اُمید افزا اور ہمت بڑھانے والے اشعار

محمداحمد

لائبریرین
دشتِ امکاں میں بہر گام سنبھالا تم نے
میرے نادیدہ سہارو نظر آؤ مجھ کو
زنجیرِ صبح و شام سے آزاد ہوکے دیکھ
ہر لمحہء حیات ہے اک عمرِ جاوداں
زندگی ہے تو سحر بھی ہوگی
اے شبِ غم یہ مِرا دعویٰ ہے
پاتے نہیں جب راہ تو چڑھ جاتے ہیں نالے
رکتی ہے مِری طبع تو ہوتی ہے رواں اور

:zabardast1:

بہت خوب مہ جبین بہن!

خوش رہیے۔
 

فاتح

لائبریرین
فاتح بھائی نے یہاں اپنی خوبصورت آواز میں پڑھ رکھی ہے۔ اور ساتھ میں ہم جیسے لکھ چوروں کے لیئے لکھ بھی رکھی ہے۔ وہاں سے اٹھا کر ادھر امید والے دھاگے میں لے آیا ہوں

چند روز اور مری جان، فقط چند ہی روز​
ظلم کی چھاؤں میں دَم لینے پہ مجبور ہیں ہم​
اک ذرا اور ستم سہہ لیں، تڑپ لیں، رو لیں​
اپنے اجداد کی میراث ہے، معذور ہیں ہم​
جسم پر قید ہے، جذبات پہ زنجیریں ہیں​
فکر محبوس ہے، گفتار پہ تعزیریں ہیں​
اپنی ہمت ہے کہ ہم پھر بھی جیے جاتے ہیں​
زندگی کیا کسی مفلس کی قبا ہے جس میں​
ہر گھڑی درد کے پیوند لگے جاتے ہیں​
لیکن اب ظلم کی میعاد کےدن تھوڑے ہیں​
اک ذرا صبر، کہ فریاد کے دن تھوڑے ہیں​
عرصۂ دہر کی جھلسی ہوئی ویرانی میں​
ہم کو رہنا ہے پہ یونہی تو نہیں رہنا ہے​
اجنبی ہاتھوں کا بے نام گرانبار ستم​
آج سہنا ہے، ہمیشہ تو نہیں سہنا ہے​
یہ ترے حُسن سے لپٹی ہوئی آلام کی گرد​
اپنی دو روزہ جوانی کی شکستوں کا شمار​
چاندنی راتوں کا بے کار دہکتا ہوا درد​
دل کی بے سود تڑپ، جسم کی مایوس پکار​
چند روز اور مری جان، فقط چند ہی روز​
پڑھی تو ضرور ہے میں نے لیکن انتہائی جھوٹ اور بکواس پر مبنی ہے یہ نظم۔۔۔ یہ چند روز میں کچھ نہیں ہونے والا۔۔۔ زندگی بھر ایسا ہی چلتا ہے۔۔۔
 
اور یہ ہمارا پسندیدہ ترین نعتیہ شعر ہے کہ ۔۔
غم سبھی راحت و تسکین میں ڈھل جاتے ہیں
جب کرم ہوتا ہے حالات بدل جاتے ہیں۔
بےشک ۔۔۔اس سے بڑھ کر تو کوئی اُمید و حوصلہ دلا ہی نہیں سکتا ۔
 
اور سلیم کوثر کی یہ غزل بھی اُمید کے دیئے جلاتی ہوئی کہ
نہ اس طرح کوئی آیا نہ کوئی آتا ہے​
مگر وہ ہے کہ مسلسل دیے جلاتا ہے​
کبھی سفر کبھی رختِ سفر گنواتا ہے​
پھر اُس کے بعد کوئی راستہ بناتا ہے​
یہ لوگ عشق میں سچے نہیں ہیں ورنہ ہجر​
نہ ابتدا نہ کہیں انتہا میں آتا ہے​
یہ کون ہے جو دکھائی نہیں دیا اب تک​
اور ایک عمر سے اپنی طرف بلاتا ہے​
وہ کون تھا میں جسے راستے میں چھوڑ آیا​
“یہ کون ہے جو مرے ساتھ ساتھ آتا ہے“​
وہی تسلسلِ اوقات توڑ دے گا کہ جو​
درِ اُفق پہ شب و روز کو ملاتا ہے​
جو آسمان سے راتیں اُتارتا ہے سلیم​
وہی زمیں سے کبھی آفتاب اُٹھاتا ہے​
 

