فارسی شاعری تجھ پہ مری نظر پڑے (گر بہ تو افتدم نظر، چہرہ بہ چہرہ رو بہ رو)۔۔۔ قرۃ العین طاہرہ

نوید صادق

محفلین
غزل
تجھ پہ مری نظر پڑے، چہرہ بہ چہرہ، رو بہ رو
میں ترا غم بیاں کروں، نکتہ بہ نکتہ، مو بہ مو

میں تری دید کے لئے مثلِ صبا رواں دواں
خانہ بہ خانہ، دربہ در، کوچہ بہ کوچہ، کو بہ کو

ہجر میں تیرے خونِ دل آنکھ سے ہے مری رواں
دجلہ بہ دجلہ، یم بہ یم، چشمہ بہ چشمہ، جو بہ جو

یہ تری تنگئی دہن، یہ خطِ روئے عنبریں
غنچہ بہ غنچہ، گل بہ گل، لالہ بہ لالہ، بو بہ بو

ابرو و چشم و خال نے صید کیا ہے مرغِ دل
طبع بہ طبع، دل بہ دل، مہر بہ مہر، خو بہ خو

تیرے ہی لطفِ خاص نے کر دئے جان و دل بہم
رشتہ بہ رشتہ، نخ بہ نخ، تار بہ تار، پو بہ پو

قلب میں طاہرہ کے اب کچھ بھی نہیں ترے سوا
صفحہ بہ صفحہ، لا بہ لا، پردہ بہ پردہ، تو بہ تو

(قرۃ العین طاہرہ)

ترجمہ: تابش دہلوی
 

مغزل

محفلین
واہ جناب واہ ۔۔۔ کیابات ہے ۔۔
ایک مدت سے تلاش کررہا تھا۔۔ یہ کلام۔۔ دل خوش کردیا جناب نے۔
سدا خوش رہئیے جناب۔
 

محمد وارث

لائبریرین
شکریہ نوید صاحب شیئر کرنے کیلیئے، کیا لاجواب غزل ہے۔

میرے پاس قرۃ العین طاہرہ بابیہ کی فارسی غزل بھی موجود ہے (علامہ نے جاوید نامہ میں بھی اس غزل کے کچھ شعر لکھے ہیں)، انشاءاللہ کسی دن پیش کرونگا۔
 

ابوشامل

محفلین
نوید صادق صاحب بہت خوب شیئرنگ ہے۔
دیگر احباب مجھے قرۃ العین طاہرہ کے بارے میں کچھ معلومات درکار ہیں۔
 

ابوشامل

محفلین
یہ محترمہ ایرانی تھی، اور بہائی مذہب کے حوالے سے کوئی تاریخ ہے ان کی۔ اپنے ماموں (عبید اللہ کیہر) کا سفرنامۂ ایران کسی زمانے میں پڑھا تھا جہاں انہوں نے قزوین کے حوالے سے جو معلومات تحریر کی تھی اس میں بھی محترمہ کا ذکر تھا، اب یاد نہیں۔ اس لیے سوچا کہ ساتھیوں سے پوچھ لیا جائے۔
 

ارشد خان

محفلین
قرۃ ا لعین طاہرہ


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک غزل

تجھ پہ میری نظر پڑے ، چہرہ بہ چہرہ ، رُو بہ رُو
میں تیرا غم بیاں کروں ، نکتہ بہ نکتہ ، مو بہ مو

میں تیری دید کے لئے مثل ِ صبا رواں رواں
خانہ بہ خانہ ، در بہ در ، کوچہ بہ کوچہ ، کُو بہ کو

ہجر میں تیرے خوں ِ دل آنکھ سے ہے میری رواں
د جلہ بہ د جلہ ، یم بہ یم ، چشمہ بہ چشمہ ، جو بہ جو

یہ تیری تنگئی د ہن ، یہ خط ِ روئے عنبریں
غنچہ بہ غنچہ ، گُل بہ گل ، لالہ بہ لالہ ، بو بہ بو

ابرو و چشم و خا ل نے صید کیا ہے مرغ ِ دل
طبع بہ طبع ، دل بہ دل ، مہر بہ مہر ، خو بہ خو

تیرے ہی لطف ِ خاص نے کر دئے جاں و دل بہم
رشتہ بہ رشتہ ، نخ بہ نخ ، تار بہ تار ، پو بہ پو

قلب میں طا ہرہ کے اب کچھ بھی نہیں تیرے سوا
صفحہ بہ صفحہ ، لا بہ لا ، پردہ بہ پر د ہ ، تو بہ تو

