تو جلتا اک چراغ روشنی کی خود مثال ہے

نور وجدان

لائبریرین
مثال کے طور پر آپکا ایک مصرع یوں ہے۔
"مقامِ طُور پر یہ جلوے نے کِیا ہے فاش راز" ۔
لیکن یہ رواں بھی نہیں اور الفاظ کی بے ترتیبی مصرع کےجمالیاتی حسن کو بھی متاثر کر رہی ہے۔
لیکن اگر آپ الفاظ کو آگے پیچھے کر کے ، اسے کو ایسے کر دیا جائے ، "
مقامِ طور پہ جلوے نے راز فاش کیا
" ۔ تو مصرع صاف اور رواں تر ہو جائے گا
ایسے ہی اور مصرعوں پر بھی تھوڑی سی محنت کر کے انہیں نکھارا جا سکتا ہے۔​

م۔قا۔م۔ طو۔ر۔ پر۔ ی۔جل۔و۔نے۔را۔ز۔فا۔ش۔ک۔یا۔۔۔۔۔۔۔۔یہ وزن متاثر ہو رہا ہے ۔۔۔۔۔یہاں مفاعلن مفاعلن مفاعلن مفاعلن بحر ہے اور میں نے جو کیا

وہ : م۔قا۔م۔طو۔ر۔پر۔ی۔جل۔و۔نے۔ک۔یا۔ہ۔فا۔ش۔را۔ز۔۔۔۔۔۔۔۔۔مفاعلن ۔مفاعلن مفاعلن مفاعلان ۔۔۔۔۔۔

جب ''کیا'' ہم فعل طور استعمال کریں تو فعو باندھتے ورنہ بطور استفہام فع بندھتا ۔۔۔۔۔۔۔اس لحاظ سے مجھے آپ سے قدرے بہتر نشست کی توقع ہے ۔۔۔۔۔
 
م۔قا۔م۔ طو۔ر۔ پر۔ ی۔جل۔و۔نے۔را۔ز۔فا۔ش۔ک۔یا۔۔۔۔۔۔۔۔یہ وزن متاثر ہو رہا ہے ۔۔۔۔۔یہاں مفاعلن مفاعلن مفاعلن مفاعلن بحر ہے اور میں نے جو کیا

وہ : م۔قا۔م۔طو۔ر۔پر۔ی۔جل۔و۔نے۔ک۔یا۔ہ۔فا۔ش۔را۔ز۔۔۔۔۔۔۔۔۔مفاعلن ۔مفاعلن مفاعلن مفاعلان ۔۔۔۔۔۔

جب ''کیا'' ہم فعل طور استعمال کریں تو فعو باندھتے ورنہ بطور استفہام فع بندھتا ۔۔۔۔۔۔۔اس لحاظ سے مجھے آپ سے قدرے بہتر نشست کی توقع ہے ۔۔۔۔۔
سعدیہ بہنا ، میں پہلے کومنٹ میں یہ کہنا بھول گیا کہ مگر میں نے اوپر عرض کیا ہے کہ اس غزل کیلیے بحر کا بہترین انتخاب مفاعلن۔ فعلات۔مفاعلن۔فعلن ۔ ہو گا۔ اس میں آپ کے اضافی الفاظ خود بخود کم ہو جائیں گے۔اور روانی بھی آ جائے گی ۔ آپ اس غزل کو اس بحر میں باندھ کر دیکھیں۔ آپ کو خود ہی فرق نظر آئے گا
 

نور وجدان

لائبریرین
سعدیہ بہنا ، میں پہلے کومنٹ میں یہ کہنا بھول گیا کہ مگر میں نے اوپر عرض کیا ہے کہ اس غزل کیلیے بحر کا بہترین انتخاب مفاعلن۔ فعلات۔مفاعلن۔فعلن ۔ ہو گا۔ اس میں آپ کے اضافی الفاظ خود بخود کم ہو جائیں گے۔اور روانی بھی آ جائے گی ۔ آپ اس غزل کو اس بحر میں باندھ کر دیکھیں۔ آپ کو خود ہی فرق نظر آئے گا
چلیں میں بحر بدل دیکھتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اچھا وجہ بتائیں اس بحر کی ۔۔۔۔۔۔۔مجھے یہ والی بحر کیوں چاہیے ۔۔۔اسی میں سینے کا کام کیوں نہیں ۔۔۔۔۔۔۔میں اب کوشش کرتی مگر کہیں تو کھل کے پوسٹ مارٹم کردیں میں سمجھوں ۔۔۔۔آپ پلیز ایک ایک مصرعے کو دیکھ بتادیں تعقید لفظی بارے ۔۔۔۔۔۔۔۔اچھے بھائی نہیں آپ
 
