پندرہویں سالگرہ برصغیر کی معدوم ہوتی اشیاء

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ظہیر بھائی ۔ ناند کبھی نہیں سنا یہ مذکر ہے یا مؤنث ؟
غالبا ََیہ ناند ہی ہمارے گھرمیں بھی تھی ہم اس میں سے پانی پیا کرتے تھے اس کے نیچے کی جانب ہم نے ٹونٹی لگا رکھی تھی ۔ ہم اس کو نادی کہتے تھے ۔کافی بڑے حجم کی ہوتی تھی جیسے کوئی تین چار بڑے مٹکے آجاتے ہوں گے اس میں۔ شاید یہ ناندی کی متغیر شکل ہو گی ۔
عاطف بھائی ، درست کہا ۔ ناندی یا نادی اس ناند کی متغیر شکل ہے ۔ اسے اتفاق ہی کہئے کہ لفظ ناند آپ کی سماعت و بصارت سے نہیں گزرا ورنہ یہ تو بہت عام لفظ ہے ۔ بلکہ بقول مشتاق احمد یوسفی راجھستان میں اس کا استعمال عام تھا ۔ غالب کا ایک قصیدہ ہے ، دیکھئے:
ہے چار شنبہ آخرِ ماہِ صفر چلو
رکھ دیں چمن میں بھر کے مئے مشکبو کی ناند
جو آئے جام بھر کے پیے اور ہو کے مست
سبزے کو روندتا پھرے پھولوں کو جائے پھاند
غالبؔ یہ کیا بیاں ہے بجز مدح بادشاہ
بھاتی نہیں ہے اب مجھے کوئی نوشت خواند
بٹتے ہیں سونے روپے کے چھلے حضور میں
ہے جن کے آگے سیم و زر مہر و ماہ ماند
یوں سمجھیے کہ بیچ سے خالی کیے ہوئے
لاکھوں ہی آفتاب ہیں اور بے شمار چاند
 

سید عاطف علی

لائبریرین
غالب کا ایک قصیدہ ہے ، دیکھئے:
آہا !!! کیا بات ہے ۔ ہمارے والد و والدہ راجھستان ہی سے سندھ میں وارد ہوئے تھے ۔ کیا خبر وہی نادی ساتھ لائے ہوں ۔ :)
جے پور کا جو ذکر ہوا اس میں اےظہیر !
"اک تیر میرے سینے پہ مارا کہ ہائے ہائے"
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
آہا !!! کیا بات ہے ۔ ہمارے والد و والدہ راجھستان ہی سے سندھ میں وارد ہوئے تھے ۔ کیا خبر وہی نادی ساتھ لائے ہوں ۔ :)
جے پور کا جو ذکر ہوا اس میں اےظہیر !
"اک تیر میرے سینے پہ مارا کہ ہائے ہائے"
مجھے اس بات کا علم تھا اسی لئے مشتاق یوسفی کا حوالہ دیا ۔ وہ بھی آپ کے گرائیں تھے ۔ غالب کا حوالہ بھی اسی لئے دیا کہ آپ کے والدِ محترم اسی استادی شاگردی سلسلے سے تھے ۔
سائیں ، بات تو پکی کرنا چاہئے نا ۔ :D
 

سید عمران

محفلین
گز بھر، زیادہ لمبا کر دیا آپ نے۔ ہمارے گھر میں المییونیم کی قریب ڈیڑھ فیٹ لمبی پھونکنی ہے سردیوں میں الاؤ جلانے میں اب بھی کام آتی ہے۔
20200722-084040.jpg
گز کے ساتھ قریباً بھی لگا دیا تھا تاکہ حسبِ خواہش چھوٹا بڑا کیا جاسکے!!!
:):):)
 

سید عمران

محفلین
اڈا شاملِ فہرست نہیں ہوا ابھی تک!
ہماری والدہ نے کافی استعمال کیا ہے سلمے دبکے کے کام کے لئے :)
ابھی بھی اس کی باقیات شاید کہیں پڑی ہوں گی اسٹور یا ممٹی میں۔
اڈہ اب گھروں میں تو شاید ہی کہیں ہو، لیکن پروفیشنلی خوب استعمال ہوتا ہے!!!
 

