ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
کیا خوب واپسی ہے۔ اور کتنی خوش کن خبر کے ساتھ ہے۔ یعنی اگلا مجموعہ بھی آیا ہی آیا۔ 😊
کیا ہی کہنے۔ بہت عمدہ ظہیر بھائی۔
نوازش ، بہت بہت شکریہ ! بہت ممنون ہوں ، تابش بھائی! اللّٰہ کریم آپ کو سلامت رکھے!
دوسرے مجموعے کی بات قابلِ غور ہے ۔ خاکدان کے بعد سے اچھی خاصی غزلیں ہوگئ ہیں اور کچھ نظمیں بھی ۔ بغیر پیش لفظ کا مجموعہ تو غالباً چند ماہ میں تالیف کیا جاسکتا ہے ۔ پچھلی دفعہ احمد بھائی نے پیش لفظ کی شرط لگا کر بہت مشکل میں ڈال دیا تھا۔ بڑی مشکلوں سے سر سے اتارا تھا وہ بوجھ۔ :grin:
 

سید عاطف علی

لائبریرین
عاطف بھائی ، یہ غزل بحرِ رجز میں میرا ایک تجربہ ہے ۔ غالب کی جس غزل کا آپ نے حوالہ دیا وہ مفتعلن مفاعلن ( رجز مطوی مخبون) ہے اور یہ وزن عام مستعمل ہے ۔ جبکہ میری غزل کا وزن مستفعلن مفاعلن ( رجز سالم مخبون) ہے ۔ سو اس غزل کی بحر کا پورا نام رجز مثمن سالم مخبون ہوگا ۔ اردو میں اب تک میری نظر سے یہ وزن نہیں گزرا ۔ ڈھونڈنے پر فارسی میں ایک دو غزلیں اس وزن کی نظر آئیں ۔ عربی کا معلوم نہیں کہ عربی شاعری اکثر سر پر سے گزر جاتی ہے ۔ میری اتنی استعداد نہیں ۔ ویسے کہا یہی جاتا ہے کہ رجز کے اوزان عربی میں خاصے مستعمل ہیں ۔ اردو میں رجز کے کم اوزان ہی مستعمل ہیں ۔ خصوصاً سالم رکن مستفعلن کم نظر آتا ہے ۔ بہرحال ، لگ تو یہی رہا ہے کہ سالم مخبون میں بھی خاصی روانی ہے اور اسے استعمال کیا جاسکتا ہے ۔
ظہیر بھائی۔ زبردست ۔،شکریہ
لگتا ہے کہ مثمن رجز سالم کے خبن نے میری عقل کو چاروں شانوں سے طے کردیا ۔ :)
ویسے میرے خیال میں ان بحروں میں لفظی نسشت و برخاست کافی ڈھیل رکھتی ہے ۔ بعض اوقاتکئی مصرعے دونوں بحروں پر منطبق ہو جاتے ہیں ۔یہاں بھی ایسا ہو رہا ہے، سو بعید نہیں ۔آپ کی کیا رائے ہے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
نوازش، کرم نوازی ! بہت بہت شکریہ عاطف بھائی! آپ کا حرفِ تحسین قدر افزا ہے ۔ اللّٰہ آپ کو خوش رکھے!
بڑے صاحب غالبؔ کہہ گئے ہیں :
سختی کشانِ عشق کی پوچھے ہے کیا خبر
وہ لوگ رفتہ رفتہ سراپا الم ہوئے
غالبؔ کے اس شعر میں لفظ عشق کا انطباق عشق مجازی پر ہورہاہے ۔ میں نے اسی لفظ کو ذرا وسیع معنوں میں استعمال کرتے ہوئے تصویر کا دوسرا رخ دکھانے کی کوشش کی ہے ۔ اس لئے سختی کشاں کی ترکیب سے پہلو نہ بچا سکا ۔
سختی کشانِ راہِ عشق ، ذروں سے بن گئے نجوم
اوجِ فلک پر آ گئے پاتال سے چلے ہوئے
عاطف بھائی ، اس غزل کے اشعار دو تین نشستوں میں ہوئے جن کے درمیان خاصا وقفہ تھا اس لئے بعض جگہوں پر غزل کے لہجے میں کچھ اتار چڑھاؤ محسوس ہوسکتا ہے ۔ :):):)
ظہیر بھائی حاشا و کلا یہ اعتراض ہر گز نہیں تھا ۔ بس ایک احساس سا تھا جو دونوں جگہ ہی اب بھی ہے ۔ کیا کروں اب اس بلغمی مزاج کا :) نہ جانے اس کو کیا راس ہے
وقفے اور لہجے کی نا ہمواری والی بات سے اتفاق نہیں ۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ظہیر بھائی۔ زبردست ۔،شکریہ
لگتا ہے کہ مثمن رجز سالم کے خبن نے میری عقل کو چاروں شانوں سے طے کردیا ۔ :)
ویسے میرے خیال میں ان بحروں میں لفظی نسشت و برخاست کافی ڈھیل رکھتی ہے ۔ بعض اوقاتکئی مصرعے دونوں بحروں پر منطبق ہو جاتے ہیں ۔یہاں بھی ایسا ہو رہا ہے، سو بعید نہیں ۔آپ کی کیا رائے ہے۔
بالکل درست کہا آپ نے ۔
کسی مصرع کا ایک سے زیادہ بحور پر منطبق ہوجانا تو نسبتاً عام ہے ۔ اس غزل کے کئی مصرع مفتعلن مفاعلن پر تقطیع کیے جاسکتے ہیں ۔ مثلاً
چھیڑا ہے جب بھی سازِ نو سوزِ غمِ حیات نے
سمتِ سفر کے مسئلے ، برسوں سے تھے ٹلے ہوئے
راہِ فنا تھی راہِ حق ، دار و رسن تھے جابجا

ویسے مطلع کو ذرا بغور دیکھا جائے تو دونوں مصرعے دو اسباب سے شروع ہورہے ہیں یعنی فاع کے بجائے فعلن سے شروع ہورہے ہیں ۔ بہرحال، میرے لئے خوش آئند بات یہ ہے کہ غزل کی قرات میں کوئی دقت کسی کو محسوس نہیں ہو رہی ۔ اور کسی بھی شعری وزن کے لئے سب سے اہم بات یہی ہے۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ظہیر بھائی حاشا و کلا یہ اعتراض ہر گز نہیں تھا ۔ بس ایک احساس سا تھا جو دونوں جگہ ہی اب بھی ہے ۔ کیا کروں اب اس بلغمی مزاج کا :) نہ جانے اس کو کیا راس ہے
وقفے اور لہجے کی نا ہمواری والی بات سے اتفاق نہیں ۔
عاطف بھائی ، آپ کا یہ احساس ہی تو اصل فیڈ بیک ہے ۔ بیشک ہر سخن فہم کا شعری ذوق ذرا ذرا مختلف ہوتا ہے ۔ اسی لئے ہر شخص کو ایک ہی قسم کی شاعری پسند نہیں آتی ۔ میں خود مناسب لفظ یا ترکیب کی تلاش میں ہفتوں بلکہ بعض اوقات مہینوں تک شعر کو حتمی شکل نہیں دیتا ۔
خوب گاجریں کھائیں ۔ بلکہ حلوہ بنوا کر کھائیں ۔ اور کچھ اس طرف بھی بھیج دیں ۔ گاجر کا حلوہ بھی کیا چیز ہے! اس حلوے پر تین سو غزلیں قربان۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ریحان بھائی ، اس غزل کے وزن کے بارے میں کیا خیال ہے؟ کیا یہ وزن فارسی میں مستعمل ہے؟ اور اگر ہے تو اس کی کچھ مثالیں عطا فرمائیے گا ۔
 