چلیں میں بحر بدل دیکھتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اچھا وجہ بتائیں اس بحر کی ۔۔۔۔۔۔۔مجھے یہ والی بحر کیوں چاہیے ۔۔۔اسی میں سینے کا کام کیوں نہیں ۔۔۔۔۔۔۔میں اب کوشش کرتی مگر کہیں تو کھل کے پوسٹ مارٹم کردیں میں سمجھوں ۔۔۔۔آپ پلیز ایک ایک مصرعے کو دیکھ بتادیں تعقید لفظی بارے ۔۔۔۔۔۔۔۔اچھے بھائی نہیں آپ
بحر بدلیں گی تو پھر قوافی بدلیں گی یا ردیف ۔۔
میں وجہ کیا بتاؤں بہنا، وجہ یہی ہے کہ اساتذہ نے اور دوسرے بڑے شعرا نے کم ہی استعمال کی ۔ شاید اسی لئے یہ بحر اتنی مستعمل نہیں ہے کہ اس میں روانی مشکل ہے
 

نور وجدان

لائبریرین
بحر بدلیں گی تو پھر قوافی بدلیں گی یا ردیف ۔۔
میں وجہ کیا بتاؤں بہنا، وجہ یہی ہے کہ اساتذہ نے اور دوسرے بڑے شعرا نے کم ہی استعمال کی ۔ شاید اسی لئے یہ بحر اتنی مستعمل نہیں ہے کہ اس میں روانی مشکل ہے
میں نے اس بحر کو اکثر کلام میں دیکھا ہے ۔۔۔۔۔ ۔۔۔غالب کی اک مشہور غزلیں یا احمد رضا کا کلام اس بحر میں پایا جاتا ہے ناصر کاظمی کی مشہور غزل دیکھیں
دیارِ دل کی راہ میں چراغ سا جلا گیا​
ملا نہیں تو کیا ہوا وہ شکل تو دیکھا گیا

وہ دوستی تو خیر اب نصیبِ دشمناں ہوئی
وہ چھوٹی چھوٹی رنجشوں کا لطف بھی چلا گیا

جدائیوں کے زخم دورِ زندگی نے بھر دئیے
تجھے بھی نیند آگئی مجھے بھی صبر آگیا

پکارتی ہیں فرصتیں، کہاں گئی وہ صحبتیں
زمیں نگل گئی اُنہیں کہ آسمان کھا گیا

یہ صبح کی سفیدیاں یہ دوپہر کی زردیاں
اب آئینے میں دیکھتا ہوں میں کہاں چلا گیا​

ناصر کاظمی​
بحر نہیں بدل رہی ۔۔۔۔۔۔۔میں چاہ رہی تھی آپ نقص یا خامی کو بتادیں میں اس دیکھ لوں گی بجائے بحر بدلوں
 
اگر
نگاہِ خضر مجھ پہ ہے کہ معجزہ مسیح ہے۔
اس مصرع میں " کہ" خامخواہ بھرتی کیا ہے۔

ہوں آئنہ جمال ،تیرے ُحسن کا کمال ہے​
اس مین آئینہء جمال ہو تو بات سمجھ میں آتی ہے
 
میں نے اس بحر کو اکثر کلام میں دیکھا ہے ۔۔۔۔۔ ۔۔۔غالب کی اک مشہور غزلیں یا احمد رضا کا کلام اس بحر میں پایا جاتا ہے ناصر کاظمی کی مشہور غزل دیکھیں
دیارِ دل کی راہ میں چراغ سا جلا گیا
ملا نہیں تو کیا ہوا وہ شکل تو دیکھا گیا

