امریکہ کے نام!

طلعت حسین نے پیپلز پارٹی کے چہرے کو اس پروگرام میں بے نقاب کیا ہے ضرور دیکھیں:
http://pkpolitics.com/2008/05/12/live-with-talat-12-may-2008
اس پروگرام کے بعد شاید طلعت حسین یا آج ٹی وی پر پابندیاں لگا دی جائیں۔
خاور اپ یہ دیکھیے جو اوپر وڈیو پوسٹ ہے۔
پتہ پڑے گا کہ پی پی پی ہی تھی جس کی وجہ سے اج یہ موقع ہے کہ ججز اور عدلیہ کی بحالی کی بات ہورہی ہے۔
دوسرے
میری ناچیز رائے میں کسی کے شجرہ پر اس طرح تبصرہ کرنا کچھ مہذب رویہ نہیں ہے۔
 

mfdarvesh

محفلین
اندرونی خلفشار اور کمزور پاکستا ن ہی امریکہ کو پسند ہے اس لیے وہ کبھی بھی پاکستان کو مستحکم نہیں ہونے دے گا۔
 

زینب

محفلین
ساری بات ہی یہ ہے کہ زرداری مشرف سے ملا ہوا ہے۔۔۔۔۔۔۔اور وہ ججز بحالی کے حق میں نہیں بس بات ختم۔۔۔۔۔۔۔۔
 

ساجداقبال

محفلین
یہ دھاگہ غالبآ‌امریکہ کے نام تھا جسے آپ نے پی پی پی کے نام کر دیا۔
میں جواد صاحب سے یہ پوچھنا چاہوں گا کہ کل جسطرح امریکہ نے باجوڑ میں گائیڈڈ‌میزائل استعمال کیے یہ کس کھاتے میں‌تھے؟ اور امریکہ کو یہ حق کس نے دیا؟
 

mfdarvesh

محفلین
جناب صدر پاکستان پرویز مشرف صاحب نے یہ حق دیا ہے میں نے Ny Timesمیں‌پڑھا تھا کہ ان کو اجازت ہے
 

Fawad -

محفلین
Fawad - Digital Outreach Team - US State Department



پچھلے کچھ ہفتوں ميں جن ديگر ممالک کے اعلی عہدیداروں نے پاکستان کے حکام بالا سے رابطے کيے ہيں ان کے نام يہ ہيں۔

ايران
چين
جاپان
کينيڈا
افغانستان
برطانيہ
ماليشيا
فرانس

آپ اس لسٹ ميں يورپی يونين اور سارک کے نمايندگان کی ملاقاتوں کو بھی شامل کر سکتے ہيں۔ ان ملاقاتوں اور رابطوں کی تفصيل آپ حکومت پاکستان کی سرکاری ويب سائٹ پر پڑھ سکتے ہيں۔ ان رابطوں اور ملاقاتوں ميں جو موضوعات زير بحث آئے ہيں ان ميں مختلف ترقياتی منصوبوں پر تبادلہ خيال کے علاوہ دہشت گردی، سرحدی صورت حال اور ملکی کے سياسی مسائل پر گفتگو شامل ہے۔

http://www.mofa.gov.pk/Press_Releases/News_Events_April08.htm
http://www.mofa.gov.pk/Press_Releases/News_Events.htm

يہ تاثر دينا کہ صرف امريکی حکام ہی پاکستانی ليڈروں سے مسلسل رابطے ميں ہيں، بالکل بے بنياد ہے۔ جيسا کہ ميں نے پہلے اس فورم پر کہا تھا کہ مختلف سطح پر سفارتی رابطے کوئ غير معمولی بات نہيں۔ سفارت کاروں سے يہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ جس ملک ميں موجود ہوں اس ملک کے حکام سے مسلسل رابطے ميں رہیں اور ملک ميں ہر متوقع تبديلی سے اپنی حکومت کو آگاہ رکھيں۔ يہ عمل ڈپلوميسی کے زمرے ميں آتا ہے نا کہ کسی ملک کے اندرونی معاملات ميں مداخلت۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
http://usinfo.state.gov
 

