محمد وارث

لائبریرین
ابنائے روزگار بہ صحرا روَند و باغ
صحرا و باغ زندہ دلاں کوئے دلبرست


(شیخ سعدی شیرازی)

دنیا داروں کیلیئے صحرا اور باغ روزی کے ذریعے ہیں جب کہ زندہ دلوں کیلیئے یہی دلبر کے کوچے ہیں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
خُسرو از تو پناہ می جویَد
ایں پناہِ من و پناہِ ہمہ

(امیر خسرو دھلوی)

(اے مالکِ کُل) خسرو تجھ ہی سے پناہ چاہتا ہے، یہی (تُو ہی) میری پناہ ہے اور (تو ہی) سب کی!
 

محمد وارث

لائبریرین
دود سودائے تُتَق بست آسماں نامیدمَش
دیدہ بر خوابِ پریشاں زد، جہاں نامیدمَش


(غالب دھلوی)

خیالِ خام کا ایک دھواں سا ہمارے سر پر چھا گیا، میں نے اسکا نام آسمان رکھ دیا، آنکھوں نے ایک پریشان خواب دیکھا اور میں نے اسے جہان کہہ دیا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
ایں قدر مستم کہ از چشمَم شراب آید بروں
وز دِلِ پُر سوزنم دُودِ کباب آید بروں


میں اس قدر مست ہوں کہ (اب) شراب آنکھوں سے بھی ٹپک رہی ہے، اور میرا دل (محبت کی) سوئیوں اور سلاخوں پر (کباب کی طرح) اٹکا ہوا ہے کہ اب اس کے جلنے کی بُو باہر آ رہی ہے!

صبح دم تو رُخ نمودی، شُد نمازِ من قضا
سجدہ کے باید روا، چوں آفتاب آید بروں


صبح کے وقت جب تیرا چہرہ نظر آیا تو میری نماز قضا ہو گئی، سجدہ کیسے روا ہو سکتا ہے جب سورج طلوع ہو جائے!

(شاعر نامعلوم)
 

محمد وارث

لائبریرین
تا شَوی بیباک تر دَر نالہ، اے مرغِ بہار
آتشے گیر از حَریمِ سینہ ام چندے دِگر


(اقبال لاھوری)

اے بہار کے پرندے تا کہ تو اپنے نالے میں بیباک تر ہو جائے، میرے سینے سے کچھ اور آگ لے لے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
رباعی

در گلشن اشک افشاں می گشتم دوش
از گل آمد بوئے تو رفتیم از ہوش
چوں گفتم با گُل ز جمالت سخنے
مرغاں کردند سوئے من یک یک گوش


(عبدالرحمٰن جامی)

کل میں اشک بہاتے ہوئے گلشن میں گیا، اور جب گلوں سے تمھاری خوشبو آئی تو میں اپنے ہوش کھو بیٹھا، (پھر) جب میں نے پھولوں کے ساتھ تمھارے جمال کی باتیں کیں تو (پھولوں کو بھول کر) مرغانِ چمن نے کان لگا لگا کر وہ باتیں سنیں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
رباعی

تسبیح مَلَک را و صفا رضواں را
دوزخ بد را، بہشت مر نیکاں را
دیبا جم را و قیصر و خاقاں را
جاناں ما را و جانِ ما جاناں را


(شیخ ابوسعید ابوالخیر)

تسبیح (و تمحید وتحلیل) فرشتوں کیلیے اور معصومیت و پاکیزگی رضواں (فرشتے) کیلیے ہے، دوزخ بد اور جنت نیک مردوں کیلیے ہے، دیبا (و حریر یعنی قیمتی ساز و سامان) جمشید و قیصر و خاقان (بادشاہوں) کیلیے ہے اور جاناں ہمارے لیے ہے اور ہماری جان جاناں کیلیے!
 

محمد وارث

لائبریرین
کشتگانِ خنجر تسلیم را
ہر زماں از غیب جانے دیگر است


محترمی بہت خوب ۔۔

شاید یہی وہ شعر ہے جس کے سماع کے وقت خواجہ بختیار کاکی علیہ الرحمۃ کی روح مبارک سفر آخرت پر روانہ ہوئی تھی ۔۔ تین دن سماع جاری رہا تھا ۔ پہلے شعر پر آپ پر بے ہوشی کی کیفیت طاری ہو جاتی جب کہ دوسرے شعر پر آپ ہوش میں آجاتے ۔۔
لیکن یہ شعر کس شاعر کا ہے ؟ ہنوز یہ سوال باقی ہے ۔۔


یہ خوبصورت شعر حضرت احمد جام کا ہے (بحوالہ بحرِ بُلّھا از صوفی محمد الدین چشتی نظامی قصوری)
 

محمد وارث

لائبریرین
شمعیم و دِلے مشعلہ افروز و دگر ھیچ
شب تا بہ سحر گریۂ جاں سوز و دگر ھیچ


ہم شمع (کی مانند) ہیں اور دل سے شعلے اٹھتے ہیں اور اسکے علاوہ کچھ بھی نہیں، شام سے لیکر صبح تک جان سوز گریہ ہے اور دیگر کچھ بھی نہیں۔

خواھی کہ شَوی با خبَر از کشف و کرامات
مردانگی و عشق بیا موز و دگر ھیچ


تو اگر چاہتا ہے کہ کشف و کرامات سے با خبر ہو جائے تو صرف مرادنگی (بلند ہمتی) اور عشق کو یاد رکھ کہ باقی سب کچھ ھیچ ہے۔

(ملک الشعراء بہار)
 

محمد وارث

لائبریرین
پدَرَم روضۂ رضواں بہ دو گندم بفروخت
ناخلف باشم اگر من بہ جوئے نفروشم


(حافظ شیرازی)

میرے باپ نے جنت گندم کے دو دانوں کے عوض فروخت کر دی، میں نا خلف ہوں اگر ایک جو میں نہ بیچوں!

یہ شعر اس طرح بھی ملتا ہے

پدَرَم روضۂ رضواں بہ دو گندم بفروخت
من چرا ملکِ جہاں را بہ جوئے نفروشم

میرے باپ نے جنت گندم کے دو دانوں کے عوض فروخت کر دی، میں کیوں نہ جہان کو ایک جو میں بیچوں!

مجھے تو دونوں طرح اچھا لگا ہے :)
 
نعره زد عشق که خونين جگري پيدا شد
حسن لرزيد که صاحب نظري پيدا شد
خبري رفت ز گردون به شبستان ازل
حذر اي پردگيان پرده دري پيدا شد
علامہ اقبال-میلاد آدم
 
Top