فی الحال تو گفتہ ٔ فقیر حاضر ہے۔
آپ کے سوال کا شافی جواب یا تو محمد خلیل الرحمٰن دے سکتے ہیں یا پھر محمد اسامہ سَرسَری ۔ یہ فقیر تو عرض کر چکا کہ قباحت کوئی نہیں۔
جناب محمد خلیل الرحمٰن صاحب آپ کے شافی جواب کا یہاں انتظار کیا جارہا ہے۔ :)
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
محمداحمد بھائی کا فیس بک کا کیفیت نامہ

آؤ کچھ دیر دسمبر کی دھوپ میں بیٹھیں
پھر اگلے سال یہ لمحے ہمیں ملیں نہ ملیں

تشریح:
شاعر اس شعر میں ذرا اتاولا ہو رہا ہے۔۔۔۔۔ محبوب کی طرف سے اسے بےوفائی کا ازحد یقین ہے۔۔۔ لہذا جلد از جلد موقع کا بھرپور فائدہ اٹھانا چاہ رہا ہے۔۔۔۔۔ اور اس کے لیے اس نے وعدہ شب کی بجائے دھوپ پر ہی اکتفا کرنے کا سوچ لیا ہے۔ شاعر کا "سامنے دھری" کے مقولے پر ایمان کامل ہے۔;):p
 

محمداحمد

لائبریرین
محمداحمد بھائی کا فیس بک کا کیفیت نامہ

آؤ کچھ دیر دسمبر کی دھوپ میں بیٹھیں
پھر اگلے سال یہ لمحے ہمیں ملیں نہ ملیں

تشریح:
شاعر اس شعر میں ذرا اتاولا ہو رہا ہے۔۔۔ ۔۔ محبوب کی طرف سے اسے بےوفائی کا ازحد یقین ہے۔۔۔ لہذا جلد از جلد موقع کا بھرپور فائدہ اٹھانا چاہ رہا ہے۔۔۔ ۔۔ اور اس کے لیے اس نے وعدہ شب کی بجائے دھوپ پر ہی اکتفا کرنے کا سوچ لیا ہے۔ شاعر کا "سامنے دھری" کے مقولے پر ایمان کامل ہے۔;):p

:eek::):ROFLMAO:

شاعر اکثر اتاؤلے ہی ہوتے ہیں۔ :p
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
محمداحمد بھائی کا فیس بک کا کیفیت نامہ

آؤ کچھ دیر دسمبر کی دھوپ میں بیٹھیں
پھر اگلے سال یہ لمحے ہمیں ملیں نہ ملیں

تشریح:
شاعر اس شعر میں ذرا اتاولا ہو رہا ہے۔۔۔ ۔۔ محبوب کی طرف سے اسے بےوفائی کا ازحد یقین ہے۔۔۔ لہذا جلد از جلد موقع کا بھرپور فائدہ اٹھانا چاہ رہا ہے۔۔۔ ۔۔ اور اس کے لیے اس نے وعدہ شب کی بجائے دھوپ پر ہی اکتفا کرنے کا سوچ لیا ہے۔ شاعر کا "سامنے دھری" کے مقولے پر ایمان کامل ہے۔;):p
ہی ہی ہی
ویلڈن احمد بھائی ;)
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
تم جو کہتی ہو چھوڑ دو سگریٹ
تم میرا ہاتھ تھام سکتی ہو

