اپنی عقلمندی کا کوئی قصہ سناکر پسندیدگیاں وصول کریں۔

شعیب صفدر

محفلین
ہم عمرہ کرنے گئے تو عصر سے مغرب کےدرمیان ہم ونڈو شاپنگ کرتے تھے، ایک بار مغرب سے کچھ پہلے ہم نے ایک شال اپنی والدہ کے لئے خریدی ہم نے سوچا یہاں سے سیدھا مسجد احرام میں نماز کے لئے جایاجائے نماز کے بعد شال کو ہوٹل میں رکھ آئیں گے ہم جو مسجد احرام میں داخل ہونے لگے تو شرتے (سعودی پولیس کا علاقائی نام) نے ہمیں داخل ہونے سے منع کیا اشارے سے سمجھانے لگا کہ تم یہ تھیلی اندر نہیں لے کر جا سکتے ہم نے تھیلی سے شال نکال کر دیکھائی تھیلی کو اُلٹ پلٹ کر دیکھایا کہ میاں اس میں کچھ نہیں مگر وہ اپنی ضد پر قائم عربی میں اور بھی بہت کچھ کہا اُس نے مگر ہمیں صرف “یعلا یعلا” یاد ہے اُس وقت ہم نے یہ جان لیا تھا کہ اس قسم کی آواز کا مطلب ہوتا ہے کہ “چلو یہاں سے” خیر ہم نے اُس دروازے کو چھوڑا اور دوسرے داخلی دروازے کی طرف کا رُخ کیا، اُس باب (دروازے) پر بھی ایسی ہی صورت حال کا سامنا ہوا ہم نے اس والے شرتے کو بھی اول یہ سمجھنانے کی کوشش کی کہ ہمارے پاس صرف شال ہے مگر مجال ہے جو اُسے سمجھ آئے، پھر ہم نے اشارے سے اُس پر واضح کیا کہ مقامی افراد بھی تو مسجد احرام میں مختلف سامان لے کر جا رہے ہیں مگر صرف ہم پر ہی یہ سختی کیوں؟ مگر مجال ہے جو وہ ٹس ست مس ہوا ہو۔ دو داخلی دروازوں کے درمیان کا لمبا پیدل سفر کرنے کے بعد اب ہم تیسرے داخلی دروازے کی طرف روانہ ہوئے پہلے پہل خیال آیا کہ کسی مقامی شخص کی مدد سے اس شال کو اندر لے جایا جائے کیونکہ ہوٹل جا کر آنے کے چکر میں مغرب کی نماز قضاء ہونے کا امکان ہے ویسے تو نماز نہیں پڑھتا، یہاں تو قضاء نہ کی جائے مگر کسی عربی کو عربی زبان میں اپنا مسئلہ بتانا بھی ایک مسئلہ تھا تو ہم نے ایک اور حل سوچا ہم نے تھیلی میں سے شال نکالی تھیلی کو جیب میں ڈالا شال کو کندھے پر رکھا اور تیسرے داخلی دروازے سے مسجد احرام میں داخل ہو گئے! اب کوئی کسی شرتے نے نہیں روکا۔

دوسرا قصہ یہاں ہے!!
 

شمشاد

لائبریرین
شعیب بھائی یہ ایک دفعہ "لا" کہہ دیں تو پھر اس کو "نعم" میں بدلنا تقریباً ناممکنات میں سے ہے۔ بھلے ہی ان کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا ہو۔
 
