امریکہ کے نام!

باسم

محفلین
فواد صاحب امریکی حملوں پر کوئی موقف پیش نہیں کیا آپ نے
باجوڑ میں میزائل حملہ امر یکا نے کیا ،پاک فوج ،طالبان کی مداخلت روکنے سے پاکستان کے انکار پر کارروائی کی ،امر یکی حکام
اسلام آباد (جنگ نیوز) پاکستان نے دو دن کی تاخیر کے بعد پہلی مرتبہ سرکاری طور پر اعتراف کیا ہے کہ قبائلی علاقے باجوڑ ایجنسی میں ایک گھر پر ہونے والا میزائل حملہ امریکہ ہی نے کیا تھا۔ پاک فوج کے ترجمان نے کہاکہ حملہ بغیر پائلٹ کے اڑنے والے طیاروں نے کیا ،اور اس سلسلے میں کوئی اجازت لی گئی نہ ہی معلومات کا تبادلہ کیا گیا،جبکہ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ طالبان کی مداخلت روکنے سے پاکستان کے انکار پر کارروائی کی ،امریکی اخبار کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے جواب سے مایوس ہو کر اقدام کیاگیا،دوسری جانب باجوڑ میں ہونے والے امریکی حملے کیخلاف مذہبی جماعتوں کی اپیل پر ملک بھر میں ریلیاں اور مظاہرے کئے گئے،مظاہرین نے امریکی آپریشن اور قتل عام پر شدید احتجاج کیا اورحکومت سے مطالبہ کیا کہ دہشتگردی کے خلاف نام نہاد جنگ کے خاتمے اور اس میں امریکا کا ساتھ نہ دینے کا مطالبہ کیا،تفصیلات کے مطابق پاکستان فوج کے ترجمان میجر جنرل اطہر عباس کے مطابق حملے کے بارے میں ہونیوالی تحقیقات کے بعد یہ بات سامنے آئی ہے کہ دو روز قبل باجوڑ ایجنسی کے ڈمہ ڈولہ کے علاقے میں ایک گھر پر ہونے والا حملہ بغیر پائلٹ کے اڑنے والے امریکی طیاروں نے کیا تھاجس کے نتیجے میں 14افرادا جا بحق ہوئے تھے تاہم انہوں نے مرنے والوں میں کسی بھی غیر ملکی کی ہلاکت سے لاعلمی کا اظہار کیا۔انہوں نے بتایا کہ قبائلی علاقے میں حملے سے قبل امریکی حکام نے پاکستان سے کسی قسم کی کوئی اجازت نہیں لی تھی اور نہ ہی اس سلسلے میں حکومت نے انکے ساتھ معلومات کا کوئی تبادلہ کیا تھاجبکہ تحقیقات کی روشنی میں پاکستان نے اس اقدام پر اتحادی فورسز سے سخت احتجاج کیا ہے ۔حملے کی ہم سے نہ اجا زت لی گئی اور نہ ہی معلومات کا تبادلہ کیا گیا ۔ واضح رہے کہ حکومت نے باجوڑ ایجنسی میں ہونیوالے واقعے کے بارے میں دو دن تک مکمل خاموشی اختیار ررکھی تھی جبکہ تحقیقات کے بعد پہلی مرتبہ سرکاری طور پر انہوں نے اتحادی فورسز سے احتجاج کیا ہے ۔ امریکی حکام نے بدھ کی شب پاکستان کے قبائلی علاقے باجوڑ پر امریکی طیارے سے میزائل حملہ کرنے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ حملہ پاکستانی حکام کی جانب سے اس انکار کے بعد کیا گیا ہے کہ وہ سرحد پار طالبان کی مداخلت نہیں روک سکتے جس پر امریکی حکام نے مایوس ہو کر یہ اقدام اٹھایا۔ اخبار نیویارک ٹائمز نے امریکی حکام کے حوالے سے اپنی رپورٹ میں کہا ہے گزشتہ ہفتے امریکی نائب وزیر خارجہ نیگروپونٹے نے بھی ایک تھنک ٹینک سے خطاب کے دوران پاکستان کو خبردار کیا تھا کہ وہ قبائلی علاقوں میں القاعدہ اور طالبان کی کارروائیوں کو روکے جو افغانستان میں جا کر کارروائیاں کرتے ہیں جس پر کینیڈا اور دوسرے ممالک نے اپنی افواج کو واپس بلانے کی وارننگ دے رکھی ہے۔دوسری جانب دینی ومذہبی جماعتوں کی اپیل پر جمعتہ المبارک کو ملک گیر سطح پر باجوڑ حملے کے خلاف امریکہ مردہ باد ریلیاں اور مظاہرے منعقد کئے گئے ، امریکہ کی طرف سے قبائلی علاقوں میں جاری آپریشن اور بے گناہ معصوم بچوں کے قتل عام پر شدید احتجاج کرتے ہوئے مظاہرین نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ امریکہ کے ساتھ دہشتگردی کے خلاف نام نہاد جنگ کا ساتھ دینا ترک کردے اور ملک کی آزادی اور خود مختاری کو داؤ پر نہ لگایا جائے ، اس سلسلہ میں جمعتہ المبارک کو علماء اکرام ، مشائخ عظام نے نماز جمعہ کے خطبات میں خصوصی طور پر گزشتہ دنوں قبائلی علاقہ ڈمہ ڈولہ میں امریکی حملہ کے نتیجہ میں بے گناہ اور معصوم افراد کے قتل عام کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور حکومت کی امریکہ نواز پالیسیوں پر کڑی تنقید کی گئی ، اس موقع پر راولپنڈی اسلام آباد ، لاہور ، گجرانوالہ ، فیصل آباد ، سیالکوٹ ، گجرات ، وزیر آباد ، شیخورپورہ ، ملتان ، اوکاڑہ ، ساہیوال ، حیدر آباد ، کراچی ، کوئٹہ ، زیارت ، گوادر ، پشاور ، مردان ، نوشہرہ ، کوہاٹ ، ڈیرہ اسماعیل خان ، ایبٹ آباد ، ہری پور ، سوات ، مانسہرہ سمیت آزاد کشمیر اور شمالی علاقہ جات میں بھی امریکہ کی طرف سے باجوڑ حملے کے خلاف احتجاجی مظاہرے ہوئے اس موقع پر پولیس کی بھاری نفری کسی بھی قسم کی ممکنہ گڑ بڑ سے نمٹنے کیلئے تعینات کی گئی تھی ، مظاہرین نے ہاتھوں میں پلے کارڈز ، بینرز اٹھا رکھے تھے جن پر امریکی حملوں کی شدید مذمت کے الفاظ درج تھے ۔ باجوڑ ایجنسی میں ڈمہ ڈولہ کے مقام پر امریکی طیاروں کی بمباری کے خلاف سرحد کے مختلف شہروں میں جے یو آئی اور طلبہ کی مختلف تنظیموں نے احتجاجی مظاہرے اور امریکہ کے خلاف نعرے بازی کی۔جمعیت علماء اسلام پشاور، پاسبا ن ، امامیہ سٹوڈنٹس اور باجوڑ اسٹوڈنٹس سوسائٹی نے باجوڑ کے علاقہ ڈمہ ڈولا میں ہونے والی امریکی بمباری کے خلاف گزشتہ روز پشاور پریس کلب اورشہربھرمیں احتجاجی مظاہرے کئے۔ مظاہرین نے باجوڑپرحملہ پاکستان کی سالمیت پرحملہ قرار دیتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا ہے امریکہ جیسے دہشت گردملک کے ساتھ تعلقات ختم کرکے سانحہ باجوڑکی تحقیقات کرائی جائیں ۔
 

