تخلیق یا ارتقاء

میرے خیال میں اس بیان کی کسی سویپنگ سٹیٹمنٹ سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں ہے۔
سائنسدان اور فلسفی ابھی تک "شعور کیا ہے" کا حتمی جواب تلاش کررہے ہیں اور آپنے ذہانت کا جو انسانی شعور سے آتی ہے کا معنی اور مقصد تک بتا دیا۔ حیرت ہے ویسے :)
آپ کا حق ہے جو چاہیں سمجھیں. میں نے اپنی بات کر دی.
 

فرقان احمد

محفلین

جاسم محمد

محفلین
انسان تو پھر بڑا زور آور جاندار ہوا کہ اس قدر خصوصیات کا مالک ہے حالانکہ جان جثے میں اور جاندار بھی اس کی ٹکر کے ہیں۔
انسان کو اشرف المخلوقات بنانے والااس کا خاص شعور اور ذہانت ہے جو دیگر حیوانات سے قدرے مختلف ہے۔ گو کہ دیگر حیوانات میں بھی ذہانت کے مختلف لیولز ہیں البتہ انسان کی ٹکر کا کوئی بھی نہیں۔
اگر فزیک یعنی جسمانی قوت کی بات کی جائے تو یہاں انسان کئی اور حیوانات سے کہیں زیادہ کمزور ہے۔ وہ جنگل بیابان صحراؤں میں کھلے عام رہ سکتے ہیں۔ انسان نہیں رہ سکتا۔
 

فرقان احمد

محفلین
انسان کو اشرف المخلوقات بنانے والااس کا خاص شعور اور ذہانت ہے جو دیگر حیوانات سے قدرے مختلف ہے۔ گو کہ دیگر حیوانات میں بھی ذہانت کے مختلف لیولز ہیں البتہ انسان کی ٹکر کا کوئی بھی نہیں۔
اگر فزیک یعنی جسمانی قوت کی بات کی جائے تو یہاں انسان کئی اور حیوانات سے کہیں زیادہ کمزور ہے۔ وہ جنگل بیابان صحراؤں میں کھلے عام رہ سکتے ہیں۔ انسان نہیں رہ سکتا۔
خاص شعور! :)
یہ تو آپ نے ہمارے دل کی بات کہہ دی۔
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
جانداروں کو صرف وہی خصوصیات چاہییں جو ان کا وجود قائم رکھنے کے لیے کافی ہوں۔
ویسے انسان کا شعور و ذہانت جہاں اس کے لئے نعمت ہے وہیں بہت زیادہ زحمت بھی ہے۔ گو کہ اس غیرمعمولی ذہانت کی بدولت انسان نے پچھلے لاکھ دو سالوں میں پوری دنیا مسخر کر لی۔ تمام حیوانات کو پچھاڑ دیا۔ قوانین قدرت کو اپنا غلام تک بنا لیا۔ مگر خود انسان نے دوسرے انسانوں کے ساتھ کیا کیا؟ جنگیں، خونریزی، قتال، مظالم وغیرہ۔
دیگر انواع اپنی شعور پستی اور کم ذہانت کی وجہ سے ان مسائل سے آزاد رہتے ہوئے پھلتی پھولتے رہیں۔ جبکہ حضرت انسان پوری دنیا اپنے زیر سایہ کرنے کے چکر میں اپنے ساتھ ساتھ زمین کے ایکو سسٹم کو تباہ کرنے پرتلے ہیں۔ ایسی ذہانت کا انسان کے وجود کو کیا فائدہ ہوا؟ جس کا نقصان زیادہ فائدہ کم ہے۔
 

جاسمن

لائبریرین
ماشاءاللہ گفتگو بہت سبھاؤ سے چل رہی ہے اور ہمیں دوطرفہ معلومات حاصل ہورہی ہیں۔:)
اب گفتگو کا سلیقہ دیکھ کے لگتا ہے کہ "پڑھے لکھے" لوگ شامل ہیں۔
محفل میں کچھ عرصہ گزار کر اتنا ارتقاء تو آنا ہی چاہیے۔:D
 

