ایمرجنسی کی آمد؟

زینب

محفلین
جنرل‌صاحب ضیا کی طرح جائیں گے۔۔۔۔ مطلب جائیں گے نہیں 4 بندے باقائدہ چھوڑ کے ایئں گے۔۔۔۔۔:grin:
 

ساجداقبال

محفلین
1100292608-2.gif
 
’حلف نہ اٹھانےوالے جج دفتر جائیں گے‘

سندھ ہائی کورٹ کے عبوری آئینی حکم کے تحت حلف نہ اٹھانے والے جج پیر کو معمول کے مطابق دفتر جائیں گے۔ اور اپنے فرائض سر انجام دیں گے۔
ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس صبیح الدین احمد نے جن کے بارے میں حکومت کا کہنا ہے کہ انہیں برطرف کردیا گیا بی بی سی کو بتایا کہ وہ پیر کو دفتر جائیں گے انہوں نے بتایا کہ دیگر جج صاحبان نے بھی ان سے رابطہ کیا تھا جن کو انہوں نے سپریم کورٹ کے حکم نامے کے بارے میں بتایا تھا اور وہ اس سے متفق تھے۔

عہدے سے ہٹائے گئے جسٹس صبیح الدین نے کہا کہ برطرفی کا حکم نامہ ان تک نہیں پہنچا ہے وہ بدستور چیف جسٹس ہیں پیر کو انہیں پولیس دفتر جانے سے روکے گی یا نہیں وہ اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے۔

ان کا کہنا تھا کہ سنیچر کی شام کو انہیں بذریعہ فیکس سپریم کورٹ کا ایک حکم نامہ ملا ہے جو سات ججوں کا مشترکہ فیصلہ ہے، اس حکم نامے میں کہا گیا ہے کوئی بھی جج عبوری آئینی حکم ( پی سی او) یا کسی غیر آئینی حکم کے تحت حلف نہیں اٹھائے گا۔

سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس یا کسی جج کی بھی تقرری غیر قانونی اور غیر آئینی تصور کی جائیگی۔

جسٹس صبیح الدین احمد کا کہنا ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے احکامات ماننے کے پابند ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے ان سے کوئی رابطہ نہیں کیا گیا، یہ ان کے علم میں آیا ہے کہ کچھ ججوں کو حلف لینے کے لیے گورنر ہاؤس بلایا گیا ہے مگر ان سے کوئی رائے نہیں مانگی گئی۔

انہوں نے بتایا کہ ان کے گھر پر سکیورٹی فورسز کے اہلکار آئے ہیں وہ کہہ رہے ہیں کہ سرکاری گاڑیاں واپس کریں اب آپ چیف جسٹس نہیں رہے اور زبردستی محافظ بھی واپس لے لیے گئے ہیں۔

سندھ ہائی کورٹ بار ایسو سی ایشن کے صدر ابرار حسن نے بی بی سی کو بتایا کہ پیر کو عدالتی کارروائی کا مکمل بائیکاٹ کیا جائیگا اور جنرل باڈی کا اجلاس ہوگا۔

انہوں نے بتایا کہ ’تمام جج صاحبان پیر کو عدالت میں معمول کے مطابق آئیں گے اور جن ججوں نے عبوری آئینی حکم کے تحت حلف اٹھایا ہے وکلاء ان کی عدالتوں میں حاضر نہیں ہوں گے‘۔
 
عبوری آئین: شہری آزادیاں سلب

پاکستان کے صدر جنرل پرویز مشرف نے آئینِ پاکستان معطل کرتے ہوئے بطور آرمی چیف ایک عبوری آئینی حکم جاری کیا ہے۔
عبوری آئینی حکم مجریہ تین نومبر سن دو ہزار سات کہلائے گا اور پورے ملک میں فوری طور پر نافذ العمل ہوگا۔ عبوری آئینی حکم کے تحت بیشتر بنیادی حقوق معطل کیے گئے ہیں۔

بنیادی حقوق معطل کیے جانے کے بعد کسی شہری کو وجہ بتائے بنا غیر معینہ مدت تک زیر حراست رکھا جاسکے گا، ملزم کو پسند کے وکیل سے مشاورت کا حق نہیں رہے گا، اور چوبیس گھنٹے میں زیر حراست شخص کو کسی میجسٹریٹ کے سامنے پیش کرنا بھی ضروری نہیں ہوگا۔

پاکستان کی سلامتی کے خلاف اور دیگر ایسے سنگین جرائم میں پہلے گرفتار شخص کو تین مہینے میں وفاقی نظر ثانی بورڈ کے سامنے پیش کرنا ہوتا تھا لیکن اب حکومت پر اس کی پابندی نہیں ہوگی۔

انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے بعض کارکنوں کا کہنا ہے کہ اس طرح کے بنیادی حقوق معطل کیے جانے سے لاپتہ افراد کی بازیابی ممکن نہیں رہے گی اور انٹیلی جنس ایجنسیوں سمیت سیکورٹی ایجنسیز کو کھلی چھوٹ مل جائے گی۔

آئین کے آرٹیکل پندرہ کسی بھی شہری کو ملک کے اندر آزادانہ طور پر گھومنے پھرنے اور کہیں بھی سکونت اختیار کرنے کا حق دیتا ہے لیکن اب یہ آرٹیکل بھی معطل کر دیا گیا۔

آرٹیکل سولہ کے تحت غیر مسلح افراد کو اکٹھا ہونے اور پرامن احتجاج کا حق ہے بھی معطل کیا گیا ہے اور مظاہرے وغیرہ نہیں کیے جاسکیں گے۔

آرٹیکل سترہ کے تحت کسی بھی شہری کو یونین اور تنظیم سازی کا حق بھی معطل کردیا گیا ہے۔ جبکہ آرٹیکل انیس کے تحت حاصل اظہار رائے اور تقریر وغیرہ کی آزادی بھی معطل رہے گی۔

عبوری آئینی حکم کے تحت سینیٹ، قومی و چاروں صوبائی اسمبلیاں برقرار رہیں گی۔

عبوری آئینی حکم کے تحت سپریم کورٹ، ہائی کورٹ اور فیڈرل شریعت کورٹ برقرار تو رہیں گے لیکن انہیں ایمرجنسی کے نفاذ، صدر وزیراعظم یا کسی اور مجاز حکام کے کسی فیصلے کے خلاف کوئی حکم جاری کرنے کا اختیار نہیں ہوگا۔

تمام لوگ جو اس حکم سے پہلے فوج یا پاکستان کی کسی بھی سروس میں تھے وہ اپنی ملازمت جاری رکھیں گے اور بدستور ان کو ملنے والے اعزازیے اور دیگر مراعات اس وقت ملتی رہیں گی جب تک بحکم صدر ان میں تبدیلی نہ لائی جائے۔

صدر وقتاً فوقتاً عبوری آئینی حکم کے تحت آئین یا کسی بھی قانون میں تبدیلی کرنے کے مجاز ہوں گے۔

عبوری آئینی حکم کے باوجود بھی معطل شدہ آئین کی اسلامی شقیں برقرار رہیں گی لیکن ججوں کو حلف عبوری آئین کے تحت لینا ہوگا۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
سب سے پہلے پاکستان، کس کا

چیف آف آرمی سٹاف جنرل پرویز مشرف نے تین نومبر کی شام آئینِ پاکستان معطل کرنے کے بعد اپنی تقریر میں یہ وضاحت کر کے بہت اچھا کیا کہ پاکستان ابھی اس مرحلے تک نہیں پہنچا کہ یہاں کے لوگ مغربی انداز کی سیاسی و جمہوری آزادی یا بنیادی حقوق کے متحمل ہوسکیں۔ جس منزل تک پہنچنے میں مغرب کو صدیاں لگ گئیں وہاں پاکستان ساٹھ برس کی مختصر مدت میں کیسے پہنچ سکتا ہے۔ (مزید پڑھیں)
 

نبیل

تکنیکی معاون
ایمرجنسی پلس یا چوتھا مارشل لاء

سنیچر کی صبح ٹیلیفون کی گھنٹی پر آنکھ کھلی جو لاہور سے میرے قاری محمد عمران کا تھا۔ ’حسن بھائی، میں اسوقت ایوان عدال کے باہر کھڑا ہوں، پاکستان میں عدل اور انصاف قتل ہو چکا ہے۔ چیف جسٹس برطرف کردیئے گئے ہیں۔ جنرل مشرف نے ایمر جنسی نافذ کردی ہے۔‘ میں نے سوچا پاکستان میں ایمرجنسی اتری کب تھی کہ نافذ ہوگئي۔ ہم نسل در نسل آمریت در آمریت میں داخل ہوتے، پیدا ہوتے، جوان ہوتے ، بوڑھے ہوتے، مرتے اور جیتے رہے ہیں۔ یہ ایمرجنسی بھی ایک اور ڈرامہ در ڈرامہ اور آمریت در آمریت ہے۔ (مزید پڑھیں)
 