آخری تدوین:

یاسر شاہ

محفلین
ظہیر بھائی غزل ذوق کو پسند آئی کہ الفاظ کا چناؤ ان کی نشست اچھے لگ رہے ہیں اور غزل کا آہنگ بھی منفرد ہے کہ ایک نئی بحر کا تجربہ ہے۔
مگر غزل چونکہ ظہیر احمد ظہیر کی ہے سو چاہیے کہ ذوق سے آگے سخن فہمی اور تنقید کے حوالوں سے بھی بات کی جائے جس کے لیے فضا ساز گار تو نہیں لیکن رنگ میں بھنگ ڈالنےکے لیے دو ایک معروضات پیش کیے دیتا ہوں۔

پہلی بات تو یہ کہ مرزا کلیم الدین احمد کے نزدیک شعر کی تعریف ہے ذاتی تجربہ خواہ تخیلاتی ہو کہ احساساتی ۔میری رائے میں اگر شاعری سے مقصود عروضی تجربہ ہو تو شاعری کہیں پیچھے رہ جاتی ہے۔ہاں اگر مقصود ذاتی تجربہ ہو اور عروضی تجربہ بھی ساتھ میں ہو جائے تو سونے پہ سہاگا ہے۔سو آپ کی غزل باوجود حسین ہونے کے قاری کے تخیلات، احساسات اور جذبات کو نہیں چھیڑتی جس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک عروضی تجربہ ہے اور کامیاب بھی ہے۔سو مبارک ہو ۔
اب دیکھنا ہے کہ کیا اردو شاعری میں اس بحر میں کسی اور نے بھی طبع آزمائی کی ہے یا نہیں تو ساقی فاروقی پہلے یہ تجربہ کر چکے ہیں چنانچہ ان کی غزل پیش کرتا ہوں :

ہم تو ہیں ایک درد کی رحمت سے تنگ آگئے
سینے میں آگ جل اٹھی لہجے میں رنگ آگئے

اک دن جو احتیاط کا غرفہ ذرا سا کھل گیا
دیکھا کہ دور دور سے نفرت کے سنگ آگئے

لاکھوں توہمات کے جالے پڑے ہیں ذہن میں
مشرق کے مرغزار میں اہل فرنگ آگئے

ثابت قدم عجیب ہیں آنکھیں تری شبیہ سے
خالی ہوئیں تو روح میں بھر کے امنگ آگئے

وحشت کہ سائباں نہیں ،ساقی کہیں اماں نہیں
یادوں کے ساحلوں پہ بھی کیا کیا نہنگ آگئے

اب رہ گئی یہ بحث کہ بحر کونسی ہے تو ساقی فاروقی نے اسے بحر بسیط (مثمن سالم) کی ایک مزاحف شکل قرار دیا ہے یعنی مستفعلن فاعلن مستفعلن فاعلن کے دوسرے رکن فاعلن میں م کے زحاف کا اضافہ کر کے اسے مفاعلن بنا دیا گیا ہے۔
 

فہد اشرف

محفلین
ایک طویل عرصے کے بعد بزمِ سخن میں حاضری کا موقع ملا ہے ۔ اس غیر حاضری کے دوران سات آٹھ تازہ غزلیں اور دو نظمیں پردۂ خیال سے صفحۂ قرطاس پر منتقل ہوئیں ۔ وعید ہو کہ میں ہر ہفتے عشرے ایک تازہ کلام آپ صاحبانِ ذوق کی خدمت میں پیش کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں ۔ وارننگ دے دی ہے ۔ 😊 ایک غزل حاضر ہے ۔ امید ہے ایک دو اشعار آپ کو ضرور پسند آئیں گے ۔ گر قبول افتد زہے عز و شرف!

٭٭٭

تن زہر میں بجھے ہوئے ، دل آگ میں جلے ہوئے
کن منزلوں تک آ گئے ، کس راہ پر چلے ہوئے

جل بجھ گئی ہر آرزو جس خاکِ کوئے یار میں
ہم ہیں مثالِ مشکبو اُس راکھ کو مَلے ہوئے

چھیڑا ہے جب بھی سازِ نو سوزِ غمِ حیات نے
رقصاں ہوئے ہیں پا بہ گِل ہم گیت میں ڈھلے ہوئے

زنجیرِ ربط کٹ گئی لیکن گلوئے ہجر میں
اب تک دیارِ ناز کے کچھ طوق ہیں ڈلے ہوئے

سختی کشانِ راہِ عشق ، ذروں سے بن گئے نجوم
اوجِ فلک پر آ گئے پاتال سے چلے ہوئے

کچھ رہبروں کی بھول سے دیوارِ راہ بن گئے
سمتِ سفر کے مسئلے ، برسوں سے تھے ٹلے ہوئے

تاریکیوں میں جبر کی ایسا فشارِ وقت تھا
ہم کوہِ نور بن گئے ظلمات میں پلے ہوئے

راہِ فنا تھی راہِ حق ، دار و رسن تھے جابجا
دیکھا ورائے مرگ تو آسان مرحلے ہوئے

٭٭٭

ظہیرؔ احمد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۲۰۲۰ ء​
بہت خوب ظہیر بھائی کیا اچھی غزل کہی ہے ایک ایک شعر لاجواب۔
زنجیرِ ربط کٹ گئی لیکن گلوئے ہجر میں
اب تک دیارِ ناز کے کچھ طوق ہیں ڈلے ہوئے​
ویسے تو سارے ہی شعر کمال کے ہیں لیکن درج بالا شعر نے سیدھا دل پہ اثر کیا باوجود اس کے کہ ابھی مجھے "ڈلے ہوئے" کی فصاحت پہ شبہ ہے سو اگر یہ اشتباہ رفع ہو جائے تو ۔۔۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
یاسر ، ایک تو آپ کے مراسلے کا مقصد سمجھ میں نہیں آیا۔ دوم یہ کہ اس میں آپ نے دو تین مختلف نکات کو خلط ملط کردیا ہے۔ معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ ان نکات میں سے کسی کا بھی کوئی سر پیر مجھے نظر نہیں آیا۔ :):):) بہرحال ، کوشش کرتا ہوں کہ اس خلط مبحث کو صاف کرکے آپ کو کچھ سمجھا سکوں۔
پہلی بات تو یہ کہ مرزا کلیم الدین احمد کے نزدیک شعر کی تعریف ہے ذاتی تجربہ خواہ تخیلاتی ہو کہ احساساتی ۔
شعر اور شعریت کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ شعریت کا عنصر ہی کلامِ موزوں کو شعر کا درجہ دیتا ہے۔ لیکن شعریت کی جامع اور مانع تعریف پر ابھی تک کوئی اتفاقِ رائے نہیں ہوسکا ہے۔ شعر یا شعریت کیا چیز ہے اس کے بارے میں نہ صرف اردو کا بلکہ دیگر عالمی زبانوں کا تنقیدی ادب مختلف آرا سے بھرا ہوا ہے۔ میں تجویز کروں گا کہ آپ شمس الرحمٰن فاروقی کا مضمون " شعر ، غیر شعر اور نثر" ایک دفعہ ضرور پڑھ لیجیے۔ میں نے ایک دو سال پہلے یہیں محفل پر پوسٹ کیا تھا۔ تلاش کرنے پر مل جائے گا ۔ ورنہ مجھے حکم دیجیے گا میں ربط ڈھونڈنے کی کوشش کروں گا۔
مرزا کلیم الدین احمد کے نزدیک شعر کی جو تعریف ہے وہ انہیں مبارک۔ البتہ یہ بتائیے کہ اُن کی اس تعریف پر اس غزل کا کون سا شعر پورا نہیں اترتا ؟! ہر شعر میں ایک تخیل یا احساس کا عنصر موجود ہےاور ظاہر ہے کہ میرے ذاتی مشاہدے اور تجربہ پر مبنی ہے ۔آپ کو کس شعر میں قافیہ پیمائی یا نری تک بندی نظر آتی ہے ؟ کون سا شعر شعر نہیں ہے؟