وہ دوستی تو خیر اب نصیبِ دشمناں ہوئی
وہ چھوٹی چھوٹی رنجشوں کا لطف بھی چلا گیا

جدائیوں کے زخم دورِ زندگی نے بھر دئیے
تجھے بھی نیند آگئی مجھے بھی صبر آگیا

پکارتی ہیں فرصتیں، کہاں گئی وہ صحبتیں
زمیں نگل گئی اُنہیں کہ آسمان کھا گیا

یہ صبح کی سفیدیاں یہ دوپہر کی زردیاں
اب آئینے میں دیکھتا ہوں میں کہاں چلا گیا​

ناصر کاظمی

بحر نہیں بدل رہی ۔۔۔۔۔۔۔میں چاہ رہی تھی آپ نقص یا خامی کو بتادیں میں اس دیکھ لوں گی بجائے بحر بدلوں
بہنا اساتذہ اور ناصر کاظمی جیسے سخنور کا اس بحر پر کنٹرول مجھ اور آپ جیسوں کی بس کی بات نہیں ۔ آپ اور میں دونوں مبتدی ہیں ہمیں چاہئے کہ پہلے آسان بحروں پر ہاتھ صاف کریں پھر ان مشکل بحروں کو پکڑیں۔ اس بحر میں ہر بحر ہزج سالم میں فرق تو ( ایک دو رکنی اور ایک رکنی ) تھوڑا سا نظر آتا ہے لیکن لکھنےمیں اور باندھنے میں زمین آسمان کا فرق ہے
 

نور وجدان

لائبریرین
اگر
نگاہِ خضر مجھ پہ ہے کہ معجزہ مسیح ہے۔
اس مصرع میں " کہ" خامخواہ بھرتی کیا ہے۔

ہوں آئنہ جمال ،تیرے ُحسن کا کمال ہے​
اس مین آئینہء جمال ہو تو بات سمجھ میں آتی ہے

آئنہ اور آئینہ دونوں مستعمل ہیں اور میں نے بنا کسرہ اضافت کے استعمال کے زیر کا استعمال دیکھا ہے خاص کر ابن انشاء کی شاعری میں ۔

یہاں ۔۔۔۔۔۔ہوں آئنہِ جمال۔۔۔۔۔۔بنا کسرہ کے زیر کے ساتھ ہے ۔۔۔۔

یہ نثر کریں تو بنتا ہے کہ خضر علیہ سلام کی نگاہ ہے یا مسیح علیہ سلام کا معجزہ ہے ۔۔۔۔۔۔ اس صورت میں'' کہ '' استعمال کیا ۔۔۔

آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ اس میں ''کہ '' ہٹا کے ''یا'' کردوں مجھے ''کہ'' اضافی لگ نہیں رہا ہے

شاعری میں کسرہ اضافی کے بنا دو حروف کو اکٹھا جوڑ استعمال نہیں کرسکتے؟ جبکہ اس کا استعمال دیکھا بھی ہو
 
سعدی بہنا اس بارے تو ہم سب کے بڑے استاد گرامی ، الف عین صاحب بتا سکتے ہیں، میرے خیال میں تو آئنہِ جمال اور معجزہِ مسیح درست نہیں، دونوں میں حمزہ کی اضافت ہونی چاہیے
 

نور وجدان

لائبریرین
سعدی بہنا اس بارے تو ہم سب کے بڑے استاد گرامی ، الف عین صاحب بتا سکتے ہیں، میرے خیال میں تو آئنہِ جمال اور معجزہِ مسیح درست نہیں، دونوں میں حمزہ کی اضافت ہونی چاہیے

''ء'' کو شاید الف عین صاحب کسی پوسٹ میں خود اضافت کے طور استعمال بہتر نہیں جانتے اس کے لیے وہ ''ِزیر'' کے استعمال کو ترجیح دیتے ہیں اور یہ سوال متلاشی بھیا نے پوچھا تھا جس پر آسی صاحب نے مفصل مضمون لکھا تھا ۔ اب اس بارے میں تو وہ ہی بتائیں گے ۔
 