ایمرجنسی کا دن، لمحہ بہ لمحہ - بشکریہ بی بی سی اردو ڈاٹ کام

سنیچر کے روز چیف آف آرمی سٹاف جنرل مشرف نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی اور انیس سو تہتر کے آئین کو معطل کر دیا۔
ذیل میں سنیچر کے واقعات کا مختصر احوال پیش کیا جا رہا ہے:

٭ سب سے پہلے مقامی نجی ٹی وی چینلوں پر یہ خبر نشر کی گئی کہ پرائم منسٹر ہاؤس میں ایک اہم اجلاس ہو رہا ہے جس میں پیمرا اور وزارت اطلاعات کے اعلیٰ حکام ملک میں نافذ العمل میڈیا پالیسی کا از سر نو جائزہ لے رہے ہیں۔

٭ ساتھ ہی یہ بھی بتایا گیا کہ ایوان صدر میں ہونے والے ایک اجلاس میں ملک کی عمومی صورت حال سے متعلق اہم فیصلے کیے جا رہے ہیں۔

٭ اس کے تھوڑی ہی دیر بعد پولیس ذرائع سے یہ اطلاعات موصول ہوئیں کہ پنجاب کانسٹیبلری کے پندرہ سو جوانوں کی خدمات اسلام آباد انتظامیہ کے حوالے کی جارہی ہیں۔

٭ پانچ بجے سے ذرا دیر بعد ملک کے بڑے شہروں میں کیبل آپریٹروں نے نجی نیوز چینل کی نشریات بند کر دیں۔ اس اقدام سے متاثر ہونے والے نجی ٹی وی چینلوں میں اے آر وائی، جیو اور آج شامل ہیں۔

٭پیمرا حکام نے حالات حاضرہ سے متعلق پروگرام نشر کرنے والے ایف ایم ریڈیو سٹیشنوں کو بند کر دیا۔ اسلام آباد میں پاور 99 اور کراچی میں مست ایف ایم 103 اس اقدام کی زد میں آئے۔

٭ اس کے ساتھ ہی سرکاری ٹی وی چینل پی ٹی وی سے اعلان کیا گیا کہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل پرویز مشرف نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی ہے اور آئین معطل کر کے عبوری آئینی حکم نامہ جاری کر دیا ہے۔

٭ ہمسایہ ملک بھارت نے اپنے ردِ عمل میں ایمرجنسی کے نفاذ پر افسوس کا اظہار کیا اور امید ظاہر کی کہ حالات جلد ہی معمول پر آجائیں گے اور جمہوری عمل بحال ہوجائےگا۔

٭ ایمرجنسی کے نفاذ کے اعلان کے بعد سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس صبیح الدین احمد نے اعلان کیا کہ انہیں برطرفی کا کوئی حکم نامہ نہیں ملا اور وہ اب بھی چیف جسٹس ہیں۔
٭سپریم کورٹ کے سات رکنی بینچ نے چیف آف آرمی سٹاف جنرل پرویز مشرف کی جانب سے ملک میں ایمرجنسی نافذ کرنے کے حکم کو کالعدم قرار دیا ہے۔

٭ اسلام آباد میں سپریم کورٹ کے سینیئر جج جسٹس عبدالحمید ڈوگر نے چیف جسٹس آف پاکستان کی حیثیت سے حلف اٹھایا۔ ان کے ساتھ تین دیگر ججوں نے اپنے عہدوں کا حلف اٹھایا۔ جسٹس سید سعید اشہد نے کراچی میں اپنے عہدے کا حلف اٹھایا۔

٭ کوئٹہ میں جسٹس امان اللہ یاسین زئی نے بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی حیثیت سے حلف اٹھایا۔ ہائی کورٹ کے چار دیگر ججوں نے بھی نئے عبوری آئین کے تحت حلف اٹھایا۔

٭ کراچی میں چیف جسٹس محمد افضل سومرو سمیت سندھ ہائی کورٹ کے چار ججوں نے پی سی او کے تحت گورنر ہاؤس میں ایک تقریب کے دوران حلف اٹھایا۔

٭ لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس افتخار حسین چودھری کے علاوہ بارہ ججوں نے عبوری آئینی حکم کے تحت اپنے عہدوں کا حلف اٹھایا۔ لاہور ہائی کورٹ کے چار مزید ججوں نے اتوار کو حلف اٹھایا۔

٭ ملک میں ایمر جنسی کے نفاذ کے بعد میں پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کے چیئرمین محمود خان اچکزئی اور چار وکلا کو کوئٹہ میں ان کے گھروں میں نظر بند کر دیا گیا۔