یہ ایک بڑا تحقیقی شعر ہے جس میں شاعر سگریٹ کے متبادل اور پھر ان کے ایک آدمی پر نقصانات کا جائزہ لینا چاہ رہا ہے۔ کسی آدمی نے شاعر کو سگریٹ کے نقصانات سے جب روشناس کروایا توتقابلی جائزہ لینے سے شاعر پر یہ بات واضح ہوگئی کہ قریب اسی قسم کے اثرات ایک عورت بھی مرد کی زندگی پر مرتب کرتی ہے۔ لہذا جیسے ہی شاعر کی وجہ شاعری نے اس سے سگریٹ چھوڑنے کا مطالبہ کیا اس نے فوراً متبادل کے طور پر اس کے سامنے یہ شرط رکھ دی۔ اس شعر سے ہم پر یہ حقیقت بھی واضح ہوتی ہے کہ شاعر ایک معصوم اور بھولا آدمی ہے جو کہ ایک کم نقصان کرنے والی چیز پر ایک زیادہ نقصان کرنے والی چیز کو ترجیح دے رہا ہے۔ یا پھر شاعر بہت ہوشیار آدمی ہے جس نے ہونے والی "نہ" کا ادراک قبل از وقت کر لیا ہے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
تم جو کہتی ہو چھوڑ دو سگریٹ
تم میرا ہاتھ تھام سکتی ہو

یہ ایک بڑا تحقیقی شعر ہے جس میں شاعر سگریٹ کے متبادل اور پھر ان کے ایک آدمی پر نقصانات کا جائزہ لینا چاہ رہا ہے۔ کسی آدمی نے شاعر کو سگریٹ کے نقصانات سے جب روشناس کروایا توتقابلی جائزہ لینے سے شاعر پر یہ بات واضح ہوگئی کہ قریب اسی قسم کے اثرات ایک عورت بھی مرد کی زندگی پر مرتب کرتی ہے۔ لہذا جیسے ہی شاعر کی وجہ شاعری نے اس سے سگریٹ چھوڑنے کا مطالبہ کیا اس نے فوراً متبادل کے طور پر اس کے سامنے یہ شرط رکھ دی۔ اس شعر سے ہم پر یہ حقیقت بھی واضح ہوتی ہے کہ شاعر ایک معصوم اور بھولا آدمی ہے جو کہ ایک کم نقصان کرنے والی چیز پر ایک زیادہ نقصان کرنے والی چیز کو ترجیح دے رہا ہے۔ یا پھر شاعر بہت ہوشیار آدمی ہے جس نے ہونے والی "نہ" کا ادراک قبل از وقت کر لیا ہے۔

ہاہاہاہاہا!

شاعر تو کافی فنکار لگ رہا ہے۔ :)

حالانکہ آپ نے بڑی اچھی طرح روشنی ڈالی ہے شاعر کے بہیمانہ عزائم پر لیکن شاعر کی فنکاری ختم ہونے کو ہی نہیں آ رہی۔ :p
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
ہاہاہاہاہا!

شاعر تو کافی فنکار لگ رہا ہے۔ :)

حالانکہ آپ نے بڑی اچھی طرح روشنی ڈالی ہے شاعر کے بہیمانہ عزائم پر لیکن شاعر کی فنکاری ختم ہونے کو ہی نہیں آ رہی۔ :p
ایک بار ایک بزرگ نے کہا تھا۔۔۔ روشنی ہمیشہ اچھے طریقے سے ڈالنا۔۔۔ :D
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
منے کی فرمائش پر۔۔۔۔

آپ مجھ کو بہت پسند آئیں
آپ میری قمیص سیجیے گا
کہتے ہیں کہ چھپ کر محبت کرنا عورت کا کام ہے۔ مرد کو ببانگ دہل یہ کالک منہ پر ملنی چاہیے۔ یہاں پر شاعر نے بھی اسی قسم کے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ کوچہ جاناں میں جب رسوا و ذلیل ہونے کے بعد دامن تار تار ہوگیا تو شاعر پھر بھی اپنی روش سے باز نہ آیا اور کہا کہ یہ جو مار کھاتے کھاتے میری قمیص پھٹ گئی ہے۔ اب یہ آپ کو ہی سینی پڑے گی۔ ایسا اعلی" پروپوز "کرنے کا اندازاور ایسی ڈھٹائی تو کبھی کسی فلم میں بھی نہیں دیکھا۔ کیا کہنے۔ شاعر چھا گیا ہے۔

