سید عاطف علی

لائبریرین
ادب یہی ہے کہ دو لوگوں کی بحث میں خوامخواہ مخل نہ ہونا چاہیے ۔ابھی بات چل رہی ہے اور ممکن ہے کسی نتیجے تک پہنچ جائے۔
ادب تو بسرو چشم ۔اور نتیجے کے لیے نیک خواہشات بھی ۔
اصل میں ان پیاروں کے پاس داد کے سوا کوئی چارہ نہیں
لیکن اس کھلی بحث میں شامل کچھ ناموں پر آپ نے جو تجزیہ کیا اس پر تبصرہ تو کیا جا سکتا ہے ۔
خیر چلیے آپ کسی نتیجے پر پہنچیے ۔والسلام ۔
 

یاسر شاہ

محفلین
اگر محولہ بالا قول واقعی ساقی فاروقی کا ہے تو معذرت کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پھر ان کو تو عروض کی مبادیات کا بھی علم نہیں تھا۔ "میم کے زحاف کا اضافہ" پڑھ کر پہلے تو بے ساختہ ہنسی آئی پھر افسوس ہوا۔یاسر بھائی ، اس قسم کا کوئی زحاف یا اصطلاح عروض میں سرے سے وجود ہی نہیں رکھتا ۔ فاعلن ایک بنیادی رکن ہے یعنی افاعیلِ ہشتگانہ کا حصہ ہے۔ فاعلن پر جو ممکنہ زحافات لگ سکتے ہیں وہ چھ ہیں ۔ یعنی خبن ، قطع ، خلع، حذذ ، اذالہ اور ترفیل۔ ان زحافات کے استعمال کے بعد جو مزاحف اوزان حاصل ہوں گے وہ بالترتیب فعِلن ، فعلن ، فعِل ، فع ، فاعلان اور فاعلاتن ہوں گے ۔ فاعلن کسی بھی صورت مفاعلن میں تبدیل نہیں ہوسکتا۔ اگر آپ عروض سے واقف ہیں تو آپ کو علم ہوگا کہ بنیادی افاعیلِ ہشتگانہ پر لگنے والے زحافات میں کوئی بھی ایسا زحاف نہیں ہے جو رکن کے شروع میں ایک حرف کا اضافہ کردے۔ اس غزل کا وزن جیسا کہ میں لکھا رجز سالم مخبون ہے۔ اگر آپ کو عروض سے دلچسپی ہو تو اس کی تفصیل میرے ایک مراسلے میں اوپر دیکھ لیجیے۔

اس بحر کا نام رجز مثمن سالم مخبون ہی ہے۔ افسوس اس وقت بحر الفصاحت سامنے نہیں ورنہ شاید وہاں سے اس کا حوالہ مل جاتا۔ مولوی صاحب نے عالم طور پر سب بحروں کا ذکر کیا ہے اور جو بحور اردو میں مستعمل نہیں، انکی مثالیں خود ہی شعر کہہ کر دی ہوئی ہیں۔ اس سے ایک واقعہ بھی یاد آ گیا، کئی برس پہلے ایک کرم فرما نے غزلوں کا ایک دیوان نما مجموعہ رائے کے لیے مجھے بھیجا، میرا تو سر ہی چکرا گیا۔ بعد از سعی بسیار کھلا کہ موصوف نے بحر الفصاحت سامنے رکھ کر صرف ان بحروں میں غزلیں کہی تھیں جن کے متعلق لکھا تھا کہ یہ صرف عربی فارسی میں استعمال ہوتی ہیں۔
آخر میں ضروری ہے کہ ساقی فاروقی کا وہ حوالہ دے دوں جس کا ذکر اوپر کر چکا ہوں ۔مجھے تو بحروں کے نام اور زحافات کا علم نہیں البتہ ماضی میں ساقی کا یہ مضمون نظر سے گزرا تھا جب ظہیر صاحب کی غزل دیکھی تو یاد آیا ۔کتاب کا ریختہ کالنک پیش کر رہا ہوں ۔صفحہ نمبر کتاب کا ہے 67 اور ریختہ کا صفحہ ہے 63 باب کا عنوان ہے غزل( جو نزاع کا سبب بنی) ۔
یہی غزل جو اوپر پیش کر چکا ہوں احمد ندیم قاسمی کے پاس چھپنے کے لیے گئی جس پہ انھوں نے چھاپنے سے انکار کر دیا یہ کہہ کر کہ بے وزن ہے جس پر ساقی نے انھیں اور مشفق خواجہ کو خطوط لکھے ہیں اپنی غزل کی بحر کی صفائی میں ۔لیکن تحریریں ان کی اکثر ناشائستہ ہی ہوتی ہیں اور کام کی بات کم ہی ہوتی ہے۔بہر حال آپ لوگ پڑھ کے اندازہ لگائیں کہ واقعی وہ عروض سے واقف بھی تھے یا یہ سب دھت نشے میں لکھے گئے خط ہیں۔
 

