اوشو

لائبریرین
ایک واقعہ کہیں پڑھا تھا مجھے بھی یاد آ گیا :)
برصغیر پر برطانوی اقتدار کے دنوں میں ایک انگریز افسر تھے جنہیں اردو زبان پر عبور حاصل ہونے کا دعویٰ تھا ۔ ایک بار کسی نے امتحان لینے کی غرض سے ایک شعر سنایا
ہم ہوئے، تم ہوئے کہ میر ہوئے
اس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے
اور اس کا مطلب پوچھا۔
صاحب بولے: یہ کون سا مشکل ہے۔ اس شعر میں شاعر بولٹا ہے۔
"ہم ، ٹُم اور "میِر" سب لوگ جیل جانا مانگٹا۔"
:jutt:
 
آخری تدوین:

یاز

محفلین
نہیں میں نے نہیں سنی۔کیسی ہوتی ہے؟:eek:۔آپ میرا مذاق اڑا رہے ہیں نا:(
اللہ اللہ۔ ہم اور آپ کا مذاق، توبہ توبہ جی۔ (اپنے گالوں کو پیٹنے والی سمائیلی)۔
چکنے گھڑے کی اصطلاح ان کے لئے استعمال کی جاتی ہے جن پہ کچھ اثر نہ ہو۔ جیسے چکنے گھڑے پہ پانی گرائیں تو وہ کچھ جذب نہیں کرتا بلکہ سب کا سب پانی پھسل جاتا ہے۔ یوں ایسا بندہ جس پہ کوئی نصیحت وغیرہ کام نہ کرے، اس کے لئے بھی ایسا بولتے ہیں۔
اب یاد کریں تو آپ نے رات دیر تک جاگنے والوں کو نصیحت (یعنی اٹیک) فرمائی تھی۔ تو خاکسار یہ کہنا چاہ رہا ہے کہ (ہم جیسے) چکنے گھڑوں کو کچھ اثر نہیں ہونے والا۔
دوسرے لفظوں میں مذاق تو اپنا اڑایا :sad:۔
 

ہادیہ

محفلین
اللہ اللہ۔ ہم اور آپ کا مذاق، توبہ توبہ جی۔ (اپنے گالوں کو پیٹنے والی سمائیلی)۔
چکنے گھڑے کی اصطلاح ان کے لئے استعمال کی جاتی ہے جن پہ کچھ اثر نہ ہو۔ جیسے چکنے گھڑے پہ پانی گرائیں تو وہ کچھ جذب نہیں کرتا بلکہ سب کا سب پانی پھسل جاتا ہے۔ یوں ایسا بندہ جس پہ کوئی نصیحت وغیرہ کام نہ کرے، اس کے لئے بھی ایسا بولتے ہیں۔
اب یاد کریں تو آپ نے رات دیر تک جاگنے والوں کو نصیحت (یعنی اٹیک) فرمائی تھی۔ تو خاکسار یہ کہنا چاہ رہا ہے کہ (ہم جیسے) چکنے گھڑوں کو کچھ اثر نہیں ہونے والا۔
دوسرے لفظوں میں مذاق تو اپنا اڑایا :sad:۔
سوری مجھے ایسا لگا تھا:)
 

ہادیہ

محفلین
ایک واقعہ کہیں پڑھا تھا مجھے بھی یاد آ گیا :)
برصغیر پر برطانوی اقتدار کے دنوں میں ایک انگریز افسر تھے جنہیں اردو زبان پر عبور حاصل ہونے کا دعویٰ تھا ۔ ایک بار کسی نے امتحان لینے کی غرض سے میر کا شعر سنایا
ہم ہوئے، تم ہوئے کہ میر ہوئے
اس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے
اور اس کا مطلب پوچھا۔
صاحب بولے: یہ کون سا مشکل ہے۔ اس شعر میں شاعر بولٹا ہے۔
"ہم ، ٹُم اور "میِر" سب لوگ جیل جانا مانگٹا۔"
:jutt:
ہاہاہا ۔کیا عمدہ تشریح کی ہے
 