٭ پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اور چھ ججوں نے سنیچر کی رات اپنے عہدوں کا حلف اٹھایا۔ سرحد کے گورنر علی محمد جان اورکزئی نے چیف جسٹس طلعت قیوم قریشی سے حلف لیا جبکہ جسٹس طلعت قیوم قریشی نے باقی ججوں سے حلف لیا۔
 

زیک

مسافر
اسے ایمرجنسی کہہ کر پراپگینڈا کا حصہ نہ بنیں۔ یہ صاف ظاہر ہے کہ یہ مارشل لاء ہے۔
 

زیک

مسافر
چند لوگ ایسا سماں پیدا کردیتے ہیں کہ پتہ نہیں کیا ہو گیا۔ اور رونا دھونا شروع۔ صاحبو۔ وہ عناصر جو "خود ساختہ" شریعت لاکر پاکستان پر دنیا بھر کا حملہ کروانا چاہتے ہیں، ان کے علاج کے دس طریقے ہیں اور ان میں سے ایک ہے ایمرجینسی۔

شکر ہے کہ پاکستان میں قانون کی بالا تری ہے۔

کونسی ایمرجنسی؟‌یہ تو مارشل لاء ہے۔

اور کونسے قانون کی بالاتری کہ مشرف کا سارا زور اس نئے مارشل لاء میں قانون کے اداروں ہی کے خلاف ہے؟
 
اسے ایمرجنسی کہہ کر پراپگینڈا کا حصہ نہ بنیں۔ یہ صاف ظاہر ہے کہ یہ مارشل لاء ہے۔

میں معذرت خواہ ہوں کہ میری پوسٹ میں اس کو ایمرجنسی لکھا جا رہا ہے لیکن چونکہ میں مختلف ویب سائٹس سے خبریں کاپی کر کے پوسٹ کر رہا ہوں اس لئے ایمرجنسی کا لفظ آرہا ہے۔ میں زاتی طور پر اسے مارشل لاء (ٍفوجی بدمعاشی) ہی سمجھتا ہوں۔

کیونکہ جتنا آئین پاکستان کو میں جانتا ہوں، چیپ آف آرمی سٹاف ایمرجنسی نافذ کر ہی نہیں سکتا، یہ کام صرف صدر پاکستان کر سکتا ہے۔
 
جج ہوں،عدالت جاؤں گا: بھگوان داس

20060330083737rana_bhagwan_203.jpg

پی سی او کے تحت حلف نہ لینے والے سپریم کورٹ سینئر جج جسٹس رانا بھگوان داس نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کا سات رکنی بینچ ایمرجنسی کے نفاذ کو غیر آئینی قرار دے چکا ہے اور وہ آج بھی اپنےآپکو’آئینی اور قانونی‘ لحاظ سے جج تصور کرتے ہیں۔ جسٹس رانا بھگوان داس نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ آج بھی سپریم کورٹ کے جج ہیں اور پیر کے روز عدالت میں جانے کی کوشش کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ اگر انہیں عدالت نہ جانےدیا گیا تووہ واپس آ جائیں گے کیونکہ بطور جج وہ سڑکوں پر مظاہرہ نہیں کر سکتے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اپنے آئندہ کے لائحہ عمل کے بارے میں کچھ نہیں جانتے اور اس کا تعین حالات پرہوگا۔ رانا بھگوان داس نے کہا کہ وہ نہیں سمجھتے تھےکہ حکومت آئین معطل کر دے گی اور ملک میں پی سی او کا نفاذ کر دیا جائے گا۔ جنرل مشرف کی طرف عدلیہ کو ملک میں جاری دہشتگردی کی کارروائیوں کے ساتھ نتھی کرنے کی کوشش کے بارے میں کہا کہ جنرل مشرف کے الزامات ٹھیک نہیں ہیں۔ یہ الزام درست نہیں ہے۔عدلیہ آئین اور قانون کے دائرہ کار میں رہ کر کام کر رہی تھی۔‘
سپریم کورٹ کے کچھ ججوں کی طرف سے پی سی او کے تحت حلف لینے کےبارے میں رانا بھگوان داس نے کہا کہ ہر ایک کا اپنا اپنا نقطہ نظر ہے، ہرایک کا اپنا ضمیر ہے اور اس کے بارے میں کچھ نہیں کہنا چاہتے۔ ’میں اپنے کردار اور عمل سے مطمئن اور اگر غیر آئینی اقدام ہوتے ہیں تو اس کے ذمہ دار وہ اقدام لینے والے ہوتے ہیں ، ججز نہیں۔‘
 