عاطف ملک

محفلین
تاریکیوں میں جبر کی ایسا فشارِ وقت تھا
ہم کوہِ نور بن گئے ظلمات میں پلے ہوئے

راہِ فنا تھی راہِ حق ، دار و رسن تھے جابجا
دیکھا ورائے مرگ تو آسان مرحلے ہوئے
بہت خوب ظہیر بھائی۔۔۔۔اچھی لگی یہ غزل۔
بالخصوص درج بالا اشعار تو لاجواب ہیں۔
عاطف بھائی ، اس غزل کے اشعار دو تین نشستوں میں ہوئے جن کے درمیان خاصا وقفہ تھا اس لئے بعض جگہوں پر غزل کے لہجے میں کچھ اتار چڑھاؤ محسوس ہوسکتا ہے
مجھے پڑھتے ہوئے واقعی میں کچھ ایسا لگا۔۔۔ویسے اس کا حل یہ ہے کہ آپ یہ غزل پڑھ کر سنا دیں تاکہ مشاعرے میں آپ کی غیر حاضری کی بھی تلافی ہو سکے😛
بات یہ ہے کہ شعری فہم اور ذوق نہ صرف ہر شخص میں مختلف ہوتا ہے بلکہ ایک ہی شخص میں مختلف موقعوں پر مختلف درجے کا ہوسکتا ہے۔ ایک ہی شعر کسی خاص کیفیت اور موقع پر آپ کو کسی اور طرح سے متاثر کرتا ہے اور کسی دوسرے وقت میں اس کا اثر مختلف ہوسکتا ہے۔
میں ذاتی طور پر اس سے سو فیصد متفق ہوں کہ مختلف مواقع پر مختلف اشعار پسند آ تے ہیں۔اور بعض اوقات ایک ہی شعر مختلف مواقع پر مختلف طریقے سے اثر ڈالتا ہے۔
 
ایک طویل عرصے کے بعد بزمِ سخن میں حاضری کا موقع ملا ہے ۔ اس غیر حاضری کے دوران سات آٹھ تازہ غزلیں اور دو نظمیں پردۂ خیال سے صفحۂ قرطاس پر منتقل ہوئیں ۔ وعید ہو کہ میں ہر ہفتے عشرے ایک تازہ کلام آپ صاحبانِ ذوق کی خدمت میں پیش کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں ۔ وارننگ دے دی ہے ۔ 😊 ایک غزل حاضر ہے ۔ امید ہے ایک دو اشعار آپ کو ضرور پسند آئیں گے ۔ گر قبول افتد زہے عز و شرف!

٭٭٭

تن زہر میں بجھے ہوئے ، دل آگ میں جلے ہوئے
کن منزلوں تک آ گئے ، کس راہ پر چلے ہوئے

جل بجھ گئی ہر آرزو جس خاکِ کوئے یار میں
ہم ہیں مثالِ مشکبو اُس راکھ کو مَلے ہوئے

چھیڑا ہے جب بھی سازِ نو سوزِ غمِ حیات نے
رقصاں ہوئے ہیں پا بہ گِل ہم گیت میں ڈھلے ہوئے

زنجیرِ ربط کٹ گئی لیکن گلوئے ہجر میں
اب تک دیارِ ناز کے کچھ طوق ہیں ڈلے ہوئے

سختی کشانِ راہِ عشق ، ذروں سے بن گئے نجوم
اوجِ فلک پر آ گئے پاتال سے چلے ہوئے

کچھ رہبروں کی بھول سے دیوارِ راہ بن گئے
سمتِ سفر کے مسئلے ، برسوں سے تھے ٹلے ہوئے

تاریکیوں میں جبر کی ایسا فشارِ وقت تھا
ہم کوہِ نور بن گئے ظلمات میں پلے ہوئے

راہِ فنا تھی راہِ حق ، دار و رسن تھے جابجا
دیکھا ورائے مرگ تو آسان مرحلے ہوئے

٭٭٭

ظہیرؔ احمد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۲۰۲۰ ء​
ظہیر بھائی ، ماشاء اللہ بہت اچھی غزل ہے . داد قبول فرمائیے .
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
اس بحر کا نام رجز مثمن سالم مخبون ہی ہے۔ افسوس اس وقت بحر الفصاحت سامنے نہیں ورنہ شاید وہاں سے اس کا حوالہ مل جاتا۔ مولوی صاحب نے عالم طور پر سب بحروں کا ذکر کیا ہے اور جو بحور اردو میں مستعمل نہیں، انکی مثالیں خود ہی شعر کہہ کر دی ہوئی ہیں۔ اس سے ایک واقعہ بھی یاد آ گیا، کئی برس پہلے ایک کرم فرما نے غزلوں کا ایک دیوان نما مجموعہ رائے کے لیے مجھے بھیجا، میرا تو سر ہی چکرا گیا۔ بعد از سعی بسیار کھلا کہ موصوف نے بحر الفصاحت سامنے رکھ کر صرف ان بحروں میں غزلیں کہی تھیں جن کے متعلق لکھا تھا کہ یہ صرف عربی فارسی میں استعمال ہوتی ہیں۔