ساجد

محفلین
فواد صاحب ، براہِ کرم دانستہ قتل کی امریکی پالیسی پر، اس حملے کے تناظر میں، کچھ روشنی ڈالئیے۔ میں یہ اس کو صرف حملہ ہی نہیں بدمعاشی اور غنڈہ گردی کہتا ہوں، آپ کیا کہتے ہیں؟
 

شمشاد

لائبریرین
ابھی وہ آئیں گے اور کہیں گے کہ وہاں اتنے دہشت گرد امریکہ پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنا رہے تھے۔ کچھ اعداد و شمار دیں گے، کچھ وزیروں کے بیان یہاں لکھیں گے۔ اللہ اللہ خیر سلہ۔
 

mujeeb mansoor

محفلین
میں یھی کہوں گاکہ
عالمی دہشت گرد امریکہ ،دہشت گرد اسلام نہیں ،
ظلم ستم میں اس سے زیادہ کوئی بدنام نہیں

امریکہ کو اسلام اور مسلمان نام سے عداوت،وجنگ وجدل ہے
کیونکہ اللہ کا فرمان ہے لن ترضی عنک الیھود ولاالنصاری حتی تتبع ملتہم
 

زینب

محفلین
یہ کیسے دہشت گرد ہیں جو اپنے ملک میں ہی حملے کرتے پھرتے ہیں امریکہ پے کوئی ہوا حملہ 9/11 کے بعد۔۔۔۔۔امریکہ جب چاہتا ہے ہمارے ملک میں مزایئل داغ دیتا ہے پہلے تو کوئی پاکستانی ملوث تھا یا نہیں 9/11 والے واقع میں مگر اب مجھے فخر ہو گا ایسے پاکستانیوں پے جو امریکہ میں ایسے ہی حملے کریں‌گے جیسے امریکہ پاکستان میں‌کر رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔امریکہ نہیں چاہتا کہ پاکستان میں امن ہو۔۔۔۔۔اسی لیے جب جب امن معاہدہ ہوا امریکہ نے میزایئل مار دیا پاکستانی علاقے میں۔۔۔۔۔۔۔۔

پہلے مشرف کا پھر بیان اجاتا تھا اور پاکستانی پی ایم کا بھی کہ یہ غلط کای امریکہ نے پر اب ہماری سوکالڈ جمہوری حکومت کا کوئی بیان سرے سے ایا ہی نہیں نا پی ایم نے مزمت کی نا وزیردفاع نے ۔۔کمال ہے اتنے بکے ہوئے ہیں یہ لوگ کہ اپنے ملک میں‌حملے نظر نہیں اتے انہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔امریکہ ایک دہشتگرد ملک ہے اس کا حال روس جیسا ہی ہونا چاہیے اور ہو گا بھی چین کو ہونا چاہیے سپر پاور۔کیوں کہ چین ایک پر امن ملک ہے۔۔۔۔۔۔۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

مردان ميں خودکش حملہ اور اس کے نتيجے ميں 13 افراد ہلاک۔ اس حوالے سے تحريک طالبان کا اعتراف اور ان کے ترجمان مولوی عمر کا يہ بيان

"مردان کا خودکش حملہ ڈمہ ڈولہ میں امريکی جارحيت پر ہمارا انتقام ہے"

http://geo.tv/5-19-2008/18311.htm

ايک اور خبر – طالبان کی جانب سے ايک پاکستانی فوجی کا سر قلم کر کے يہ پيغام ديا گيا کہ يہ تحريک طالبان کی جانب سے "امريکی حملے" کا انتقام ہے۔

http://news.yahoo.com/s/afp/20080516/wl_sthasia_afp/pakistanafghanistan

يہ دو خبريں امريکہ اور پاکستان کو لاحق انتہا پسندی اور دہشت گردی کے مشترکہ خطرے کو سمجھنے کے ليے کافی ہيں۔

"امريکی دہشت گردی" کے جواب ميں بطور "احتجاج" بے گناہ پاکستانی شہريوں کا دانستہ قتل ميری سمجھ سے بالا تر ہے۔

يہ درست ہے کہ امريکہ اور پاکستان ان انتہاپسند اور دہشت گرد گروپوں کے خاتمے کے ليے باہمی اتحادی ہيں اور اس ضمن ميں تعاون کا دائرہ کار محض مالی امداد تک محدود نہيں ہے بلکہ اس ميں فوجی سازوسامان کی امداد کے علاوہ انٹيلی جينس کا تبادلہ بھی شامل ہے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
http://usinfo.state.gov
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

ابھی وہ آئیں گے اور کہیں گے کہ وہاں اتنے دہشت گرد امریکہ پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنا رہے تھے۔ کچھ اعداد و شمار دیں گے، کچھ وزیروں کے بیان یہاں لکھیں گے۔ اللہ اللہ خیر سلہ۔


آپ نے ميرے "طريقہ کار" کا بالکل درست تجزيہ کيا ہے۔ کسی بھی موضوع پر محض اپنے جذبات کا اظہار کرنے کی بجائے ميری کوشش ہوتی ہے کہ درست اعداد وشمار حاصل کيے جائيں اور محض ميڈيا کی قياس آرائيوں کی بنياد پر اپنی رائے قائم کرنے کی بجائے متعلقہ افراد سے براہراست رابطہ کر کے ميڈيا کی "توڑ مروڑ"سے پاک اصل بيان حاصل کيا جائے۔ يہ ميرا ذاتی تجربہ ہے کہ اکثر اوقات ميڈيا ميں بيانات کو سياق و سباق سے ہٹ کر شائع کيا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس تحقيق ميں وقت درکار ہوتا ہے۔

