محمد وارث

لائبریرین
شکریہ برادرم نبیل، آپ کو ادھر دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔

اور برہمن کو کعبے میں غالب نے گاڑا ہے، ویسے اقبال بھی اس حرکت سے کچھ دور نہیں ہیں :)

مذکورہ شعر القلم پر میں نے اسطرح دیکھا ہے، اور شعر مرزا قتیل کا ہے:

خود سوئے ما نہ دید و حیا را بہانہ ساخت
ما را بہ غمزہ کشت و قضا را بہانہ ساخت

ویسے دونوں طرح مطلب اور وزن وغیرہ پر کوئی فرق نہیں پڑتا :)
 
آخری تدوین:

نبیل

تکنیکی معاون
شعر کی تصحیح کا شکریہ برادرم۔ ذیل میں اس کی آڈیو پیش کر رہا ہوں، مصرعوں کی ترتیب اس میں الٹی ہے۔

[ame="http://www.divshare.com/download/6129799-6e7"]KLSaigal_Non-Film-Ghazal-Farsi_maa-raa-ba.mp3 - DivShare[/ame]
 

زونی

محفلین
بہت خوب، لگتا ہے کہ اسی لیے اقبال نے بتخانے میں مرنے والے برہمن کو کعبے میں گاڑنے کا کہا ہے۔ :)
چلیں ایک فارسی شعر پیش کرتا ہوں۔ شاعر کا نام آپ بتائیں۔

مارا با غمزہ کشت و قضا را بہانہ ساز
خود سوئے ما ندید و حیا را بہانہ ساز





وارث بھائی یا نبیل بھائی اس شعر کا ترجمہ کر سکیں تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔:)
 

محمد وارث

لائبریرین
شکریہ برادرم نبیل!

زونی اس شعر کا مطلب یہ کہ:

ہماری طرف دیکھا نہیں اور حیا کا بہانہ بنا دیا (کہ حیا آتی ہے) اور جب اس ناز و ادا و غمزے سے ہم مر گئے تو کہہ دیا کہ اس کی تو موت آئی ہوئی تھی سو مر گیا :)
 

محمد وارث

لائبریرین
شعر کی تصحیح کا شکریہ برادرم۔ ذیل میں اس کی آڈیو پیش کر رہا ہوں، مصرعوں کی ترتیب اس میں الٹی ہے۔

klsaigal_non-film-ghazal-farsi_maa-raa-ba.mp3 - Divshare


واہ واہ واہ، کیا لاجواب آئیٹم شیئر کی آپ نے نبیل بھائی۔

کیا آپ ہمارے ساتھ اپنے خزانے سے اسطرح کے مزید جواہر شیئر کرنا چاہیں گے۔ خاکسار تا قیامت سرِ نیاز خم کیئے رہے گا، آپ کو اور آپ کی آل اولاد کو دعائیں دے گا :)
 

شاکرالقادری

لائبریرین
بہت خوب، لگتا ہے کہ اسی لیے اقبال نے بتخانے میں مرنے والے برہمن کو کعبے میں گاڑنے کا کہا ہے۔ :)
چلیں ایک فارسی شعر پیش کرتا ہوں۔ شاعر کا نام آپ بتائیں۔

مارا با غمزہ کشت و قضا را بہانہ ساز
خود سوئے ما ندید و حیا را بہانہ ساز

دستش بہ دوشِ غیر نہاد از رہِ کرم
مارا چو دید لغزشِ پا را بہانہ ساخت
۔۔۔۔۔۔
رفتم بہ مسجدی کہ ببینم جمال دوست
دستش بہ رخ کشید و دعا را بہان ساخت
۔۔۔۔
 

محمد وارث

لائبریرین
بہت شکریہ شاکر القادری صاحب، اور دوستوں کیلیئے مرزا قتیل کے ان اشعار کا ترجمہ:

دَستَش بہ دوشِ غیر نہاد از رہِ کرم
مارا چو دید لغزشِ پا را بہانہ ساخت

اُس نے اپنا ہاتھ غیر کے کندھے پر از راہِ کرم (محبت کے ساتھ) رکھا ہوا تھا اور جونہی ہمیں دیکھا، لڑکھڑاھٹ کا بہانہ بنا لیا (کہ ہاتھ تو اسکے کندھے پر اس وجہ سے رکھا کہ لڑکھڑا گیا تھا)۔

رَفتَم بہ مسجدے کہ بَبینَم جمالِ دوست
دستش بہ رُخ کشید و دعا را بہانہ ساخت

میں مسجد میں گیا کہ دوست کا جمال دیکھوں، اور اس نے اپنے ہاتھ اٹھا کر (اپنا چہرہ چھپا لیا) اور بہانہ یہ بنایا کہ دعا مانگ رہا ہوں!