جہاں تک اس بحر کا تعلق ہے تو واقعی اردو میں کچھ نہیں اور شاید فارسی میں بھی صرف نمونے کی چیزیں ہیں۔ دھخدا نے اپنی لغت میں عروضی دائروں پر بحث کرتے ہوئے اس بحر کا ذکر کیا ہے اور نام بھی یہی لکھا ہے:

"دایره ٔ نهم ، 16هجایی است (6 کوتاه و 10 بلند) و خود از 4 بحر تشکیل شده است : 1- هزج مثمن اشتر صدر سالم عروض (مفاعلن مفاعیلن 2 بار). 2- رمل مکفوف و سالم (فاعلات فاعلاتن 2 بار). 3- رجز مخبون وسالم (مفاعلن مستفعلن 2 بار). 4- رجز سالم و مخبون (مستفلن مفاعلن 2 بار)۔"
بہت شکریہ ، وارث صاحب! اللّٰہ کریم آپ کو سلامت رکھے ۔
اردو محفل کی یہ بات بہت اچھی لگتی ہے کہ یہاں صاحبانِ علم بے غرض مدد کے لئے تیار رہتے ہیں ۔ اپنا وقت اور توانائی صرف کرتے ہیں اورحتی المقدور رہنمائی فرماتے ہیں ۔ میں نے بحرالفصاحت ابھی دیکھی لیکن اس میں اس وزن کا تذکرہ نہیں ملا۔ سو معلوم یہی ہوتا ہے کہ اس وزن میں اردو اور فارسی شاعری بہت ہی کم یا نہ ہونے کے برابر ہے۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
آپ کی غیر حاضری اس قدر طویل تھی کہ بارہا میں نے آپ سے رابطے کا ذریعہ ڈھونڈنے کا سوچا۔۔۔۔ اور اگر چار چھے مہینے اور گزر جاتے تو عین ممکن تھا کہ میں کسی سے آپ کی طرف آنے کی راہ معلوم کرتا پایا جاتا۔۔۔ شکریہ آپ نے مجھے اس زحمت سے بچا لیا۔۔۔۔
باقی اب رہی بات غزل کی۔۔۔۔ تو یہ ایک دو قدغن آپ نے لگا دی ہے۔۔۔ اس کا کیا کروں۔۔۔ بڑی مشکل سے آپ کی بات کا بھرم رکھا ہے۔۔۔ کہ ایک دو اشعار ہی اقتباس میں شامل کیے ہیں۔۔۔ ورنہ پوری غزل ہی اقتباس لینی پڑتی۔۔۔ کیوں کہ ہر شعر ہی ماشاءاللہ بہت اعلی ہے۔۔۔ اب آپ کی اس شعریت پر میری نثریت کی داد جچتی نہیں۔۔۔ مگر پھر بھی قبول فرمائیں۔۔۔ یعنی وہی عزوشرف والے معاملات۔۔۔








ایک سے ایک شعر ہے ظہیر بھائی۔۔۔ ماشاءاللہ۔۔۔۔ اللہ آپ ایسے احباب کو سلامت رکھے جو آج کے دور میں بھی ہمیں شاعری سے متنفر نہیں ہونے دیتے۔۔۔۔


دو سال پرانی غزل کو تازہ کہہ کر پیش کرنے پر میراحوصلہ بڑھا۔۔۔ شکر ہے کہ دنیا ابھی آلکسیوں سے خالی نہیں ہوئی ہے۔۔۔
اس شگفتہ شگفتہ داد و تحسین کے لئے بہت شکریہ ، ذوالقرنین! اللّٰہ کریم آپ کو ہنستا بستا رکھے ۔
غزل تو دو سال پہلے ہی پیش کردیتا لیکن کوچے کی رکنیت کے لئے اتنے عرصے دبائے رکھا ۔
ویسے بھی احمد بھائی اور آپ کےدرمیان پھرتیلا آدمی اپنے آپ کو مس فٹ محسوس کرتا ہے ۔:)
 

