگر جنت میں جا رہا ہے۔
 

عندلیب

محفلین
در خواب مرابہ سر گرفت آن دلدار
گفتم کہ تو بی واسطہ بنما دیدار
گفتا کہ اگر تو این چنین می خواہی
تعلیم کنم بگیرخود را یک بار
ترجمہ:
جب خواب میں مجھ کو نظر آیا دلدار
بے واسطہ چاہا میں نے اس کا دیدار
بولا تری خواہش ہے یہی تو سن لے
تو دیکھ ذرا غور سے خود کو اک بار
 

حسان خان

لائبریرین
تو نالی از خلۂ خار و ننگری کہ سپہر
سرِ حسینِ علی بر سناں بگرداند
(مرزا غالب)

تم صرف کانٹے کی نوک چبھنے کی وجہ سے آہ و زاری کرنے لگتے ہو، پر یہ نہیں دیکھتے کہ یہ (ظالم) آسمان حسین ابنِ علی تک کا سر نیزے پر گھما دیتا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
نسیمی کز بن آن کاکل آیو
مرا خوشتر ز بوی سنبل آیو
چو شو گیرم خیالش را در آغوش
سحر از بسترم بوی گل آیو
(بابا طاهر)

اُن زلفوں کی جڑوں سے ہو کر جو خوشگوار ہوا آتی ہے وہ مجھے بوئے سنبل سے بھی زیادہ اچھی لگتی ہے۔ جب میں رات کے وقت اُس کے خیال کو اپنی آغوش میں لوں تو صبح کے وقت میرے بستر سے پھولوں کی خوشبو آتی ہے۔

آیو = آید
شو = شب
 

حسان خان

لائبریرین
گو هیچ کس مکن طلبِ خلعتِ کمال
کین جامه راست بر قدِ بالای مصطفاست
(سلطان سلیم خان اول)

کہہ دو کہ کوئی بھی شخص خلعتِ کمال کی طلب نہ کرے، کہ یہ جامہ تو [بس] محمدِ مصطفیٰ (ص) کے قدِ بالا سے مطابقت رکھتا ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
خاکِ راہِ آں سہی قد شو بیا اے آفتاب
سال و مہ زیں ہرزہ گردی ہا چہ حاصل می کنی
(سلطان سلیم خان اول)

اے آفتاب! تجھے اپنی ہمیشہ کی ان آوارہ گردیوں سے کیا حاصل ہوگا؟ آ، اور اُس سہی قدکی خاکِ راہ بن جا۔
 
گاہے گاہے باز خواں ایں دفترِ پارینہ را
تازہ خواہی داشتن گر داغ ہائے سینہ را


(شاعر: نا معلوم)

کبھی کبھی یہ پرانے قصے پھر سے پڑھ لیا کر، اگر تُو چاہتا ہے کہ تیرے سینے کے داغ تازہ رہیں۔

۔
جناب عالی محمد وارث صاحب
یہ شعر میں نے اس وقت سنا تھا جب میں دسویں جماعت کا طالب علم تھا
مگر وہ شعر سے سے کچھ مختلف تھا
تازہ خواہی داشتن گر داغ ہائے سینہِ را
گاہے گاہے باز خواں قصہِ پارینہ را
 

محمد وارث

لائبریرین
جناب عالی محمد وارث صاحب
یہ شعر میں نے اس وقت سنا تھا جب میں دسویں جماعت کا طالب علم تھا
مگر وہ شعر سے سے کچھ مختلف تھا
تازہ خواہی داشتن گر داغ ہائے سینہِ را
گاہے گاہے باز خواں قصہِ پارینہ را

جی آپ نے درست فرمایا، یہ شعر دونوں صورتوں میں لکھا ہوا ملتا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
بندہ را با خواجہ خواہی در ستیز
تخمِ 'لا' در مشتِ خاکِ او بریز
(علامہ اقبال)

اگر تم غلام کو آقا کے خلاف لڑانا چاہتے ہو تو اُس کی مشتِ خاک میں 'لا' کا بیج بو دو۔
 

اشفاق احمد

محفلین
غنچہ کہ گل گشت دگر غنچہ نہ گردد
قربان دہانِ تو گاہے غنچہ گاہے گل
عطار​
کلی کہ کھل کر پھول بن جائے بارِ دگر کلی نہیں بن سکتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تیرے دہان کے قربان کہ کبھی کلی ہوتا ہے کبھی پھول
 

حسان خان

لائبریرین
گفتم اے شوخ فضولی بہ تو میلے دارد
گفت زیں بے ادبی ہاست کہ اینش لقب است
(فضولی)

میں نے اُس سے کہا کہ اے شوخ! فضولی تجھ میں رغبت رکھتا ہے، اُس نے جواب دیا کہ اِنہی بے ادبیوں کی وجہ سے تو اُس کا لقب 'فضولی' ہے۔
 

