اُمید افزا اور ہمت بڑھانے والے اشعار

محمداحمد

لائبریرین
زندگی نام ہی نشیب و فراز کا ہے۔ ہماری زندگی میں اچھے برے دن آتے رہتے ہیں۔ کبھی کبھی ہمارے ارد گرد تاریکیاں اتنی بڑھ جاتی ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ شاید اب کبھی سحر کا منہ دیکھنا ہی نصیب نہ ہو۔ لیکن ایسے میں ایک جگنو بھی نظر آ جائے تو پھر سے اُمید بندھ جاتی ہے، یہ اُمید ہمیں جینے کا اور کوشش کرنے کا حوصلہ فراہم کرتی ہے۔ زندگی کے دیگر معاملات کی طرح اردو شاعری میں اُمید و بیم کی کیفیات کو بھی خوب برتا گیا ہے۔

اس دھاگے میں ہم اور آپ ایسے اشعار لکھیں گے جو اُمید افزا ہوں گے اور ہمیں اپنی اپنی زندگی کی مہمات میں مہمیز کرنے کا کام کریں گے۔

آغاز ایک ایسے قطعے سے جو مجھے بہت پسند ہے۔

کھول یوں مٹھی کہ اک جگنو نہ نکلے ہاتھ سے
آنکھ کو ایسے جھپک لمحہ کوئی اوجھل نہ ہو
پہلی سیڑھی پر قدم رکھ ،آخری سیڑھی پر آنکھ
منزلوں کی جستجو میں رائیگاں کوئی پل نہ ہو
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
ہم سے تو مایوسی والے اشعار سنیئے صاحب۔۔۔ :p

چلیں اک نظم ہے ناگزیر مجھے بہت پسند ہے اس معاملے میں۔۔۔ وہ سنیئے :)

یہ رات اپنے سیاہ پنجوں کو جس قدربھی دراز کر لے
میں تیرگی کا غبار بن کر نہیں جیوں گا
مجھے پتہ ہے کہ ایک جگنو کے جاگنے سے
یہ تیرگی کی دبیز چادر نہیں کٹے گی
مجھے خبر ہے کہ میری بے زور ٹکروں سے
فصیلِ دہشت نہیں ہٹے گی
میں جانتا ہوں کہ میرا شعلہ
چمک کے رزقِ غبار ہو گا
تو بے خبر یہ دیار ہو گا
میں روشنی کی لکیر بن کر
کسی ستارے کی مثل بکھروں گا
بستیوں کو خبر نہ ہو گی
میں جانتا ہوں کہ میری کم تاب
روشنی سے سحر نہ ہو گی
مگرمیں پھر بھی سیاہ شب کا
غبار بن کر نہیں جیوں گا
کرن ہو کتنی نحیف لیکن کرن ہے پھر بھی
وہ ترجماں ہے کہ روشنی کا وجود زندہ ہے
اور جب تک
یہ روشنی کا وجود زندہ ہے رات اپنے
سیاہ پنجوں کو جس قدربھی درازکر لے
کہیں سے سورج نکل پڑے گا
 

فرخ منظور

لائبریرین
ویسے تو غالب اور فیض کی بیشتر شاعری امید افزا ہے لیکن فیض کی شاعری میں ذرا سی بھی مایوسی کہیں نظر نہیں آتی۔
جلوہ گاہِ وصال کی شمعیں
وہ بجھا بھی چکے اگر تو کیا
چاند کو گُل کریں تو ہم جانیں
(فیض)

اور فیض کی یہ نظم

اس وقت تو یُوں لگتا ہے
اس وقت تو یوں لگتا ہے اب کچھ بھی نہیں ہے
مہتاب نہ سورج، نہ اندھیرا نہ سویرا
آنکھوں کے دریچوں پہ کسی حسن کی چلمن
اور دل کی پناہوں میں کسی درد کا ڈیرا
ممکن ہے کوئی وہم تھا، ممکن ہے سنا ہو
گلیوں میں کسی چاپ کا اک آخری پھیرا
شاخوں میں خیالوں کے گھنے پیڑ کی شاید
اب آ کے کرے گا نہ کوئی خواب بسیرا
اک بَیر، نہ اک مہر، نہ اک ربط نہ رشتہ
تیرا کوئی اپنا، نہ پرایا کوئی میرا
مانا کہ یہ سنسان گھڑی سخت کڑی ہے
لیکن مرے دل یہ تو فقط اک ہی گھڑی ہے
ہمت کرو جینے کو تو اک عمر پڑی ہے
میو ہسپتال، لاہور
4، مارچ 82ء
 