سیما علی

لائبریرین
بہت خوبصورت ،بہت زبردست غزل ہمیشہ کی طرح !!
ماشاء اللہ ماشاء اللہ سلامت رہیے !!!آپ کے دم سے ہے اردو محفل کی رونق !!!
آپ کی مشکل گفتگو تو ہماری سمجھ میں نہیں آتی اور شاید داد و تحسین بھی ہم اہلِ علم کی طرح نہیں دیتے پر ہماری نظر میں آپ انتہائی قابلِ احترام ہیں ۔۔
شاد و آباد رہیے ڈھیروں دعائیں !
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
یاسر شاہ ، یعنی آپ اردو محفل میں "کھل کر تبصرے کرنے کی سازگار فضا" نہ ہونے کا قصور وار مجھے ٹھہرارہے ہیں؟! شاہ صاحب ، میں تو تقریباً گیارہ ماہ کے بعد اردو محفل پر آیا ہوں اور یہ پہلی غزل پوسٹ کی ہے۔ میں نے یہاں کس کی لبرٹی سلب کی ہوئی ہے؟ سب کو آزادی ہے کہ جو چاہیں لکھیں۔ اس دھاگے کے مراسلے بشمول آپ کے اس بات کا ثبوت ہیں۔ بلکہ میرا مشاہدہ تو یہ ہے کہ اردو محفل میں آئے دن کسی نہ کسی کے کلام پر تہذیب اور ادب کے دائرے میں رہتے ہوئے اچھی خاصی علمی اور ادبی گفتگو ہوتی رہتی ہے۔ شائستگی اور شگفتگی سے اصلاحی نکات اٹھائے جاتے ہیں۔ زبان و بیان کی صحت پر گفتگو ہوتی ہے۔ ایسا کسی اور فورم پر شاید نہ ہوتا ہو۔ اگر صرف داد سمیٹنا مقصود ہوتا تو میں آپ کے اولین مراسلے کو نظر انداز کرکے چپ چاپ آگے بھی بڑھ سکتا تھا ۔ لیکن میں نے مکالمے کو آگے بڑھایا ہے اوروقت نکال کر اپنا نکتۂ نظر تفصیل سے پیش کیا ۔

نیز، آپ کلام پر داد دینے والوں سے بھی ناراض معلوم ہوتے ہیں اور یہ الزام لگارہے ہیں کہ وہ ایسا کسی دباؤ کے تحت کرتے ہیں،ان کے پاس داد دینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ۔ بخدا میں تو کسی کو اپنے کلام پر ٹیگ بھی نہیں کرتا۔ جس کا دل شاعری پڑھنے کو چاہے وہ پڑھے ، جو تبصرہ کرنا چاہے کرے۔ آپ کا یہ الزام میری تو سمجھ میں بالکل نہیں آیا ۔ ویسے بغیر کسی ثبوت کے ایسا کہنا میرے نزدیک بہت ہی نازیبا سی بات ہے ۔ ویسے آپ بہتر جانتے ہیں ۔