کيا آپ کی تنقيد کا سبب يہ تو نہيں کہ اعداد وشمار بعض اوقات عمومی تاثر اور جذباتی کيفيت کی ترجمانی نہيں کرتے جو کسی موضوع کے حوالے سے آپ محسوس کرتے ہيں۔ حقيقت يہ ہے اعداد وشمار اور "اصل بيانات" کی تحقيق بعض اوقات مجھے بھی کسی خبر کے حوالے سے اپنی ابتدائ رائے تبديل کرنے پر مجبور کر ديتی ہے۔ ليکن ميرے نزديک کسی بھی فورم پر تعميری بحث کے ليے جذباتيت کے مقابلے ميں يہ طريقہ کار زيادہ کارآمد ہے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
http://usinfo.state.gov
 

باسم

محفلین
مردان ميں خودکش حملہ اور اس کے نتيجے ميں 13 افراد ہلاک۔ اس حوالے سے تحريک طالبان کا اعتراف اور ان کے ترجمان مولوی عمر کا يہ بيان

"مردان کا خودکش حملہ ڈمہ ڈولہ میں امريکی جارحيت پر ہمارا انتقام ہے"

http://geo.tv/5-19-2008/18311.htm

ايک اور خبر – طالبان کی جانب سے ايک پاکستانی فوجی کا سر قلم کر کے يہ پيغام ديا گيا کہ يہ تحريک طالبان کی جانب سے "امريکی حملے" کا انتقام ہے۔

http://news.yahoo.com/s/afp/20080516/wl_sthasia_afp/pakistanafghanistan

يہ دو خبريں امريکہ اور پاکستان کو لاحق انتہا پسندی اور دہشت گردی کے مشترکہ خطرے کو سمجھنے کے ليے کافی ہيں۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
http://usinfo.state.gov

ارے بھئی مردان حملے اور اس کے ذمہ داران کے متعلق تو آپ سے کسی نے پوچھا ہی نہیں ابھی تو یہ بات چل رہی ہے کہ
آپ نے کہا تھا امریکہ کو کیا ضرورت ہے حملہ کرنے کی؟ تو ہم اب آپ کا سوال آپ ہی سے پوچھتے ہیں کہ
امریکہ کو کیا ضرورت ہے حملہ کرنے کی؟

آپ کو مردان حملہ میں پاکستانیوں کی ہلاکت پر ہماری طرح تشویش ہوئی بہت اچھی بات ہے
مگر آپ کے پیغام سے لگتا ہے کہ آپ کو ڈمہ ڈولا حملہ پر کوئی افسوس نہیں ہوا
اگر ہوا ہے تو اس کا تذکرہ کیوں نہیں کیا؟ڈرتے ہیں کیا؟

"امريکی دہشت گردی" کے جواب ميں بطور "احتجاج" بے گناہ پاکستانی شہريوں کا دانستہ قتل ميری سمجھ سے بالا تر ہے۔
یہ بات ہماری سمجھ سے بھی بالا تر ہے مگر ایک سفارش آپ اپنی حکومت سے کرلیں تو ہمارے پاکستانی شہریوں کی بچت ہوسکتی ہے
وہ یہ کہ حملہ کیلیے اندھے جاسوس طیاروں کے بجائے پائلٹ طیارے بھیجا کریں تاکہ نشانہ تو ٹھیک لگے بے چارے عام شہری مارے جاتے ہیں اور جنہیں مارنا ہوتا ہے وہ مسجد میں کھلے عام سوتے پائے جاتے ہیں (بی بی سی اردو)، ہاں اگر ٹارگٹ صحافی تھا تو آپ بہتر جانتے ہیں حیات اللہ خان کے ساتھ بھی تو کچھ ایسا سلوک ہوچکا ہے
ہر بار طیاروں کی سیٹ بدلنی پڑے گی تو یہ کوئی بڑا خرچہ نہیں ہے