اب شعر کس پائے یا درجے کا ہے یہ ایک الگ بحث ہے۔ اور یہ بحث کسی بھی شاعر کے کسی بھی شعر پر کی جاسکتی ہے اور اسے جانچنے کے معیارات الگ ہوتے ہیں۔

سو آپ کی غزل باوجود حسین ہونے کے قاری کے تخیلات، احساسات اور جذبات کو نہیں چھیڑتی جس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک عروضی تجربہ ہے اور کامیاب بھی ہے۔سو مبارک ہو ۔
یاسر ، یہ نتیجہ آپ نے کہاں سے نکالا کہ یہ اشعار قاری کے تخیل ، احساسات اور جذبات کو نہیں چھیڑتے۔ آپ یہ بات صرف اپنے متعلق تو کہہ سکتے ہیں لیکن اس کی تعمیم کرتے ہوئے اسے ہر قاری پر کس طرح منطبق کرسکتے ہیں؟یعنی عقلِ کُل کی طرح ذوقِ کُل بھی کوئی چیز ہوتی ہے کیا؟ :)
یہ بات تو طے ہے کہ ہر قاری کا شعری ذوق اورفہم مختلف ہوتا ہے۔ ایک شعر جس پر ایک قاری دیر تک سر دھن سکتا ہے اُسی شعر پر ایک دوسرا قاری رکے بغیر آگے چل دیتا ہے۔ جس شعر پر غالب اپنا پورا دیوان مومن کو دینے پر تیار ہوجاتے ہیں اُسی شعر کو میں اور آپ بالکل عام سا گردان سکتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ شعری فہم اور ذوق نہ صرف ہر شخص میں مختلف ہوتا ہے بلکہ ایک ہی شخص میں مختلف موقعوں پر مختلف درجے کا ہوسکتا ہے۔ ایک ہی شعر کسی خاص کیفیت اور موقع پر آپ کو کسی اور طرح سے متاثر کرتا ہے اور کسی دوسرے وقت میں اس کا اثر مختلف ہوسکتا ہے۔
الفاظ دریچے ہیں جو کھلتے ہیں دلوں میں
معنی میرے سامع کے خیالات میں گم ہیں

یہ بات صرف شعر پر ہی نہیں بلکہ دیگر فنونِ لطیفہ ( موسیقی، آرٹ وغیرہ) پر بھی لاگو ہوتی ہے ۔ یعنی کسی فن پارےسے حظ اٹھانااُس لاشعوری تعامل ( انٹرایکشن ) پر منحصر ہے جو اس فن پارے اورقاری/ناظر کے درمیان واقع ہوتا ہے۔ اس پیچیدہ انٹرایکشن میں کئی عناصر کارفرما ہوتے ہیں ۔ شعر کے حوالے سے بات کی جائے تو اس انٹرایکشن میں سامع کا شعری مطالعہ ، اس کی زبان دانی ، اس کی شعری تربیت یا عدم تربیت، اس کی زندگی کے تجربات ، اس کی موجودہ داخلی کیفیت وغیرہ اثر انداز ہوتی ہیں۔ یہ بھی ہوتا ہے کہ کچھ اشعار جو آپ کو آج پسند نہیں آئے یا سمجھ میں نہیں آئے وہ آگے چل کر زندگی کے کسی مقام پر یکایک سمجھ میں آجائیں اور لطف دینے لگیں۔ آپ کو سمجھانے کی غرض سے مثالاً عرض کرتا ہوں کہ محمد وارث ، سید عاطف ، تابش صدیقی،احمد بھائی اور فہد اور دیگر حضرات کو اس غزل کے مختلف اشعار پسند آئے ہیں۔ اور یہ ایک دوسرے کی پسند سے مختلف ہیں۔ اس کا مطلب خدانخواستہ یہ نہیں نکالا جاسکتا کہ یہ حضرات شعری ذوق سے محروم ہیں۔ صرف یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان حضرات کو مختلف اشعار اپنی اپنی طبیعت اور ذوق کے مطابق پسند آئے ۔ حاصلِ کلام یہ کہ ہر شعر سامع کے تخیل ، احساس یا جذبات کو ایک ہی طرح سے نہیں متاثر کرتا ۔ اس کے بھی درجات ہوتے ہیں ۔
اگر آپ کی محولہ بالا رائے کو ایک مطلق معیار مان لیا جائے تو اردو کی نوے فیصد شاعری (بشمول اساتذہ) شعر کے درجے پر نہیں پہنچے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ اردو کے اکثر اچھے اشعار تخیل یا جذبات سے زیادہ فکر اور سوچ کے در وا کرتے ہیں۔ اقبال کی تو اکثر شاعری فکر انگیز ہے۔ چنانچہ شعر کی تعریف کو وسعت دینا پڑے گی۔ خیر، جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا اس موضوعِ واحد پر تو سینکڑوں مضامین اور کتب لکھے جاچکے ہیں۔اس بات پر میں یہیں رکتا ہوں۔