عرفان سعید

محفلین
ماشاءاللہ گفتگو بہت سبھاؤ سے چل رہی ہے اور ہمیں دوطرفہ معلومات حاصل ہورہی ہیں۔:)
اب گفتگو کا سلیقہ دیکھ کے لگتا ہے کہ "پڑھے لکھے" لوگ شامل ہیں۔
محفل میں کچھ عرصہ گزار کر اتنا ارتقاء تو آنا ہی چاہیے۔:D
ماشاءاللہ! گفتگو ایسے چل رہی ہو تو کتنا لطف دیتی ہے!
کسی کی رائے اپنے نقطہ نظر سےمخالف ہی کیوں نہ ہو، قرینے اور سلیقے سے بیان کی جائے، تو خواہ مخواہ سننے کو اور بار بار پڑھنے کو دل چاہتا ہے۔
 
آخری تدوین:

عرفان سعید

محفلین
دل چاہتا ہے کہ "بغیر لڑائی بھڑائی" کے یہ دھاگہ بیس پچیس صفحے اور آگے جائے۔ :)
جب سے میں نے یہ لڑی ڈھونڈ کر نکال پیش کی ہے، میں مسلسل اس پر نظر رکھے ہوئے ہوں۔
جہاں گفتگو علمیت کے دائرے سے نکلے گی، بھرپور اخلاقی مداخلت کروں گا۔

ویسے بھی جب سے آپ نے "معطلی" کی تنبیہ کی ہے، میں کچھ سہم سا گیا ہوں!
 

ابوعبید

محفلین
ویسے انسان کا شعور و ذہانت جہاں اس کے لئے نعمت ہے وہیں بہت زیادہ زحمت بھی ہے۔ گو کہ اس غیرمعمولی ذہانت کی بدولت انسان نے پچھلے لاکھ دو سالوں میں پوری دنیا مسخر کر لی۔ تمام حیوانات کو پچھاڑ دیا۔ قوانین قدرت کو اپنا غلام تک بنا لیا۔ مگر خود انسان نے دوسرے انسانوں کے ساتھ کیا کیا؟ جنگیں، خونریزی، قتال، مظالم وغیرہ۔
دیگر انواع اپنی شعور پستی اور کم ذہانت کی وجہ سے ان مسائل سے آزاد رہتے ہوئے پھلتی پھولتے رہیں۔ جبکہ حضرت انسان پوری دنیا اپنے زیر سایہ کرنے کے چکر میں اپنے ساتھ ساتھ زمین کے ایکو سسٹم کو تباہ کرنے پرتلے ہیں۔ ایسی ذہانت کا انسان کے وجود کو کیا فائدہ ہوا؟ جس کا نقصان زیادہ فائدہ کم ہے۔
آدھے بھرے اور آدھے خالی گلاس والی بات کر رہے ہیں آپ ۔
جو شعور اللہ نے انسان کو ودیعت کیا ہے اس کے مثبت استعمال کی سینکڑوں ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں مثالیں موجود ہیں لیکن جب ذہنی طور پہ پست اور معذور لوگوں کے ہاتھوں میں قوت اور اختیار آ جائے تو وہ دنیا کا امن و سکون تباہ کرنے اور اسےجہنم بنانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔
وجہ ذہانت نہیں ہے بلکہ قوت و اختیار رکھتے ہوئے اس کے غلط استعمال کی ہے ۔مثالیں دینے سے بات موضوع سے ہٹ جائے گی۔
 

La Alma

لائبریرین
انسان کی ذہانت کا صرف یہ فائدہ ہے کہ وہ کسی طرح اس کے وجود کو قائم رکھنے میں معاون ہے۔ اس کے سوا اس کا کوئی اور معنی اور مقصد نہیں
ایک بات تو بتائیے اگر ذہانت کا واحد مقصد وجود کو قائم رکھنا ہے تو کیا انسانی بقا کے لیے علمِ عروض سیکھنا ضروری ہے۔ :)
 