پِیر سے نئی تحریک: سپریم کورٹ بار

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی قیادت نے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے ججوں کا بائیکاٹ کرنے کا اعلان کیا ہے اور وکلاء برادری سے اپیل کی ہے کہ ان ججوں کی عدالت میں پیش نہ ہوں جنہوں نے پی سی او کے تحت حلف اٹھایا ہے۔ اتوار کو لاہور پریس کلب میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے نائب صدر غلام نبی بھٹی اور سیکرٹری امین جاوید نے دیگر عہدیداروں کے ہمراہ ایک اخباری کانفرنس میں کہا کہ ملک میں ہنگامی حالت کا اعلان نہیں کیا گیا بلکہ مارشل لاء لگایا گیا ہے۔ ان کا کہنا کہ آئین کے تحت صرف صدر ہی ایمرجنسی لگاسکتے ہیں لیکن ملک میں ہنگامی حالت کا اعلان آرمی چیف نے کیا ہے اور ان کایہ اقدام غیر آئینی ہے۔ ان کے بقول تین نومبر کو شب خون مارا گیا ہے۔
علاوہ ازیں لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر احسن بھون نے ایک بیان میں کہا کہ حکومت نے پی سی او کے نام پر اعلیٰ عدلیہ پر جو حملہ کیا ہے وہ قابل مذمت ہے۔ ان کے بقول سوموار سے ملک بھر کے وکلاء نئی تحریک کا آغاز کریں گے اور عدالتوں کا مکمل بائیکاٹ کیا جائےگا۔

غلام نبی بھٹی نے ججوں کی طرف سے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے کے اقدام پر افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ پی سی او کے تحت حلف اٹھانا غیر آئینی ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ غیر آئینی حلف اٹھانے والے ججوں نے سپریم کورٹ کے آٹھ رکنی بنچ کی جانب سے ایمرجنسی کو معطل کرنے کے فیصلے کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کے بقول ایک طرف آٹھ جج ہیں اور دوسری جانب چار جج ہیں اور قانون کی روح سے آٹھ ججوں کا فیصلہ لاگو ہوگا اور اس کو تین یا چار جج ختم نہیں کرسکتے۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے ایمرجنسی کو معطل کرنے کا فیصلہ ابھی تک برقرار ہے۔ ان کے بقول ہنگامی حالت کے خاتمے تک پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے ججوں کا بائیکاٹ جاری رہے گا۔
پریس کانفرنس میں سپریم کورٹ بار کے سیکرٹری امین جاوید نے کہا کہ پاکستان عدالتوں اور میڈیا پر مارشل لاء لگایا گیا ہے اور ججوں کو حراست میں رکھا گیا ہے۔انہوں نے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے ججوں سے کہا کہ وہ عدالتی کام انجام نہ دیں اور ان ججوں کا ساتھ دیں جہنوں نے پی سی او کے تحت حلف نہیں اٹھایا۔
ایک سوال کے جواب میں سپریم کورٹ بار کے سیکرٹری نے کہا کہ چیف جسٹس پاکستان کو ان کے عہدے سے ہٹایا نہیں جاسکتا اور جسٹس افتخار محمد چودھری تاحال چیف جسٹس پاکستان ہیں۔ ان کا کہنا ہے ججوں کو حراست میں رکھا گیا ہے جبکہ وکلاء کو گرفتار کیا جارہا ہے۔ان کے بقول جسٹس خلیل الرحمن رمدے کے گھر کے باہر رینجرز تعینات ہیں۔
سپریم کورٹ بار کے عہدیداروں نے ججوں کی حراست کو ختم کرنے، وکلاء کی رہائی اور ہنگامی حالت کے اعلان کو واپس لینے کا بھی مطالبہ کیا۔ دریں اثناء پنجاب بار کونسل کے وائس چیئرمین طارق جاوید وڑائچ نے اخبار نویسوں سے بات چیت میں کہا کہ حقیقی ججوں کو نظر بند کیا ہوا ہے اور پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے ججوں کا کوئی بھی فیصلہ غیر آئینی ہوگا۔ انہوں نے وکلاء کی گرفتاری کی شدید مذمت کی اور کہا کہ پانچ نومبر کو وکلاء برادری مکمل ہڑتال کرے گی۔
 

ماوراء

محفلین
کاشف صاحب، آپ خبر کا کچھ حصہ پوسٹ کر کے باقی خبر کے لیے ساتھ لنک دے دیا کریں، جیسا کہ نبیل بھائی نے بھی کیا ہے۔
 
Top