يہ درست ہے کہ امريکہ اور پاکستان ان انتہاپسند اور دہشت گرد گروپوں کے خاتمے کے ليے باہمی اتحادی ہيں اور اس ضمن ميں تعاون کا دائرہ کار محض مالی امداد تک محدود نہيں ہے بلکہ اس ميں فوجی سازوسامان کی امداد کے علاوہ انٹيلی جينس کا تبادلہ بھی شامل ہے۔
وہ زمانہ دور نہیں جب یہ الفاظ تھے کے ساتھ لکھے جائیں گے

اس حملے کے معاملے پر کوئی امریکی بیان نہیں آیا بش بھی سوال گول کرگئے جبھی تو آپ بھی پریشان ہورہے ہیں۔
 

خرم

محفلین
امریکہ کی حمایت مقصود نہیں لیکن اگر آپ امریکہ کے فوجیوں پر حملے کریں گے اور اسے جہاد کہیں گے تو امریکہ سے یہ توقع کیوں کہ وہ آپ پر جوابی حملہ نہ کرے؟ اگر پاکستان کی حکومت سے یہ توقع ہے کہ وہ قبائلیوں کو امریکہ پر حملہ کرنے سے نہ روکے تو اس سے یہ توقع کیوں کہ وہ امریکہ کو قبائلیوں پر حملہ کرنے سے روکے؟ اور پھر اس کی سزا پاکستان کے عام شہریوں کو کیوں دی جائے؟ اصول اگر وضع ہی کرنے ہیں تو سب کے لئے ایک سے تو کیجئے لیکن شاید "قبائلی اسلام" اس چیز کی اجازت نہیں دیتا۔
 
امریکہ کے فوجیوں پر حملے کریں گے اور اسے جہاد کہیں گے
تو کیا فساد کہیں گے ؟
حج بھی کعبہ کا کیا اور گنگا کا اشنان بھی
خوش رہے رحمٰن بھی راضی رہے شیطان بھی​

لاکھوں درود وسلام ہوں نبی السیف و ملاحم صلی اللہ علیہ وسلم پر
اللہ کی بے پناہ رحمت ہوں دین اسلام کے جانبازوں پر
 

ساجداقبال

محفلین
امریکہ کی حمایت مقصود نہیں لیکن اگر آپ امریکہ کے فوجیوں پر حملے کریں گے اور اسے جہاد کہیں گے تو امریکہ سے یہ توقع کیوں کہ وہ آپ پر جوابی حملہ نہ کرے؟ اگر پاکستان کی حکومت سے یہ توقع ہے کہ وہ قبائلیوں کو امریکہ پر حملہ کرنے سے نہ روکے تو اس سے یہ توقع کیوں کہ وہ امریکہ کو قبائلیوں پر حملہ کرنے سے روکے؟ اور پھر اس کی سزا پاکستان کے عام شہریوں کو کیوں دی جائے؟ اصول اگر وضع ہی کرنے ہیں تو سب کے لئے ایک سے تو کیجئے لیکن شاید "قبائلی اسلام" اس چیز کی اجازت نہیں دیتا۔
جب سب کیلیے ایک سے اصول ہونے چاہیے تو ایسے حملے ایران پر کیوں نہیں ہوتے جہاں سے افغانستان اور خاص کر عراق میں دراندازی ہوتی ہے؟ اور جس کا واویلا بھی مچایا جاتا ہے۔
اصول اگر وضع ہی کرنے ہیں تو سب کے لئے ایک سے تو کیجئے لیکن شاید "تیل کی سیاست" اس چیز کی اجازت نہیں دیتی۔
 

