امریکہ کے نام!

محسن حجازی

محفلین
بہرحال مجھے تو خود افسوس ہو رہا ہے کہ میں نے یہ تھریڈ پوسٹ کیوں کیا اور میرا لہجہ اتنا تلخ کیوں ہو گيا۔ بہرطور، امریکی خواب اب پورا ہو چکا ہے جس کے مطابق مسلم لیگ (ن) کو حکومت سے باہر اپوزیشن بنچوں پر بٹھانا تھا۔ یہ بات کچھ تجزیہ نگار الیکشن کے نتائج کے اگلے روز ہی کہہ رہے تھے کہ مسلم لیگ (ن) کو سخت موقف کے باعث امریکہ پسند نہیں کرے گا اور یوں اسے باہر بیٹھنا پڑ سکتاہے اور وہی ہوا۔ خس کم جہاں پاک۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

ججز کی بحالی کے ضمن ميں سياست دانوں کی ناکامی – قصوروار امريکہ –

ايک بار پھر پاکستان کے سياسی برج جن نعروں اور وعدوں کی بنياد پر برسر اقتدار آئے، ان ميں ناکامی پر الزام امريکہ پر ڈال کے اپنی تمام ذمہ داريوں سے آزاد ہيں۔ پاکستان کے بعض سياسی دانشور اور صحافی عوام ميں وعدہ خلافی کرنے والوں کے خلاف احتساب کا شعور اجاگر کرنے کی بجائے سارا ملبہ امريکہ پر ڈال کر اپنی "ذمہ داری" نبھا رہے ہيں۔کسی بھی ملک کی داخلہ اور خارجہ پاليسی اس ملک کے حکمران بناتے ہيں۔ کسی "بيرونی ہاتھ" ميں اتنی طاقت نہيں کہ وہ پاکستان کے انتظامی معاملات کو پاکستان کے حکمرانوں کی مرضی کے برخلاف کنٹرول کرے۔

امريکہ کی پاکستان ميں دلچسپی ہے اور يقينی ہے۔ ليکن اس کا محور پاکستان کے سرحدی علاقوں اور سرحد پار افغانستان ميں منظم وہ دہشت گرد تنظيميں ہيں جو امريکہ کے خلاف باقاعدہ اعلان جنگ کر چکی ہيں اور ان کے وبال سے پاکستان کے شہری علاقے بھی محفوظ نہيں۔ اس مشترکہ دشمن کے خاتمے کے ليے حکومت پاکستان کے توسط سے ايک مضبوط محاذ کا قيام امريکہ کی اولين ترجيح ہے۔

پاکستان ميں عدالتی، سياسی اور حکومتی بحران اور اس کے نتيجے ميں پيدا ہونے والی غير يقينی کی صورت حال کسی بھی صورت ميں امريکہ اور عالمی برادری کے مفاد ميں نہيں ہے۔ اگر پاکستان میں بدامنی اور افراتفری امريکہ کا مقصد ہے تو پچھلے 60 سالوں ميں امريکہ کی جانب سے تعمير وترقی اور صحت و تعليم کے ضمن ميں دی جانے والی امداد آپ کيسے نظر انداز کريں گے؟

يہ درست ہے کہ اليکشن کے بعد نئ حکومت کے قیام کے مختلف مراحل میں امريکی سفارت کار پاکستان کی تمام سياسی قائدين سے مسلسل رابطے ميں ہيں ليکن يہ بھی حقيقت ہے کہ يہ عمل صرف امريکی سفارت کاروں کی ملاقاتوں تک محدود نہيں ہے بلکہ ايران، جرمنی، برطانيہ،جاپان، ہالينڈ اور يمن سمیت بے شمار ممالک کے حکومتی اہلکارمسلسل پاکستان کے سياسی قائدين سے ملاقاتيں کر رہے ہيں۔ ليکن آپ ان ملاقاتوں کا ميڈيا ميں کوئ تذکرہ نہيں ديکھتے۔ مختلف ممالک کے سفارت کاروں کی حکومتی اہلکاروں سے ملاقات اور اپنی مذکورہ حکومتوں کی پاليسيوں کے حوالے سے تبادلہ خيال ايک مسلسل عمل کا حصہ ہے۔ يہ تمام ملاقاتيں خفيہ طريقے سے نہيں ہو رہيں بلکہ ميڈيا کی موجودگی ميں باہمی طے شدہ ايجنڈے کے تحت ہو رہی ہيں۔ اس کے علاوہ يہ ملاقاتيں ججز سميت تمام مسائل پر کسی مخصوص نقطہ نظر کے حامل سياست دانوں تک محدود نہيں ہيں۔ پاکستانی سفارت کار بھی واشنگٹن میں مختلف امريکی اہلکاروں سے مسلسل رابطے میں رہتے ہيں۔

