تو جلتا اک چراغ روشنی کی خود مثال ہے

نور وجدان

لائبریرین
میں سمجھ نہیں سکا کہ بحث کیا ہے۔ شہنشہ میں اٍضافت کا زیر ہی آئے گا اور غنچہء دل میں ہمزہ۔ لیکن معجزہ مسیح اور معجزہء مسیح کے اوزان میں بہت فرق ہے۔ یہاں نور کی غزل میں استعمال غلط ہے۔
البتہ سعید سے متفق ہوں کہ بحر بدلنے سے روانی بہتر ہو سکتی ہے۔ بھرتی کے الفاظ سے بچنا چاہئے۔ ناصر کی غزل ہی دیکھ لو، بھرتی کے الفاظ نہیں ہے اور کیا رواں اور مترنم زمین ہے اس کی۔ اس غزل کے بارے میں بعد میں۔

غزل کو ری ارینج کرنے سے پہلے میں سمجھنا یہ چاہ رہی تھی کہ اضافت کے لیے ہماری مرضی ہے کسرہ استعمال کریں یا نہ کریں ؟جس پر سعید بھائی سے پتا چلا ہے کہ ''ہ ، ی' ا ۔۔یعنی صوتی لفظوں کی موسیقیت کسرہ سے دو گنی ہوجاتی ہے جس وجہ کسرہ میں نے اخذ کیا لگنا چاہیے مگر میں نے جو آخری پوسٹ کی اس میں ''نگاہ ِ لطف'' میں موسیقیت کے لیے کسرہ یعنی ''ء '' استعمال نہیں کی گئی اور اس کو 212 کے وزن پر اضافت کے ساتھ رکھا گیا ۔ اس کی وجہ جاننا چاہ رہی تھی تاکہ پھر دوبارہ غلطی نہیں ہو
 

نور وجدان

لائبریرین
کسرہ لگنے سے وزن میں تبدیلی ہوتی جیسے۔۔۔لاسٹ پوسٹ میں

نگاہ ء لطف
221
جبکہ نگاہ ِ لطف ۔۔۔۔۔۔اضافت کے ساتھ 212 یعنی مرار کے وزن پر رکھا گیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔اور نگاہ میں ''ہ'' جو کہ صوتیت میں اضافہ کر رہا ہے مگر اضافت سے تو صوتیت کہیں بھی متاثر ہوتی ہے وزن میں کہیں فرق پڑتا ہے اور کہیں نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔زیر کا استعمال ۔۔۔۔۔ وزن میں کمی بیشی کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔ اس اصول کا اطلاق کیسے ہوتا ہے میں یہ جاننا چاہ رہی ہوں
 
سعدی بہنا۔
یہ کس شہنشہِ والا کا صدقہ بٹتا ہے ۔۔۔​
اس طرح کے الفاظ نگاہ یا نگہ ۔۔ راہ یا رہ یا شاہ اور شہ میں زیر کی اضافت لگ سکتی ہے لیکن ہمزہ کی نہیں ۔ یہ الفاظ الف کی آواز پر ختم ہونے والے الفاظ کے بعد انڈیپنڈنٹ آواز رکھنے والے اضافی اور اکلوتے " ہ" والے ہیں۔ جبکہ
لیکن دوسری طرف ۔ آپ ذرا حلقہ، روضہ، کعبہ، نقرہ، سایہ وغیرہ جیسے الفاظ میں زیر کی اضافت لگا کر دکھائیں
 

ابن رضا

لائبریرین
وزن کے حوالے سے میں نے تو سن رکھا ہے کہ کسی بھی ترکیب میں کسرہِ اضافت یا ہمزا باہم متبادل استعمال ہوتے ہیں ان کے استعمال سے وزن میں ہر دو صورتوں میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
مجھے ایک اور اصول پوچھنا ہے جیسے

کیا کیجے کہ یہ لشکرِ غم اٹھ نہیں سکتا

یہاں : لش۔۔۔ک۔۔۔ر(رے) ہم نے اضافت یا ہمزہ کا استعمال کیا مگر اس کو بجائے مرار کے وزن پر باندھنے کے112 پر باندھا اس کی وجہ ؟
جیسے
میں نعرہ ِ مستانہ

نع۔را۔۔۔ہے ۔۔۔یوں ہونا چاہیے
اس کا اوزن یوں باندھاگیا ہے :نع۔ر۔ہ۔۔۔۔
اس کا اصول کیا ہے؟