خرم

محفلین
تو کیا فساد کہیں گے ؟

بھیا جہاد کے لئے کسی مسلمان حاکمِ وقت کسی امیر کا حکم و اذن بھی ضروری ہوتا ہے کہ بس جب جس کا جی چاہا مُنہ اٹھا کر جہاد کے نام پر فساد شروع کر دیا؟ خیر کچھ لوگوں کے تئیں تو نہ پاکستان میں مسلمان بستے ہیں اور نہ یہاں مسلمانوں کی حکومت ہے۔ بلکہ ان لوگوں کے نزدیک تو اکثر مسلمان مسلمان ہی نہیں۔ ایسوں کا جہاد کیا اور اسلام کیا؟ بس ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا کر کسی کو بھی شیخ شیخ پکارنا شروع کردیا اور دھن دھنا دھن کشتوں کے پشتے لگانا شروع کر دیئے۔ اگر یہ اتنا ہی مقدس جہاد ہے تو پھر کوئی آیت کوئی حدیث پیش کیجئے جس میں مسلمان بے گناہ کا خون جان بوجھ کر بہانا جائز ہو؟ اور اگر نہ ملے تو سوچئے کہ یہ لوگ جو فخریہ مسلمانوں کا خون بہاتے ہیں ان کا اسلام کیا اور ان کی شریعت کیا؟
جب سب کیلیے ایک سے اصول ہونے چاہیے تو ایسے حملے ایران پر کیوں نہیں ہوتے جہاں سے افغانستان اور خاص کر عراق میں دراندازی ہوتی ہے؟ اور جس کا واویلا بھی مچایا جاتا ہے۔
واویلے کی بات چھوڑئیے، آپ یہ بتائیے کہ ایران میں کتنے گروپ ہیں اور کتنے لوگ ہیں جو عراق "جہاد" کے لئے جاتے ہیں؟ کوئی کسی کی بڑھک، کسی کی دھمکی کبھی پڑھی آپ نے؟ اگر پڑھی ہو تو ہمیں بھی دکھائیے گا۔ ایران تو طالبان کے خلاف امریکہ کا حمایتی تھا۔ ایران، بھارت اور امریکہ کا مشترکہ فوجی گروپ تھا جو طالبان کے خلاف تدبیراتی اقدامات تجویز کیا کرتا تھا اور شمالی اتحاد کی امداد کرتا تھا۔ اسے کیا ضرورت ہے افغانستان میں شمالی اتحاد کی حکومت کے خلاف کوئی شرارت کرنے کی؟ اور عراق میں ایران کا مقابلہ امریکہ سے نہیں سعودی عرب سے ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق بغداد پر قبضے میں ایران نے امریکہ کی مدد کی تھی۔ اسی لئے امریکہ دھمکیاں چاہے جتنی بھی دے، حملہ فی الحال ایران پر نہیں کرے گا بلکہ شائد کبھی بھی نہ کرے۔ اس کا مقصد صرف ایک ایسے حل تک پہنچنا ہے جس پر ایران اور سعودی عرب دونوں راضی ہوں اور یہ کام نا ممکن ہے۔ قصہ مختصر ایران نے کبھی بھی امریکی فوجیوں یا شہریوں پر کسی حملہ کی نہ اجازت دی ہے اور نہ اسے سپورٹ کیا ہے۔ احمدی نژاد جیسی کٹھ پتلیوں کی باتیں بس دل لگی کے لئے ہوتی ہیں۔
 
بی بی سی اردو : حکومت و طالبان کا امن معاہدہ


صوبہ سرحد کی حکومت اور سوات کے مقامی طالبان کے مابین پندرہ نکاتی امن معاہدہ طے پاگیا ہے اور فریقین نے معاہدے پر دستخط بھی کر دیے ہیں۔
اس بات کا اعلان بدھ کی شام سوات کے لیے بنائی گئی امن کمیٹی کے سربراہ اور سینئر صوبائی وزیر بشیر احمد بلور نے مذاکرات کے اختتام پر صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے کیا۔

بشیر احمد بلور نے اخبار نوسیوں کو معاہدے کے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ سوات کے مقامی طالبان پاکستانی ریاست، صوبائی اور مرکزی حکومتوں کی عملداری تسلیم کرتے ہوئے ان کے دائرہ کار کے اندر رہیں گے جبکہ معاہدے کے مطابق حکومت مالاکنڈ ڈویژن میں بہت جلد شریعت محمدی کا نفاذ عمل میں لائے گی۔

انہوں نے کہا کہ معاہدے میں طے پایا ہے کہ عسکریت پسند حکومتی اہلکاروں، فوج، پولیس اہلکاروں اور سرکاری املاک پر حملے نہیں کریں گے، پرائیویٹ ملیشاء پر پابندی ہوگی، عسکریت پسند خود کش حملوں سے دست بردار ہونگے اور اسکی مذمت کی جائیگی، ذاتی اور سرکاری دوکانوں پر حملے نہیں ہونگے۔ اس کے علاوہ ریموٹ کنٹرول بم دھماکوں بھی نہیں ہونگے اور فوج کو حالات کے مطابق بتدریج واپس بیرکوں میں بھیجا جائے گا۔ سوات میں قیدیوں کے مقدمات کا جائزہ لے کر ان کو رہا کیا جائے گا