Fawad -

محفلین
Fawad - Digital Outreach Team - US State Department

رچرڈ باؤچر لندن مذاکرات میں کیا کر رہے تھے؟


محترم محسن،

پہلی بات تو يہ ہے کہ صرف امريکی سفارت کاروں نے ہی لندن ميں آصف زرداری اور نواز شريف سے ملاقات نہيں کی تھی بلکہ بہت سے ديگرممالک کے سينير اہلکار پاکستانی قائدين سے روزانہ ملاقاتيں کرتے ہيں۔ ان ملاقاتوں کا مقصد يہ جاننا ہوتا ہے کہ ملک ميں کيا بڑی سياسی تبدلياں متوقع ہيں اور اس کے نتيجے ميں امريکی حکومت کو کيا موقف اختيار کرنا ہو گا۔

ميں يہ واضح کر دوں کہ حکومتی سطح پر فيصلہ سازی کے ليے ضروری ہوتا ہے کہ سفارت کار اپنی حکومتوں کو ہر قسم کی متوقع سياسی تبديلی سے بروقت آگاہ کرتے رہيں۔ واشنگٹن ميں حکومتی سطح پر پاليسی سازی کے عمل سے منسلک اہلکار پاليسی بنانے کے ليے سی – اين – اين کی خبروں پر نہيں بلکہ اپنے سفارت کاروں پر انحصار کرتے ہيں جو اپنی ملاقاتوں اور روابط کے ذريعے اہم اور ممکنہ سياسی تبدليوں سے آگاہی حاصل کرتے ہيں۔

رچرڈ باؤچر کی لندن ميں آصف زرداری اور نواز شريف سے ملاقات کے حوالے سے آپ کے سوال کا جواب انھی کی زبانی –

"پاکستان ميں سياسی جماعتوں کی جانب سے ججوں کی بحالی کے حوالے سے درپيش سياسی مسائل کے حل کے بعد امريکہ پاکستان ميں آزاد عدليہ کے قيام کی بھرپور حمايت کرتا ہے۔ ليکن ميں يہ بات واضح کر دينا چاہتا ہوں کہ اس حوالے سے درپيش مشکلات کا حل پاکستان کی سياسی جماعتوں کی ذمہ داری ہے۔ سياسی قائدين کو اس ضمن ميں سياسی مسلے کا حل نکالنا ہو گا۔ اس وقت ججز کی بحالی ان کی ذمہ داری ہے اس کے ليے طريقہ کار کا فيصلہ بھی انھوں نے خود طےکرنا ہے۔

جہاں تک امريکہ کا سوال ہے تو ہم پاکستان ميں ايک آزاد عدالتی نظام کی مکمل حمايت کرتے ہيں اور اس سلسلے ميں ہر ممکن تعاون اور مدد کے ليے تيار ہيں ليکن اس حوالے سے ہم اس بات کا انتظار کر رہے ہيں کہ پاکستانی قائدين اس مسلے کو حل کريں۔

جہاں تک اس مسلے کے حل کے ليے ٹائم فريم کا تعلق ہے تو ميں ايک بار پھر کہوں گا اس کا سارا دارومدار پاکستانی قائدين پر ہے"۔



فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
http://usinfo.state.gov
 

Fawad -

محفلین
Fawad - Digital Outreach Team - US State Department

ايک تاثر جو ميں کثرت سے اردو فورمز پر ديکھ رہا ہوں وہ يہ ہے کہ امريکی حکومت کے نزديک اس بات کی کوئ اہميت نہيں ہے کہ پاکستان کے عوام کيا سوچ رکھتے ہيں اور مختلف ايشوز کے حوالے سے ان کی رائے کيا ہے۔ يہ تاثر بالکل غلط ہے۔ ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم کے توسط سے اردو زبان ميں امريکی حکومت کا موقف آپ تک پہنچانا اور آپ کی رائے سےامريکی حکام کو آگاہ رکھنا اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستانی عوام کی رائے اور سوچ امريکی حکام کے ليے اہميت کی حامل ہے۔