صائمہ شاہ

محفلین
حالات کے قدموں پہ قلندر نہیں گرتا
ٹوٹے بھی جو تارا تو زمیں پر نہیں گرتا

گرتے ہیں سمندر میں بڑے شوق سے دریا
لیکن کسی دریا میں سمندر نہیں گرتا

قتیل شفائی
 

غدیر زھرا

لائبریرین
ہم دیکھیں گے
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے
جو لوحِ ازل میں لکھا ہے
جب ظلم و ستم کے کوہ گراں
روئی کی طرح اُڑ جائیں گے
ہم محکوموں کے پاؤں تلے
یہ دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکے گی
اور اہل حرم کے سر اوپر
جب بجلی کڑکڑ کڑکے گی
جب ارضِ خدا کے کعبے سے
سب بُت اٹھوائے جائیں گے
ہم اہل صفا مردود حرم
مسند پہ بٹھائے جائیں گے
سب تاج اچھالے جائیں گے
سب تخت گرائے جائیں گے
بس نام رہے گا اللہ کا
جو غائب بھی ہے ، حاضر بھی
جو ناظر بھی ہے ، منظر بھی
اٹھے گا انا الحق کا نعرہ
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو
اور راج کرے گی خلقِ خدا
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو

(فیض احمد فیض)
 

زبیر مرزا

محفلین
احترام الحق تھانوی کا یہ قطعہ مجھے بہت پسند ہے

میرے ہاتھ میں قلم ہے میرے ذہن میں اُجالا​
مجھے کب ڈراسکے گا کوئی ظلمتوں کا پالا​
مجھ فکرامنِ عالم تجھے اپنی ذات کا غم​
میں طلوع ہورہا ہوں تو غروب ہونے والا​
 

وسیبی

محفلین
قید کو توڑ کے نکلا جب میں اُٹھ کے بگولے ساتھ ہوئے
دشتِ عدم تک جنگل جنگل ، بھاگ چلا ویرانہ بھی
 
ہم سے تو مایوسی والے اشعار سنیئے صاحب۔۔۔ :p

چلیں اک نظم ہے ناگزیر مجھے بہت پسند ہے اس معاملے میں۔۔۔ وہ سنیئے :)

یہ رات اپنے سیاہ پنجوں کو جس قدربھی دراز کر لے
میں تیرگی کا غبار بن کر نہیں جیوں گا
مجھے پتہ ہے کہ ایک جگنو کے جاگنے سے
یہ تیرگی کی دبیز چادر نہیں کٹے گی
مجھے خبر ہے کہ میری بے زور ٹکروں سے
فصیلِ دہشت نہیں ہٹے گی
میں جانتا ہوں کہ میرا شعلہ
چمک کے رزقِ غبار ہو گا
تو بے خبر یہ دیار ہو گا
میں روشنی کی لکیر بن کر
کسی ستارے کی مثل بکھروں گا
بستیوں کو خبر نہ ہو گی
میں جانتا ہوں کہ میری کم تاب
روشنی سے سحر نہ ہو گی
مگرمیں پھر بھی سیاہ شب کا
غبار بن کر نہیں جیوں گا
کرن ہو کتنی نحیف لیکن کرن ہے پھر بھی
وہ ترجماں ہے کہ روشنی کا وجود زندہ ہے
اور جب تک
یہ روشنی کا وجود زندہ ہے رات اپنے
سیاہ پنجوں کو جس قدربھی درازکر لے
کہیں سے سورج نکل پڑے گا
میں اس نظم کے شاعر کا نام ڈھونڈ رہی تھی، معلوم ہے آپ کو؟
 
بہت شکریہ آسی صاحب،

کیا خوب اشعار ہیں۔ غالب تو غالب ہیں۔

لیکن جناب کا شعر بھی بہت اعلیٰ ہیں۔

شاید یہ مقولہ بھی کسی ایسے ہی ستم ظریف کا ہے۔

“A pessimist sees the difficulty in every opportunity; an optimist sees the opportunity in every difficulty.”

:)

بہت آداب جناب محمد احمد صاحب۔ ایک شعر اور پیش کر رہا ہوں:
خونِ تازہ بن کے دوڑوں گا بہاروں کی رگوں میں
خاک بھی ہو جاؤں گر، اِس شہر کی آب و ہوا سے
(ردیف: اِس شہر کی آب و ہوا سے)
 

محمداحمد

لائبریرین
بہت آداب جناب محمد احمد صاحب۔ ایک شعر اور پیش کر رہا ہوں:
خونِ تازہ بن کے دوڑوں گا بہاروں کی رگوں میں
خاک بھی ہو جاؤں گر، اِس شہر کی آب و ہوا سے
(ردیف: اِس شہر کی آب و ہوا سے)
آس کا دامن نہ چھوڑو یار، آسی دیکھنا
مشکلیں جو آج ہیں ہو جائیں گی آسان کل​

واہ ! بہت ہی خوب ۔۔۔۔!
 

محمداحمد

لائبریرین
Top