کاشفی

محفلین
غزل
(مولانا محمد علی جوہر)
تم یوں ہی سمجھنا کہ فنا میرے لئے ہے
پر غیب سے سامانِ بقا میرے لئے ہے

پیغام ملا تھا جو حسین ابن علی کو
خوش ہوں وہی پیغامِ قضا میرے لئے ہے

یہ حور بہشتی کی طرف سے ہے بلاوا
لبیک کہ مقتل کا صلا میرے لئے ہے

کیوں جان نہ دوں غم میں ترے جب کہ ابھی سے
ماتم یہ زمانہ میں بپا میرے لئے ہے

میں کھو کے تری راہ میں سب دولتِ دنیا
سمجھا کہ کچھ اس سے بھی سوا میرے لئے ہے

توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے
یہ بندہ زمانے سے خفا میرے لئے ہے

سرخی میں نہیں دست حنا بستہ بھی کچھ کم
پر شوخی خون شہدا میرے لئے ہے

راحل ہوں مسلمان بصد نعرہء تکبیر
یہ قافلہ یہ بانگ درا میرے لئے ہے

انعام کا عقبیٰ کے تو کیا پوچھنا لیکن
دنیا میں بھی ایماں کا صلا میرے لئے ہے

کیوں ایسے نبی پر نہ فدا ہوں کہ جو فرمائے
اچھے تو سبھی کے ہیں برا میرے لئے ہے

اے شافع محشر جو کرے تو نہ شفاعت
پھر کون وہاں تیرے سوا میرے لئے ہے

اللہ کے رستہ ہی میں موت آئے مسیحا
اکسیر یہی ایک دوا میرے لئے ہے

اے چارہ گرو، چارہ گری کی نہیں حاجت
یہ درد ہی داروئے شفا میرے لئے ہے

کیا ڈر ہے جو ہو ساری خدائی بھی مخالف
کافی ہے اگر ایک خدا میرے لئے ہے

جو صحبت اغیار میں اس درجہ ہو بیباک
اس شوخ کی سب شرم و حیا میرے لئے ہے

ہے ظلم ترا عام بہت پھر بھی ستم گر
مخصوص یہ اندازِ جفا میرے لئے ہے

ہیں یوں تو فدا ابر سیہ پر سب ہی مے کش
پر آج کی گھنگھور گھٹا میرے لئے ہے
 
Top