اب رہ گئی یہ بحث کہ بحر کونسی ہے تو ساقی فاروقی نے اسے بحر بسیط (مثمن سالم) کی ایک مزاحف شکل قرار دیا ہے یعنی مستفعلن فاعلن مستفعلن فاعلن کے دوسرے رکن فاعلن میں م کے زحاف کا اضافہ کر کے اسے مفاعلن بنا دیا گیا ہے۔
اگر محولہ بالا قول واقعی ساقی فاروقی کا ہے تو معذرت کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پھر ان کو تو عروض کی مبادیات کا بھی علم نہیں تھا۔ "میم کے زحاف کا اضافہ" پڑھ کر پہلے تو بے ساختہ ہنسی آئی پھر افسوس ہوا۔یاسر بھائی ، اس قسم کا کوئی زحاف یا اصطلاح عروض میں سرے سے وجود ہی نہیں رکھتا ۔ فاعلن ایک بنیادی رکن ہے یعنی افاعیلِ ہشتگانہ کا حصہ ہے۔ فاعلن پر جو ممکنہ زحافات لگ سکتے ہیں وہ چھ ہیں ۔ یعنی خبن ، قطع ، خلع، حذذ ، اذالہ اور ترفیل۔ ان زحافات کے استعمال کے بعد جو مزاحف اوزان حاصل ہوں گے وہ بالترتیب فعِلن ، فعلن ، فعِل ، فع ، فاعلان اور فاعلاتن ہوں گے ۔ فاعلن کسی بھی صورت مفاعلن میں تبدیل نہیں ہوسکتا۔ اگر آپ عروض سے واقف ہیں تو آپ کو علم ہوگا کہ بنیادی افاعیلِ ہشتگانہ پر لگنے والے زحافات میں کوئی بھی ایسا زحاف نہیں ہے جو رکن کے شروع میں ایک حرف کا اضافہ کردے۔ اس غزل کا وزن جیسا کہ میں لکھا رجز سالم مخبون ہے۔ اگر آپ کو عروض سے دلچسپی ہو تو اس کی تفصیل میرے ایک مراسلے میں اوپر دیکھ لیجیے۔

میری رائے میں اگر شاعری سے مقصود عروضی تجربہ ہو تو شاعری کہیں پیچھے رہ جاتی ہے۔ہاں اگر مقصود ذاتی تجربہ ہو اور عروضی تجربہ بھی ساتھ میں ہو جائے تو سونے پہ سہاگا ہے۔
شاہ صاحب، عروضی تجربہ کرنے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ شاعر ایک دن کسی بحر کو لے کر یہ طے کرے کہ اب میں اس کے وزن میں ردو بدل کرکے ایک نیا وزن ایجاد کروں گا اور اس میں شعر کہوں گا۔ عروضی تجربے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ شاعر اپنی فطری موزونیت کے باعث کچھ اشعار کہتا ہے یا یوں کہیے کہ کچھ اشعار اس سے موزوں ہوجاتے ہیں۔ ان اشعار میں حسبِ معمول روانی ہوتی ہے، غنائیت ہوتی ہے لیکن اسے علم ہوجاتا ہے کہ ان اشعار کا وزن کسی معلوم و معروف بحر پر منطبق نہیں ہورہا بلکہ یہ ایک نیا وزن ہے۔ اب وہ یہاں اپنے عروضی علم کا سہارا لیکر اس شعر کو کسی قریب ترین بحر اور اس کے زحافات پر منطبق کرتا ہے ۔ اور یوں ایک نیا وزن "ایجاد" ہوجاتا ہے۔ اب دو صورتیں ہیں ۔ یا تو وہ نیا وزن کسی قریب ترین بحر پر کسی جائز زحاف کی مدد سے تخریج ہوجائے گا یا نہیں ہوگا۔ لیکن اچھی بات یہ ہے کہ موجودہ عروضی نظام اس درجہ وسیع اور لچکدار ہے کہ عموماً کوئی بھی نیا وزن اس کے دائرۂ کار سے باہر نہیں پڑتا ۔ آپ کسی بھی نئے وزن کو عموماً عروضی اصولوں کی مدد سے بیان کرسکتے ہیں ۔ اس سلسلے میں مزید تفصیلات کے لئے میری ایک غزل پر چند سال پہلے ہونے والی یہ عروضی گفتگو دیکھ لیجیے:
https://www.urduweb.org/mehfil/threads/دو-دل-جلے-باہم-جلے-تو-روشنی-ہوئی.94505/
اس سارے معاملے میں یاد رکھنے کی جو بات ہے وہ یہ ہے کہ اس نئے وزن میں شعر گوئی کا تخلیقی عمل اُس تخلیقی عمل سے قطعی مختلف نہیں ہوتا جو کسی مستعمل بحر میں شعر گوئی کرتے ہوئے واقع ہوتا ہے۔ شعری عمل کی نوعیت شاعر کے لئے تو بالکل ایک جیسی ہی ہوتی ہے۔ کسی نئے یا غیر معروف وزن میں اظہارِ خیال کرنے سے شعر کی شعریت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ وزن بذاتِ خود شعریت پیدا نہیں کرتا۔ کلامِ موزوں کو شعریت دینا تو شاعر کا کام ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ شاعر کے لئے عموماً بحر سے زیادہ قافیہ ردیف کی پابندی آڑے آتی ہے۔ اگر قدرتِ بیان ہو اور قافیہ ردیف مناسب چنے جائیں تو شاعر کسی بھی وزن میں اپنا مافی الضمیر بخوبی بیان کرسکتا ہے۔

شاہ صاحب ، یہ مراسلہ خاصا طویل ہوگیا ۔ لیکن آپ نے جو مفروضہ نکات اٹھائے تھے وہ تفصیلی جواب کے متقاضی تھے۔ امید ہے کہ کچھ بنیادی تصورات اور اصولِ تنقید آپ کے ذہن میں واضح ہوگئے ہوں گے ۔ اگر کوئی بات رہ گئی ہو تو ارشاد کیجیے گا میں حاضرِ خدمت ہوجاؤں گا ۔ :)
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت خوب ظہیر بھائی کیا اچھی غزل کہی ہے ایک ایک شعر لاجواب۔
زنجیرِ ربط کٹ گئی لیکن گلوئے ہجر میں
اب تک دیارِ ناز کے کچھ طوق ہیں ڈلے ہوئے​
ویسے تو سارے ہی شعر کمال کے ہیں لیکن درج بالا شعر نے سیدھا دل پہ اثر کیا باوجود اس کے کہ ابھی مجھے "ڈلے ہوئے" کی فصاحت پہ شبہ ہے سو اگر یہ اشتباہ رفع ہو جائے تو ۔۔۔
بہت نوازش، شکریہ!! بہت ممنون ہوں قدر افزائی پر ، فہد!
آپ جیسے ہونہار اور ذوقِ مطالعہ رکھنے والوں کی داد قیمتی ہوتی ہے ۔ اللّٰہ کریم خوش رکھے!
ڈالنا کا فعلِ لازم ڈَلنا ہے ۔ بالکل ایسے ہی جیسے پالنا کا فعلِ لازم پَلنا۔ ڈلنا بہت ہی عام اور مستعمل لفظ ہے ۔ روزمرہ بول چال میں اکثر استعمال ہوتا ہے۔ جیسے دولہا کے گلے میں ہار ڈلے ہوئے تھے ۔ زردے میں کشمش ڈلی ہوئی تھی وغیرہ۔ یہ لفظ اردو کی ہر لغت میں موجود ہے اور جہاں تک مجھے علم ہے اس کی فصاحت کبھی زیرِ بحث نہیں آئی ۔ اگر آپ گوگل کریں تو اس لفظ کے بہت سارے نثری حوالے مل جائیں گے ۔ مجھے کوئی شعری مثال یاد نہیں آرہی ۔ البتہ ریختہ پر دیکھنے سے معلوم ہوا کہ جون ایلیا نے اپنی ایک نظم میں "کمر بند ڈلے ہوئے تھے" کا فقرہ استعمال کیا ہے ۔ جون ایلیا کی زبان دانی تعارف کی محتاج نہیں ۔
سید عاطف علی بھائی ، محمد وارث صاحبان اگر اس پر اپنی رائے دے سکیں تو ممنون رہوں گا ۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
جی ظہیر بھائی درست کہا آپ نے ۔ ڈلنے کے استعمال میں کوئی مضائقہ نہیں جو اب فصاحت سے منافی ہو ۔
تاہم میرا ذاتی گمان ہے کہ فہد کو یہ تاثر ڈلنے کی جگہ پڑنے کے استعمال ہونے کی وجہ سے ہوا ہو گا۔
میرے خیال میں تو پڑنا اب بھی فصیح تر ہے لیکن ڈلنا اس کا جدید اور فصیح محاورے میں ڈھلا ہوا متبادل ہے ۔ جیسے آپ نے کشمش کی مثال دی۔
فصاحت کے اشتباہ کی دوسری وجہ گڑ کی ڈلی یا مٹی کے ڈلے کی مشابہت کی وجہ سے بھی ہو سکتی ہے۔ واللہ اعلم ۔
میں چاہوں گا یہاں اعجاز بھائی الف عین کی رائے بھی لی جائے، دیکھیں وہ کیا کہتے ہیں ۔
 