ذيل میں آپ کو امريکی سيکريٹری آف اسٹيٹ کونڈو ليزا رائس کا امريکہ اور پاکستان کے تعلقات کے حوالے سے موقف انھی کی زبانی پيش کر رہا ہوں۔

"مجھے ياد ہے کہ سيکريٹری آف اسٹيٹ کا عہدہ سنبھالنے کے پہلے سال میں پاکستان کے دورے پر تھی اور ايک عوامی تقريب ميں اس وقت کے پاکستانی وزير خارجہ کے ساتھ کھڑی تھی اور ميں نے ان سے کہا تھا کہ امريکہ اس بات کی توقع رکھتا ہے کہ آپ پاکستان ميں شفاف اور غير جانب دار انتخابات کا انعقاد يقينی بنائيں گے۔ اور يہ بات ميں نے ان سے ايک پبلک فورم پر کہی تھی۔

اس کے بعد سے اب تک پاکستان ميں جمہوری نظام کے قيام کے حوالے سے ہمارے موقف میں ذرہ برابر بھی تبديلی نہيں آئ۔ يہ درست ہے کہ دہشت گردی کے حوالے سے اپنے مشترکہ دشمن کے خاتمے کے ليے ہم نے مشرف حکومت کے ساتھ مل کر کام کيا ہے ليکن پاکستان ميں جمہوری نظام کے قيام کے ليے ہماری حمايت ميں کوئ تبديلی نہيں آئ ہے۔

ميرے لیے جو چيز تکليف دہ ہے وہ پاکستان ميں موجود يہ تاثر ہے کہ پاکستان کے ليے ہماری پاليسياں "خفيہ نوعيت" کی ہيں۔ شايد اس کی وجہ پبلک ڈپلوميسی ميں ناکامی ہے۔ ايسا محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان ميں ہمارا يہ موقف پوری طرح واضح نہيں کيا گيا کہ شروع دن سے ہم پاکستان ميں آزاد اليکشن کے ليے آواز بلند کر رہے ہيں۔ ہم نے فوجی حکومت پر ہر ممکن دباؤ ڈال کر يہ يقينی بنايا کہ ملک ميں اليکشن کے بعد ايک فوجی وردی والے صدر سے ملک کا نظام سول حکومت کو منتقل کيا جائے۔

ليکن میں اپنے آپ سے يہ سوال کرتی ہوں کہ ہماری کوششيں اور ہمارا موقف پاکستانی عوام تک کيوں نہيں پہنچ سکا۔ ميرے خيال ميں مسلہ يہ ہے کہ پاکستان ميں لوگوں کا عام خيال يہ ہے کہ ہم پاکستان ميں ايک جمہوری حکومت کے مقابلے ميں ايک فوجی حکومت کو ترجيح ديتے ہيں۔ يہ تاثر بالکل غلط ہے۔ ميرے خيال ميں، اب جبکہ پاکستان نے جمہوريت کی طرف پيش قدمی شروع کر دی ہے، ہم پاکستان ميں جمہوری اداروں کے استحکام کے ليے بہت کچھ کر سکتے ہيں اور اس سلسلے ميں ہر ممکن تعاون اور مدد کے ليے تيار ہيں"۔

ميں جلد ہی پاکستان ميں امريکی سفير اين پيٹرسن کا موقف حاصل کرکے اسی فورم پر پيش کروں گا۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
http://usinfo.state.gov
 

ساجداقبال

محفلین
ميرے لیے جو چيز تکليف دہ ہے وہ پاکستان ميں موجود يہ تاثر ہے کہ پاکستان کے ليے ہماری پاليسياں "خفيہ نوعيت" کی ہيں۔
تو کیا باجوڑ حملہ کسی پبلک فورم پر باقاعدہ وارننگ دیکر کیا گیا تھا؟‌---یا----کوئی اعلان جنگ ہوا تھا جس کو ہمارے غیر ذمہ دار میڈیا نے ہم تک نہیں‌ پہنچایا؟‌:eek:
 