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ تین چار سو سا ل پہلے کی شاعرہ ہیں اور فارسی زبان کی

 

مغزل

محفلین
فاتح صاحب نوید صادق صاحب یہ غزل یہاں پہلے پیش کی تھی۔ ( مدیران اسے اول الذکر سے جوڑ دیں۔)
اصل کلام فارسی میں ہے جبکہ ترجمہ: تابش دہلوی نے کیا ہے :

ابو شامل کی اس بات سے مجھے اتفاق ہے کہ میرا مطالعہ بھی یہی ہے ۔۔
یہ محترمہ ایرانی تھی، اور بہائی مذہب کے حوالے سے کوئی تاریخ ہے ان کی۔ اپنے ماموں (عبید اللہ کیہر) کا سفرنامۂ ایران کسی زمانے میں پڑھا تھا جہاں انہوں نے قزوین کے حوالے سے جو معلومات تحریر کی تھی اس میں بھی محترمہ کا ذکر تھا، اب یاد نہیں۔ اس لیے سوچا کہ ساتھیوں سے پوچھ لیا جائے۔

طاہرہ کی شناخت قصائد اورمرثیہ ہے ، جس میں صنعتِ‌تلمیع او ر ملمع رہی ، وارث بھائی نے جاوید نامہ کا ذکر کیا ہے امید ہے وہ بھی کرم فرمائیں گے۔ فیصل آباد میں میرے ایک دوست شاعر علی زریون ہیں جنہوں نے طاہرہ کو پڑھ رکھا ہے ان سے رابطہ کر کے دیگر معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں کہ ملاقات پر سب سے پہلے انہوں نے ہی مجھے طاہرہ بابیہ کا کلام سنا یا تھا۔

طاہرہ کے بہائی ہونے کی تصدیق اس مراسلے سے لگائی جاسکتی ہے : ( یہ متن بہائی مذہب کے پیروکاروں کی ویب سائٹ سے لیا گیا ہے ) کتاب کراچی میں دستیاب ہے:
کراچی میں ہندو برماکے بہآئیوں کا نوّاں اور دسواں کانونشن ۱۹۳۷ء اور ۱۹۳۸ء میں ہوا۔ قرۃ العین طاہرہ پر تحقیقی کتاب ''طاہرہ دی پیور ''شائع کی۔

کراچی میں ہندو برماکے بہآئیوں کا نوّاں اور دسواں کانونشن ۱۹۳۷ء اور ۱۹۳۸ء میں ہوا۔ اس میں امریکن خاتون محترمہ مارتھاروٹ تشریف لائیں۔ آپ نے یہاں تین ماہ تک قیام کیا۔اور قرۃ العین طاہرہ پر اپنی تحقیقی کتاب ''طاہرہ دی پیور ''شائع کی۔ انہوں نے پنجاب، جموں اور کشمیر کا سفر بھی کیا۔ کتاب ''بہآءاللہ و عصر جدید'' کا اردو اور گجراتی ترجمہ ۱۹۳۷ء میں شائع ہوا
 

مغزل

محفلین
بہائی :
بہاء اللّٰہ (متوفی 1892ء ملقب بہ من یظہر اللّٰہ) سے منسوب، بہاء اللّٰہ کے مذہب کا پیرو۔
معروف مصنفہ قرۃ العین حیدر بھی اسی عقیدے کی تھیں۔

بابیہ کی صحت اور سند:
1- - ارور کی فتح کے بعد محمد بن قاسم نے ملتان کی طرف پیش قدمی کی راستے میں قلعہ بابیہ تھا ۔ جن پر راجہ داہر کا بھتیجا کسکا حکمران تھا۔ ( وکیپیڈیا)