محمد وارث

لائبریرین
اگر محولہ بالا قول واقعی ساقی فاروقی کا ہے تو معذرت کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پھر ان کو تو عروض کی مبادیات کا بھی علم نہیں تھا۔ "میم کے زحاف کا اضافہ" پڑھ کر پہلے تو بے ساختہ ہنسی آئی پھر افسوس ہوا۔یاسر بھائی ، اس قسم کا کوئی زحاف یا اصطلاح عروض میں سرے سے وجود ہی نہیں رکھتا ۔ فاعلن ایک بنیادی رکن ہے یعنی افاعیلِ ہشتگانہ کا حصہ ہے۔ فاعلن پر جو ممکنہ زحافات لگ سکتے ہیں وہ چھ ہیں ۔ یعنی خبن ، قطع ، خلع، حذذ ، اذالہ اور ترفیل۔ ان زحافات کے استعمال کے بعد جو مزاحف اوزان حاصل ہوں گے وہ بالترتیب فعِلن ، فعلن ، فعِل ، فع ، فاعلان اور فاعلاتن ہوں گے ۔ فاعلن کسی بھی صورت مفاعلن میں تبدیل نہیں ہوسکتا۔ اگر آپ عروض سے واقف ہیں تو آپ کو علم ہوگا کہ بنیادی افاعیلِ ہشتگانہ پر لگنے والے زحافات میں کوئی بھی ایسا زحاف نہیں ہے جو رکن کے شروع میں ایک حرف کا اضافہ کردے۔ اس غزل کا وزن جیسا کہ میں لکھا رجز سالم مخبون ہے۔ اگر آپ کو عروض سے دلچسپی ہو تو اس کی تفصیل میرے ایک مراسلے میں اوپر دیکھ لیجیے۔
اس بحر کا نام رجز مثمن سالم مخبون ہی ہے۔ افسوس اس وقت بحر الفصاحت سامنے نہیں ورنہ شاید وہاں سے اس کا حوالہ مل جاتا۔ مولوی صاحب نے عالم طور پر سب بحروں کا ذکر کیا ہے اور جو بحور اردو میں مستعمل نہیں، انکی مثالیں خود ہی شعر کہہ کر دی ہوئی ہیں۔ اس سے ایک واقعہ بھی یاد آ گیا، کئی برس پہلے ایک کرم فرما نے غزلوں کا ایک دیوان نما مجموعہ رائے کے لیے مجھے بھیجا، میرا تو سر ہی چکرا گیا۔ بعد از سعی بسیار کھلا کہ موصوف نے بحر الفصاحت سامنے رکھ کر صرف ان بحروں میں غزلیں کہی تھیں جن کے متعلق لکھا تھا کہ یہ صرف عربی فارسی میں استعمال ہوتی ہیں۔

جہاں تک اس بحر کا تعلق ہے تو واقعی اردو میں کچھ نہیں اور شاید فارسی میں بھی صرف نمونے کی چیزیں ہیں۔ دھخدا نے اپنی لغت میں عروضی دائروں پر بحث کرتے ہوئے اس بحر کا ذکر کیا ہے اور نام بھی یہی لکھا ہے:

"دایره ٔ نهم ، 16هجایی است (6 کوتاه و 10 بلند) و خود از 4 بحر تشکیل شده است : 1- هزج مثمن اشتر صدر سالم عروض (مفاعلن مفاعیلن 2 بار). 2- رمل مکفوف و سالم (فاعلات فاعلاتن 2 بار). 3- رجز مخبون وسالم (مفاعلن مستفعلن 2 بار). 4- رجز سالم و مخبون (مستفلن مفاعلن 2 بار)۔"
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
ایک طویل عرصے کے بعد بزمِ سخن میں حاضری کا موقع ملا ہے ۔ اس غیر حاضری کے دوران سات آٹھ تازہ غزلیں اور دو نظمیں پردۂ خیال سے صفحۂ قرطاس پر منتقل ہوئیں ۔ وعید ہو کہ میں ہر ہفتے عشرے ایک تازہ کلام آپ صاحبانِ ذوق کی خدمت میں پیش کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں ۔ وارننگ دے دی ہے ۔ 😊 ایک غزل حاضر ہے ۔ امید ہے ایک دو اشعار آپ کو ضرور پسند آئیں گے ۔ گر قبول افتد زہے عز و شرف!
آپ کی غیر حاضری اس قدر طویل تھی کہ بارہا میں نے آپ سے رابطے کا ذریعہ ڈھونڈنے کا سوچا۔۔۔۔ اور اگر چار چھے مہینے اور گزر جاتے تو عین ممکن تھا کہ میں کسی سے آپ کی طرف آنے کی راہ معلوم کرتا پایا جاتا۔۔۔ شکریہ آپ نے مجھے اس زحمت سے بچا لیا۔۔۔۔
باقی اب رہی بات غزل کی۔۔۔۔ تو یہ ایک دو قدغن آپ نے لگا دی ہے۔۔۔ اس کا کیا کروں۔۔۔ بڑی مشکل سے آپ کی بات کا بھرم رکھا ہے۔۔۔ کہ ایک دو اشعار ہی اقتباس میں شامل کیے ہیں۔۔۔ ورنہ پوری غزل ہی اقتباس لینی پڑتی۔۔۔ کیوں کہ ہر شعر ہی ماشاءاللہ بہت اعلی ہے۔۔۔ اب آپ کی اس شعریت پر میری نثریت کی داد جچتی نہیں۔۔۔ مگر پھر بھی قبول فرمائیں۔۔۔ یعنی وہی عزوشرف والے معاملات۔۔۔

جل بجھ گئی ہر آرزو جس خاکِ کوئے یار میں
ہم ہیں مثالِ مشکبو اُس راکھ کو مَلے ہوئے

چھیڑا ہے جب بھی سازِ نو سوزِ غمِ حیات نے
رقصاں ہوئے ہیں پا بہ گِل ہم گیت میں ڈھلے ہوئے