mujeeb mansoor

محفلین
زرداری مشرف امریکی گٹھ جوڑ

ساری بات ہی یہ ہے کہ زرداری مشرف سے ملا ہوا ہے۔۔۔۔۔۔۔اور وہ ججز بحالی کے حق میں نہیں بس بات ختم۔۔۔۔۔۔۔۔
ذینب جی؛آپ کی بات بالکل درست لیکن بات ختم نہیں بلکہ یہ دونوں امریکہ کے اشارے پر ناچ رہے ہیں ،ججز کو بحال کرنا دراصل امریکی مفادات کے لیے خطرہ ہے اس لیے وہ نہیں چاہتے کہ ان کی بحالی عمل میں لائی جائے
 

mfdarvesh

محفلین
فواد صاحب بات یہ ہے کہ امریکہ صرف مشرف کو چاہتا ہے اس کے نزدیک جمہوریت نامی کوئی چیز نہیں‌ہے صرف مفاد ہے اور اس مفاد مشرف صاحب پورا کر سکتے ہیں اس لیے ان کی پشت پناہی ہو رہی ہے اور جب ضرورت ختم ہو جائے گی توجنرل ضیاء کا حال سامنے ہے۔
 

باسم

محفلین
آؤٹ ریچ ٹیم کے رکن کا موقف تھا کہ امریکہ کو حملہ کرنے کی کیا ضرورت ہے۔
 

محسن حجازی

محفلین
محترم فواد صاحب!
میرا موقف فقط یہ ہے کہ امریکہ کو دہشت گردی سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ دنیا کے سب سے بڑے فوجی بجٹ اور جدید ترین مشینری کے ساتھ بھی اگر خطرہ ہے تو ہم جیسے ممالک تو شاید دو دن نہ چل سکیں۔ میں صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ امریکہ کو اپنے ہاتھ پاؤں سمیٹ لینا چاہئیں اور یہ ایک ہزار ارب ڈالر جو چند خانہ بدوشوں کے مارنے کے پیچھے لگا دیا گیا its not well spent سب ضائع ہو گیا اور نتیجہ یہ نکلا کہ امریکہ ایجاد و اختراع میں یورپ سے کہیں پیچھے رہ گیا اور یہ سب اسی 10 سالہ دور میں ہوا یعنی 1998 سے لے کر 2008 میں۔ امریکی قیادت اس سمجھ بوجھ کی حامل نہیں جو ابراہام لنکن میں تھی یا بنجمن فرینکلن میں تھی اور cowboy قسم کی قیادت نے امریکہ کا بیڑہ غرق کردیا ہے اور گیلپ سروے بتاتا ہے کہ 87 فیصد امریکی عوام اب تبدیلی چاہتے ہیں۔
امریکی سائنسی ترقی میں تمام انسانیت stakeholder ہے اور میں اسی انسانیت کے ناطے سے یہ بات کہہ رہا ہوں۔
 

arifkarim

معطل
محترم فواد صاحب!
میرا موقف فقط یہ ہے کہ امریکہ کو دہشت گردی سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ دنیا کے سب سے بڑے فوجی بجٹ اور جدید ترین مشینری کے ساتھ بھی اگر خطرہ ہے تو ہم جیسے ممالک تو شاید دو دن نہ چل سکیں۔ میں صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ امریکہ کو اپنے ہاتھ پاؤں سمیٹ لینا چاہئیں اور یہ ایک ہزار ارب ڈالر جو چند خانہ بدوشوں کے مارنے کے پیچھے لگا دیا گیا its not well spent سب ضائع ہو گیا اور نتیجہ یہ نکلا کہ امریکہ ایجاد و اختراع میں یورپ سے کہیں پیچھے رہ گیا اور یہ سب اسی 10 سالہ دور میں ہوا یعنی 1998 سے لے کر 2008 میں۔ امریکی قیادت اس سمجھ بوجھ کی حامل نہیں جو ابراہام لنکن میں تھی یا بنجمن فرینکلن میں تھی اور cowboy قسم کی قیادت نے امریکہ کا بیڑہ غرق کردیا ہے اور گیلپ سروے بتاتا ہے کہ 87 فیصد امریکی عوام اب تبدیلی چاہتے ہیں۔
امریکی سائنسی ترقی میں تمام انسانیت stakeholder ہے اور میں اسی انسانیت کے ناطے سے یہ بات کہہ رہا ہوں۔

