محمد وارث

لائبریرین
صد رفیق و صد ہمدم، پر شکستہ و دل تنگ
داورا نمی زیبَد، بال و پر بمن تنہا


(شاعر: نامعلوم)

میرے بہت سے ساتھی اور ہمدم بغیر بال و پر کے اور مجروح دل ہیں، (لہذا) اے مالک یہ زیب نہیں دیتا کہ فقط میرے ہی بال و پر ہوں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
دانند عاشقاں کہ نیاید بہ ھیچ کار
عمرے کہ بے تو می گُزَرَد در شمارِ عمر


(حافظ شیرازی)

(عاشق جانتے ہیں کہ کسی کام نہیں آتی، عمر کی گنتی میں وہ عمر کہ جو تیرے بغیر گزرتی ہے)
 

محمد وارث

لائبریرین
سَرشکم رفتہ رفتہ بے تو دریا شُد، تماشا کُن
بیا در کشتیٔ چشمم نشین و سیرِ دریا کُن


(آتشی قندھاری)

ہمارے آنسو تیرے جدائی میں رفتہ رفتہ دریا بن گئے ہیں ذرا دیکھ تو، آ اور ہماری آنکھ کی کشتی میں بیٹھ کر اس دریا کی سیر کر۔
 

محمد وارث

لائبریرین
میانِ کعبہ و بُتخانہ فرقِ یک گامیست
میانِ شیخ و بَرَہمن ہزار ہا فرسنگ


(شاعر: نا معلوم)

کعبے اور بتخانے کے درمیان (تو فقط) ایک گام کا فاصلہ ہے لیکن شیخ اور برہمن کے درمیان ہزار ہا میلوں کا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
قطعہ

اگر دُشمن نہ سازَد با تو اے دوست
ترا بایَد کہ با دشمن بسازی
وگرنہ یک دو روزے صبر فرمائی
نہ اُو مانَد، نہ تو، نے فخرِ رازی


اے دوست، اگر دشمن تیرے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہوتا تو تجھے چاہیئے کہ دشمن کے ساتھ ہم آہنگ ہو جا (اچھے تعلقات استوار کر لے)۔

وگرنہ ایک دو روز صبر کر لے، نہ وہ ہوگا، نہ تُو ہوگا اور نہ فخر رازی ہوگا۔

(یہ قطعہ عہدِ اکبری کے نامور مؤرخ مُلا عبدالقادر بدایونی کی فارسی کتاب 'نجات الرشید' سے لیا ہے، بدایونی نے اس قطعے کے ساتھ ایک 'بزرگ' کا واقعہ لکھا ہے لیکن 'بزرگ' یا شاعر کا نام نہیں لکھا لیکن یہ قطعہ یقیناً علامہ فخر الدین رازی کا ہے)۔
 

محمد وارث

لائبریرین
اے لالہ بر دلے کہ سیہ کردہ ای، مَنَاز
داغِ تو بر دماغ کہ بوئے کباب زد؟


اے لالہ (کے پھول) تو نے جو اپنا دل (جلا کر) سیاہ کر لیا ہے تو اس پر ناز مت کر، (یہ تو بتا) کہ تیرے اس داغ (جلنے کے عمل) سے کیا کسی کے دماغ میں کباب (جلنے) کی بُو بھی آئی ہے؟

غالب کساں ز جہل حَکیمَش گرفتہ اند
بے دانشے کہ طعنہ بر اہلِ کتاب زد

غالب، لوگوں نے اپنے جہل کی وجہ سے ہر اس بے دانش کو حکیم سمجھ لیا ہے جو اہلِ کتاب کو طعنے مارتا ہے۔

(غالب دھلوی)
 

محمد وارث

لائبریرین
اگرچہ وعدۂ خوباں وفا نمی دانَد
خوش آں حیات کہ در انتظار می گذرَد


(صائب تبریزی)

اگرچہ خوباں کا وعدہ، وفا ہونا نہیں جانتا (وفا نہیں ہوتا، لیکن) میں اس زندگی سے خوش ہوں کہ جو (تیرے) انتظار میں گزر رہی ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
رباعی

اے از رُخِ تو شکستہ خاطِر گُلِ سُرخ
باطن ہمہ خونِ دل و ظاہِر گُلِ سرخ
زاں دیر برآمدی ز یُوسُف کہ بباغ
اوّل گُلِ زرد آمد و آخِر گُلِ سُرخ


(سرمد شہید)

اے کہ آپ (ص) کے رخ (کے جمال) سے گُلِ سرخ شکستہ خاطر ہے، باطن تو سب دل کا خون ہے اور ظاہر گل سرخ ہے۔ آپ (ص) یوسف (ع) کے بعد اس لیئے تشریف لائے کہ باغ میں، پہلے زرد پھول آتا (کھلتا) ہے اور سرخ پھول بعد میں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
بہ چشمِ خویش نگر، سحرِ سامری ایں است
نظر بہ آئنہ کُن، شیشہ و پری ایں است