مجھ سے میری کمائی کا سرِ شام
پائی پائی حساب لیجیے گا
شاعر نے اسی موضوع کو یعنی اپنے "پروپوزل" میں مزید کشش پیدا کرنے کی خاطر دلربا کو لالچ دیتے ہوئے کہا ہے کہ میں جو بھی کما کر لاؤں گا ایک اچھے اور فرماں بردار شوہر کی طرح اس کا حساب پیش کروں گا۔ لیکن یہاں جس طرح شاعر کی بیویات کے موضوع پر کم علمی کھل کر سامنے آئی ہے وہیں یہ بھی ظاہر ہوا ہے کہ شاعر مزدور آدمی ہے۔ اور دیہاڑی دار ہے۔ اگر تنخواہ دار طبقے سے تعلق رکھتا تو مہینے کی بات کرتا۔ شام کی نہیں۔ اس سے قبل کے کوئی دریدہ دہن شاعر کو "دکاندار" کہہ کر ہمیں خاموش کروانے کی کوشش کرے ہم یہ واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ اگر شاعر "سیلف ایمپلائیڈ" ہوتا تو اس کی توجہ اپنی دکانداری میں ہوتی یوں کوچہ جاناں میں رسوا نہ ہو رہا ہوتا۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
منے کی فرمائش پر۔۔۔۔

آپ مجھ کو بہت پسند آئیں
آپ میری قمیص سیجیے گا
کہتے ہیں کہ چھپ کر محبت کرنا عورت کا کام ہے۔ مرد کو ببانگ دہل یہ کالک منہ پر ملنی چاہیے۔ یہاں پر شاعر نے بھی اسی قسم کے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ کوچہ جاناں میں جب رسوا و ذلیل ہونے کے بعد دامن تار تار ہوگیا تو شاعر پھر بھی اپنی روش سے باز نہ آیا اور کہا کہ یہ جو مار کھاتے کھاتے میری قمیص پھٹ گئی ہے۔ اب یہ آپ کو ہی سینی پڑے گی۔ ایسا اعلی" پروپوز "کرنے کا اندازاور ایسی ڈھٹائی تو کبھی کسی فلم میں بھی نہیں دیکھا۔ کیا کہنے۔ شاعر چھا گیا ہے۔

مجھ سے میری کمائی کا سرِ شام
پائی پائی حساب لیجیے گا
شاعر نے اسی موضوع کو یعنی اپنے "پروپوزل" میں مزید کشش پیدا کرنے کی خاطر دلربا کو لالچ دیتے ہوئے کہا ہے کہ میں جو بھی کما کر لاؤں گا ایک اچھے اور فرماں بردار شوہر کی طرح اس کا حساب پیش کروں گا۔ لیکن یہاں جس طرح شاعر کی بیویات کے موضوع پر کم علمی کھل کر سامنے آئی ہے وہیں یہ بھی ظاہر ہوا ہے کہ شاعر مزدور آدمی ہے۔ اور دیہاڑی دار ہے۔ اگر تنخواہ دار طبقے سے تعلق رکھتا تو مہینے کی بات کرتا۔ شام کی نہیں۔ اس سے قبل کے کوئی دریدہ دہن شاعر کو "دکاندار" کہہ کر ہمیں خاموش کروانے کی کوشش کرے ہم یہ واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ اگر شاعر "سیلف ایمپلائیڈ" ہوتا تو اس کی توجہ اپنی دکانداری میں ہوتی یوں کوچہ جاناں میں رسوا نہ ہو رہا ہوتا۔
:laugh::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor:
 
اٹھو مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخِ امراء کے در و دیوار ہلا دو

یہ شعر علامہ اقبالؒ نے کچی آبادی کے مکینوں کے احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے کہا۔
جو کہ ایک کچی بستی کو گرا کر امیروں کے لئے محل تعمیر کرنے پر ہو رہا تھا۔
پہلے مصرع میں اقبال امیروں سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ یہاں سے اٹھ جاؤ اور غریب لوگوں کو جگہ دو۔ (کاتب کی غلطی سے جگہ کے بجائے جگا لکھا گیا)
اور ان کے بات نہ ماننے پر غریبوں کو اشتعال دلاتے ہوئے کہتے ہیں کہ امیروں کے محل خود آگے بڑھ کر توڑ دو۔