دہشت گردی جو کہ خود امریکہ نے پھیلائی ہے، کو خود اس سے کیا خطرہ ہوگا؟

امریکہ کی دوسرے ملکوں میں مداخلت اپنے تیل کے انٹرسٹ کی وجہ سے ہے اور بس! اگر وہ اپنے ہاتھ پاوں سمیٹ لے تو اپنی انڈسٹری کیلئے تیل اور ایندھن کہاں سے لائے؟ سائنس سے تیل حاصل نہیں ہوتا!
 

شمشاد

لائبریرین
افغانستان میں کون سا تیل نکلتا ہے ؟ ہاں وہاں پر ہیروئن اور افیم بہت ہوتی ہے۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

امریکہ کی دوسرے ملکوں میں مداخلت اپنے تیل کے انٹرسٹ کی وجہ سے ہے اور بس! !


محترم؛

آپ کی بات ميں وزن ہوتا اگر تيل کا بحران محض ترقی پذير ممالک تک محدود ہوتا اور امريکہ ميں لوگ بقول آپکے عراق اور افغانستان سے چرائے ہوئے تيل کے عوض سستے تيل کے مزے لوٹ رہے ہوتے۔ تيل کے عالمی بحران کا اثر امريکہ ميں بھی اتنا ہی پڑا ہے جتنا کہ باقی دنيا ميں۔

آپ کی رائے ايک غير منطقی عمومی تاثر پر مبنی ہے، ورنہ حقائق تو کچھ مختلف تصوير دکھا رہے ہيں۔ امريکہ ميں تيل کی کمی اور بڑھتی ہوئ قيمتوں کے حوالے سے ايک خبر۔

http://biz.yahoo.com/cnnm/080516/051608_gas_prices.html


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
http://usinfo.state.gov
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

امريکی سفارت کاروں کی پاکستانی سياست دانوں سے ملاقاتيں اور اس کے نتيجے ميں پاکستان کے اندرونی سياسی معاملات ميں مداخلت کے غلط تاثر کے حوالے سے يہ نقطہ بھی اہم ہے کہ حال ہی ميں امريکہ ميں پاکستان کے نامزد سفير حسين حقانی نے تينوں امريکی صدارتی اميدواروں سے عليحدہ ملاقاتيں کی اور مستقبل ميں پاکستان اور امريکہ کے مابين تعلقات کے حوالے سے تپادلہ خيال کيا۔ ليکن کسی امريکی اخبار نے يہ الزام نہيں لگايا کہ پاکستان امريکہ کے اندرونی معاملات ميں مداخلت کر رہا ہے يا پاکستان امريکہ کی مستقبل کی خارجہ پاليسيوں پر اثرانداز ہو رہا ہے۔ اس کے برعکس واشنگٹن پوسٹ نے آج کی اشاعت ميں حسين حقانی کے بارے میں ايک اداريہ لکھا ہے جس ميں واشنگٹن ميں مختلف امریکی اہلکاروں سے ان کی مسلسل ملاقاتوں اور پاکستان کے موقف کے ليے ان کی لابنگ کی تعريف کی گئ ہے۔ سفارت کاروں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ مسلسل رابطے اور ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رکھيں۔

http://www.washingtonpost.com/wp-dyn/content/article/2008/05/15/AR2008051503401.html?tid=informbox