(شاہ گُلشن دھلوی)

اپنی نظر سے دیکھ، سحر سامری یہی ہے۔ نظر آئینے پر ڈال، شیشہ اور پری یہی ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
از بسکہ گرفتاران، مردند بہ کُوئے تو
بادش ھمہ جاں باشد، خاکش ھمہ قالب ھا


(مولانا نورالدین عبدالرحمٰن جامی)

چونکہ کہ لوگ تیرے کُوچے کے اسیر ہو گئے ہیں، تو اس (تیرے کوچے) کی ہوا انکی جان اور اسکی خاک انکا جسم بن گئی ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
مولانا شبلی نعمانی نے 'شعر العجم' جلد اوّل میں غزنوی دور کے مشہور شاعر، ملک الشعراء عنصری (ابوالقاسم حسن بن احمد عنصری) کی بدیہہ گوئی کے ضمن میں انکے چند واقعات لکھے ہیں، ایک نیچے درج کر رہا ہوں۔

"سلطان محمود کو ایاز سے جو محبت تھی اگرچہ حد سے متجاوز تھی لیکن ہوس کا شائبہ نہ تھا، ایک دن بزمِ عیش میں بادہ و جام کا دور تھا، محمود خلافِ عادت معمول سے زیادہ پی کر بدمست ہو گیا، اسی حالت میں ایاز پر نظر پڑی، اسکی شکن در شکن زلفیں چہرہ پر بکھری ہوئی تھیں، محمود نے بے اختیار اسکے گلے میں ہاتھ ڈال دیئے لیکن فوراً سنبھل گیا اور جوشِ تقوٰی میں آ کر ایاز کو حکم دیا کہ زلفیں کاٹ کر رکھ دے، ایاز نے فوراً حکم کی تعمیل کی۔ صبح کو جب محمود سو کر اٹھا تو ایاز کی صورت دیکھ کر سخت مکدّر ہوا، بار بار اٹھ اٹھ کر بیٹھ جاتا تھا، نُدما اور مقربین دم بخود تھے، آخر علی قریب نے جو حاجبِ خاص تھا، عنصری کو بلا کر صورتِ واقعہ بیان کی، عنصری نے محمود کے سامنے جا کر یہ رباعی پڑھی،

گر عیبِ سرِ زلف بت از کاستن است
نہ جائے بہ غم نشستن و خاستن است
وقتِ طرب و نشاط و مے خواستن است
کا راستنِ سرو ز پیراستن است


یعنی اگر معشوق کی زلفیں ترش گئیں تو یہ رنج و غم کی کیا بات ہے، یہ تو اور خوشی کا موقع ہے، اسلیئے کہ سرو جب چھانٹ دیا جاتا ہے تو اور زیادہ موزوں ہو جاتا ہے۔ محمود نے حکم دیا کہ عنصری کا منہ جواہرات سے بھر دیا جائے، چنانچہ تین دفعہ ایسا کیا گیا۔ چہار مقالہ میں لکھا ہے کہ منہ کی بجائے دامن بھرا گیا تھا، فیاضی کے مبالفہ کے لحاظ سے شاید یہی روایت صحیح ہو، لیکن منہ بھرنے میں جو بات ہے وہ دامن میں نہیں۔"
 

محمد وارث

لائبریرین
حدیثِ عقل و دیں با ما مگوئید
خِرَد منداں، سخن بے جا مگوئید


(عقل اور دین کی باتیں ہم سے مت کرو، اے خرد مندو یہ بے جا باتیں مت کرو)

کجا عقل و کجا دین و کجا من
منِ دیوانہ را اینہا مگوئید


(کہاں عقل اور دین اور کہاں میں، مجھ دیوانے سے اسطرح کی باتیں مت کرو)

مرا در عشق پروائے کسے نیست
بگوئید ایں حکایت یا مگوئید


(عشق میں مجھے کسی کی بھی پرواہ نہیں ہے، یہ حکایت (کھل کر) بیان کروں یا کہ نہ کروں)

(ملک الشعراء شیخ ابو الفیض فیضی)
 

محمد وارث

لائبریرین
ما ز آغاز و ز انجامِ جہاں بے خبریم
اوّل و آخرِ ایں کہنہ کتاب افتادہ است


ہم اس جہان کے آغاز اور انجام سے بے خبر ہیں کہ یہ ایک ایسی پرانی (بوسیدہ) کتاب ہے کہ جس کے شروع اور آخر کے ورق گر گئے ہیں۔

