پندرہویں سالگرہ برصغیر کی معدوم ہوتی اشیاء

سیما علی

لائبریرین
پ
خطوط کی شکل دیکھے ایک لمبا عرصہ ہو گیا ہے
116968643-moers-germany-september-22-2018-air-mail-letter-from-pakistan.jpg
میری بیٹی نے شاید سات سال کی عمر میں میری سہیلی کو یعنی اپنی خالہ کو اسلام آباد خط لکھ کے بھیجا۔ خود پوسٹ کرنے بھی ساتھ گئی۔ پھر اس کا جواب بھی آیا۔
بیٹے نے پچھلے سال پہلی بار اپنے اس دوست کو گجرانوالہ خط لکھ کے پوسٹ کیا جس کے ابو کی بدلی وہاں ہوئی تھی۔
چلو اس بہانے خط لکھنے اور پوسٹ کرنے کا تجربہ ہوا۔ نہیں تو انھوں نے صرف امتحانات کے لیے ہی خطوط پڑھے تھے۔
البتہ بہاولپور کے ڈاکخانہ کا ایک تفصیلی دورہ میں انھیں بہت سال پہلے کروا چکی ہوں۔ اس دورہ کے لیے باقاعدہ پوسٹ ماسٹر صاحب سے وقت لے کے ہم گئے تھے۔ سب شعبہ جات دکھائے انھوں نے اور تفصیل سے بچوں کو سمجھایا۔ بچوں نے بھی بہت دلچسپی لی تھی۔
میرے بیٹے کا خط
lFz0xig_d.jpg
 

سید عاطف علی

لائبریرین
لکڑی کے دروازے میں ایک "آگل" بھی ہوا کرتی تھی جو کنڈی کا کام کرتی تھی ۔ اگر اس میں دستہ ہو تو باہر سے دروازہ کھل جاتا تھا ورنہ آگل کو اندر سے کھولنا پڑتا تھا ۔
 

فہد اشرف

محفلین
اب ہم دہلیز سے گذر کے آگے آئے دروازے تک۔
دروازے کے مزید بھی کچھ حصے ہوتے ہیں؟
جن کیلوں کی۔مدد سے یہ چوکھٹ سے جڑا ہوتا ہے کیا ان کابھی کوئی مخصوص نام ہے؟
کیل کانٹیاں و قبضے ابھی معدوم نہیں ہوئے ہیں:)۔ زنجیر والی کنڈیاں غائب پو چلی ہیں۔
67149296_1056745004532802_3620697489687969792_n.jpg
 

سید عاطف علی

لائبریرین
کیل کانٹیاں و قبضے ابھی معدوم نہیں ہوئے ہیں:)۔ زنجیر والی کنڈیاں غائب پو چلی ہیں۔
یہ ہمارے گھر میں تھی ۔
ہمارے جو اقارب جے پور سے پاکستان آتے تھے وہ اس کنڈی کو سانکل (نون غنہ) بھی کہتے تھے ۔ ساں کل :)
 

سیما علی

لائبریرین
کسی میں ہوتا ہے اور کسی میں نہیں۔ ہمارے گھر والے چھینکوں میں نہیں تھا۔ نہ ہی سسرال میں۔ ہم اس پہ کپڑا ڈال دیتے تھے۔
بہت پیارا چھینکا، ہماری اماؔں کو بڑا پسند تھا اور میر ے بھائی جو اس دنیا میں نہیں اُن سے چھپا کر دیسی گھی شکر رکھتیں مگر بھائی پھر بھی ڈھونڈ کر کھا لیتے اور اماں کی ڈانٹ کھاتے۔
 

جاسمن

لائبریرین
لکڑی کے دروازے میں ایک "آگل" بھی ہوا کرتی تھی جو کنڈی کا کام کرتی تھی ۔ اگر اس میں دستہ ہو تو باہر سے دروازہ کھل جاتا تھا ورنہ آگل کو اندر سے کھولنا پڑتا تھا ۔

کیا اس کی کئی شکلیں تھیں؟ آپ اس لکڑی کے ٹکڑے کی بات تو نہیں کر رہے کہ جسے گھما کر دروازہ بند اور کھولا جاتا تھا؟
اور یہ درمیان میں کنڈی والی جگہ ہوتا تھا۔ لیکن دروازے کی اوپر والی طرف بھی کچھ اسی طرح کا لکڑی کا فریم دوسرے پٹ کے اوپر ڈال کے دروازہ بند اور ہٹا کر کھولا جاتا تھا۔
اس کی تصاویر ڈھونڈنی پڑیں گی۔:)
 

سید عاطف علی

لائبریرین
صبح تصویر دکھاؤں گا۔ چوکی (تخت) سے یاد آیا کہ گھروں میں ایک چھوٹی سی نماز کی چوکی بھی ہوا کرتی تھی۔
یہ چوکی پاکستانی گھروں میں اب ریفرجریٹر رکھنے کے کام آتی ہے ۔ (لیکن عموما بیچ میں سے کھلی ہو تی ہے )
 