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
http://usinfo.state.gov
 

خرم

محفلین
وہ کہتے ہیں نا کہ اپنی مرغی اچھی ہو تو اوروں کے گھر جاکر انڈے نہیں دیتی۔ ہم تو وہ بھولے بادشاہ ہیں کہ ہمیں مرغی بھی لاڈلی ہے اور مرغی کو عشق کسی اور گھر سے ہے۔ بجائے اپنی مرغی حلال کرنے کے اوروں‌سے جھگڑتے ہیں کہ ہماری مرغی ان کے گھر کیوں آتی ہے؟ بھولے بادشاہ جن شریفوں اور زرداروں کو امریکہ نے مداخلت کرکے ان کی جان بخشوائی، ان سے معاہدے کئے ان کی سرپرستی کی وہ ان آقاؤں کے خلاف کیسے جا سکتے ہیں؟ رچرڈ باؤچر پر آپ کو غصہ آتا ہے جب نوازشریف کی جان بخشی کے لئے بل کلنٹن نے شرفو کو کہا تھا اور پھر راتوں رات ایک طیارہ اسے تمام خاندان سمیت لے کر باہر چلا گیا تب آپ کو امریکہ بُرا نہیں لگا؟ اور اگر لگا بھی تو صرف امریکہ بُرا لگا؟ اس کےکاندھوں پربیٹھے ہوئے شریفے نہیں بُرے لگے؟ اسی طرح جب مرحومہ ترلے ڈال کر بُش صاحب بہادر کو ناشتے پر لوگوں کے ہجوم میں ملنے جاتی تھیں، برملاکہتی تھیں کہ امریکی مفادات کا تحفظ وہ بہتر طور سے کر سکتی ہیں تب امریکہ ہی بُرا لگا آپ کو، مرحومہ تو جان سے بھی عزیز رہیں۔ زردار کی رہائی کی ڈیل سے لے کر اس کی نیویارک میں مستقل رہائش پر آپ کو امریکہ ہی بُرا لگا سینٹ پرسنٹ پھر بھی سینٹ پرسنٹ عقیدت کا حقدار رہا۔ آخر کبھی یہ بھی سوچا کہ ایک ملک جو ہم سے ہزاروں میل دور ہے کس طرح ہمارے معاملات میں مداخلت کرتا ہے؟ جو لوگ نواز شریف، زرداری، سیاسی و فسادی ملاؤں ایسوں کو لیڈر مانتے ہیں‌اور ان کے پیچھے چلنا کارِ ثواب گردانتے ہیں ان کے معاملات میں امریکہ تو کیا تائیوان بھی مداخلت کرسکتا ہے۔ کہتے ہیں کہ نواز شریف ججوں کے معاملہ پر علیحدہ ہو گیا۔ نواز شریف کا مقصد صرف پرویز مشرف سے انتقام لینا ہے اور اس کے نزدیک اس کا واحد طریقہ جج بحال کرنا ہیں۔ وگرنہ نواز شریف تو وہی ہے جس نے سپریم کورٹ پر حملہ کروایا تھا، ججوں کو خریدا تھا اور پاکستان میں دو سپریم کورٹیں چلی تھیں۔ وہ نواز شریف کیسے ایسی عدلیہ کو قبول کرسکتا ہے جو لاہور سے لسی بذریعہ جہاز سرکاری خرچ پر منگوانے پر پوچھ گچھ کرے؟ اور جن ججوں نے زرداری کے خلاف بنے مقدمات معاف کئے ہیں انہیں وہ کیسے گھر بھیج دے؟ جس پرویز مشرف نے انہیں سوئٹزرلینڈ کی عدالتوں سے سزا ملنے سے بچایا ہے وہ اس کو فارغ کرکے کیسے میدان نواز شریف کے لئے خالی کر دے؟ لیکن بہرحال قصور امریکہ کا ہی ہے۔ ہمت بھائی دھڑلے سے نا اہلوں کو اعلٰی ملازمتیں دینے کا دفاع کرتے ہوئے اس میں شرعی فلسفہ گھسیٹ لائے۔ یہ جانے بغیر کہ اہلیت تو دین کے اندر شرطِ اول قرار دی گئی ہے اور نااہل کو اہل پر ترجیح دینا ناانصافی ہے اور دین عدل کا حکم دیتا ہے۔ معاش کی فراہمی حکومتِ وقت کی ذمہ داری ہوتی ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوتا کہ نااہلوں کو بھرتی کرکے ہر چیز کا بیڑا غرق کردیں۔ جاری ہے۔۔۔۔۔
 
Top