2- - فرقہ شیخیہ کے بانی شیخ احمد احسایی کے جانشین سید کاظم رشتی کی وفات کے بعد ،اس فرقہ کی قیادت کے بارے میں اس کے دو شاگردوں میں اختلاف پیدا ہوا –سنه ۱۲۵۹ ھ ق کو سید کاظم کا مشہور شاگرد سید علی محمد مرزا شیرازی ،مکہ کے سفر کے بعد بوشہر کی بندرگاہ چلا گیا اور وہاں پر اپنے آپ کو ٫٫رکن باب٬٬ یعنی امام زمانہ کا نائب کہلوانا شروع کردیا اور اس کے پیروکار بابیہ کے نام سے معروف ہوگئے- تھوڑے ہی عرصہ بعد سید علی محمد نے دعوی کیا کہ وہ نقطہ اعلی یا نقطہ بیان ہے. اور پھر اس نے قائم آل محمدۖ ہونے کا دعوی کر ڈالا اور کتاب البیان تحریر کی –اس کے بعد اس نے بطور آشکار اپنی طرف دعوت دینا شروع کر دی جس کے نتیجه میں اس کے پیروکاروں کی تعداد بہت زیادہ ہوگئ. یہاں تک کہ کئ مرتبہ انہوں نے حکومت قشون کے ساتھ جنگ کی اور کئ کامیابیاں بھی حاصل کیں –آخر کار سید علی محمد کو جیل بھیج دیا گیا اور کئ لڑاﺋیوں کے بعد،تبریز کے علماء نے اسے پھانسی کا حکم سنا دیا –آخر کار ماہ شعبان سنه ۱۲۶۶ ھ ق کو مرزا علی محمد شیرازی کو تبریز لے جایا گیا اور امیر کبیر کے حکم سے اسے پھانسی پر لٹکا دیا گیا ۔ ( مبلغ ڈاٹ نیٹ )

3 - - بہائی فرقہ مرزا محمد علی شیرازی کی طرف منسوب ہے‘ محمد علی ۱۸۲۰ء میں ایران میں پیدا ہوا‘ اثنا عشری فرقے سے تعلق رکھتا تھا‘ اسی نے اسماعیلی مذہب کی بنیاد ڈالی‘ محمد علی نے بہت سے دعوے کئے‘ ایک دعوی یہ کیا کہ وہ امام منتظر کے لئے ”باب“ یعنی دروازہ ہے‘ اسی واسطے اس فرقے کو فرقہ بابیہ بھی کہا جاتا ہے۔ بہائیہ کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اس کے ایک وزیر ”بہاء اللہ‘ کا سلسلہ آگے چلا‘ دوسرے وزیر ”صبح الاول“ کا سلسلہ نہ چل سکا۔ محمد علی کے دعوؤں میں سے ایک دعویٰ یہ تھا کہ: وہ خود مہدی منتظر ہے‘ وہ اس بات کا بھی مدعی تھا کہ اللہ تعالیٰ اس کے اندر حلول کئے ہوئے ہے اور اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی مخلوق کے لئے ظاہر کیا ہے۔ وہ قرب قیامت میں نزول عیسی علیہ السلام کی طرح ظہور موسیٰ علیہ السلام کا بھی قائل تھا۔دنیا میں اس کے علاوہ کوئی بھی نزول موسیٰ علیہ السلام کا قائل نہیں ہے‘ وہ اپنے بارے میں اس بات کا بھی مدعی تھا کہ وہ ”اولو العزم من الرسل“ کا مثل حقیقی ہے‘ یعنی حضرت نوح علیہ السلام کے زمانے میں وہی نوح تھا‘ موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں وہی موسیٰ تھا‘ عیسی علیہ السلام کے زمانے میں وہی عیسی تھا اور حضور اکرم اکے زمانے میں وہی محمد تھا۔ (معاذ اللہ) اس کا ایک دعویٰ یہ تھا کہ اسلام ‘ عیسائیت اور یہودیت میں کوئی فرق نہیں ہے‘ وہ حضور اکرم ا کی ختم نبوت کا بھی منکر تھا‘ اس نے ”البیان“ نامی ایک کتاب لکھی‘ جس کے بارے میں اس کا کہنا تھا کہ یہ کتاب میری طرف بھیجی جانے والی وحی الٰہی پر مشتمل ہے‘ اس نے تمام محرمات شرعیہ کو جائز قرار دیا اور کتاب وسنت سے ثابت اکثر احکام شرعیہ کا انکار کیا‘ اسلام کے برخلاف ایک جدید اسلام پیش کرنے کا دعوی کیا‘ انہی تمام باطل دعوؤں پر اس کا خاتمہ ہوا‘ اس کے بعد اس کا بیٹا عباس المعروف عبد البہاء اس کا خلیفہ مقرر ہوا ۔ یہ فرقہ بھی اپنے باطل اور کفریہ نظریات کی بناء پر دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ ( اہلِ حق ڈاٹ کام )
 