یہ میرے بچپن کا واقعہ ہے،ہم امردوتوڑنے اپنے چچیرے دادا کے یہاں گئے ہوئے تھے۔(ہم کا لفظ میں نے اس لئے استعمال کیا ہے کہ میرے ساتھ اور بھی کچھ بچے تھے کون اب حافظہ میں محفوظ نہیں رہا یہ پانچویں یا چھٹی کلاس کا واقعہ ہے)جو ہمارے گھر سے کچھ ہی دور پر تھا۔یہاں پر ہمارے دادا کی کافی زمینیں تھیں جن میں مختلف قسم کے پیڑ پودے لگے ہوئے تھے ،لیکن دادا کے ہاں کے امرودوں کی کچھ بات ہی الگ تھی ،میٹھےبڑ ے بڑے خوبصورت امرود کہ دیکھ کر اچھے اچھوں کا جی للچا جائے ،ہم تو ٹھہرے بچے۔دادای اماں جھولی میں بھر بھر امرودگھر پہنچا جاتی ،لیکن جو مزا خود سے توڑ کے کھانے میں ہے وہ بیان نہیں کیا جا سکتا۔ایک دن دادی کے منع کرنے کے باوجود میں درخت پر چڑھ گیا اور بندروں کی طرح کبھی اس ڈالی سے اس ڈالی اور کبھی اس ڈالی سے اس ڈالی امرودتوڑتا اور کھاتا رہا، بڑا مزا آ رہا تھا۔جس درخت پر میں چڑھا تھا ٹھیک اس کے سامنے گہرا کنواں تھا مجھے اس کا اندازہ ہی نہ تھا۔اچانک ایک ڈالی ٹوٹتی ہوئی رٹ رٹ کی آواز کے ساتھ نیچے آ رہی۔نیچے جو نظر پڑی تو کیا دیکھتا ہوں کنواں خطرناک اڑدہاکی طرح منہ کھولے کھڑا ہے۔یہ دیکھتے ہی اچانک میری چیخ نکل گئی ،مجھے موت انتہائی قریب نظر آنے لگی اور ایسا محسوس ہوا جیسے میں واقعی مر گیا ،تھوڑی دیر کے لئے سانس جیسے تھم سی گئی۔مری زبان سے بس یہی نکلا”اللہ بچا لے“۔ سچ کہا کہنے والے نے ”مصیبت کے وقت خدا یاد آتا ہے “اسی لمحہ اچانک ایک دوسری ڈال میرے ہاتھ کی گرفت میں آ گئی اور میں اس کی مدد سے زمین پر صحیح سلامت اترنے میں کامیاب ہوگیا۔واقعی یہ اللہ کا کرم تھا ورنہ اس دن میں کنویں میں گر ہی گیا تھا۔آج بھی جب میں دادی کے یہاں جاتا ہوں یہ منظر نہیں بھولتا ،بدن میں کپکپی سی طاری ہو جاتی ہے۔
 