دنيا کے ہر ملک کی حکومت اپنے مفادات اور علاقائ اور جغرافيائ تقاضوں کے تحت اپنی خارجہ پاليسی بناتی ہے اور حکومتی سفير مختلف ممالک میں اسی خارجہ پاليسی کا اعادہ کرتے ہيں۔ امريکی سفارت کاروں کی پاکستانی سياست دانوں سے ملاقاتيں اسی تسلسل کا حصہ ہے۔ ليکن اس کا يہ مطلب ہرگز نہيں ہے کہ امريکہ پاکستان کے انتظامی معاملات ميں دخل اندازی کر رہا ہے اور مختلف فيصلوں پر اثرانداز ہو رہا ہے۔ پاکستان ميں ايک مضبوط حکومتی ڈھانچہ خود امريکہ کے مفاد ميں ہے۔ ليکن اس ضمن ميں کيے جانے والے فيصلے بہرحال پاکستان کے حکمران سياست دانوں کی ذمہ داری ہے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
http://usinfo.state.gov
 
فواد ملاقاتوں پر کسی کو تشویش نہ ہوتی اگر اتنی جلدی جلدی نہ ہوتی اور خاص طور پر اگر ایجنڈا صرف دہشت گردی پر لڑی جانے والی جنگ ہوتی مگر مشرف کو رکھنے پر زور دینا تاکہ امریکہ میں ہونے والے الیکشن میں بش انتظامیہ کو زک نہ پہنچے اور مائنس ون فارمولے کو زیر بحث لانا کسی طور مناسب نہیں۔ ججوں کی بحالی پر اگر امریکہ کو تشویش نہیں ہے تو اس نے ایک بار بھی یہ نہیں کہا کہ ہم پاکستان میں عدلیہ کو آزاد دیکھنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے ہر ممکن اقدام کی حمایت کرتے ہیں۔

نئی امریکی حکومت کے لیے مشرف شاید اتنا کارآمد نہ ہو اور تب شاید کچھ اور بیانات سننے کو ملیں۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department


محترم،

يہ تو آپ اپنے نقطہ نظر کی دليل کے ليے صرف منتخب شواہد دے رہے ہيں۔ انصاف کا تقاضہ تو يہ ہےکہ آپ گزشتہ چند ہفتوں ميں امريکہ کے علاوہ ديگر ممالک کے حکومتی نمايندوں کی پاکستانی سياست دانوں سے ملاقاتوں کا بھی حوالہ ديں۔ مثال کے طور پر

http://img527.imageshack.us/my.php?image=clipimage002py1.jpg

http://img390.imageshack.us/my.php?image=2219xy6.gif

http://img370.imageshack.us/my.php?image=11003899141no3.jpg


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
http://usinfo.state.gov
 

محسن حجازی

محفلین
فواد وقت دینے کے لیے بہت شکریہ۔ میرا مقصد پاکستانی معاشرے کے حالات کی اصل تصویر امریکی حکومت تک پہنچانا تھا کہ اگر آپ ایک اور ایران دیکھنا چاہتے ہیں تو مداخلت اور آمروں کی سرپرستی بصد شوق جاری رکھیے۔
وما علینا الا البلاغ المبین۔ اور نہیں ہمارے ذمہ مگر صاف بات کا پہنچا دینا۔
مجھے دو سوالات کے جواب دیجئے۔
اول یہ کہ رچرڈ باؤچر لندن مذاکرات میں کیا کر رہے تھے؟ اگر یہ ملاقات اس قدر ضروری تھی تو کیا ایک آدھ روز آگے پیچھے نہیں ہو سکتی تھی؟ عین اسی وقت ایسی کیا ضرورت آن پڑی تھی؟
دوم یہ کہ پاکستان میں جن تنظیموں نے امریکہ کے خلاف اعلان جنگ کر رکھا ہے یہ بتائيے گا کہ اس کی وجوہات کیا ہیں۔

