ولی دکنی الٰہی! رکھ مجھے تو خاکِ پا اہلِ معانی کا ۔ ولی دکنی

فرخ منظور

لائبریرین
غزل

الٰہی! رکھ مجھے تو خاکِ پا اہلِ معانی کا

کہ کھلتا ہے اسی صحبت سے نسخہ نکتہ دانی کا

کیا یک بات میں واقف مجھے رازِ نہانی کا

لکھوں غنچے اُپر حرف اُس دہن کی نکتہ دانی کا

کتابت بھیجنی ہے شمع بزمِ دل کوں اے کاتب

پرِ پروانہ اوپر لکھ سخن مجھ جاں فشانی کا

عزیزاں بعد مرنے کے نہ پوچھو تم کہ تنہا ہوں

لکھا ہوں پردۂ دل پر خیال اس یارِ جانی کا

چھپا کر پردۂ فانوس میں رخ شمع گریاں ہے

سنیا ہے جب سوں آوازہ تری روشن بیانی کا

پرت کی بزم میں تا سرخ روئی مجھکو ہو حاصل

نین سوں اپنے دے ساغر شرابِ ارغوانی کا

بجا ہے گر کرے پرواز رنگِ چہرۂ عاشق

ہوا ہے ذوق موہن کو لباسِ زعفرانی کا

ترے مکھ کی صفائے حیرت افزا لکھ سکے کیوں کر

قلم ہے جوہرِ آئینۂ ناصافِ مانی کا

رہے وہ مُو کمر جیوں دیدۂ تصویر حیراں ہو

لکھے گر خامۂ موسوں بیاں مجھ ناتوانی کا

شرابِ جلوۂ ساقی سوں مت کر منع اے زاہد

یہی ہے مقتضا عالم میں ہنگامِ جوانی کا

ولی جن نے نہ باندھا دل کوں اپنے نونہالوں سوں

نہ پایا اُن نے پھل ہرگز جہاں میں زندگانی کا

(ولی دکنی)
 

محمد وارث

لائبریرین
یہ بھی غنیمت ہے قبلہ :) بقولِ انشاءاللہ خان انشاء

بھلا گردش فلک کی چین دیتی ہے کسے انشا
غنیمت ہے کہ ہم صورت یہاں دو چار بیٹھے ہیں
 

فاتح

لائبریرین
بہت خوبصورت انتخاب ہے قبلہ۔
لیجیے صاحب اس بہانے ہم بھی انگلی پر لہو لگا کر ان دو چار شہیدوں میں نام لکھواتے چلیں۔
 
Top