La Alma

لائبریرین
حضرت انسان پوری دنیا اپنے زیر سایہ کرنے کے چکر میں اپنے ساتھ ساتھ زمین کے ایکو سسٹم کو تباہ کرنے پرتلے ہیں۔ ایسی ذہانت کا انسان کے وجود کو کیا فائدہ ہوا؟ جس کا نقصان زیادہ فائدہ کم ہے۔
بے فکر رہیے! ارتقاء کا سفر انسان تک پہنچ کر رک تو نہیں گیا۔ ان ماحولیاتی تبدیلیوں، گرین ہاؤس افیکٹ، جنگوں کی تباہ کاریاں ، تابکاری کے اثرات وغیرہ سے نسلِ انسانی کی بقا کو کوئی خطرہ نہیں۔ اگر ماضی میں Hominidae فیملی کا ایک گروپ، نسبتًا بہت کم ذہنی استعداد رکھنے کے باوجود Natural Selection کے ذریعے انسان میں تبدیل ہو سکتا ہے۔ تو آج کا جدید انسان جس کے پاس ذہین ترین دماغ، self consciousness, اور Free will موجود ہے، نیچر اس کا انتخاب کیونکر نہیں کرے گی۔ مستقبل میں ہم زمین پر super humans کی توقع رکھ سکتے ہیں۔
 

عرفان سعید

محفلین
ایک بات تو بتائیے اگر ذہانت کا واحد مقصد وجود کو قائم رکھنا ہے تو کیا انسانی بقا کے لیے علمِ عروض سیکھنا ضروری ہے۔ :)
جس انسان نے علمِ عروض جیسی معجون بنا ڈالی اسے دیکھ کر تو مجھے نظریۂ ارتقا سچا دکھائی دینا شروع ہو گیا ہے۔ :):):)
 

سید عاطف علی

لائبریرین
مولانا رومی کی مشہور و معروف مثنوی کے کچھ منتخب اشعار دیکھیئے۔
آمده اول بہ اقلیم جماد
وز جمادے در نباتاتے فتاد
سالہا اندر نباتے عمر کرد
وز نباتے چون بہ حیوانے فتاد
نامدش حال نباتے ہیچ یاد
وز جمادے یاد ناورد از نبرد
باز از حیواں سوے انسانیش
می‌کشید آں خالقے کہ دانیش
اس طرح ڈارون کا نام ارتقاء کے ساتھ ایسے وابستہ ہوا جیسے کوئی اور ہے ہی نہیں ۔ البتہ اس نے چڑیوں کی چونچ کچھووں کے خول اور اسطرح کے دوسرے بہت سے قابل قدر مشاہدات کو سائنسی بینادوں اور طریقوں پر اکٹھا کیا ۔ اور یہ سوچا کہ خدا کو کیا ضرورت تھی کہ ہر ایک سپیشی کو الگ الگ پیدا کرے ۔ اور پھر خدا کا یکسر انکار کر دیا (یاد رہے کہ اس کا خدا کا تصور اس سے قبل وہی تھا جو کلیساؤں میں مروجہ الجھنوں پر مبنی تھا ) ۔ بقول سر ڈیوڈاٹینبرو اس کے بقیہ زندگی کے سال اسی نظریے کی تائید کےلیے شواہد ڈھونڈنے میں صرف ہوئے ۔
اس طرح ڈارون نے کوئی نئی بات نہیں کی۔ یہ تصورات بھی پہلے سے موجود تھے اور خدا کا انکار بھی نیا نہیں تھا ۔لیکن سائنس کو خدا کے تصور کے انکار کے لیے استعمال ہونے کے امکانات اس کی انسانیت کے لیے "عظیم " خدمت تھے ۔
یہ بات کہ جاندار تبدیل ہوتے ہیں اور آپس میں ریلیٹڈ ہیں تو کئی ہزار سال پرانی ہے۔ یونانیوں میں بھی ارسطو سے پہلے مشہور تھی۔ ابن خلدون کا بھی یہی خیال تھا۔

اس کے طریقہ کار کے متعلق بھی کافی سوچ بچار ہوتی رہی۔ مثلاً لمارک وغیرہ۔
"یہ چیز مرے عزیز "
 
Top