میرا مقصد بخدا جرح نہیں میں صرف جاننا چاہتا ہوں کہ امریکی حکومت اس بارے میں کیا کہتی ہے؟
 
پابندی لگے نہ لگے مگر اس پروگرام میں‌تو کچھ خاص نہیں تھا۔
میرے خیال میں بنیادی طور پر پی پی پی اپنے موقف پر قائم ہے۔ ہاں یہ ضرور ہےکہ وہ ملک کو مستحکم دیکھنا چاہتی ہے اور ہوشیار فسادیوں کی راہ پر نہیں ہے۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
پیپلز پارٹی اسی طرح ملک کے مفاد کے بارے میں سوچتی ہے جیسے کوئی بھی اقتدار کی ہوس میں ماری ہوئی جماعت۔ ضمنی انتخابات کے التوا کے ڈرامے سے ہی پتا چل جاتا ہے کہ پیپلز پارٹی اپنے اتحادیوں کے ساتھ کیا کھیل کھیلتی ہے۔
 
پیپلز پارٹی اسی طرح ملک کے مفاد کے بارے میں سوچتی ہے جیسے کوئی بھی اقتدار کی ہوس میں ماری ہوئی جماعت۔ ضمنی انتخابات کے التوا کے ڈرامے سے ہی پتا چل جاتا ہے کہ پیپلز پارٹی اپنے اتحادیوں کے ساتھ کیا کھیل کھیلتی ہے۔
اقتدار سیاسی کھیل کا مرکز ہے۔ ساری سیاست ہی اقتدار کے لیے ہوتی ہے۔
اس میں‌کوئی تک نہیں‌ہے کہ اکثریت اپنے اقدام اپنے مفادات میں‌ نہیں‌ اٹھائے بلکہ دوسروں کے پریشرز پر چلے۔
پی پی پی کے مخالفین کا کام صرف یہ ہے کہ پی پی پی کے ہر اقدام کی مخالفت کریں۔ نواز شریف مجبور تھا کہ حکومت سے مستفیٰ ہو مگر ابھی تک اتحاد سے منکر نہیں‌ہے۔ پی پی پی انشاللہ اچھی جارہی ہے۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
جی پیپلز پارٹی کے نزدیک سیاست واقعی صرف اقتدار کے حصول، قومی خزانے کی لوٹ کھسوٹ اور عوام کو دھوکہ دینے کے کھیل کا نام ہے۔ یہی کھیل ایم کیو ایم کھیلتی ہے تو اس پر تنقید کی جاتی ہے۔
 
یہ پی پی پی کے لیے اپ کا نقطہ نظر ہے۔ حقیقت اس کے برعکس ہے ۔ پی پی پی کے دور میں عوام کو طاقت ملتی ہے۔ پی پی پی پر سب سے بڑا الزام ہی یہ ہوتا ہے کہ یہ عوام کو نوکریاں فراہم کرتی ہے۔ اگر پی پی پی عوام کو دھوکے دے رہی ہوتی تو عوام ہر دور میں‌اسکو ووٹ کیوں دیتے۔
ایم کیوایم کا معاملہ دوسرا ہے۔ یہ انکھوں دیکھی ہے کہ اس تنظیم کی روح دھشت گردی ہے۔ اس کا کوئی نظریہ نہیں۔ بے نظریہ تنظیم پر تنقید نہ ہو تو کیا ہو؟ پھر خون اس کے منہ کو لگا ہے۔
 

محسن حجازی

محفلین
نوکریاں بھی کونسا عام آدمی کو ملتی ہیں جاہل نااہل جیالے بھرتی کرکے اداروں کا بھٹہ بٹھا دیا جاتا ہے۔
 