یہ بھی پنجابی کا لفظ ہے۔ ایک بات ہم نے نوٹ کی ہے کہ ہمارے ہاں کی پنجابی میں حرف ڑ بہت استعمال ہوتا ہے۔ جیسے اوپر سہنڑک کا ذکر ہے جس کو کہیں سہنک یا صحنک بھی دیکھا ہے، جو ہو سکتا ہے کہ عربی کے لفظ صحن یعنی پلیٹ یا ٹرے سے نکلا ہو۔ اسی طرح سوہنا کو سوہنڑا ، اور پانی کو پانڑی (ن غنہ) کہتے ہیں۔ ہماری نانی اماں پلیٹ کو رکابی بھی کہتی تھیں۔ شاید یہ الفاظ سرائیکی یا ہندکو سے متاثرہ ہوں۔ عبدالقیوم چوہدری بھائی۔
شاہ مکھی کے تمام حروف و علامات یونیکوڈ میں موجود ہیں؟

سب ہی ہیں، لیکن ’ڑ‘ ساؤنڈ پڑھنے کے لیے جو طریقہ استعمال کیا جاتا ہے، وہ یونیکوڈ میں نہیں ہے۔ پنجابی کیونکہ ویسے ہی بہت کم لکھی جاتی، اس لیے شاید اس طرف کسی کا دھیان نہیں گیا۔ معیاری پنجابی لہجے ’ماجھی‘ کے مطابق شاہ مُکھی میں لکھتے ہوئے ’ڑ‘ بھی نہیں لکھی جاتی البتہ پڑھنے اور بولنے میں آ جاتی ہے۔ کافی عرصہ پہلے ایک امیج جس میں پنجابی کے کچھ الفاظ لکھے گئے تھے، میں ’ڑ‘ ساؤنڈ ادا کرنے کے لیے ’ط‘ کا استعمال دیکھا تھا۔

یہ ایک سطر میں نے کورل ڈرا میں تیار کی ہے۔

55.jpg

وکیپیڈیا
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
سب ہی ہیں، لیکن ’ڑ‘ ساؤنڈ پڑھنے کے لیے جو طریقہ استعمال کیا جاتا ہے، وہ یونیکوڈ میں نہیں ہے۔ پنجابی کیونکہ ویسے ہی بہت کم لکھی جاتی، اس لیے شاید اس طرف کسی کا دھیان نہیں گیا۔ معیاری پنجابی لہجے ’ماجھی‘ کے مطابق شاہ مُکھی میں لکھتے ہوئے ’ڑ‘ بھی نہیں لکھی جاتی البتہ پڑھنے اور بولنے میں آ جاتی ہے۔ کافی عرصہ پہلے ایک امیج جس میں پنجابی کے کچھ الفاظ لکھے گئے تھے، میں ’ڑ‘ ساؤنڈ ادا کرنے کے لیے ’ط‘ کا استعمال دیکھا تھا۔