غنچہِ دل
اس میں بھی ۔غن۔چ۔ہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔یوں باندھا گیا ۔۔۔
اس میں غن :چا: اے۔۔۔۔۔۔۔یوں کیوں نہ باندھا گیا

یا جون نے
حالت ِ حال کو اس طرح باندھا ہے: حا۔۔۔۔ل۔۔۔۔ت۔۔۔۔ یعنی 112 کے وزن پر ۔۔۔۔۔اس کی صوتیت دوسری طرح بنتی ہے
 

سید ذیشان

محفلین
کسرہ لگنے سے وزن میں تبدیلی ہوتی جیسے۔۔۔لاسٹ پوسٹ میں

نگاہ ء لطف
221
جبکہ نگاہ ِ لطف ۔۔۔۔۔۔اضافت کے ساتھ 212 یعنی مرار کے وزن پر رکھا گیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔اور نگاہ میں ''ہ'' جو کہ صوتیت میں اضافہ کر رہا ہے مگر اضافت سے تو صوتیت کہیں بھی متاثر ہوتی ہے وزن میں کہیں فرق پڑتا ہے اور کہیں نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔زیر کا استعمال ۔۔۔۔۔ وزن میں کمی بیشی کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔ اس اصول کا اطلاق کیسے ہوتا ہے میں یہ جاننا چاہ رہی ہوں

نور بہنا، شائد آپ عروض سائٹ کی بنیاد پر وزن کی یہ تبدیلیاں بتا رہی ہیں۔ جبکہ عروض سائٹ پر اضافت کے لئے ہمزہ کا استعمال غلط ہے۔اضافت ظاہر کرنے کے لئے صف زیر ہا پھر اضافت والے ہمزہ (ٔ) کا استعمال جائز ہے۔ ء کے لگانے سے نتائج unstable ہونگے اور ان پر بھروسہ نہیں کیا سکتا۔ :)

عروض سائٹ کی documentation پر مزید کام ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیرغلط رزلٹ کی وجہ سے غلط نتائج اخذ کرنے کا امکان کافی بڑھ جاتا ہے۔
 

ابن رضا

لائبریرین
جیسےہم اخفا میں حرکت کی مدد سے حرف گرا دیتے ہیں ویسے ہی اشبا میں اس کے برعکس حرکت کو الف ے ی بدل کر حرف بڑھا لیتے ہیں۔

ہر دو صورتوں میں ہم بحر کی ضرورت کے مطابق اخفا یا اشبا کرتے ہیں۔ جیسے اگر ہم نے فاعلن کے برابر لفظ لانا ہے تو لشکرِ کو لش ک رے شمار کریں گے اگر ہم نے 112 کے برابر لفظ لانا ہے تو لشکرِ کو لش ک رِ باندھیں گے
 

سید ذیشان

محفلین
مجھے ایک اور اصول پوچھنا ہے جیسے

کیا کیجے کہ یہ لشکرِ غم اٹھ نہیں سکتا

یہاں : لش۔۔۔ک۔۔۔ر(رے) ہم نے اضافت یا ہمزہ کا استعمال کیا مگر اس کو بجائے مرار کے وزن پر باندھنے کے112 پر باندھا اس کی وجہ ؟
جیسے
میں نعرہ ِ مستانہ

نع۔را۔۔۔ہے ۔۔۔یوں ہونا چاہیے
اس کا اوزن یوں باندھاگیا ہے :نع۔ر۔ہ۔۔۔۔
اس کا اصول کیا ہے؟

غنچہِ دل
اس میں بھی ۔غن۔چ۔ہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔یوں باندھا گیا ۔۔۔
اس میں غن :چا: اے۔۔۔۔۔۔۔یوں کیوں نہ باندھا گیا

یا جون نے
حالت ِ حال کو اس طرح باندھا ہے: حا۔۔۔۔ل۔۔۔۔ت۔۔۔۔ یعنی 112 کے وزن پر ۔۔۔۔۔اس کی صوتیت دوسری طرح بنتی ہے