یہ کہانی میں نے لکھ کر اپنے شمارے ذوق و شوق میں شائع کی تھی، جس میں عقل مندی کی ضد ہے ، ساتھ ساتھ قارئین کو مزاح بھی بھرپور محسوس ہوگا۔ پڑھیے اور سر دھنیے۔​
چلغوزے
آج تو بوریت کی انتہا ہوگئی، گھر کے سب لوگ کہیں نہ کہیں گئے ہوئے تھے، کوئی پڑھنے، کوئی پڑھانے، کوئی ملنے ملانے۔
ایک بس ہم تھے جو طبیعت کی ناسازی کی وجہ سے اپنے کمرے میں پلنگ پرچت لیٹے دونوں ہاتھ سر کے نیچے باندھے، پنکھے کے دو پروں میں اچھی طرح غور کرنے کے بعد اب تیسرے پَر کے دوسرے اسکرو کو بھنویں سکیڑے گھورے جارہے تھے۔
اچانک ہمیں ایک بھگدڑ سی محسوس ہوئی، ایسا لگا جیسے کئی سارے بھاگم بھاگ ایک دوسرے کے پیچھے قلابازیاں کھاتے ہوئے جارہے ہوں، دوڑ رہے ہوں، اچھل کود کر رہے ہوں۔
’’یہ کیا ہورہا ہے؟‘‘ ہم نے حیران ہوکر سوچا۔پنکھے کا ہم اچھی طرح جائزہ لے چکے تھے۔
ہمیں اتنا زیادہ شور محسوس ہوا کہ جس میں کان پڑی آواز بھی سنائی نہیں دیتی، سب کے سب مسلسل بھاگ رہے تھے، بے قرار تھے، بے چین تھے۔
اور پھر فوراً ہی ہمیں احساس ہوگیا کہ یہ بھگدڑ ہمارے پیٹ سے باہر کہیں بھی نہیں ہورہی۔
’’پیٹ کی بھگدڑ…!!‘‘ ہم مسکراتے ہوئے سوچنے لگے:
’’اگر یہ لفظ اشتیاق احمد صاحب کے چہیتے فاروق کو پتا چل جائے تو وہ کیسے چٹخارے لے لے کر آفتاب کے ساتھ اس لفظ کے کسی اچھے سے ناول کا نام ہونے کے مزے لے گا۔‘‘
چٹخارے اور مزے کے لفظ سے ہمیں مزید احساس ہوگیا کہ یہ قلابازیاں ہمارے پیٹ ہی میں کھائی جارہی ہیں اور یہ چوہے ہیں جو بھوک کی وجہ سے پیٹ کے اندر اچھل کود میں مصروف ہیں۔
جب بھوک لگی ہو اور گھر میں کوئی نہ ہو تو ہمیں بہت خوشی ہوتی ہے، باورچی خانے یا فریج یا امی کی الماری کے اوپر سے کوئی نہ کوئی ایسی چیز کھانے کی مل ہی جاتی ہے جس سے عام حالات میں استفادہ مشکل ہوتا ہے۔
ہم کسی اسپرنگ کی طرح ایک جھٹکے سے اچھل کر اپنے پلنگ سے اتر آئے۔
تھوڑی ہی دیر بعد ہم فریج اور اس کے دروازے کے بیچ میں کھڑے ہوئے ہر چیز کا بڑی عمیق نظروں سے جائزہ لے رہے تھے۔
مگر فریج میں سوائے پانی کی بوتلوں اور اچار کی برنیوںکے کچھ نہیں تھا۔ ایک پتیلی دیکھ کر تو ہم بے اختیار ہنس پڑے، کیوں کہ وہ ہمارے پیٹ کی طرح خالی تھی۔
ہم بھوک کے مارے باورچی خانے میں گھس گئے، مگر وہاں بھی مایوسی کا سامنا کرنا پڑا، ہم جس چیز کو بھی اپنی پسندیدہ چیز سمجھتے، وہ تھوڑی دیر غور کرنے کے بعد اپنی اصل حقیقت کے ساتھ ہمارے سامنے آجاتی اور ہم ہاتھ پر ہاتھ اور ہونٹوں پر زبان ملتے رہ جاتے۔
اب یہی دیکھ لیں، جسے ہم املوک سمجھے، وہ ٹماٹر نکلے ، جسے چیکو سمجھ کر ہاتھ لگایا، وہ آلو ثابت ہوئے، جسے آم سمجھ کر زبان ہونٹوں پر پھیرنے لگے، چھونے پر پتا چلا وہ چھوٹا سا پپیتا ہے ، جسے گاجر کا حلوا سمجھ کر آنکھیں مٹکائیں، وہ کچا قیمہ نکلا۔
پھر ایک پلیٹ کو دیکھ کر ہم حیران رہ گئے، اس میں کھجور کی گٹھلیاں رکھی ہوئی تھیں۔
ہم نے سوچا گھر میں تو کوئی بھی اتنے شوق سے کھجور نہیں کھاتا تو یہ گٹھلیاں کہاں سے آئیں؟ وہ بھی اتنی ساری کہ پوری پلیٹ لب ریز تھی۔
پھر ہمیں خیال آیا کہ شاید آیت کریمہ کا ختم کرنے کے لیے کسی سے پتھر مانگے ہوں گے تو اس نے یہ گٹھلیاں دے دی ہوں گی۔
مگر یہ سوچتے سوچتے ہم جوں ہی قریب پہنچے اور غور سے اس پلیٹ کو دیکھا تو مارے حیرت اور خوشی کے ہم وہیں زمین پر بیٹھ گئے۔