یہ ایک سطر میں نے کورل ڈرا میں تیار کی ہے۔

اس حرف کے لیے سندھی رسم الخط میں ایک مخصوص حرف ہے ۔ ڑیں ۔ (نون کے بعد دیکھیں) ۔ سندھی میں پانی کو "پاٹی" لکھتے ہیں اور پڑھتے ہیں "پاڑِیں"
4637222_orig.png
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
اصلاً تو غالباً بچھونا ٹائپ ہی کوئی چیز ہوتی ہے، ہماری طرف عرف میں لنگوٹ کو کہا جاتا تھا۔ مجھے خود بھی ٹھیک سے یاد نہیں کیونکہ بچپن میں ہی دیکھے تھے، جبکہ ڈائپرز اتنے عام اور سستے نہیں ہوئے تھے۔
راحل بھائی ، نہالچہ وہ پتلا سا نرم گدّا ہوتا ہے جس پر بچوں کو سلایا جاتا ہے ۔اس میں روئی کا پتلا استر لگایا جاتا تھا ۔ یعنی یہ طفلانہ سائز کا گدا ہوتا تھا ۔
پوتڑا وہ سستا سا ، ردی سا کپڑا ہوتا تھا جو بستر کو بچوں کے پیشاب وغیرہ سے محفوظ رکھنے کے لئے نہالچے کے اوپر بچھادیا جاتا تھا ۔
اس کے علاوہ پوتڑا اس لنگوٹ کو بھی کہتے تھے جو ننھے بچوں کو ڈائپر کی طرح باند ھ دی جاتی تھی ۔ اسی سے کہاوت بنی ہے " پوتڑوں میں کھیلے ہوئے" ۔
اس کے علاوہ اوڑھنے کے لئے دُلائی استعمال ہوتی تھی ۔ یہ بھی نرم اور کم موٹی رضائی ہوتی تھی جو اکثر لوگ سردی میں بدن پر لپیٹ کر بھی گھر میں پھرا کرتے تھے ۔
گدّے کے لئے ایک لفظ توشک بھی تحریر میں مستعمل رہا ہے ۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
لکڑی کے دروازے میں ایک "آگل" بھی ہوا کرتی تھی جو کنڈی کا کام کرتی تھی ۔ اگر اس میں دستہ ہو تو باہر سے دروازہ کھل جاتا تھا ورنہ آگل کو اندر سے کھولنا پڑتا تھا ۔
یہ ہمارے گھر میں تھی ۔
ہمارے جو اقارب جے پور سے پاکستان آتے تھے وہ اس کنڈی کو سانکل (نون غنہ) بھی کہتے تھے ۔ ساں کل :)
بالکل صحیح کہا عاطف بھائی ۔ آگل کے لئے سانکل اور آنکل کے الفاظ بھی بولے جاتے ہیں ۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
میرا خیال بھی یہ تھا لیکن سوچا تصدیق کر لوں۔ یعنی ہم اسے چھوٹا سا چبوترہ کہہ سکتے ہیں۔
پھر ہم یہ دونوں باتیں ہی پڑھتے ہیں کہ دہلیز پار کر لی۔ چوکھٹ پار کر لی۔
دہلیز کیسے پار کی جا سکتی ہے؟
دہلیز سے تو گذرا جا سکتا ہے۔
تھوڑا سمجھائیں گے۔
بعض اوقات ہمیں چند سیڑھیاں چڑھ کے دروازے تک پہنچنا ہوتا ہے۔ کیا ان سیڑھیوں کا بھی کوئی مخصوص نام ہے؟
مکان کے دروازے سے بالکل پہلے کا حصہ ڈیوڑھی کہلاتا ہے ۔ یہ اینٹوں یا پتھروں کا بنا ہوتا ہے اور اس کے اوپر چھت یا سائبان ہوتا ہے ۔ اس میں سیڑھیاں بھی ہوسکتی ہیں اور یہ ایک چبوترہ نما بھی ہوسکتا ہے اور دونوں بھی ۔ دہلیز پار کرکے جب گھر میں داخل ہوں تو صحن یا آنگن سے پہلے کا حصہ دالان یا ورانڈہ یا برآمدہ کہلاتا ہے ۔ اس پر بھی چھت یا سائبان ہوتا ہے ۔ جبکہ صحن یا آنگن اوپر سے کھلے ہوتے ہیں ۔ پرانے گھروں کی جو تصویریں آپ نے اوپر لگائی ہیں ان میں یہ حصے واضح طور پر نظر آرہے ہیں ۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
حقہ تو پھر چلن میں آ گیا ہے شہروں میں با قاعدہ حقہ بار بھی کھل رہے ہیں۔ ہاسٹلز میں لڑکے روم پہ رکھتے ہیں، جس کے پاس نہیں ہوتا پے وہ کرائے پہ لے آتا ہے۔
حقے کے علاوہ ایک پیچوان بھی ہوا کرتا تھا جس کی نَے ایک لمبی سی نلکی کے ساتھ حقے سے جُڑی ہوتی تھی ۔ کہتے ہیں کہ اس میں تمباکو کا دھواں منہ تک آتے آتے شدت میں ذرا معتدل ہوجاتا تھا ۔ میں نے پیچوان کبھی نہیں پیا لیکن بچپن میں ایک دو دفعہ اپنے نانا کا حقہ ضرور منہ سے لگایا تھا ۔ چونکہ استعمال معلوم نہیں تھا اس لئے بجائے کش کھینچنے کے الٹا اس کی نے میں زور سے پھونک ماری ۔ ظاہر ہے کہ کچھ نہیں ہوا لیکن منہ سے تمباکو کی بو آنے لگی ۔ پھر دستی پمپ والے نلکے پر جا کر خوب کلیاں کیں ۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
ناند : مٹی کا اونچا اور گہرا برتن جو پانی وغیرہ ذخیرہ کرنے کے لئے استعمال ہوتا تھا ۔
ظہیر بھائی ۔ ناند کبھی نہیں سنا یہ مذکر ہے یا مؤنث ؟
غالبا ََیہ ناند ہی ہمارے گھرمیں بھی تھی ہم اس میں سے پانی پیا کرتے تھے اس کے نیچے کی جانب ہم نے ٹونٹی لگا رکھی تھی ۔ ہم اس کو نادی کہتے تھے ۔کافی بڑے حجم کی ہوتی تھی جیسے کوئی تین چار بڑے مٹکے آجاتے ہوں گے اس میں۔ شاید یہ ناندی کی متغیر شکل ہو گی ۔
 
Top