ابو طالب کلیم کاشانی (ملک الشعرائے شاہجہانی)
 

محمد وارث

لائبریرین
چنیں کشتۂ حسرتِ کیستم من؟
کہ چوں آتش از سوختن زیستم من


(میں کس کی حسرت کی کشتہ ہوں کہ آتش کی طرح جلنے ہی سے میری زیست ہے۔)

اگر فانیم چیست ایں شورِ ھستی؟
و گر باقیم از چہ فانیستم من؟


(اگر میں فانی ہوں تو پھر یہ شور ہستی کیا ہے اور اگر باقی ہوں تو پھر میرا فانی ہونا کیا ہے۔)

نہ شادم، نہ محزوں، نہ خاکم، نہ گردوں
نہ لفظم، نہ مضموں، چہ معنیستم من؟


(نہ شاد ہوں نہ محزوں ہوں، نہ خاک ہوں نہ گردوں ہوں، نہ لفظ ہوں، نہ مضموں ہوں، (تو پھر) میرے معانی کیا ہیں (میری ہونے کا کیا مطلب ہے)

(ابو المعانی مرزا عبدالقارد بیدل)
 

محمد وارث

لائبریرین
(رباعی)

گفتی کہ بہ مہ نَظَر کُن و انگار مَنَم
روئے تو ام آرزوست مہ را چہ کُنَم
مہ چُوں تو کُجا بُود کہ اندر ماھے
یک شب چو رُخَت باشد و باقی چو تَنَم


(حافظ شیرازی)

تو نے کہا کہ چاند کو دیکھ لوں اور سمجھ لے کہ میں ہوں۔ (لیکن) مجھے تو تمھارے چہرے کی آرزو ہے میں چاند کو کیا کروں۔ چاند تجھ جیسا کہاں ہو سکتا ہے کہ وہ تو ایک مہینے میں، (صرف) ایک رات (چودھویں کی) تمھارے چہرے کی طرح ہوتا ہے اور باقی راتوں میرے جسم کی طرح (نحیف و نزار و لاغر)۔
 

محمد وارث

لائبریرین
چہ شُد صَنَمَا کہ سُوئے کسے، بہ چشمِ وفا نمی نِگَری
ز رسمِ جفا نمی گُزَری، طریقِ وفا نمی سَپَری

کیا ہوا محبوب کہ تُو کسی کی بھی طرف وفا کی نظروں سے نہیں دیکھتا، رسمِ جفا نہیں چھوڑتا، طریقِ وفا کی طرف نہیں آتا۔

(شاعر: نامعلوم)
 

محمد وارث

لائبریرین
رباعی

از بندہ خضوع و التجا می زیبَد
بخشایشِ بندہ از خدا می زیبَد
گر من کُنَم آنکہ آں مرا نا زیباست
تو کُن ہمہ آنکہ آں ترا می زیبَد


(بندے کو خضوع اور التجا ہی زیب دیتی ہے اور بندہ کی بخشش خدا کو۔ اگر میں نے ایسا کیا ہے جو کہ مجھے زیب نہیں دیتا تو (اے خدا) تُو وہی کر جو تجھے زیب دیتا ہے!


شاعر: نامعلوم
یہ رباعی سر سید احمد خان نے 'رسالہ اسبابِ بغاوتِ ہندوستان' کے آغاز میں لکھی تھی جو انہوں نے 1858ء میں چھپوا کر ساری جلدیں انگلستان کی پارلیمان کے ممبران کو بھیج دی تھیں۔ ہندوستان میں سب سے پہلے اسے مولانا حالی نے سر سید کی وفات (1898ء) کے بعد انکی لکھی گئی سوانح 'حیاتِ جاوید' میں ضمیمے کے طور پر چھاپا تھا۔

سر سید خود بھی فارسی کے اچھے شاعر تھے، خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ یہ رباعی انکی اپنی ہے یا کسی اور شاعر کی۔
 

محمد وارث

لائبریرین
بَگُذَر ز علمِ رسمی کہ تمام قیل و قال است
من و درسِ عشق اے دل کہ تمام وجد و حال است


(رسمی علم کو چھوڑ کہ یہ تمام فقط قیل و قال/باتیں ہی باتیں ہیں، اے دل میں ہوں اور عشق کا سبق کہ یہ تمام وجد اور حال ہے)

طُمَعِ وصال، گُفتی، کہ بہ کیشِ ما حرام است
تو بگو کہ خونِ عاشق بہ کُدام دیں حلال است


(تُو نے (اے محبوب) کہا کہ وصال کی خواہش رکھنا ہمارے طور طریقے میں حرام ہے، (لیکن ذرا) یہ بھی کہہ کہ عاشق کا خون کرنا کس دین میں حلال ہے؟)

(شیخ بہائی)
 
Top