آپ کو امجد اکبر صاحب کا کلام کیسا لگا؟ رائے شماری ضرور کریں۔

  • پسند آیا۔

    Votes: 5 100.0%
  • پسند نہیں آیا۔

    Votes: 0 0.0%

  • Total voters
    5
اس دھاگے میں ، میں اپنے ایک قابل احترام شاعر دوست جناب امجد اکبر صاحب کی غزلیں اور نظمیں وقتا فوقتا پیش کرتا رہوں گا۔ ان شاء اللہ تعالیٰ!
 
چمن یہ پیار کا اجڑا دکھائی دیتا ہے
قدم قدم پہ جو خطرہ دکھائی دیتا ہے
نظر اٹھا کے جہاں میں جدھر بھی میں دیکھوں
ہر ایک سو ترا جلوہ دکھائی دیتا ہے
نگر نگر جو معزز تھا ، معتبر تھا کبھی
ڈگر ڈگر وہی رسوا دکھائی دیتا ہے
فریب آنکھ کا ہے یا خمارِ بادہ و مے
یہ آئینہ مجھے الٹا دکھائی دیتا ہے
جلا عدو کا جو گھر تو حسد میں اے امجد!
مرا بھی گھر اسے جلتا دکھائی دیتا ہے
الف عین محمد یعقوب آسی محمداحمد محمد خلیل الرحمٰن امجد علی راجا متلاشی محمدعلم اللہ اصلاحی ابن سعید خرم شہزاد خرم محمد وارث ملک عدنان احمد انیس الرحمن عبدالقدوس راشد محمد شعیب مزمل شیخ بسمل شمشاد وجی
عینی شاہ نیلم مہ جبین تبسم حوا کی بیٹی ملائکہ عندلیب mano بنت عائشہ قرۃالعین اعوان مؤثرہ
 
قطعہ
رسوا ہوا میں کب؟ مجھے اس کی خبر نہیں!
تنہا ہوا میں کب مجھے اس کی خبر نہیں!
وہ میرے ہوگئے ہیں ، خبر ہے مجھے ، مگر
ان کا ہوا میں کب؟ مجھے اس کی خبر نہیں!
شاعر: امجد اکبر
 
مجھے برباد کرنے سے تجھے حاصل ہوا کیا ہے
یہ دل ناشاد کرنے سے تجھے حاصل ہوا کیا ہے
بتا امجد جہاں تیری نہ سننے والا تھا کوئی
وہاں فریاد کرنے سے تجھے حاصل ہوا کیا ہے
شاعر: امجد اکبر
 
تمھیں دل نے پکارا ہے ، کہاں ہو تم چلے آؤ
بہت ہی تم کو ڈھونڈا ہے ، کہاں ہو تم چلے آؤ
تمھارے بن نہ جیتا ہوں ، تمھارے بن نہ مرتا ہوں
عجب ہی حال میرا ہے ، کہاں ہو تم چلے آؤ
بنا کر آپ کی تصویر اس سے پوچھتا ہوں میں
ابھی کتنا ستانا ہے ، کہاں ہو تم چلے آؤ
اگر اب بھی نہ آؤ گے ، بتاؤ پھر کب آؤ گے
کہ اٹھنے کو جنازہ ہے ، کہاں ہو تم چلے آؤ
تم اک دن لوٹ آؤ گے ، مری اس آس پر امجد!
زمانہ مجھ پہ ہنستا ہے ، کہاں ہو تم چلے آؤ
شاعر: امجد اکبر
 
قسم خدا کی بڑے پُر اثر تھے
اگرچہ بول ترے مختصر تھے
ہماری ہوتی ملاقات کیسے
کہ ہم الگ وہ الگ راہ پر تھے
جنھیں نہ آج کوئی دیکھتا ہے
سنو یہی کبھی رشکِ قمر تھے
ان آندھیوں نے گرایا شجر وہ
کہ جس شجر ہ پرندوں کے گھر تھے
ہمارے قتل سے سب باخبر تھے
ہمارے قتل سے وہ بے خبر تھے
جو جل رہے تھے پسِ پشت امجد
پلٹ کے دیکھا تو اپنے ہی گھر تھے
شاعر: امجد اکبر
 
ان سے اس بار ملاقات بھی ہوسکتی ہے
ان سے اس بار مری بات بھی ہوسکتی ہے
میری محفل میں وہ آئے نہیں امجد ان کو
کوئی مجبوریٔ حالات بھی ہوسکتی ہے
شاعر: امجد اکبر
 
تمھی تو ہو رحمتِ دو عالم ، درود تم پر ، سلام تم پر!
ہیں تم پہ سو جان سے فدا ہم ، درود تم پر ، سلام تم پر!
خدا کی رحمت کا ابر برسا ، سکوں دلِ مضطرب کو آیا
درود تم پر پڑھا ہے جس دم ، درود تم پر ، سلام تم پر!
چراغ توحید کا جلایا ہے تم نے ایسا کہ تا قیامت
نہ روشنی جس کی ہوگی مدھم ، درود تم پر ، سلام تم پر!
ہے دل میں ماں باپ کی بھی الفت ، ہے دل میں اولاد کی بھی الفت
تمھاری الفت سے پر ہے کم کم ، درود تم پر ، سلام تم پر!
مزہ حقیقت میں زندگی سے وہ آدمی ہی اٹھا رہا ہے
کہ جس کے دل میں تمھارا ہے غم ، درود تم پر ، سلام تم پر!
سبق پڑھایا ہے یہ تمھی نے کہ رب سے مانگو ڈرو اسی سے
اسی کے آگے ہی سر کرو خم ، درود تم پر ، سلام تم پر!
نہ اس نے پایا زماں تمھارا ، نہ اس نے دیکھا تمھارا روضہ
ہے آنکھ امجد کی اس لیے نم ، درود تم پر ، سلام تم پر!
شاعر: امجد اکبر
 
بن ترے عمر یوں کٹی میری
ڈھل گئی غم میں ہر خوشی میری
اشک اپنے وہ پھر نہ روک سکا
داستاں اس نے جب سنی میری
کل بھی ان سے نہ بات کہہ پایا
آج بھی بات رہ گئی میری
آج آخر وہ بن گئے میرے
رنگ لائی ہے عاشقی میری
گھومتی گھومتی نظر امجد!
ان پہ جاکر ٹھہر گئی میری
 
نہ دولت کی تمنا ہے ، نہ شہرت کی تمنا ہے
جو سچ پوچھو محمد کی زیارت کی تمنا ہے
خدا کو اور پیغمبر کو جیسی اچھی لگتی ہے
مجھے ویسی ہی صورت اور سیرت کی تمنا ہے
مرا سب کچھ رسول اللہ پر قربان ہوجائے
خدا شاہد ہے مجھ کو اس سعادت کی تمنا ہے
اسے جاکر یہ کہہ دو تم کہ طیبہ دیکھ آئے وہ
زمیں پر دیکھنے کی جس کو جنت کی تمنا ہے
محمد مصطفی کی وہ کرے پھر اتباع امجد!
کہ جس کو رب تعالیٰ کی محبت کی تمنا ہے
شاعر: امجد اکبر
 
Top