اشفاق احمد

محفلین
تن پیدا کن از مشتِ غبارے
تن محکم تر از سنگیں حصارے
درون اُو دلِ درد آشنائے
چوں جوئے در کہسارے
اقبال
جسم کو مٹھی بھر خاک سے پیدا فرمایا۔۔۔جسم جو پتھریلی فصیلوں سے مضبوط تر ہے
اُس میں درد سے واقف دل رکھ دیا۔۔۔۔ جیسے کسی پہاڑ میں نرمی سے بہتی ہوئی ندی
 

سید عاطف علی

لائبریرین
تن پیدا کن از مشتِ غبارے
تن محکم تر از سنگیں حصارے
درون اُو دلِ درد آشنائے
چوں جوئے در کہسارے
اقبال
جسم کو مٹھی بھر خاک سے پیدا فرمایا۔۔۔ جسم جو پتھریلی فصیلوں سے مضبوط تر ہے
اُس میں درد سے واقف دل رکھ دیا۔۔۔ ۔ جیسے کسی پہاڑ میں نرمی سے بہتی ہوئی ندی


بہت خوبصورت اشعار ہیں اشفاق احمد صاحب تھوڑی سے کتابت کی درستگی کی گنجائش لگتی ہے۔


تنے پیدا کن از مشتِ غبارے
تنے محکم تر از سنگیں حصارے
درون اُو دلِ درد آشنائے
چوں جوئے در کنارِکہسارے
 

اشفاق احمد

محفلین
بہت خوبصورت اشعار ہیں اشفاق احمد صاحب تھوڑی سے کتابت کی درستگی کی گنجائش لگتی ہے۔


تنے پیدا کن از مشتِ غبارے
تنے محکم تر از سنگیں حصارے
درون اُو دلِ درد آشنائے
چوں جوئے در کنارِکہسارے

جزاک اللہ
 

عمراعظم

محفلین
انار کلی اور شہزادہ سلیم کی محبت کے متعلق متضاد آرا پائی جاتی ہیں اور کچھ مورخین کا خیال ہے کہ اس کا سرے سے کوئی وجود ہی نہ تھا لیکن اس محبت کے وجود کے معترفین نے اس کے ثبوت میں شواہد بھی پیش کیے ہیں اور اسی قسم کا ایک ثبوت یہ شعر بھی ہے جس کے متعلق قیاس ہے کہ یہ شہزادہ سلیم کا شعر ہے جو اس نے انار کلی کی قبر پر لکھوایا تھا:
تا قیامت شکر گویم کردگارِ خویش را
آہ گر من باز بینم روٕے یارِ خویش را

میں قیامت تک خدا کا شکر ادا کرتا
اگر میں اپنے محبوب کے چہرہ کا دیدار کر سکتا
فاتح بھائی۔۔۔ شعر کے دوسرے مصرے کا ترجمہ کرتے ہوئے فارسی کا ایک لفظ آپ کی توجہ حاصل نہ کر سکا۔ اور وہ ہے باز۔ جس کے معنی اس مصرے میں ہیں ۔۔دوبارہ یا ایک مرتبہ پھر ۔
یعنی ۔۔آہ ! اگر میں اپنے محبوب کے چہرے کا دوبارہ ۔۔یا۔۔ ایک مرتبہ پھر دیدار کر سکتا۔
 

اشفاق احمد

محفلین
از سرِ بالین من برخیز اے ناداں طبیب
کہ دردمندِ عشق را دارو بجز دیدار نیست

اے نادان معالج میرے سرہانے سے اُٹھ جا۔۔۔۔۔کہ عشق کے بیمار کے لئے دیدارِ یار کے سوا کوئی دوا نہیں
 

حسان خان

لائبریرین
شاہِ عالمگیر را باید ثباتِ عدل و داد
گر ندارد ایں دو چیز آخر زوالِ کشور است
(خوشحال خان خٹک)
دنیا کو مسخر کر لینے والے بادشاہ کے لیے لازم ہے کہ وہ عدل و انصاف کا قیام کرے؛ اگر یہ دو چیزیں اُس کے پاس نہ ہوں تو بالآخر ملک کا زوال ہو جائے گا۔

ہر کہ در کوچۂ آں ماہ مکانے دارد
کفرِ محض است اگر میلِ جنانے دارد
(خوشحال خان خٹک)
یہ کفرِ محض ہے کہ کوئی شخص اُس ماہ کی گلی میں مکان رکھتے ہوئے بھی جنت کی رغبت رکھے۔

چو آبِ زندگی گر بگذری بر خاکِ مشتاقاں
ہمہ چوں سبزہ از مہرِ تو برآرند سر از گل
(خوشحال خان خٹک)
اگر تم اپنے مشتاقوں کی خاک پر آبِ حیات کی طرح گذرو تو وہ سب تمہاری محبت کے باعث اپنا سر سبزے کی طرح خاک سے نکال لیں گے۔
 
Top