جی ہاں، ہم اور لوگوں سے ذرا مختلف واقع ہوئے ہیں، لوگ حیرت اور خوشی سے اچھل پڑتے ہیں ، ہم حیرت اور خوشی کی زیادتی سے وہیں بیٹھ گئے، کوئی ضروری تو نہیں کہ جسے حیرت کا جھٹکا لگے وہ اچھل ہی جائے، کبھی کبھی حیرت کے مارے بیٹھ بھی جانا چاہیے۔
حیرت ہمیں اس بات پر تھی کہ اس پلیٹ میں کھجور کی گٹھلیاں نہیں تھیں اور خوشی اس بات پر کہ وہ چلغوزے تھے۔
ہم آنکھیں پھاڑے ، نتھنے پھلائے، ایک لم…م…م…مبا سانس اندر کی طرف کھینچنے لگے، چلغوزے ہمیں بچپن سے ہی بہت پسند تھے، امی بڑی محنت اور محبت سے چلغوزے چھیل کر ہمیں کھلاتی تھیں، مگر آج وہ گھر میں نہیں تھیں، اب یہ کٹھن کام ہمیں ہی سرانجام دینا تھا۔
ہم پلتھی مارے وہیں بیٹھ گئے، ایک خالی پلیٹ قریب رکھی اور چلغوزے چھیل چھیل کر چھلکے خالی پلیٹ میں ڈالنے لگے اور برہنہ چلغوزوں کو ملبوس چلغوزوں کے ساتھ رکھنے لگے۔
آدھے گھنٹے کی تھکا دینے والی محنت کے بعد تین چیزیں سامنے آئیں:
ایک یہ کہ مارے بھوک اور بے تابی کے ہمارا برا حال ہوچکا تھا۔
دوسری یہ کہ دو الگ الگ پلیٹوں میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوچکا تھا یعنی ایک پلیٹ میں چھلے ہوئے چلغوزے اور دوسری پلیٹ میں ان کے چھلکے۔
تیسری چیز بڑی خطرناک تھی، ہمارے دونوں ہاتھوں کی آٹھوں انگلیوں اور دو صحت مند انگوٹھوں کے ناخن ایسے سرخ ہوچکے تھے کہ پکے ہوئے لال ٹماٹر بھی ان کے آگے گلابی نظر آتے۔
اس تیسری چیز کا اندازہ کچھ وہی لوگ کرسکتے ہیں جن کا زندگی میں کبھی یک سوئی سے چلغوے چھیلنے سے واسطہ پڑا ہو۔
’’بس اب چھلکے گیلری سے اور تم سب ہمارے حلق سے نیچے۔‘‘ ہم نے چلغوزوں کو مسکراتے ہوئے گھورا۔
ہم دونوں پلیٹیں اٹھاکر اٹھے اور گیلری کی جانب رفتہ رفتہ بڑھنے لگے، اس بات کا ہم نے خاص خیال رکھا کہ اس خوشی کی ڈگمگاہٹ میں ایک بھی چلغوزہ پلیٹ سے گرنے نہ پائے۔
گیلری میں پہنچ کر ہمیں ایک دم سے چوکنا ہونا پڑا، ایک چیل تیزی سے اڑتے ہوئے ہماری جانب آرہی تھی، ہم فوراً پیچھے ہوگئے اور وہ اپنی ہی دھن میں آگے بڑھتی چلی گئی۔
’’ہم سے ٹکرائے گی…!!‘‘ ہم نے بڑے فخریہ انداز میں چیل کو اڑتے ہوئے دیکھا اور ہاتھ بڑھا کر چھلکے والی پلیٹ کو گیلری کی کھڑکی سے نیچے انڈیل دیا۔
ہمارا گھر پانچویں منزل پر تھا، اچانک ہمیں اپنی غلطی کا احساس ہوا کہ یہ چھلکے لوگوں کے اوپر گریں گے ، یہاں سے پھینکنا قطعاً مناسب نہیں تھا، یہ سوچ کر ہم نے دل ہی دل میں ان چھلکوں کے کسی پر نہ گرنے کی دعا کرتے ہوئے ڈرتے ڈرتے نیچے کی جانب دیکھا اور پھر ہمارے پائوں تلے سے پوری پانچ منزلہ عمارت نکل گئی، دماغ سائیں سائیں کرنے لگا، آنکھیں ابل کر باہر گرنے کی اجازت مانگنے لگیں، سانس اوپر کا نیچے اور نیچے کا اوپر آنے سے کترانے لگا۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ وہ چھلکے کسی پولیس آفیسر پر گرتے دیکھ کر ہماری یہ کیفیت ہوئی، نہیں… ایسی بات نہیں تھی، بل کہ ہم نے اپنی گناہ گار آنکھوں سے اپنے پیارے سے برہنہ چلغوزوں کو نیچے گرتے دیکھا تھا۔
ہم نے ایک جھٹکے سے اپنے ہاتھوں میں تھامی پلیٹوں کو دیکھا تو ایک پلیٹ چھلکوں سے لب ریز نظر آئی اور دوسری ہمارے پیٹ کی طرح بالکل خالی۔
’’دھت تیرے کی …!!‘‘ ہمارے پیٹ سے آواز آئی۔
شمشاد صاحب متوجہ ہوں۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
اگر حماقتوں کا پوچھا جاتا تو شاید قصوں کے انبار لگا دیتے، عقلمندی کوئی یاد ہی نہیں آ رہی۔۔ :(
 

شمشاد

لائبریرین
ہوتا ہے صاحب ہوتا، کہ چلغوزے کے چھلکے پلیٹ میں رہ جاتے ہیں اور گریاں پیٹ کی بجائے پھینک دی جاتی ہیں۔
 
Top