نور وجدان

لائبریرین
یہ شاہ نصیر دہلو ی کی غزل ہے

میں ضعف سے جوں نقشِ قدم اٹھ نہیں سکتا
بیٹھا ہوں سرِ خاک پہ جم، اٹھ نہیں سکتا
اے اشکِ رواں! ساتھ لے اب آہِ جگر کو
عاشق کہیں بے فوج و علم اٹھ نہیں سکتا
سقفِ فلکِ کہنہ میں کیا خاک لگاؤں
اے ضعفِ دل اس آہ کا تھم اٹھ نہیں سکتا
سر معرکۂ عشق میں آساں نہیں دینا
گاڑے ہے جہاں شمع قدم، اٹھ نہیں سکتا
دل پر ہے مرے خیمۂ ہر آبلہ استاد
کیا کیجے کہ یہ لشکرِ غم اٹھ نہیں سکتا
ہر جا متجلیٰ ہے وہ پر، پردۂ غفلت
اے معتکفِ دیر و حرم! اٹھ نہیں سکتا
یوں اشک زمیں پر ہیں کہ منزل کو پہنچ کر
جوں قافلۂ ملکِ عدم اٹھ نہیں سکتا
رو رو کے لکھا خط جو اسے میں نے تو بولا
اک حرف سرِ کاغذِ نم اٹھ نہیں سکتا
ہر دم لبِ فوّارہ سے جاری یہ سخن ہے
پانی نہ ذرا جس میں ہو دم اٹھ نہیں سکتا
میں اٹھ کے کدھر جاؤں، ٹھکانا نہیں کوئی
میرا ترے کوچے سے قدم اٹھ نہیں سکتا
مہندی تو سراسر نہیں پاؤں میں لگی ہے
تُو بہرِ عیادت جو صنم اٹھ نہیں سکتا
بیمار ترا صورتِ تصویرِ نہالی
بستر سے ترے سر کی قسم، اٹھ نہیں سکتا
میں شاہ سوار آج ہوں میدانِ سخن میں
رستم کا مرے آگے قدم اٹھ نہیں سکتا
کیا نیزہ ہلاوے گا کوئی اب کہ کسی سے
یاں توسنِ رہوارِ قلم اٹھ نہیں سکتا
جوں غنچہ نصیرؔ اس بتِ گل رو کی جو ہے یاد
یاں سر ہو گریباں سے بہم، اٹھ نہیں سکتا
شاہ محمد نصیر الدین دہلوی

اس غزل کے افاعیل ہیں مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن ۔۔۔اس میں جو سرخ نشان ہیں وہاں کسرہ کا استعمال وزن کو متاثر نہیں کرتا جبکہ جو سبز ہیں وہاں کسرہ کا استعمال وزن کو متاثر کرتے بحر متعین کر رہا ہے ۔۔۔۔ اب آپ بتایے میں نے اردو کی بہت سی غزلیں دیکھی ہیں جس میں اضافت کا استعمال وزن کو متاثر نہیں کرتا اور ہم متاثر کرنے کے لیے بھی کسرہ کا استعمال کرتے ہیں​
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
حالتِ حال کے سبب، حالتِ حال ہی گئی
شوق میں کچھ نہیں گیا، شوق کی زندگی گئی
اس کی امیدِ ناز کا ہم سے یہ مان تھا کہ آپ
عمر گزار دیجئے، عمر گزار دی گئی

یہ جون ایلیا کے دو اشعار ہیں جس میں انہوں نے امید ِ ناز کی ترکیب دیکھ لیں ۔۔۔۔۔۔میں صرف اس وجہ سے پوسٹ کرہی ہوں مجھے اس کی وجہ چاہیے تاکہ اس کو مناسب طور استعمال کر سکوں
 
سعدی بہن آپ خود ہی دیکھ لیں کہ ہ کے بعد ء کی اضافت ہی لگائی گئیں ہیں۔ جکہ ن؎جن الفاظ کے بعد زیر کی اضافت استعمال ہوئی ہیں ان میں ہمزہ کی اضافت نہیں لگتیں
 

نور وجدان

لائبریرین
سعدی بہن آپ خود ہی دیکھ لیں کہ ہ کے بعد ء کی اضافت ہی لگائی گئیں ہیں۔ جکہ ن؎جن الفاظ کے بعد زیر کی اضافت استعمال ہوئی ہیں ان میں ہمزہ کی اضافت نہیں لگتیں
اشکِ رواں
نقشِ قدم

اشکِ تو 22 ہونا چاہیے تھا یہاں 12 ہے
نقشِ قدم بھی 22 ہونا چاہیے تھا جبکہ 12 ہے
مجھے سمجھ نہیں آرہی ہے آپ کی بات کی ۔۔۔۔''ء'' تو شاید اس لیے استعمال کیا گیا کہ بتا رہے وہ کسرہ استعمال کرتے وزن میں تبدیلی لا رہے ہیں ۔

اب امیدِ ناز۔۔امید 212 ۔۔۔۔۔ کے وزن پر دیکھا جاتا ہے اور یہا اضافت کے ساتھ بھی 212 ہے
حالتء حال
حالتِ حال ۔۔۔۔۔یہاں جون ایلیا نے ء استعمال نہیں کی جبکہ وزن زیر کے استعمال سے بدلا ہے
اور اس سے اگلے شعر میں امیدِ ناز میں نہیں بدلا جبکہ دونوں میں کہیں بھی ء نہیں استعمال کیا
میرا خیال پرانے زمانے میں ء کا استعمال اضافت کا فرق واضح کرنے کے لیے کیا جاتا ہوگا
انشاء کا میں کافی شاعروں کی منظوم پڑھ چکی ہوں جہاں بنا ء استعمال کے وزن بدلا نہیں جاتا
آپ روشنی ڈالیں،،،،،،
 