مغزل

محفلین
قرۃ العین طاہرہ کے والد:
پیدائش: 1820ء ------------ انتقال: 1850ء
سید علی محمد باب ------------- باب جس سے بابیہ ہے
بابی یا بہائی مذہب کا بانی۔ اس کاباپ محمد رضا ، شیراز کا تاجر تھا۔ سید علی محمد حصول تعلیم کے لیے کربلا گیا اور پھر شیراز واپس آکر چوبیس سال کی عمر میں (باب خدا تک پہنچنے کا دروازہ) ہونے کا دعوی کی۔ اصفہان کا گورنر منوچہراس کا پیرو بن گیا۔ مرزا یحٰیی نوری جو بعد میں (صبح ازل) کہلایا۔ مرزا حسین علی نوری جو بہاد اللہ کے نام سے مشہور ہوا اور ملا برکاتی کی حسین و جمیل لڑکی زرین تاج جو قرۃ العین طاہرہ کہلائی ۔ اس مذہب کے پرجوش مبلغ تھے۔ علما نے باب کی زبردست مخالفت کی اور اسے کافر قرار دیا ۔بادشاہ ناصر الدین قاچار نے کے حکم سے بالاخر تبریز کے چوراہے پر اسے گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا اور لاش شہر سے باہر پھینک دی گئی۔ اس کے پیرؤوں کا اعتقاد ہے کہ اس کے مریدوں نے اس کی لاش کہیں چھپا دی اور پچاس سال بعد عبدالہبا کے عہد میں فلسطین لے جا کر کوہ کرمل پر دفن کی۔ بہائی اسے مقام اعلیٰ کہتے ہیں۔ باب نے دو کتابیں (بیان) اور دلائل السبعہ تحریر کی تھیں۔ جن سے اس کے مذہبی عقائد کا مجملاً پتا چلتا ہے۔

از : وکیپیڈیا

ابو شامل صاحب۔ میں نے یہ تمام مندرجات وکیپیڈیا میں شامل کردیے ہیں ۔قرۃ العین طاہرہ کے نام سے ۔ان کی املا انشا ء کی درستگی کے بعد محفوظ کرلیں۔
 

مغزل

محفلین
عقائد اور مذہب کا اطلاق اس طرح نہیں ہوتا بھیا میرے پاس سکھ اور ہندو شعراء کا نعتیہ کلام موجود ہے ۔۔ تو کیا میں ان کے کلام کو رد کردوں گا؟؟
نہیں /۔/۔ بلکہ میں نے تو کئی ایک موضوعات انہیں ’’ غیر مسلم ‘‘ شعرا سے لیے ہیں ۔۔ آپ اس طرح نہ سوچیں ۔ میرے مراسلات قرۃ العین کے حوالے
سے معلوم اکھٹا کرنے سےعبارت ہیں خصومت و عناد سے نہیں ۔ امید ہے آپ میری وضاحت قبول کیجیے گا۔
والسلام
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
نذرِ قرۃ العین طاہرہ
تجھ پہ اگر نظر پڑے تُو جو کبھی ہو رُو برو​
دل کے معاملے کروں تجھ سے بیان دو بدو​
ہے تیرے غم میں جانِ جاں آنکھوں سے خونِ دل رواں​
دجلہ بہ دجلہ یم بہ یم چشمہ بہ چشمہ جُو بہ جُو​
قوسِ لب و خُمِ دَہن، پہ دو زلفِ پُر شکن​
غنچہ بہ غنچہ گُل بہ گُل لالہ بہ لالہ بو بہ بو​
دامِ خیالِ یار کے ایسے اسیر ہم ہوئے​
طبع بہ طبع دل بہ دل مہر بہ مہر خو بہ خو​
ہم نے لباس درد کا قالبِ جاں پہ سی لیا​
رشتہ بہ رشتہ نخ بہ نخ تار بہ تار پو بہ پو​
نقش کتابِ دل پہ تھا ثبت اُسی کا طاہرہؔ​
صفحہ بہ صفحہ لا بہ لا پردہ بہ پردہ تو بہ تو​
شیشۂ ریختہ میں دیکھ لعبتِ فارسی فرازؔ​
خال بہ خال خد بہ خد نکتہ بہ نکتہ ہو بہ ہو​
(احمد فراز)​
(اے عشق جنوں پیشہ، ص106)​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
اس غزل کے حوالے سے میری کچھ سوالات
  • کیا اس نظم میں "بندشیں" موجود ہیں اگر ہیں تو کیسی ہیں؟
  • اس نظم کی تشریح کردے کوئی اللہ کا بندہ میری تو سر کے اور سے ہی گزر گئی ہے آدھی نظم۔
  • "قرۃ العین طاہرہ" کون ہے؟
 
Top