تاریکیوں میں جبر کی ایسا فشارِ وقت تھا
ہم کوہِ نور بن گئے ظلمات میں پلے ہوئے

راہِ فنا تھی راہِ حق ، دار و رسن تھے جابجا
دیکھا ورائے مرگ تو آسان مرحلے ہوئے
ایک سے ایک شعر ہے ظہیر بھائی۔۔۔ ماشاءاللہ۔۔۔۔ اللہ آپ ایسے احباب کو سلامت رکھے جو آج کے دور میں بھی ہمیں شاعری سے متنفر نہیں ہونے دیتے۔۔۔۔

ظہیرؔ احمد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۲۰۲۰ ء
دو سال پرانی غزل کو تازہ کہہ کر پیش کرنے پر میراحوصلہ بڑھا۔۔۔ شکر ہے کہ دنیا ابھی آلکسیوں سے خالی نہیں ہوئی ہے۔۔۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
احمد بھائی آپ نے تو شاید ہی میرا کوئی کلام ناپسند کیا ہو ۔
یہی بات آپ میرے بارے میں بھی کہہ سکتے ہیں۔۔۔ اگرچہ
حقیقت یہ ہے کہ ایک اچھے سخنور کی جانب سے داد و تحسین سینکڑوں پر بھاری ہوتی ہے ۔
اس والے حصے پر آپ کے لاکھوں تحفظات ہوں گے۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
یاسر ، ایک تو آپ کے مراسلے کا مقصد سمجھ میں نہیں آیا۔ دوم یہ کہ اس میں آپ نے دو تین مختلف نکات کو خلط ملط کردیا ہے۔ معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ ان نکات میں سے کسی کا بھی کوئی سر پیر مجھے نظر نہیں آیا۔ :):):) بہرحال ، کوشش کرتا ہوں کہ اس خلط مبحث کو صاف کرکے آپ کو کچھ سمجھا سکوں۔

شعر اور شعریت کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ شعریت کا عنصر ہی کلامِ موزوں کو شعر کا درجہ دیتا ہے۔ لیکن شعریت کی جامع اور مانع تعریف پر ابھی تک کوئی اتفاقِ رائے نہیں ہوسکا ہے۔ شعر یا شعریت کیا چیز ہے اس کے بارے میں نہ صرف اردو کا بلکہ دیگر عالمی زبانوں کا تنقیدی ادب مختلف آرا سے بھرا ہوا ہے۔ میں تجویز کروں گا کہ آپ شمس الرحمٰن فاروقی کا مضمون " شعر ، غیر شعر اور نثر" ایک دفعہ ضرور پڑھ لیجیے۔ میں نے ایک دو سال پہلے یہیں محفل پر پوسٹ کیا تھا۔ تلاش کرنے پر مل جائے گا ۔ ورنہ مجھے حکم دیجیے گا میں ربط ڈھونڈنے کی کوشش کروں گا۔
مرزا کلیم الدین احمد کے نزدیک شعر کی جو تعریف ہے وہ انہیں مبارک۔ البتہ یہ بتائیے کہ اُن کی اس تعریف پر اس غزل کا کون سا شعر پورا نہیں اترتا ؟! ہر شعر میں ایک تخیل یا احساس کا عنصر موجود ہےاور ظاہر ہے کہ میرے ذاتی مشاہدے اور تجربہ پر مبنی ہے ۔آپ کو کس شعر میں قافیہ پیمائی یا نری تک بندی نظر آتی ہے ؟ کون سا شعر شعر نہیں ہے؟

اب شعر کس پائے یا درجے کا ہے یہ ایک الگ بحث ہے۔ اور یہ بحث کسی بھی شاعر کے کسی بھی شعر پر کی جاسکتی ہے اور اسے جانچنے کے معیارات الگ ہوتے ہیں۔


یاسر ، یہ نتیجہ آپ نے کہاں سے نکالا کہ یہ اشعار قاری کے تخیل ، احساسات اور جذبات کو نہیں چھیڑتے۔ آپ یہ بات صرف اپنے متعلق تو کہہ سکتے ہیں لیکن اس کی تعمیم کرتے ہوئے اسے ہر قاری پر کس طرح منطبق کرسکتے ہیں؟یعنی عقلِ کُل کی طرح ذوقِ کُل بھی کوئی چیز ہوتی ہے کیا؟ :)
یہ بات تو طے ہے کہ ہر قاری کا شعری ذوق اورفہم مختلف ہوتا ہے۔ ایک شعر جس پر ایک قاری دیر تک سر دھن سکتا ہے اُسی شعر پر ایک دوسرا قاری رکے بغیر آگے چل دیتا ہے۔ جس شعر پر غالب اپنا پورا دیوان مومن کو دینے پر تیار ہوجاتے ہیں اُسی شعر کو میں اور آپ بالکل عام سا گردان سکتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ شعری فہم اور ذوق نہ صرف ہر شخص میں مختلف ہوتا ہے بلکہ ایک ہی شخص میں مختلف موقعوں پر مختلف درجے کا ہوسکتا ہے۔ ایک ہی شعر کسی خاص کیفیت اور موقع پر آپ کو کسی اور طرح سے متاثر کرتا ہے اور کسی دوسرے وقت میں اس کا اثر مختلف ہوسکتا ہے۔
الفاظ دریچے ہیں جو کھلتے ہیں دلوں میں
معنی میرے سامع کے خیالات میں گم ہیں

یہ بات صرف شعر پر ہی نہیں بلکہ دیگر فنونِ لطیفہ ( موسیقی، آرٹ وغیرہ) پر بھی لاگو ہوتی ہے ۔ یعنی کسی فن پارےسے حظ اٹھانااُس لاشعوری تعامل ( انٹرایکشن ) پر منحصر ہے جو اس فن پارے اورقاری/ناظر کے درمیان واقع ہوتا ہے۔ اس پیچیدہ انٹرایکشن میں کئی عناصر کارفرما ہوتے ہیں ۔ شعر کے حوالے سے بات کی جائے تو اس انٹرایکشن میں سامع کا شعری مطالعہ ، اس کی زبان دانی ، اس کی شعری تربیت یا عدم تربیت، اس کی زندگی کے تجربات ، اس کی موجودہ داخلی کیفیت وغیرہ اثر انداز ہوتی ہیں۔ یہ بھی ہوتا ہے کہ کچھ اشعار جو آپ کو آج پسند نہیں آئے یا سمجھ میں نہیں آئے وہ آگے چل کر زندگی کے کسی مقام پر یکایک سمجھ میں آجائیں اور لطف دینے لگیں۔ آپ کو سمجھانے کی غرض سے مثالاً عرض کرتا ہوں کہ محمد وارث ، سید عاطف ، تابش صدیقی،احمد بھائی اور فہد اور دیگر حضرات کو اس غزل کے مختلف اشعار پسند آئے ہیں۔ اور یہ ایک دوسرے کی پسند سے مختلف ہیں۔ اس کا مطلب خدانخواستہ یہ نہیں نکالا جاسکتا کہ یہ حضرات شعری ذوق سے محروم ہیں۔ صرف یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان حضرات کو مختلف اشعار اپنی اپنی طبیعت اور ذوق کے مطابق پسند آئے ۔ حاصلِ کلام یہ کہ ہر شعر سامع کے تخیل ، احساس یا جذبات کو ایک ہی طرح سے نہیں متاثر کرتا ۔ اس کے بھی درجات ہوتے ہیں ۔
اگر آپ کی محولہ بالا رائے کو ایک مطلق معیار مان لیا جائے تو اردو کی نوے فیصد شاعری (بشمول اساتذہ) شعر کے درجے پر نہیں پہنچے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ اردو کے اکثر اچھے اشعار تخیل یا جذبات سے زیادہ فکر اور سوچ کے در وا کرتے ہیں۔ اقبال کی تو اکثر شاعری فکر انگیز ہے۔ چنانچہ شعر کی تعریف کو وسعت دینا پڑے گی۔ خیر، جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا اس موضوعِ واحد پر تو سینکڑوں مضامین اور کتب لکھے جاچکے ہیں۔اس بات پر میں یہیں رکتا ہوں۔