ایک وضاحت یہ کہ برادرم نبیل نے کے ایل سہگل کی گائی ہوئی جو غزل پوسٹ کی ہے اس میں الفاظ تھوڑے سے مختلف ہیں۔

اور اسی گائی ہوئی غزل میں سے اس خوبصورت غزل کا چوتھا شعر:

زاھد نہ داشت تابِ جمالِ پری رُخاں
کنجے گرفت و یادِ خدا را بہانہ ساخت

زاھد کو پری رخوں کے دیکھنے کی تاب نہیں ہے (اور اس وجہ سے وہ) گوشۂ تنہائی میں ہے اور یادِ خدا کا بہانہ بنایا ہوا ہے!
 

شاکرالقادری

لائبریرین
بہت شکریہ شاکر القادری صاحب، اور دوستوں کیلیئے مرزا قتیل کے ان اشعار کا ترجمہ:

دَستَش بہ دوشِ غیر نہاد از رہِ کرم
مارا چو دید لغزشِ پا را بہانہ ساخت

اُس نے اپنا ہاتھ غیر کے کندھے پر از راہِ کرم (محبت کے ساتھ) رکھا ہوا تھا اور جونہی ہمیں دیکھا، لڑکھڑاھٹ کا بہانہ بنا لیا (کہ ہاتھ تو اسکے کندھے پر اس وجہ سے رکھا کہ لڑکھڑا گیا تھا)۔

رَفتَم بہ مسجدے کہ بَبینَم جمالِ دوست
دستش بہ رُخ کشید و دعا را بہانہ ساخت

میں مسجد میں گیا کہ دوست کا جمال دیکھوں، اور اس نے اپنے ہاتھ اٹھا کر (اپنا چہرہ چھپا لیا) اور بہانہ یہ بنایا کہ دعا مانگ رہا ہوں!

ایک وضاحت یہ کہ برادرم نبیل نے کے ایل سہگل کی گائی ہوئی جو غزل پوسٹ کی ہے اس میں الفاظ تھوڑے سے مختلف ہیں۔

اور اسی گائی ہوئی غزل میں سے اس خوبصورت غزل کا چوتھا شعر:

زاھد نہ داشت تابِ جمالِ پری رُخاں
کنجِ گرفت و یادِ خدا را بہانہ ساخت

زاھد کو پری رخوں کے دیکھنے کی تاب نہیں ہے (اور اس وجہ سے وہ) گوشۂ تنہائی میں ہے اور یادِ خدا کا بہانہ بنایا ہوا ہے!



زاھد نہ داشت تابِ جمالِ پری رُخاں
کنجے گرفت و یادِ خدا را بہانہ ساخت
بمعنی : ایک گوشہ میں بیٹھ گیا ہے
 

محمد وارث

لائبریرین
بندۂ عشق شُدی، ترکِ نَسَب کُن جامی
کاندریں راہ، فُلاں ابنِ فلاں چیزے نیست

اے جامی تُو بندۂ عشق ہے، (نام و) نسب ترک کر دے، کہ اس راہ میں فُلاں ابنِ فلاں بے معنی ہے!

(مولانا عبدالرحمٰن جامی)
 

محمد وارث

لائبریرین
وجودِ آدمی از عشق می رَسَد بہ کمال
گر ایں کمال نَداری، کمال نقصان است


آدمی کا وجود عشق سے ہی کمال تک پہنچتا ہے، اور اگر تو یہ کمال نہیں رکھتا تو کمال (حد سے زیادہ) نقصان ہے۔

(مولانا رومی)
 

محمد وارث

لائبریرین
نَبری گماں کہ مفتی بہ خدا رسیدہ باشی
تو ز خود نرفتہ بیروں، بہ کجا رسیدہ باشی


یہ گمان مت کر کہ مفتی خدا تک پہنچ جائے گا، جب تو (کوئی) اپنے آپ سے ہی باہر نہ جائے گا (اپنی خواہشات ہی ختم نہ کرے گا) تو کہاں بھی جائے گا؟

(ابوالمعانی مرزا عبدالقادر بیدل)
 

محمد وارث

لائبریرین
رباعی

اے واقفِ اسرارِ ضمیرِ ھمہ کَس
در حالتِ عجز دستگیرِ ھمہ کس
یا رب تو مرا توبہ دہ و عذر پذیر
اے توبہ دہ و عذر پذیرِ ھمہ کس


اے سب کے دلوں کے حال جاننے والے، ناتوانی اور عاجزی میں سب کی مدد کرنے والے، یا رب تو مجھے توبہ (کی توفیق) دے اور میرے عذر کو قبول کر، اے سب کو توبہ کو توفیق دینے والے اور سب کے عذر قبول کرنے والے۔

(ابو سعید ابو الخیر)
 

محمد وارث

لائبریرین
ہر کہ اُو بیدار تر، پُر درد تر
ہر کہ اُو آگاہ تر، رُخ زرد تر


ہر وہ کہ جو زیادہ بیدار ہے اسکا درد زیادہ ہے، ہر وہ کہ جو زیادہ آگاہ ہے اسکا چہرہ زیادہ زرد ہے۔

(مولانا رومی)
 

محمد وارث

لائبریرین
قطعہ

ہر روز کہ یک غنی بَمیرَد
آں روز مبارک است و فیروز


گر جملۂ اغنیا بمیرَند
ہمہ روز است عیدِ نو روز


جس روز بھی کوئی دولت مند اور سرمایہ دار آدمی مرتا ہے، وہ روز مبارک ہے اور عید کا دن ہے۔ اگر دنیا کے تمام دولت مند مر جائیں تو ہر روز عیدِ نوروز کا دن ہے!