بی بی سی اردو : سوات امن معاہدے پر امریکی تحفظات

امریکہ کا کہنا ہے کہ پاکستان کے صوبہ سرحد کے ضلع سوات میں حکومت اور مقامی عسکریت پسندوں کے درمیان ہونے والے امن معاہدے کو دہشتگردی کی منصوبہ بندی کی آڑ کے طور پر استعمال نہیں ہونا چاہیے۔
امریکہ کے دفتر خارجہ کے ترجمان شان میکارمک نے کہا ہے کہ’ہم یہ نہیں دیکھنا چاہیں گے کہ سمجھوتے کی آڑ میں شدت پسندوں کو دہشت گردی کی منصوبہ کی آزادی مل جائے‘۔
 

ابوشامل

محفلین
اصل میں امریکہ مشرق وسطی میں اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھنے کے لیے شیعہ-سنی تقسیم کا کارڈ کھیلنا چاہتا ہے۔ عراق میں خصوصی طور پر اور مشرق وسطی میں سعودی عرب-ایران مخالفت کے ذریعے بڑے پیمانے پر۔ سعودی عرب کی وہابی قیادت کو یہ کہہ کر کہ شیعہ ایران کو جوہری ہتھیاروں سے نہ روکا گیا تو وہ سب عرب ممالک کو کھا جائے گا اور دوسری جانب ایران کو دھمکا کر کہ ہم سعودی عرب کو مسلح کر رہے ہیں اور وہاں ہمارے اڈے ہیں۔ اس طرح وہ ڈبل گیم کھیل رہا ہے. یہ سارا کھیل دور جدید کا Great Game دکھائی دیتا ہے۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

جنوری 2008 ميں جنوبی وزيرستان کے گاؤں سپنکئ رگزئ ميں پاکستانی فوج نے ايک سکول پر قبضہ کيا جہاں کم عمر بچوں کو خودکش حملوں کی تربيت دی جا رہی تھی۔ ان ميں سے بہت سے بچوں کو ملک کے مختلف علاقوں سے اغوا کر کے يہاں لايا گيا تھا۔ پاکستان فوج کے ترجمان ميجر جرنل اطہر عباس کے مطابق صرف ايک سکول ميں خودکش حملوں کی تربيت پانے والے بچوں کی تعداد 50 سے زيادہ تھی۔

پاک فوج کے برگيڈير جرنل علی عباس کے مطابق ان بچوں کی عمريں 9 سے 12 سال کے درميان تھی۔ خودکش حملوں کے علاوہ ايسے سکول بھی دريافت ہوئے جہاں بچوں کو دہشت گردی کی وارداتوں کے ليے دھماکہ خيز ہتھياروں کے استعمال کی تربيت دی جا رہی تھی۔

يہ تمام سکول مقامی پاکستانی طالبان ليڈروں کی زير نگرانی چلائے جا رہے تھے جن کے ايک اہم رہنما بيت الللہ محسود کو حکومت پاکستان نے سابق وزير اعظم بے نظير بھٹو کے قتل ميں ملزم نامزد کيا تھا اور اس ضمن ميں ثبوت کے طور پر ميڈيا کو ايک آڈيو ٹيپ بھی سنائ گئ تھی۔

دہشت گردی کی تربيت ميں ملوث ان سکولوں کے خلاف کاروائ جنوری 2008 ميں کی گئ اور ميڈيا کو اس کاروائ کے بارے ميں 18 مئ 2008 کو بريف کيا گيا۔

جنوبی وزيرستان ميں پاک فوج کی جانب سے دہشت گردی کے ان سکولوں کا انکشاف اور اس ميں کم سن بچوں کو دہشت گردی کی دی جانے والی تربيت طالبان اور القائدہ کے اسی نيٹ ورک کا حصہ ہے جن کی وارداتوں سے مسلم اور غیر مسلم کی تفريق کے بغير ہزاروں بے گناہ لقمہ اجل بن چکے ہيں۔

اسی حوالے سے چند مزيد مثاليں -

چار 4 دسمبر 2007 کو امريکی افواج نے عراق ميں خان بنی ساد نامی علاقے ميں القائدہ کے ايک اڈے سے کچھ وڈيو فلميں حاصل کيں جس ميں کم عمر بچوں کو دہشت گردی کی تربيت ليتے دکھايا گيا ہے۔ آپ يہ ويڈيو اس ويب لنک پر ديکھ سکتے ہيں