اس مظاہرے کے بعد حکومتِ وقت نے اقبال کو گرفتار کیا یا نہیں،اس پر راوی خاموش ہے۔
 
اوپر کے تمام کمنٹس پڑھنے پر محسوس ہوا کہ اقبالؒ کے اشعار پر طبع آزمائی پر لوگوں کا اعتراض ہے۔
میں بھی کچھ دیر کو رکا، پر تشریح خود بخود ہوتی چلی گئی۔ آئندہ کے لئے احتیاط اور اوپر کی گستاخی پر معذرت۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
اٹھو مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخِ امراء کے در و دیوار ہلا دو

یہ شعر علامہ اقبالؒ نے کچی آبادی کے مکینوں کے احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے کہا۔
جو کہ ایک کچی بستی کو گرا کر امیروں کے لئے محل تعمیر کرنے پر ہو رہا تھا۔
پہلے مصرع میں اقبال امیروں سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ یہاں سے اٹھ جاؤ اور غریب لوگوں کو جگہ دو۔ (کاتب کی غلطی سے جگہ کے بجائے جگا لکھا گیا)
اور ان کے بات نہ ماننے پر غریبوں کو اشتعال دلاتے ہوئے کہتے ہیں کہ امیروں کے محل خود آگے بڑھ کر توڑ دو۔

اس مظاہرے کے بعد حکومتِ وقت نے اقبال کو گرفتار کیا یا نہیں،اس پر راوی خاموش ہے۔
ہاہاہاہاااا۔۔۔ اعلیٰ

اوپر کے تمام کمنٹس پڑھنے پر محسوس ہوا کہ اقبالؒ کے اشعار پر طبع آزمائی پر لوگوں کا اعتراض ہے۔
میں بھی کچھ دیر کو رکا، پر تشریح خود بخود ہوتی چلی گئی۔ آئندہ کے لئے احتیاط اور اوپر کی گستاخی پر معذرت۔
ایسی کوئی بات نہیں ہے۔۔۔۔ آپ کو جو دل کرتا ہے کریں سئیں۔۔۔۔ :)
 

ہادیہ

محفلین
مشکل کام ہے یہ تو:oops:
میں تو پہلے ہی اردو میں پاس بڑی مشکل سے ہوتی تھی صرف اسی تشریح کی وجہ سےo_O:p
اب بھی پڑھ کر ہی انجوائے کرلیتی ہوں:laughing:
 

یاز

محفلین
ہاہاہا۔
بہت عمدہ لڑی ہے جناب اور شاندار تشریح بیان فرمائی ہے اشعار کی۔ بہت سی غلط فہمیاں دور ہو گئی ہماری بھی اسی بہانے۔
 

یاز

محفلین
کچھ پیش آزمائی ہماری جانب سے بھی

میر ان نیم باز آنکھوں میں
ساری مستی شراب کی سی ہے

پہلے مصرعے میں کاتب سے غلطی ہوئی ہے یا جان بوجھ کے غلطی کی ہے۔ اصل میں یوں تھا کہ "میری ان نیم باز آنکھوں میں"
اس شعر میں شاعر اپنے مکمل ٹُن ہونے کا احوال بیان کر رہا ہے۔ شاعر جی کہتے ہیں کہ شراب دیکھ کر کبھی میری آنکھیں للچا رہی ہیں اور کبھی مجھے باز رکھنے کی کوشش کرتی ہیں۔ اس کیفیت کو فارسی میں نیم باز کہا جاتا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ پہلے ہی پی پی کر اتنا ٹُن ہو چکا ہوں کہ اب آنکھیں نیم باز ہوتے ہوئے بھی مجھے کنٹرول کرنے میں ناکام دکھائی دے رہی ہیں۔
حالانکہ شاعر اس حقیقت کو سمجھنے سے قاصر نظر آتا ہے کہ "نشہ اگر شراب میں ہوتا تو ناچتی بوتل" وغیرہ وغیرہ
 
Top