خیر، آمدم برسرِ موضوع۔ آپ کے تبصرے پر میں تفصیلی جواب دے چکا۔ جو کچھ مجھے کہنا تھا میں نے زبان و بیان کی شائستگی برقرار رکھتے ہوئے گوش گزار کردیا۔ اور اس کا لب لباب یہ تھا کہ شعر اور شعریت کی کسی جامع و مانع تعریف پر اجماع نہیں۔ مختلف شعرا اور ادبا اس کو اپنے زاویۂ نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ سخن فہمی اور ذوقِ سخن کے درجات اور شخصی تنوع پر بھی تفصیلی بات کی۔ اور پھر مکالمے کو آگے بڑھانے کے لئے میں نے آپ سے چند سوالات پوچھے تھے کہ آپ کی شعری تعریف پر اس غزل کا کون سا شعر پورا نہیں اترتا؟ کون سا شعر شعر نہیں ہے؟ اور یہ بھی استفسار کیا تھا کہ آپ کس طرح اس نتیجے پر پہنچے کہ ان تمام اشعار میں سے کوئی بھی شعر قاری کے تخیل ، احساسات اور جذبات کو نہیں چھیڑتا۔ آپ نے اپنے اس تاثر کی تعمیم کن تجزیاتی اصولوں کے تحت کی؟
جناب ، دلیل دعویٰ کرنے والے کے ذمہ ہوتی ہے اور اس پر قرض ہوتی ہے۔ یہ تو اب آپ کے ذمہ ہے کہ جو نتائج آپ نے غزل پڑھ کر اخذ کئے ان کا تجزیہ پیش کریں اور بتائیں کہ کن تجزیاتی اصولوں کے تحت آپ نے یہ نتائج اخذ کئے۔ تنقیدی تجزیے اور ذاتی رائے میں کچھ تو فرق ہونا چاہیے۔ ذاتی رائے دینا تو ظاہر ہے بہت آسان ہے اور ہر شخص دے سکتا ہے لیکن معروضی تجزیہ تو دلیل اور تفصیل چاہتا ہے جو آپ کے مراسلات میں اب تک نظر نہیں آئی۔ امید ہے کہ آپ محولہ بالا سوالات کا جواب دے کر مجھے سیکھنے کا موقع دیں گے۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت خوب ظہیر بھائی۔۔۔۔اچھی لگی یہ غزل۔
بالخصوص درج بالا اشعار تو لاجواب ہیں۔
بہت نوازش، بہت شکریہ ! بہت ممنون ہوں ، عاطف بھائی ۔
مجھے پڑھتے ہوئے واقعی میں کچھ ایسا لگا۔۔۔ویسے اس کا حل یہ ہے کہ آپ یہ غزل پڑھ کر سنا دیں تاکہ مشاعرے میں آپ کی غیر حاضری کی بھی تلافی ہو سکے😛
عاطف بھائی ، ریٹائرمنٹ میں ابھی چند سال اور ہیں ۔ تھوڑا سا اور انتظار کرلیں پھر یہی غزل آپ کو روبرو سنائیں گے ۔ :)
میں ذاتی طور پر اس سے سو فیصد متفق ہوں کہ مختلف مواقع پر مختلف اشعار پسند آ تے ہیں۔اور بعض اوقات ایک ہی شعر مختلف مواقع پر مختلف طریقے سے اثر ڈالتا ہے۔
میرا بھی زندگی بھر کا یہی تجربہ اور مشاہدہ ہے ۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت خوبصورت ،بہت زبردست غزل ہمیشہ کی طرح !!
ماشاء اللہ ماشاء اللہ سلامت رہیے !!!آپ کے دم سے ہے اردو محفل کی رونق !!!
آپ کی مشکل گفتگو تو ہماری سمجھ میں نہیں آتی اور شاید داد و تحسین بھی ہم اہلِ علم کی طرح نہیں دیتے پر ہماری نظر میں آپ انتہائی قابلِ احترام ہیں ۔۔
شاد و آباد رہیے ڈھیروں دعائیں !
بہت بہت شکریہ ، سیما آپا! اللّٰہ کریم آپ کو فلاحِ دارین عطا فرمائے ، شاد و آباد رکھے ۔ ممنون ہوں ۔
آپا ، داد و تحسین کے لئے کسی ڈگری کی ضرورت تھوڑا ہی ہوتی ہے۔ بس کسی کا کوئی شعر یا غزل وغیرہ پسند آئے تو دو چار دفعہ واہ واہ کردیا کریں ۔ میں بھی یہی کرتا ہوں ۔ :D
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت خوب ظہیر بھائی کیا اچھی غزل کہی ہے ایک ایک شعر لاجواب۔
زنجیرِ ربط کٹ گئی لیکن گلوئے ہجر میں
اب تک دیارِ ناز کے کچھ طوق ہیں ڈلے ہوئے​
ویسے تو سارے ہی شعر کمال کے ہیں لیکن درج بالا شعر نے سیدھا دل پہ اثر کیا باوجود اس کے کہ ابھی مجھے "ڈلے ہوئے" کی فصاحت پہ شبہ ہے سو اگر یہ اشتباہ رفع ہو جائے تو ۔۔۔
فہد بھائی ، ایک بنیادی بات تو پچھلے مراسلے میں لکھنے سے رہ ہی گئی ۔ ذہن میں تھی لیکن لکھتے وقت بھول گیا ۔گلے میں طوق ڈالنا ، گردن میں طوق ڈالنا معروف اور مستعمل ہیں ۔ چنانچہ اس فعل کی لازم صورت استعمال کرنا لسانی روایات اور عمومی قاعدے کے تحت درست ہوگا ۔ سو اس رعایت سے " گلے میں طوق ڈلے ہوئے" درست ہے ۔
فہد اشرف
 