میرزادہ سید محمد رضا عشقی

(1893ء تا 1923ء جسے ایران کے اس وقت کے شاہ نے اسکی آتش بیانی کی وجہ سے بھری جوانی میں قتل کروا دیا)۔
 

محمد وارث

لائبریرین
بہ تولاّئے تو در آتشِ محنت چوں خلیل
گوئیا در چمنِ لالہ و ریحاں بُودم


تیری محبت میں، میں بھی ابراہیم (ع) کی طرح، محنت اور رنج و محن کی آگ میں ہوتے ہوئے بھی گویا لالہ و ریحان کے پھولوں کے چمن زار میں تھا۔

(شاعر نا معلوم)
 

محمد وارث

لائبریرین
مجلس چو بر شکست تماشا بما رسید
در بزم چوں نماند کسے، جا بما رسید


مجلس جب اختتام کو پہنچی تو ہماری دیکھنے کی باری آئی، جب بزم میں کوئی نہ رہا ہمیں جگہ ملی۔

(نظیری نیشاپوری)
 

محمد وارث

لائبریرین
دنیا بہ اہلِ خویش تَرحّم نَمِی کُنَد
آتش اماں نمی دہد، آتش پرست را


یہ دنیا اپنے (دنیا میں) رہنے والوں پر رحم نہیں کھاتی، (جیسے کہ) آگ، آتش پرستوں کو بھی امان نہیں دیتی (انہیں بھی جلا دیتی ہے)۔

(میرزا صائب تبریزی)
 

محمد وارث

لائبریرین
یقینِ عشق کُن و از سَرِ گُماں برخیز
بہ آشتی بَنشیں یا بہ امتحاں برخیز


(ہمارے) عشق کا یقین کر لے اور ہر قسم کا شک و شہبہ چھوڑ دے، (اور یہ مان کر) یا تو ہمارے پاس محبت سے بیٹھ جا یا ہمارا (عشق کا) امتحان لینے کیلیے اٹھ کھڑا ہو۔

چرا بہ سنگ و گیا پیچی اے زبانۂ طُور
ز راہِ دیدہ بَدِل در رد و ز جاں برخیز


اے طُور کے شعلے، تو پتھر اور گھاس سے کیوں الجھ رہا ہے، تُو آنکھوں کے ذریعے ہمارے دل میں اتر جا، اور پھر ہماری جان میں سے ابھر (تیرا صحیح مقام تو یہی ہے)۔

(غالب دھلوی)
 

محمد وارث

لائبریرین
مشہور مزاحیہ شاعر اور فارسی کے استاد پروفیسر انور مسعود کی خوبصورت کتاب "فارسی ادب کے چند گوشے" میں سے انکے مضمون "فروغِ فرّخ زاد - پہلوی دور کی ایک سرکش و بیباک شاعرہ" سے چند اشعار۔ ترجمہ بھی پروفیسر صاحب کا کیا ہوا ہے!

رفتم، مرا ببخش و مگو اُو وفا نداشت
راہے بجز گریز برایم نماندہ بُود


میں تو بس چل پڑی، مجھے معاف کر دے اور یہ مت کہہ کہ وہ بے وفا تھا، میرے لیے گریز کے سوا کوئی راستہ نہیں رہ گیا تھا۔

ایں عشقِ آتشین پُر از دردِ بے امید
در وادیِ گناہ و جنونم کشاندہ بود


آتشیں، پُر درد اور مایوس کن عشق نے مجھے گناہ اور دیوانگی کی وادیوں میں دھکیل دیا تھا۔

رفتم، کہ گم شَوَم چو یکے قطرہ اشکِ گرم
در لابلایِ دامنِ شب رنگِ زندگی


میں چل پڑی کہ ایک قطرہِ اشک کی طرح زندگی کے دامنِ شب رنگ میں گم ہو جاؤں۔

رفتم کہ در سیاہیِ یک گورِ بے نشاں
فارغ شوم ز کشمکش و جنگ زندگی


میں اس لئے چل پڑی کہ ایک بے نشان قبر کے اندھیرے میں زندگی کی کشمکش سے فارغ ہو جاؤں۔

(فروغِ فرّخ زاد)
 

محمد وارث

لائبریرین
چُوں غنیمت خدمتِ آں زلف عمرے کردہ ام
باعثِ پیچیدگی ہائے خیالِ ما مَپُرس

(غنیمت کُنجاہی)

چونکہ غنیمت نے تمام عمر اس زلف کی خدمت کی ہے (جو کہ پر پیچ ہے لہذا) ہمارے خیالات کی پیچیدگیوں کی وجہ مت پوچھو!
 
Top