اصولاً تو غنچۂ ، نعرہِ وغیرہ کا وزن 112 ہی ہونا چایئے کہ کل حروف ان میں 4 ہیں اور 112 بھی چار ہی بنتے ہیں۔ لیکن اضافت کی وجہ سے 'ے' کی آواز اضافی ہے، تو کل پانچ حروف ہوئے یعنی غن چَ ئے 212 (اس کو اشباع کہتے ہیں)۔ لیکن اس 'ے' کا گرانا یا نہ گرانا شاعر کی صوابدید پر ہے۔ اب شاعر اس کو 112 باندھے یا 212 دونوں صورتیں میں درست ہو گا۔
:)
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت دھواں دھار بحث ہورہی ہے یہاں تو ۔ لمبے لمبے مراسلے دیکھ کر پہلے تو یوں لگا جیسےکہ امیر حمزہ اور قیصر و کسریٰ کی باتیں ہورہی ہیں ۔ :) پھر پتہ چلا کہ صرف ہمزہ اور کسرہ کی بات ہے ۔ :):):) اس بارے میں اس فقیر کے دو سینٹ ( یا سوا دو روپے) یہ رہے:
جو الفاظ حرفِ صحیح پر ختم ہوں ان کی اضافت کسرہ یعنی زیر سے بنائی جاتی ہے ۔جیسے بزمِ اردو، حرفِ آخر ، آہِ نیم شب ، نگاہِ یار ۔ ( آہ اور نگاہ میں ’’ہ‘‘ صحیح حرف ہے )۔ وہ الفاظ جو مختفی ’’ہ‘‘ پر ختم ہوتے ہیں ان کی اضافت ہمزہ سے بنائی جاتی ہے ۔ جیسے جلسہء عام ، جلوہء یار وغیرہ۔ جو الفاظ حرفِ علت (ا، و، ی) پرختم ہوتے ہیں انکی اضافت ’’ئے ‘‘ کا اضافہ کرکے بنائی جاتی ہے ۔ جیسے شعرائے کرام ، کوئے ستم ، شوخیء نگاہ وغیرہ۔
عمومًا ہمزہ اور کسرہ سے بنائی گئی اضافی ترکیبیں ہم وزن ہوتی ہیں ۔ لیکن کبھی کبھی اختلاف بھی ممکن ہے ۔ مثلًا گیسو اور عارض ہم وزن ہین لیکن گیسوئے شب اور عارضِ شب میں وزن کا اختلاف ممکن ہے ۔ اور اس اختلاف کا تعلق بحر اور تقطیع کے اصولوں سے ہوگا۔
 

نور وجدان

لائبریرین
نور بہنا، شائد آپ عروض سائٹ کی بنیاد پر وزن کی یہ تبدیلیاں بتا رہی ہیں۔ جبکہ عروض سائٹ پر اضافت کے لئے ہمزہ کا استعمال غلط ہے۔اضافت ظاہر کرنے کے لئے صف زیر ہا پھر اضافت والے ہمزہ (ٔ) کا استعمال جائز ہے۔ ء کے لگانے سے نتائج unstable ہونگے اور ان پر بھروسہ نہیں کیا سکتا۔ :)

عروض سائٹ کی documentation پر مزید کام ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیرغلط رزلٹ کی وجہ سے غلط نتائج اخذ کرنے کا امکان کافی بڑھ جاتا ہے۔

جیسےہم اخفا میں حرکت کی مدد سے حرف گرا دیتے ہیں ویسے ہی اشبا میں اس کے برعکس حرکت کو الف ے ی بدل کر حرف بڑھا لیتے ہیں۔

ہر دو صورتوں میں ہم بحر کی ضرورت کے مطابق اخفا یا اشبا کرتے ہیں۔ جیسے اگر ہم نے فاعلن کے برابر لفظ لانا ہے تو لشکرِ کو لش ک رے شمار کریں گے اگر ہم نے 112 کے برابر لفظ لانا ہے تو لشکرِ کو لش ک رِ باندھیں گے

اصولاً تو غنچۂ ، نعرہِ وغیرہ کا وزن 112 ہی ہونا چایئے کہ کل حروف ان میں 4 ہیں اور 112 بھی چار ہی بنتے ہیں۔ لیکن اضافت کی وجہ سے 'ے' کی آواز اضافی ہے، تو کل پانچ حروف ہوئے یعنی غن چَ ئے 212 (اس کو اشباع کہتے ہیں)۔ لیکن اس 'ے' کا گرانا یا نہ گرانا شاعر کی صوابدید پر ہے۔ اب شاعر اس کو 112 باندھے یا 212 دونوں صورتیں میں درست ہو گا۔
:)