یہی سننا چاہ رہا تھا۔ شکریہ
یہ جاہل نااہل ادمی کیا کھانا نہیں‌کھاتا؟ یہ کیوں‌جاہل اور نااہل رہ گیا ہے؟ یہ اسکی جہالت اور نااہلیت اسکے زندہ رہنے کے حق، گھر بنانے کے حق، شادی کرنے کے حق اور نسل بڑھانے کے حق سے محروم کرتی ہے؟
پھر اہلیت کس چیز کا نام ہے؟ کیا ہر شخص اہل ہوتا ہے؟
اگر بڑے کینوس میں‌دیکھیے تو دنیا کی ہر چیز اللہ کی عطاکردہ ہے اتنی بڑی کائنات میں اللہ ہر ذی روح کو ضروریات حیات فراہم کرتا ہے۔پھر یہ اہلیت کس چیز کا نام ہے۔
قطع نظر اس چیز کہ دنیا کا کوئی شخص بھی حقیقت میں‌اہل نہیں۔ اگر نااہلیت کی کوئی تعریف مان بھی لی جائے تو بھی نااہل اور جاہل شخص روٹی، کپڑے اور مکان کا حقدار ہوتا ہے۔
پی پی پی جب انسان کے اس حق کو تسلیم کرکے اس کو نوکری فراہم کرتی ہے تو تنقید کانشانہ بنتی ہے۔
 

جیا راؤ

محفلین
ان کے حقوق کے متعلق کیا کہیئے گا کہ جو دن رات کی محنت کے بعد خود کو کسی قابل بناتے ہیں مگر پھر بھی نوکریاں حاصل کرنے سے قاصر ہیں کہ "عوام کے ہمدردوں" کی نظر میں روٹی، کپڑا اور مکان کا پہلا حق تو نا اہل لوگوں کا ہے:confused:
 
ان کے حقوق کے متعلق کیا کہیئے گا کہ جو دن رات کی محنت کے بعد خود کو کسی قابل بناتے ہیں مگر پھر بھی نوکریاں حاصل کرنے سے قاصر ہیں کہ "عوام کے ہمدردوں" کی نظر میں روٹی، کپڑا اور مکان کا پہلا حق تو نا اہل لوگوں کا ہے:confused:
دیکھیے ریاست کا کام لوگوں‌کو ضروریات کی فراہمی ہے قطع نظر اس کہ کس کی کیاقابلیت ہے۔
میں‌پہلے ہی عرض کرچکا ہوں کہ قابلیت بذات خود کوئی چیز نہیں یہ ایک ری لیٹف چیز ہے۔ یعنی اگر میں‌ اچھا گانے کے قابل ہوں تو یہ قابلیت جب ہی کچھ معنی رکھے گی جب ایکسٹرنل فیکٹر موجود ہونگے پھر ہی یہ قابلیت مجھ کو پے کرے گی ۔ ورنہ اگر ایکسٹرنل فیکڑز نہ ہوں تو جنگل میں‌مور ناچا کس نے دیکھا؟ یعنی قابلیت بذات خود کوئی چیز نہیں۔
پھر انسانوں‌کی تمام بنیادی ضروریات یکساں‌ ہیں۔ لہذا ان ضروریات کو پورا کرنے کا حق بھی لازما یکساں ہے۔ سہولیات کا اضافی استعمال ان انسانوں‌کو حاصل ہونا چاہیے جو انسانیت کی فلاح کے لیے کام کررہے ہوں یعنی معاشرے کی تعمیر کا کام کررہے ہوں۔
اب دیکھیے فوجی حکومتیں ہر چیز کا ستیاناس کردیتی ہیں۔ ان کو فورا حکومت میں اکر ایک دن میں‌درست نہیں کرسکتے ۔ وہ انسان جو سسک رہے ہوتے ہیں‌ان کو فوری طور پر امداد کی ضرورت ہوتی ہے ۔ یہی کام کرنے کی پی پی پی کوشش کرتی ہے۔ظاہر ہے کہ وہ بھی انسان ہیں اور بدترین معاشرے میں کام کررہے ہوتے ہیں لہذا ہر چیز درست نہیں‌ہورہی ہوتی۔
 

محسن حجازی

محفلین
جیا نے مختصرا وہی کہہ دیا ہے جو میں کہنا چاہ رہا تھا۔ کیا اہل ہونا ہی قصور ہے پھر؟ کیا آپ جہاں ہیں وہاں بنا قابلیت کے نوکری مل جاتی ہے؟ روٹی کپڑامکان ویسے بے شک بانٹیں لیکن نوکریاں نا اہل لوگوں کو دے کر اداروں کو تو تباہ مت کریں۔ پی آئی آے کا حال سامنے ہے کہ یورپین یونین نے منع کر دیا تھا خبردار کوئی جہاز ہماری حدود سے گزرا تو۔
 
Top