داغ جس وقت آئے ہوش میں کچھ بیخودی سے ہم - داغ دہلوی

کاشفی

محفلین
غزل
(داغ دہلوی رحمتہ اللہ علیہ)

جس وقت آئے ہوش میں کچھ بیخودی سے ہم
کرتے رہے خیال میں باتیں اُسی سے ہم

ناچار تم ہو دل سے، تو مجبور جی سے ہم
رکھتے ہو تم کسی سے محبت، کسی سے ہم

یوسف کہا جو اُن کو تو ناراض ہوگئے
تشبیہ اب نہ دیں گے کسی کو کسی سے ہم

ہوتا ہے پُرضرور خوشی کا مآل رنج
رونے لگے اخیر زیادہ ہنسی سے ہم

کہتے ہیں آنسوؤں سے بجھائیں گے ہم تجھے
یہ دل لگی بھی کرتے ہیں دل کی لگی سے ہم

کے دن ہوئے ہیں ہاتھ میں ساغر لئے ہوئے
کس طرح توبہ کر لیں الہٰی ابھی سے ہم

ہم سے چھپے گا عشق! یہ کہنے کی بات ہے؟
کیا کچھ بُری بھلی نہ کہیں گے کسی سے ہم؟

معشوق کی خطا نہیں عاشق کی ہے خطا
جب غور کر کے دیکھتے ہیں منصفی سے ہم

دشمن کی دوستی سے کیا قتل دوست نے
دعویٰ کریں گے خوں کا اب مدعی سے ہم

واعظ خطا معاف کہ انساں ہم تو ہیں
بن جائیں گے فرشتہ نہ کچھ آدمی سے ہم

جس کو نہیں نصیب بڑا بد نصیب ہے
کھاتے ہیں ترے عشق کا غم کس خوشی سے ہم

خلوت گزیں رہے ہیں تصّور میں اس قدر
معلوم ہوں گے حشر میں بھی اجنبی سے ہم

غیروں سے التفات پہ ٹوکا تو یہ کہا
دنیا میں بات بھی نہ کریں کیا کسی سے ہم

کرتے ہیں ایسی بات کہ کہہ دے وہ دل کی بات
یوں مدّعا نکالتے ہیں مدّعی سے ہم

دل کچھ اُچاٹ سا ہے ترے طور دیکھ کر
وہ بات کر کہ پیار کریں تجھ کو جی سے ہم

عادت بُری بلا ہے یہ چھٹتی نہیں کبھی
دنیا کے غم اُٹھاتے ہیں کس کس خوشی سے ہم

وعدہ کیا ہے اُس نے قیامت میں وصل کا
اپنا وصال چاہتے ہیں لو ابھی سے ہم

کرتے ہیں اک غرض کے لیئے اُس کی بندگی
بن جائیں گے غلام نہ کچھ بندگی سے ہم

ان بن ہوئی ہو غیر سے اُس کی خدا کرے
سنتے ہیں لاگ ڈانٹ کسی کی کسی سے ہم

دل گیر اس قدر ہیں کہ جا جاکے باغ میں
دل کو ملا کے دیکھتے ہیں ہر کلی سے ہم

کہتے ہیں وہ ستم میں ہمارے ہے خاص لطف
یہ دشمنی بھی کرتے ہیں اک دوستی سے ہم

کم بخت دل نے داغ کیا ہے ہمیں تباہ
عاشق مزاج ہو گئے آخر اِسی سے ہم
 
Top