[ame]http://www.youtube.com/watch?v=sldVctm8qo8&feature=related[/ame]

اسی طرح 6 فروری 2008 کو حاصل کی گئ اس ويڈيو کے مطابق ايک دس سالہ عراقی لڑکے کو کرکک کے مقام سے القائدہ کے دہشت گردوں نے اغوا کيا اور اس کے والدين سے تاوان کا مطالبہ کيا گيا۔

[ame]http://www.youtube.com/watch?v=19Mzuwb6e2A&feature=user[/ame]

جولائ 2007 میں چودہ سالہ پاکستانی رفيق الللہ کو افغانستان کے صوبہ خوست کے گورنر ارسلہ جمال کو ہلاک کرنے کے ليے خودکش حملے کے ليے پاکستان کے ايک مدرسے سے بيجھا گيا۔

http://www.rferl.org/featuresarticle/2007/07/d3d050ac-7a59-4d70-94f2-34edfcef9546.html

چھ سالہ افغانی لڑکے جمعہ گل کو طالبان نے يہ بتا کر خودکش جيکٹ پہنائ کہ اس کا بٹن دبانے سے پھول کی پتياں نچھاور ہوں گی۔

http://www.telegraph.co.uk/news/main.jhtml?xml=/news/2007/06/27/wtaliban127.xml

ستمبر 2007 میں الجيريا کے شہر ڈيلس ميں ايک 15 سالہ لڑکے نے اپنے جسم پر بم باندھ کر ايک آرمی بيرک ميں 30 افراد کو موت کی گھاٹ اتار ديا۔ يہ لڑکا بھی دہشت گردی سے منسلک ايک سکول کا "تعليم يافتہ" تھا۔

طالبان اور القائدہ کے حوالے سے ايسے بے شمار واقعات اور شواہد اس بات کا واضح ثبوت ہيں کہ يہ عناصر صرف "مارو اور مارتے چلے جاؤ" کی پاليسی پر عمل پيرا ہيں اور کسی اخلاقی ضابطے اور اصول پر يقين نہيں رکھتے۔

آج کل پاکستانی ميڈيا پر ان عناصر کے ساتھ "امن مذاکرات" پر بہت جوش وخروش کا مظاہرہ کيا جا رہا ہے اس ضمن ميں بظاہر بيت الللہ محسود کو بھی بے نظير بھٹو کے قتل سميت سينکڑوں پاکستانيوں کا خون معاف کر ديا گيا ہے۔ ليکن سب سے اہم سوال يہ ہے کہ کيا "قيام امن" کا مطلب يہ ہے کہ ان تنظيموں کو پاکستان کی حدود کے اندر ان "جہادی سکولوں" کا نظام چلانے کے ليے تحفظ فراہم کيا جائے اور اس کے بدلے ميں وہ پاکستان کے شہروں کو اپنی کاروائيوں سے مستثنی قرار ديں گے؟

کيا آپ کے خيال ميں يہ محض اتفاق ہے کہ گزشتہ چند ہفتوں میں جہاں پاکستان ميں "امن معاہدے" کا پرچار کيا جا رہا ہے اور پاکستان ميں دہشت گردی کے واقعات ميں کمی کا عنديہ ديا جا رہا ہے وہاں افغانستان کے مشرقی حصے میں پاکستان سے ملحقہ سرحدی علاقوں ميں دہشت گردی کے واقعات ميں 52 فيصد اضافہ ہو چکا ہے۔

يو – ايس – اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ کے ترجمان ٹام کيسی کا بيان جو اس حوالے سے امريکی حکومت کے موقف کو واضح کرتا ہے۔

"ہم امن معاہدے کی حمايت کرتے ہيں اگر يہ دہشت گردی کے خاتمے کی جانب اہم قدم ثابت ہو۔ اگر اس معاہدے کے نتيجے ميں کچھ حلقے سياسی دائرہ ميں شامل ہو کر پاکستان اور پاکستان کے اداروں کی مضبوطی اور ترقی کا موجب بنيں تو ہم يقينی طور پر اس کی حمايت کريں گے۔ اس معاہدے کا مقصد دہشت گردی کے حوالے سے پائے جانے والے خدشات اور انکے خاتمے پر مرکوز ہونا چاہيے۔"


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
http://usinfo.state.gov
 
Top