اگر محولہ بالا قول واقعی ساقی فاروقی کا ہے تو معذرت کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پھر ان کو تو عروض کی مبادیات کا بھی علم نہیں تھا۔ "میم کے زحاف کا اضافہ" پڑھ کر پہلے تو بے ساختہ ہنسی آئی پھر افسوس ہوا۔یاسر بھائی ، اس قسم کا کوئی زحاف یا اصطلاح عروض میں سرے سے وجود ہی نہیں رکھتا ۔ فاعلن ایک بنیادی رکن ہے یعنی افاعیلِ ہشتگانہ کا حصہ ہے۔ فاعلن پر جو ممکنہ زحافات لگ سکتے ہیں وہ چھ ہیں ۔ یعنی خبن ، قطع ، خلع، حذذ ، اذالہ اور ترفیل۔ ان زحافات کے استعمال کے بعد جو مزاحف اوزان حاصل ہوں گے وہ بالترتیب فعِلن ، فعلن ، فعِل ، فع ، فاعلان اور فاعلاتن ہوں گے ۔ فاعلن کسی بھی صورت مفاعلن میں تبدیل نہیں ہوسکتا۔ اگر آپ عروض سے واقف ہیں تو آپ کو علم ہوگا کہ بنیادی افاعیلِ ہشتگانہ پر لگنے والے زحافات میں کوئی بھی ایسا زحاف نہیں ہے جو رکن کے شروع میں ایک حرف کا اضافہ کردے۔ اس غزل کا وزن جیسا کہ میں لکھا رجز سالم مخبون ہے۔ اگر آپ کو عروض سے دلچسپی ہو تو اس کی تفصیل میرے ایک مراسلے میں اوپر دیکھ لیجیے۔


شاہ صاحب، عروضی تجربہ کرنے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ شاعر ایک دن کسی بحر کو لے کر یہ طے کرے کہ اب میں اس کے وزن میں ردو بدل کرکے ایک نیا وزن ایجاد کروں گا اور اس میں شعر کہوں گا۔ عروضی تجربے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ شاعر اپنی فطری موزونیت کے باعث کچھ اشعار کہتا ہے یا یوں کہیے کہ کچھ اشعار اس سے موزوں ہوجاتے ہیں۔ ان اشعار میں حسبِ معمول روانی ہوتی ہے، غنائیت ہوتی ہے لیکن اسے علم ہوجاتا ہے کہ ان اشعار کا وزن کسی معلوم و معروف بحر پر منطبق نہیں ہورہا بلکہ یہ ایک نیا وزن ہے۔ اب وہ یہاں اپنے عروضی علم کا سہارا لیکر اس شعر کو کسی قریب ترین بحر اور اس کے زحافات پر منطبق کرتا ہے ۔ اور یوں ایک نیا وزن "ایجاد" ہوجاتا ہے۔ اب دو صورتیں ہیں ۔ یا تو وہ نیا وزن کسی قریب ترین بحر پر کسی جائز زحاف کی مدد سے تخریج ہوجائے گا یا نہیں ہوگا۔ لیکن اچھی بات یہ ہے کہ موجودہ عروضی نظام اس درجہ وسیع اور لچکدار ہے کہ عموماً کوئی بھی نیا وزن اس کے دائرۂ کار سے باہر نہیں پڑتا ۔ آپ کسی بھی نئے وزن کو عموماً عروضی اصولوں کی مدد سے بیان کرسکتے ہیں ۔ اس سلسلے میں مزید تفصیلات کے لئے میری ایک غزل پر چند سال پہلے ہونے والی یہ عروضی گفتگو دیکھ لیجیے:
https://www.urduweb.org/mehfil/threads/دو-دل-جلے-باہم-جلے-تو-روشنی-ہوئی.94505/
اس سارے معاملے میں یاد رکھنے کی جو بات ہے وہ یہ ہے کہ اس نئے وزن میں شعر گوئی کا تخلیقی عمل اُس تخلیقی عمل سے قطعی مختلف نہیں ہوتا جو کسی مستعمل بحر میں شعر گوئی کرتے ہوئے واقع ہوتا ہے۔ شعری عمل کی نوعیت شاعر کے لئے تو بالکل ایک جیسی ہی ہوتی ہے۔ کسی نئے یا غیر معروف وزن میں اظہارِ خیال کرنے سے شعر کی شعریت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ وزن بذاتِ خود شعریت پیدا نہیں کرتا۔ کلامِ موزوں کو شعریت دینا تو شاعر کا کام ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ شاعر کے لئے عموماً بحر سے زیادہ قافیہ ردیف کی پابندی آڑے آتی ہے۔ اگر قدرتِ بیان ہو اور قافیہ ردیف مناسب چنے جائیں تو شاعر کسی بھی وزن میں اپنا مافی الضمیر بخوبی بیان کرسکتا ہے۔

شاہ صاحب ، یہ مراسلہ خاصا طویل ہوگیا ۔ لیکن آپ نے جو مفروضہ نکات اٹھائے تھے وہ تفصیلی جواب کے متقاضی تھے۔ امید ہے کہ کچھ بنیادی تصورات اور اصولِ تنقید آپ کے ذہن میں واضح ہوگئے ہوں گے ۔ اگر کوئی بات رہ گئی ہو تو ارشاد کیجیے گا میں حاضرِ خدمت ہوجاؤں گا ۔ :)
میں بھی ایسا ہی کوئی جواب لکھنے آیا تھا۔۔۔ لیکن پھر یاد آیا کہ مجھے اس مضمون کی الف ب سے واسطہ نہیں۔۔۔ اور آپ کا مراسلہ پڑھ کر پتا چلا کہ کیوں واسطہ نہیں۔۔۔ اللہ اللہ۔۔۔
 