نور وجدان

لائبریرین

دیارِ دل کی راہ میں چراغ سا جلا گیا

یہاں پر دیکھ لیں ۔۔۔۔۔۔۔۔دیار ء دل ہوتا جبکہ دیارِ دل ۔۔۔۔۔۔اسی بحر کی غزل ہے
 
اضافت والا حرف مثلا نقشِ کا شے یک رکنی اور دو رکنی دو طرح جائز ہوتا ہے۔ آپ یہ بات کیوں نہیں سمجھ رہیں کہ ء کی اضافت صرف ان الفاظ کے ساتھ لگتی ہے جو الف ، ہ یا ی پر ختم ہوتے ہیں
 

نور وجدان

لائبریرین
اضافت والا حرف مثلا نقشِ کا شے یک رکنی اور دو رکنی دو طرح جائز ہوتا ہے۔ آپ یہ بات کیوں نہیں سمجھ رہیں کہ ء کی اضافت صرف ان الفاظ کے ساتھ لگتی ہے جو الف ، ہ یا ی پر ختم ہوتے ہیں


آپ نے میرے علم میں اضافہ کیا ہے اور اس کو آپ نے پہلے واضح نہیں کیا تھا مگر میں ایک اور مثال دینا چاہوں گی



نگاہِ لطف کے اُمیدوار ہم بھی ہیں
لیے ہوئے یہ دلِ بے قرار ہم بھی ہیں
ہمارے دستِ تمنا کی لاج بھی رکھنا
ترے فقیروں میں اے شہر یار ہم بھی ہیں
اِدھر بھی توسنِ اقدس کے دو قدم جلوے
تمہاری راہ میں مُشتِ غبار ہم بھی ہیں
کھلا دو غنچۂ دل صدقہ باد دامن کا
اُمیدوارِ نسیمِ بہار ہم بھی ہیں
تمہاری ایک نگاہِ کرم میں سب کچھ ہے
پڑئے ہوئے تو سرِ رہ گزار ہم بھی ہیں
جو سر پہ رکھنے کو مل جائے نعلِ پاکِ حضور
تو پھر کہیں گے کہ ہاں تاجدار ہم بھی ہیں
یہ کس شہنشہِ والا کا صدقہ بٹتا ہے
کہ خسروئوں میں پڑی ہے پکار ہم بھی ہیں
ہماری بگڑی بنی اُن کے اختیار میں ہے
سپرد اُنھیں کے ہیں سب کاروبار ہم بھی ہیں
حسنؔ ہے جن کی سخاوت کی دُھوم عالم میں
اُنھیں کے تم بھی ہو اک ریزہ خوار، ہم بھی ہیں

یہاں پر ۔۔۔۔۔۔ہ' کو دیکھیں دو رنگ کیے ہیں ۔۔۔سرخ رنگ میں ''ہ '' کے ساتھ کسرہ کا استعال نہیں جبکہ شہنشہ والا میں اور غنچہ دل میں کسرہ کا استعمال ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس بارے کیا کہیں گے
اس کے افاعیل

مفاعلن فعلاتن مفاعلن فعلن ۔۔ہیں

کچھ اور مثالیں بھی ہیں میں دیتی ہوں کم از کم مجھے اس گفتگو سے مزہ آرہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
میں سمجھ نہیں سکا کہ بحث کیا ہے۔ شہنشہ میں اٍضافت کا زیر ہی آئے گا اور غنچہء دل میں ہمزہ۔ لیکن معجزہ مسیح اور معجزہء مسیح کے اوزان میں بہت فرق ہے۔ یہاں نور کی غزل میں استعمال غلط ہے۔
البتہ سعید سے متفق ہوں کہ بحر بدلنے سے روانی بہتر ہو سکتی ہے۔ بھرتی کے الفاظ سے بچنا چاہئے۔ ناصر کی غزل ہی دیکھ لو، بھرتی کے الفاظ نہیں ہے اور کیا رواں اور مترنم زمین ہے اس کی۔ اس غزل کے بارے میں بعد میں۔
 
Top