محمد وارث

لائبریرین
آخر میں ضروری ہے کہ ساقی فاروقی کا وہ حوالہ دے دوں جس کا ذکر اوپر کر چکا ہوں ۔مجھے تو بحروں کے نام اور زحافات کا علم نہیں البتہ ماضی میں ساقی کا یہ مضمون نظر سے گزرا تھا جب ظہیر صاحب کی غزل دیکھی تو یاد آیا ۔کتاب کا ریختہ کالنک پیش کر رہا ہوں ۔صفحہ نمبر کتاب کا ہے 67 اور ریختہ کا صفحہ ہے 63 باب کا عنوان ہے غزل( جو نزاع کا سبب بنی) ۔
یہی غزل جو اوپر پیش کر چکا ہوں احمد ندیم قاسمی کے پاس چھپنے کے لیے گئی جس پہ انھوں نے چھاپنے سے انکار کر دیا یہ کہہ کر کہ بے وزن ہے جس پر ساقی نے انھیں اور مشفق خواجہ کو خطوط لکھے ہیں اپنی غزل کی بحر کی صفائی میں ۔لیکن تحریریں ان کی اکثر ناشائستہ ہی ہوتی ہیں اور کام کی بات کم ہی ہوتی ہے۔بہر حال آپ لوگ پڑھ کے اندازہ لگائیں کہ واقعی وہ عروض سے واقف بھی تھے یا یہ سب دھت نشے میں لکھے گئے خط ہیں۔
شاہ صاحب شکریہ، میں نے یہ مضمون کافی عرصہ پہلے ایک مجلے میں پڑھا تھا بلکہ اس پر دیگر ماہرین کی آرا بھی موجود تھیں۔

اس مضمون کا لب لباب یہی ہے کہ قاسمی صاحب نے مذکورہ غزل کو مفتعلن مفاعلن میں سمجھا کہ یہی وزن اردو میں عام استعمال ہوتا ہے اور کچھ مصرعے ان کو اس وزن پر نہ لگے تو انہوں نے ان کو بے وزن کہہ کر غزل چھاپنے سے انکار کر دیا۔ ساقی نے فرمایا کہ یہ غزل مفتعلن مفاعلن میں نہیں بلکہ مستفعلن مفاعلن میں ہے اور کچھ مصرعے دو بحروں میں تقطیع ہوتے ہیں۔ اور یہی درست بات ہے، ظہیر صاحب کی غزل کے بھی کچھ مصرعے اسی طرح دو بحروں میں تقطیع ہوتے ہیں۔

اب ساقی کی غزل اور ظہیر صاحب کی غزل کا فرق بھی دیکھ لیں اور مجھے یقین ہے کہ اسی وجہ سے قاسمی صاحب کو غلطی لگی ہوگی۔ ظہیر صاحب کی غزل کا مطلع صرف ایک بحر میں تقطیع ہوتا ہے یعنی جو غزل کی صحیح بحر ہے (مستفعلن مفاعلن) اور بعد کے کچھ مصرعے دوسری بحر میں تقطیع ہوتے ہیں۔ جب کہ ساقی صاحب کی غزل کا مطلع ہی دونوں اوزان میں تقطیع ہو رہا ہے یعنی مفتعلن مفاعلن اور مستفعلن مفاعلن اور بعد کے کچھ مصرعے صرف مستفعلن مفاعلن میں۔ اب چونکہ مفتعلن مفاعلن اردو میں عام استعمال ہوتا ہے سو قاسمی صاحب نے اس غزل کو اسی بحر میں سمجھا ہوگا کہ دوسرا وزن تو کبھی اردو میں استعمال ہی نہیں ہوا، یہ تو شاعر نے خط لکھ کر بتایا کہ یہ بحر نہیں بلکہ فلاں بحر ہے جب کہ ظہیر صاحب کی غزل میں یہ احتمال بھی نہیں ہے۔

اب یہ بات کہ یہ بحر کونسی ہے۔ وزن پر تو کوئی شبہ نہیں کہ مستفعلن مفاعلن ہے۔ نام پر ہے کہ نام کیا ہے۔ ساقی صاحب نے فرمایا کہ انہوں نے مستفعلن فاعلن پر میم کا زحاف بڑھایا ہے، اس پر ظہہر صاحب شافی جوب دے چکے کہ سکہ بند عروض میں ایسا کوئی زحاف نہیں ہے۔ اس بحر کو نکالنے کا سیدھا سادا طریقہ موجود ہے۔ مثال کے طور پر ہم دیکھتے ہیں کہ مفتعلن مفاعلن وزن کیسے نکلا ہے۔ رجز سالم مستفعلن چار بار میں اگر طے زحاف کا استعمال کر یں تو مستفعلن کے دوسرے سبب کا دوسرا حرف حذف ہو کر مستعلن رہ جائے گا، یہ چونکہ غیر حقیقی وزن ہے سو اس کو مفتعلن سے بدل لیا اور اس کو مطوی کہہ دیا۔ اسی طرح مستفعلن پر خبن زحاف کا استعمال کیا تو پہلے سبب کا دوسرا حرف گر کر متفعلن رہ گیا، یہ بھی غیر حقیقی ہے سو اس کو مفاعلن سے بدل دیا اور مخبو ن کہہ دیا، یوں بحر رجز مثمن سالم یعنی مستفعلن مستفعلن مستفعلن مستفعلن سے بحر رجز مثمن مطوی مخبون مفتعلن مفاعلن مفتعلن مفاعلن مل گئی۔ اسی طرح اگر پہلے رکن کو سالم رہنے دیں اور دوسرے کو مخبون کر لیں تو مستفعلن مفاعلن مستفعلن مفاعلن وزن ملے گا اور اسے رجز مثمن سالم مخبون کہیں گے اور یہی اس غزل کی بحر ہے۔