بہت اچھی بات کی، آپ نے محمداحمد صاحب۔

اب اس کو کیا کہئے گا کہ کچھ ستم ظریف یاس میں بھی آس ڈھونڈ لیتے ہیں۔ ایسے ہی دو شعر ملاحظہ فرمائیے۔
پہلا تو حضرتِ غالب کا ہے:
نہ لُٹتا دن کو گر تو رات کو یوں بے خبر سوتا​
رہا کھٹکا نہ چوری کا، دعا دیتا ہوں رہزن کو​
اور دوسرا اس فقیر کی فکر کا ثمرہ ہے۔​
ہم سا بے خانماں ہو کسی رنج میں مبتلا کس لئے​
اپنا گھر ہی نہ تھا، تھگ گئیں آندھیاں ڈھونڈتے ڈھونڈتے​

۔۔ بہت آداب۔
 

محمداحمد

لائبریرین
ویسے تو غالب اور فیض کی بیشتر شاعری امید افزا ہے لیکن فیض کی شاعری میں ذرا سی بھی مایوسی کہیں نظر نہیں آتی۔
جلوہ گاہِ وصال کی شمعیں
وہ بجھا بھی چکے اگر تو کیا
چاند کو گُل کریں تو ہم جانیں
(فیض)

بہت شکریہ فرخ بھائی ۔۔۔! کیا بات ہے۔

فیض کی نظم بھی خوب ہے۔ بلکہ فیض تو ہیں ہی لاجواب۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
اور استاد محترم کا ہی اک اور شعر مجھے بہت پسند ہے

یہی بہت ہے شکم پُر ہے اور تن پہ لباس
ترے بغیر میں کچھ تام جھام کیا کرتا
 

محمداحمد

لائبریرین
بہت اچھی بات کی، آپ نے محمداحمد صاحب۔

اب اس کو کیا کہئے گا کہ کچھ ستم ظریف یاس میں بھی آس ڈھونڈ لیتے ہیں۔ ایسے ہی دو شعر ملاحظہ فرمائیے۔
پہلا تو حضرتِ غالب کا ہے:
نہ لُٹتا دن کو گر تو رات کو یوں بے خبر سوتا​
رہا کھٹکا نہ چوری کا، دعا دیتا ہوں رہزن کو​

اور دوسرا اس فقیر کی فکر کا ثمرہ ہے۔​
ہم سا بے خانماں ہو کسی رنج میں مبتلا کس لئے​
اپنا گھر ہی نہ تھا، تھگ گئیں آندھیاں ڈھونڈتے ڈھونڈتے​

۔۔ بہت آداب۔


بہت شکریہ آسی صاحب،

کیا خوب اشعار ہیں۔ غالب تو غالب ہیں۔

لیکن جناب کا شعر بھی بہت اعلیٰ ہیں۔

شاید یہ مقولہ بھی کسی ایسے ہی ستم ظریف کا ہے۔
“A pessimist sees the difficulty in every opportunity; an optimist sees the opportunity in every difficulty.”
:)
 

محمداحمد

لائبریرین
استاد محترم الف عین صاحب کا اک شعر ہے

آشیاں کتنے بچے، کتنے گھروندے گرے، کون یہ گنتا پھرے
رات کی آندھی کے بعد سر پہ ہے دستار تو! ۔۔۔ شکر ادا کیجیئے
اور استاد محترم کا ہی اک اور شعر مجھے بہت پسند ہے

یہی بہت ہے شکم پُر ہے اور تن پہ لباس
ترے بغیر میں کچھ تام جھام کیا کرتا

بہت اعلیٰ۔۔۔!
 

محمداحمد

لائبریرین
ساحر لدھیانوی کا مشہورِ زمانہ شعر:
کچھ اور بڑھ گئے ہیں اندھیرے تو کیا ہوا​
مایوس تو نہیں ہیں طلوعِ سحر سے ہم​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
احمد فراز کا ایک شعر
شاید اس دھاگے سے میل کھا جائے


گو سیہ بخت ہیں ہم لوگ پہ روشن ہے ضمیر
خود اندھیرے میں ہیں دُنیا کو دِکھاتے ہیں چراغ
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
بچے کی دعا

(ما خو ذ)

بچوں کے لیے


لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری

دور دنیا کا مرے دم سے اندھیرا ہو جائے
ہر جگہ میرے چمکنے سے اجالا ہو جائے

ہو مرے دم سے یونہی میرے وطن کی زینت
جس طرح پھول سے ہوتی ہے چمن کی زینت

زندگی ہو مری پروانے کی صورت یا رب
علم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یا رب

ہو مرا کام غریبوں کی حمایت کرنا
درد مندوں سے ضعیفوں سے محبت کرنا

مرے اللہ! برائی سے بچانا مجھ کو
نیک جو راہ ہو اس رہ پہ چلانا مجھ کو
 
Top