یاسر شاہ

محفلین
یاسر ، ایک تو آپ کے مراسلے کا مقصد سمجھ میں نہیں آیا۔
جیسا کہ پہلے کہہ چکا ہوں
لیکن رنگ میں بھنگ ڈالنےکے لیے
اور وہ یوں کہ ایسی سازگار فضا جس میں کھل کر تبصرے کیے جا سکیں سیکھنے سکھانے کے لیے معاون و مددگار ہے ۔اوروں کو چہ خوب چہ خوب کہہ کر ان سے چہ خوب خوب سننے سے لکھاری کے اندر کا آرٹسٹ بھی مر جاتا ہے اور داد دہندگان کو بھی حاصل وصول کچھ نہیں ہوتا نتیجہ یہی ہوتا ہے کہ بے فیض غزلیں وجود میں آتی ہیں جن میں بناوٹ، تصنع اور تکلف کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔
مثالاً عرض کرتا ہوں کہ محمد وارث ، سید عاطف ، تابش صدیقی،احمد بھائی اور فہد اور دیگر حضرات کو اس غزل کے مختلف اشعار پسند آئے ہیں

اصل میں ان پیاروں کے پاس داد کے سوا کوئی چارہ نہیں اور اب تو آپ نے کوئی چارہ سوائے داد دینے کے میرے پاس بھی نہیں چھوڑا اتنا طویل پریم پتر لکھ کر۔محترمی لوگوں کو لبرٹی دیں کہ داد کے سوا بھی کچھ لکھ سکیں ،اب مشکل اردو سے دھاک بٹھانے کے زمانے گئے ، بقول آئنسٹائن
If you can’t explain it simply, you don’t understand it well enough

آپ نے غزل پیش کی ہے پاکستان کا قومی ترانہ تو پیش کیا نہیں کہ احتراماً اور اعتقادا کھڑے ہو کر آپ کے سر میں سر ملایا جائے۔
تلخی پہ معذرت کہ اردو والوں کی میر کی اس اقتدا سے سخت بیزار ہوں:
مستند ہے میرا فرمایا ہوا
سارے عالم پر ہوں میں چھایا ہوا
 

یاسر شاہ

محفلین
مرزا کلیم الدین احمد کے نزدیک شعر کی جو تعریف ہے وہ انہیں مبارک۔
جب آپ یہ لکھ چکے تو آگے اس پہ بحث ہی فضول تھی۔
البتہ یہ بتائیے کہ اُن کی اس تعریف پر اس غزل کا کون سا شعر پورا نہیں اترتا ؟! ہر شعر میں ایک تخیل یا احساس کا عنصر موجود ہےاور ظاہر ہے کہ میرے ذاتی مشاہدے اور تجربہ پر مبنی ہے

اگر آپ کی محولہ بالا رائے کو ایک مطلق معیار مان لیا جائے تو اردو کی نوے فیصد شاعری (بشمول اساتذہ) شعر کے درجے پر نہیں پہنچے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ اردو کے اکثر اچھے اشعار تخیل یا جذبات سے زیادہ فکر اور سوچ کے در وا کرتے ہیں۔ اقبال کی تو اکثر شاعری فکر انگیز ہے۔
اس کے لیے آپ کو پوچھنا چاہیے تھا کہ ذاتی اور تخیلاتی تجربے سے مرزا کلیم الدین کی کیا مراد ہے ؟لیکن آپ کی طرز ادا ہمیشہ سمجھانے والی ہوتی ہے نہ کہ سمجھنے کی۔
میں تجویز کروں گا کہ آپ شمس الرحمٰن فاروقی کا مضمون " شعر ، غیر شعر اور نثر" ایک دفعہ ضرور پڑھ لیجیے۔ میں نے ایک دو سال پہلے یہیں محفل پر پوسٹ کیا تھا۔ تلاش کرنے پر مل جائے گا ۔ ورنہ مجھے حکم دیجیے گا
آپ مضمون کی بات کر رہے ہیں ۔میں نے تو یہ کتاب ایک سے زیادہ بار پڑھ رکھی ہے اور اس کتاب پہ لکھی گئی تنقیدیں بھی پڑھی ہیں۔مگر مجھے لگتا ہے آپ نے نہیں پڑھی یہ کتاب ،آپ کو مطالعے کی ضرورت ہے ضرور پڑھیں۔ورنہ میری بات ذوق , سخن فہمی اور تنقید کے متعلق ضرور سمجھ میں آتی ۔اس کتاب میں یہ تین معیار شعر پرکھنے کے پیش کیے گئے ہیں اور واضح کیا گیا ہے کہ ضروری نہیں کہ جو شعر ذوق کو اچھا لگے وہ سخن فہمی کے لحاظ سے اچھا ہو اور نہ ہی جو شعر ذوق اور سخن فہمی کے معیار پہ پورا اترے تنقید کے معیار پہ بھی پورا اترتا ہو۔تبھی کہا تھا کہ آپ کی غزل ذوق کو بھاتی ہے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
اصل میں ان پیاروں کے پاس داد کے سوا کوئی چارہ نہیں
یہ بات درست نہیں لگتی، ان دو صفحات میں آپ کو دو مثالیں اس کے خلاف ملیں گی۔ جو اس کے بے محل ہونے کا ثبوت ہے۔
پڑھنے والوں نے اپنا اپنا تاثر پیش کیا اور صاحب غزل نے بخوشی قبول کیا اور جواب بھی دیا ۔
اب مشکل اردو سے دھاک بٹھانے کے زمانے گئے ، بقول آئنسٹائن
آئنسٹائن کا مقولہ بھی برحق لیکن یہاں سراسر بے محل ہے کیوں کہ یہاں مشکل اردو (یا مشکل گوئی) کا شائبہ تک نہیں ۔شروع سے آخر تک صاف سادہ اور شستہ زبان ہے۔
یہ بھی احباب کے مراسلوں اور تبصروں سے صاف ظاہر ہے ۔
آپ کے تبصروں میں اکثر پر مغز نکات ہوتے ہیں لیکن یہاں مجھے کوئی نکتہ ابھی تک بر محل محسوس نہ ہوا جو زیر بحث غزل کے تناظر میں ہو۔
 

یاسر شاہ

محفلین
یہ بات درست نہیں لگتی، ان دو صفحات میں آپ کو دو مثالیں اس کے خلاف ملیں گی۔ جو اس کے بے محل ہونے کا ثبوت ہے۔
پڑھنے والوں نے اپنا اپنا تاثر پیش کیا اور صاحب غزل نے بخوشی قبول کیا اور جواب بھی دیا ۔

آئنسٹائن کا مقولہ بھی برحق لیکن یہاں سراسر بے محل ہے کیوں کہ یہاں مشکل اردو (یا مشکل گوئی) کا شائبہ تک نہیں ۔شروع سے آخر تک صاف سادہ اور شستہ زبان ہے۔
یہ بھی احباب کے مراسلوں اور تبصروں سے صاف ظاہر ہے ۔
آپ کے تبصروں میں اکثر پر مغز نکات ہوتے ہیں لیکن یہاں مجھے کوئی نکتہ ابھی تک بر محل محسوس نہ ہوا جو زیر بحث غزل کے تناظر میں ہو۔
ادب یہی ہے کہ دو لوگوں کی بحث میں خوامخواہ مخل نہ ہونا چاہیے ۔ابھی بات چل رہی ہے اور ممکن ہے کسی نتیجے تک پہنچ جائے۔
 
Top