آخری بات یہ کہ نام کی بحث صرف نظری اور موضوعی ہے اور اس بحر کو کوئی بھی نام دینے سے اس کے وزن پر فرق نہیں پڑے گا بلکہ فقط اس پر بحث ہوگی کہ یہ وزن آیا کہاں سے اور کیسے۔ وزن کیا ہے اس پر کچھ فرق نہیں پڑنے والا۔ :)
 

محمد وارث

لائبریرین
جیسا کہ پہلے کہہ چکا ہوں

اور وہ یوں کہ ایسی سازگار فضا جس میں کھل کر تبصرے کیے جا سکیں سیکھنے سکھانے کے لیے معاون و مددگار ہے ۔اوروں کو چہ خوب چہ خوب کہہ کر ان سے چہ خوب خوب سننے سے لکھاری کے اندر کا آرٹسٹ بھی مر جاتا ہے اور داد دہندگان کو بھی حاصل وصول کچھ نہیں ہوتا نتیجہ یہی ہوتا ہے کہ بے فیض غزلیں وجود میں آتی ہیں جن میں بناوٹ، تصنع اور تکلف کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔


اصل میں ان پیاروں کے پاس داد کے سوا کوئی چارہ نہیں اور اب تو آپ نے کوئی چارہ سوائے داد دینے کے میرے پاس بھی نہیں چھوڑا اتنا طویل پریم پتر لکھ کر۔محترمی لوگوں کو لبرٹی دیں کہ داد کے سوا بھی کچھ لکھ سکیں ،اب مشکل اردو سے دھاک بٹھانے کے زمانے گئے ، بقول آئنسٹائن
If you can’t explain it simply, you don’t understand it well enough

آپ نے غزل پیش کی ہے پاکستان کا قومی ترانہ تو پیش کیا نہیں کہ احتراماً اور اعتقادا کھڑے ہو کر آپ کے سر میں سر ملایا جائے۔
تلخی پہ معذرت کہ اردو والوں کی میر کی اس اقتدا سے سخت بیزار ہوں:
مستند ہے میرا فرمایا ہوا
سارے عالم پر ہوں میں چھایا ہوا
شاہ صاحب میں خواہ مخواہ الجھا نہیں کرتا لیکن ظہیر صاحب نے خاکسار کا ذکر کیا تھا اور آپ نے حد لگا دی کہ "اصل میں ان پیاروں کے پاس داد کے سوا کوئی چارہ نہیں" سو عرض کر رہا ہوں۔ آپ نے مجھے "پنج پیاروں" میں شامل کیا شکریہ محترم۔ باقی رہا چارہ تو مجھے یہاں پندرہ سال ہو گئے ہیں کبھی مروت میں واہ واہ نہیں کی، آپ کو یقین نہ آئے تو اس زمرے کی لڑیاں کھنگال لیں، اس خاکسار کے مراسلے آٹے میں نمک کے برابر ملیں گے۔ فیس بُک پر تو اتنے بھی نہیں ہیں گو وہاں شاعری یہاں کے مقابلے میں ہزاروں گنا زیادہ ہے اور اسکی وجہ صرف ایک ہے، کوئی شعر کوئی غزل میرے دل کو چھوتی ہے تو تبصرہ کرتا ہوں وگرنہ پڑھ پڑھا کر آگے گزر جاتا ہوں۔ لوگوں کے ٹیگ کرنے اور ان باکس کرنے کے باوجود چپ رہتا ہوں۔

میرے نزدیک ظہیر صاحب کہ یہ غزل واقعی داد کی حقدار ہے، آپ کو ایسا نہیں لگتا تو یہ آپ کی پسند کی بات ہے۔ باقی بات بحر والی تو میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اگر ظہیر صاحب خود نہ فرماتے کہ یہ انہوں نے بحر کے ساتھ تجربہ کیا ہے تو کسی کا دھیان ادھر جاتا بھی نہ!
 