لاريب اخلاص

لائبریرین
خطوط کی شکل دیکھے ایک لمبا عرصہ ہو گیا ہے
116968643-moers-germany-september-22-2018-air-mail-letter-from-pakistan.jpg
ہمارے ہاں ابھی خط پرانے نہیں ہوئے:)
پچھلے سال سیہلی کو خط لکھا سہیلی ہی کی فرمائش پہ وہ بھی سات سمندر پار:)
پھر سرحد پار انڈیا ریڈیو پروگرام
(مٹی دی خوشبو) میں خط لکھا۔ جسے آن ائیر پڑھا گیا اپنے وطن کا نام سن کے اچھا لگا۔
پھر ریڈیو پاکستان لاہور بھی خطوط لکھے:)
 

الشفاء

لائبریرین
اب ان الفاظ میں ڑ کا تلفظ کہاں سے آیا، اسے تلاشنا پڑے گا۔

لفظ پڑسانگ پشتو میں بھی استعمال ہوتا ہے

اوبہ کے علاوہ پانڑی بھی کہتے ہیں۔

سندھی میں پانی کو "پاٹی" لکھتے ہیں اور پڑھتے ہیں "پاڑِیں"
اس سے تو ظاہر ہوتا ہے کہ ڑ کا یہ استعمال پنجابی ، سندھی اور پشتو میں مشترکہ ہے۔۔۔
 

سید عمران

محفلین
چکی۔۔۔
اناج بالخصوص گندم کو پیس کر آٹا بنانے کے کام آتی ہے۔۔۔
ایک دوسرے کے اوپر رکھے پتھر کے دو بھاری پاٹوں پر مشتمل، اوپر والے پاٹ پر لکڑی کا دستہ جسے پکڑ کر چکی چلائی جاتی ہے۔۔۔
یہ محاورہ چکی چلانے کے بعد ہی مستعمل ہوا ہے کہ چکی کے دو پاٹوں کے درمیان پِسنا۔۔۔
چکی کا بھاری پتھر چلانے سے بازو مضبوط ہوتے ہیں اور پیٹ کی چربی ختم ہوتی ہے۔۔۔
تاہم ہاتھوں پر چھالے پڑ جاتے ہیں۔۔۔
جیسے حضرت فاطمہ کے چھالے مشہور ہیں۔۔۔
پُر مشقت کام ہونے کی بِنا پر جیلوں میں مجرموں سے بطور سزا چلوائی جاتی ہے۔۔۔
اگر چکی ایجاد نہ ہوتی تو حسرت موہانی کو جیل میں نہ چلانی پڑتی۔۔۔
پھر ان کا مشہورِ زمانہ شعر بھی معرض وجود میں نہ آتا۔۔۔
ہے مشق سخن جاری چکی کی مشقت بھی
اک طرفہ تماشا ہے حسرتؔ کی طبیعت بھی
یہ چکی کا ہم پر ایک اور احسان ہے۔۔۔
آج کل موٹر لگا کر تجارتی بنیادوں پر چلائی جاتی ہے۔۔۔
پیارے بچو، یہ جو تمہاری امی کہتی ہیں کہ جاکر چکی کا آٹا لے آؤ تو وہاں یہی موٹر والی چکی لگی ہوتی ہے!!!

image.jpg
 

سید عمران

محفلین
حقہ۔۔۔
ایک قدیم نشہ۔۔۔
حُقّہ کے اوپر چِلم رکھتے ہیں، چلم میں آگ، سب سے نیچے والے حصے میں پانی، حقہ کے ساتھ جو پائپ نما شے ہوتی ہے اسے نَے کہتے ہیں۔۔۔
ہمارے نانا کے یہاں حقہ تھا۔۔۔
وہ بڑے اہتمام سے گاڑی کی ڈگی میں سیروں کے حساب سے اُپلے بھر کر لاتے، انہیں اسٹور کرنے کے لیے گھر میں باقاعدہ جگہ بنائی گئی تھی۔۔۔
روزانہ کی بنیاد پر اپلے کے ٹکڑے چولہے پر سلگاتے۔۔۔
یہ چولہا گھر کے باہر ایک مخصوص جگہ پر بنایا گیا تھا۔۔۔
پھر چلم پر پہلے سلگتے ہوئے اُپلے رکھتے اس پر تمباکو۔۔۔
حقہ کے نچلے حصہ میں پانی بھرتے۔۔۔
گاہے چلم کے سوراخ پر موزوں پتھر کا ٹکڑا بھی رکھا جاتا تھا۔۔۔
اپلے لانا، تمباکو لانا، اپلے سلگانا، حقہ میں پانی بھرنا، اچھا خاصا گھڑاگ تھا۔۔۔
ہم نے بھی بچپن میں ٹھنڈے حقہ میں اندر باہر کرکے خوب پھونکیں ماریں۔۔۔
اندر کرکے پھونک مارتے تو حقہ کے نچلے حصہ میں موجود پانی گڑگڑ کرتا۔۔۔
باہر زیادہ ہوا کھینچتے تو پانی باہر آنے لگتا۔۔۔
ہمیں فارغ وقت میں یہ کھیل بہت پسند تھا۔۔۔
ایک مرتبہ گرما گرم تازہ بہ تازہ حقہ پی لیا۔۔۔
پھر جو کھانسی اٹھی تو آنکھیں سرخ ہوکر پانی بہانے لگیں!!!

image.jpg
 
آخری تدوین:
Top