ظہیر صاحب کا مراسلہ بعد میں پڑھوں گی پہلے سوچا اس کو جواب دے دوں ۔

ذیشان بھائی میں نے نعرہ مستانہ کی تقطیع وارث بھائی کے بلاگ پر دیکھی ہے وہاں 112 پر باندھا جبکہ اگر میں اس کو سنو تو مجھے اس کی صوتیت 212 محسوس ہوتی ہے۔پھر رضا بھائی نے کہا اور آپ نے یہ شاعرانہ صوابدید پر ہے تو یہی تو بات ہورہی ہے کہ میں یہی کہے جارہی تھی کہ شعراء نے اس اصول اضافت کو اپنی مرضی کے مطابق اطلاق کیا ہے جبکہ اس میں پانچ (ا،ی ،ہ ۔۔۔۔)صوتی الفاظ کی بابت سعید الرحمن صاحب نے دلیل دی ۔ میں اصل وجہ جاننا چاہ رہی تھی کہ کیا اصول ہے ہمزہ کا ۔۔۔۔۔۔۔۔عروض کی سائیٹ پر میں نے اضافت کا اصول زیر کے استعمال سے ہی دیکھا ہے میں جانتی ہوں وہاں پر ء سے نتائج درست نہیں آتے مگر یہ بات ماننے کی ہے سائیٹ لاجواب ہےا ور اس میں دن بدن ترقی آتی جارہی ہے ۔ کافی خامیاں خوبیوں میں بدلی ہیں اور امید ہے کہ ہم جیسوں کے لیے آپ اس کو مزید بہتر کریں گے ۔
 

نور وجدان

لائبریرین
بہت دھواں دھار بحث ہورہی ہے یہاں تو ۔ لمبے لمبے مراسلے دیکھ کر پہلے تو یوں لگا جیسےکہ امیر حمزہ اور قیصر و کسریٰ کی باتیں ہورہی ہیں ۔ :) پھر پتہ چلا کہ صرف ہمزہ اور کسرہ کی بات ہے ۔ :):):) اس بارے میں اس فقیر کے دو سینٹ ( یا سوا دو روپے) یہ رہے:
جو الفاظ حرفِ صحیح پر ختم ہوں ان کی اضافت کسرہ یعنی زیر سے بنائی جاتی ہے ۔جیسے بزمِ اردو، حرفِ آخر ، آہِ نیم شب ، نگاہِ یار ۔ ( آہ اور نگاہ میں ’’ہ‘‘ صحیح حرف ہے )۔ وہ الفاظ جو مختفی ’’ہ‘‘ پر ختم ہوتے ہیں ان کی اضافت ہمزہ سے بنائی جاتی ہے ۔ جیسے جلسہء عام ، جلوہء یار وغیرہ۔ جو الفاظ حرفِ علت (ا، و، ی) پرختم ہوتے ہیں انکی اضافت ’’ئے ‘‘ کا اضافہ کرکے بنائی جاتی ہے ۔ جیسے شعرائے کرام ، کوئے ستم ، شوخیء نگاہ وغیرہ۔
عمومًا ہمزہ اور کسرہ سے بنائی گئی اضافی ترکیبیں ہم وزن ہوتی ہیں ۔ لیکن کبھی کبھی اختلاف بھی ممکن ہے ۔ مثلًا گیسو اور عارض ہم وزن ہین لیکن گیسوئے شب اور عارضِ شب میں وزن کا اختلاف ممکن ہے ۔ اور اس اختلاف کا تعلق بحر اور تقطیع کے اصولوں سے ہوگا۔
بہت عمدگی سے بتایا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ماشاء اللہ بہت خوب علم ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی سب کی متفقہ رائے یہی کہ ہمزہ اور کسرہ کا استعمال بحر اور تقطیع کے اصولوں کے مطابو ہوگا اور ساتھ میں حرف ِ صیحح اور مختفی کے معاملے میں اچھا علم دیا ہے ۔ ایک ہی پوسٹ میں ساری بات بتادی ۔عمدہ اور جزاک اللہ
 

الف عین

لائبریرین
اس کا اصول یہ ہے کہ جہاں لفظ کئ آخر میں ’ہ‘ کا تلفظ محض الف کی آواز والا ہو، وہاں کسرہ آنا چاہئے۔ اور جہاں ’ہ‘ کی آواز بھینسنائی دیتی ہے، وہاں محض زیر اضافت۔ اردو میں ’تعرہ‘ کا تلفظ محض ’نعرا‘کیا جاتا ہے، اس لئے نعرہء مستانہ درست ہے۔ راہ، وجہ، شاہ یا اس کے متبادل الفاظ۔ ان سب میں ہ کی آواز ہے اور زیر اضافت استعمال ہو گا۔
 
Top