الف عین

لائبریرین
ڈلے درست تو ہے لیکن پڑے جیسے معروف لفظ کے مقابلے میں ڈلے جیسا مجہول لفظ استعمال کرنے سے روانی متاثر ہوتی ہے۔
رہا سوال بحر کا تو عزیزی ظہیراحمدظہیر کا عروض کا مطالعہ قابل رشک ہے۔ دوسرا کوئی یہ تجربہ کرتا (محفل کے شاگردوں میں سے) تو ضرور میں یہی کہتا کہ مبتدی لوگ ایسی بحور استعمال نہ کیا کریں ۔ ویسے دل پر ہاتھ رکھ کر کہوں تو ایسے تجربات مجھے زبردستی کے ہی لگتے ہیں جب کہ ایک دو حروف کم زیادہ کرنے، ترتیب بدلنے یا کسی ہم معنی لفظ کے رکھنے سے کوئی مستعمل بحر بن سکتی ہو۔ اشعار چاہے کتنے ہی ارفع ہوں، اس قسم کےتجربات سے جو سکتے بلکہ دھچکے لگتے ہیں تو طبیعت مضمحل ہو جاتی ہے
 

علی وقار

محفلین
ایک طویل عرصے کے بعد بزمِ سخن میں حاضری کا موقع ملا ہے ۔ اس غیر حاضری کے دوران سات آٹھ تازہ غزلیں اور دو نظمیں پردۂ خیال سے صفحۂ قرطاس پر منتقل ہوئیں ۔ وعید ہو کہ میں ہر ہفتے عشرے ایک تازہ کلام آپ صاحبانِ ذوق کی خدمت میں پیش کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں ۔ وارننگ دے دی ہے ۔ 😊 ایک غزل حاضر ہے ۔ امید ہے ایک دو اشعار آپ کو ضرور پسند آئیں گے ۔ گر قبول افتد زہے عز و شرف!

٭٭٭

تن زہر میں بجھے ہوئے ، دل آگ میں جلے ہوئے
کن منزلوں تک آ گئے ، کس راہ پر چلے ہوئے

جل بجھ گئی ہر آرزو جس خاکِ کوئے یار میں
ہم ہیں مثالِ مشکبو اُس راکھ کو مَلے ہوئے

چھیڑا ہے جب بھی سازِ نو سوزِ غمِ حیات نے
رقصاں ہوئے ہیں پا بہ گِل ہم گیت میں ڈھلے ہوئے

زنجیرِ ربط کٹ گئی لیکن گلوئے ہجر میں
اب تک دیارِ ناز کے کچھ طوق ہیں ڈلے ہوئے

سختی کشانِ راہِ عشق ، ذروں سے بن گئے نجوم
اوجِ فلک پر آ گئے پاتال سے چلے ہوئے

کچھ رہبروں کی بھول سے دیوارِ راہ بن گئے
سمتِ سفر کے مسئلے ، برسوں سے تھے ٹلے ہوئے

تاریکیوں میں جبر کی ایسا فشارِ وقت تھا
ہم کوہِ نور بن گئے ظلمات میں پلے ہوئے

راہِ فنا تھی راہِ حق ، دار و رسن تھے جابجا
دیکھا ورائے مرگ تو آسان مرحلے ہوئے

٭٭٭

ظہیرؔ احمد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۲۰۲۰ ء​
بحث تو سر پر سے گزر گئی، تاہم، سچ پوچھیے تو مجھے تمام اشعار بہت پسند آئے۔ داد قبول فرمائیے ظہیر بھائی۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
اس شگفتہ شگفتہ داد و تحسین کے لئے بہت شکریہ ، ذوالقرنین! اللّٰہ کریم آپ کو ہنستا بستا رکھے ۔
غزل تو دو سال پہلے ہی پیش کردیتا لیکن کوچے کی رکنیت کے لئے اتنے عرصے دبائے رکھا ۔
ویسے بھی احمد بھائی اور آپ کےدرمیان پھرتیلا آدمی اپنے آپ کو مس فٹ محسوس کرتا ہے ۔:)
آمین

کوچے کی رکنیت ایسی نہیں کہ صرف گیارہ ماہ لیٹے رہنے سے مل جائے۔۔۔ آپ نے وہ شعر نہیں سنا۔۔۔
آلکسی کار مسلسل ہے کہ ہم اپنے لیے
ایک لمحہ بھی پس انداز نہیں کر سکتے
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
نیز، آپ کلام پر داد دینے والوں سے بھی ناراض معلوم ہوتے ہیں اور یہ الزام لگارہے ہیں کہ وہ ایسا کسی دباؤ کے تحت کرتے ہیں،ان کے پاس داد دینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ۔ بخدا میں تو کسی کو اپنے کلام پر ٹیگ بھی نہیں کرتا۔ جس کا دل شاعری پڑھنے کو چاہے وہ پڑھے ، جو تبصرہ کرنا چاہے کرے۔ آپ کا یہ الزام میری تو سمجھ میں بالکل نہیں آیا ۔ ویسے بغیر کسی ثبوت کے ایسا کہنا میرے نزدیک بہت ہی نازیبا سی بات ہے ۔ ویسے آپ بہتر جانتے ہیں ۔
من ترا قاری و سامع بگوئم تو میرا شاعر بگو
 
Top