یاز

محفلین
میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے

شاعر نے اپنا بلڈ گروپ چیک کرانے کے لئے سیمپل دیا تھا۔ بدقسمتی یہ ہوئی کہ بلڈ گروپ چیک کرانے کا خیال شاعر کو مری کی سیر کے دوران آیا۔ وہیں مال روڈ پہ خوب رش میں ایک چھوٹے سے کھوکھے پہ خون کا سیمپل دیا اور ایڈوانس میں پیسے دیئے۔ ابھی پیسے دیئے ہی تھے کہ رش کی وجہ سے پیچھے سے دھکا لگا۔ شاعر نے غصے سے پیچھے جھانکا اور دھکا دینے والے کو صلواتیں سنائیں۔ اب جو سامنے دیکھا تو خون کا سیمپل لینے والا بندہ ندارد۔ اسی اثنا میں بارش شروع ہو گئی جس کی وجہ سے سردی میں بھی اضافہ ہو گیا۔لوگوں نے جیکٹیں، سویٹرز اور دستانے وغیرہ پہن لئے۔ اب شاعر روتا پیٹتا پھر رہا ہے کہ کم بختو سبھی نے دستانے پہن لئے ہیں، میرا بلڈ گروپ کون بتائے گا۔ چلو بلڈ گروپ نہیں بتانا تو پیسے ہی واپس کر دو۔
اس شعر سے یہ سبق ملتا ہے کہ سردیوں کے موسم میں یا کسی سرد مقام پہ بلڈ گروپ ٹیسٹ نہیں کروانا چاہئے۔
 

یاز

محفلین
بہت جتاتے ہو چاہ ہم سے
کرو گے کیسے نباہ ہم سے

اس شعر کے دوسرے مصرعے میں دراصل کاتب سے غلطی ہوئی تھی۔ اصل مصرع یوں تھا
کرو گے کیسے نکاح ہم سے
شاعر کی "سہیلی" شاعر سے طعنہ زنی کر رہی ہے کہ تم اتنے کنجوس مکھی چوس ہو کہ جب بھی ملتے ہو تو فقط چاہ یعنی چائے پہ ٹرخا دیتے ہو اور اس کو اتنا بڑھا چڑھا کے جتلاتے ہو۔ کبھی بھول کے بھی کے ایف سی یا پزا ہٹ وغیرہ جانے کی آفر تک نہیں کی۔ یہ تمہارا حال ہے اور اوپر سے ہم سے عقد یعنی نکاح کی خواہش رکھتے ہو۔ تو خاطر جمع رکھو اور اپنا منہ دھو رکھو کہ صرف چائے شائے سے کام نہیں بننے والا۔ "بری" بنانے جوگے پیسے نہیں ہیں تمہارے پاس اور چلے ہیں جناب نکاح کرنے۔
اس شعر کا سبق یہ ہوا کہ چائے کے ساتھ دیگر لوازمات پہ بھی توجہ دیں اور بھرپور توجہ دیں۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
وہ جہاں بھی گیا لوٹا تو میرے پاس آیا
بس یہی اک بات اچھی ہے میرے ہرجائی کی

شاعر کا تعلق مسلم لیگ (ن) سے ہے اور ان دنوں صوبائی صدر کے عہدے پہ فائز ہیں۔ یہ شعر اپنے ایک پرانے ساتھی کے بارے میں کہا جو کہ سیاست کے مرغِ بادنما کی سی شہرت رکھتا تھا۔ جب مسلم لیگ (ق) پہ بہار آئی اور اس انداز سے آئی کہ مہر و ماہ تماشائی ہوئے تو ان صاحب نے بھی ن کو خیرباد کہا اور لوٹا بن کے ق میں شامل ہونے کا "اصولی" فیصلہ کیا، جو کہ ظاہر ہے ملک و قوم کے وسیع تر مفاد وغیرہ میں تھا۔
اور پھر گزرنا ماہ و سال کا، تمام ہونا ایامِ بہار کا، اڑنا اک اک پنچھی کا زمینِ بنجر سے اور آنا خزاں کا مسلم لیگ (ق) پہ، ساتھ ہی بیٹھنا ہما کا مسلم لیگ (ن) پہ، رش کا لگنا ان کے بوہے باریوں پہ قطار اندر قطار کا۔ تو ایسے میں شاعر کے پرانے ساتھی کے دل میں نون لیگ کی محبت یوں جاگ اٹھی جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آ جائے، جیسے صحرا میں ہولے سے چلے بادِ نسیم (وغیرہ وغیرہ)۔ تو اس پہ شاعر ان کے بارے میں فرماتے ہیں کہ یہ ایسا مردود ہے کہ وہ "لوٹا" جہاں بھی گیا، واپس ہمارے ہی پاس آیا۔ دوسرا مصرعہ شاعر نے دانت پیستے ہوئے کہا ہے۔
تشریح میں "سیاسی" باتیں۔۔۔۔ احتیاط۔۔۔ قبل اس کے کچھ خود کش "نونے" ادھر کا رخ کریں۔
 

یاز

محفلین
تشریح میں "سیاسی" باتیں۔۔۔۔ احتیاط۔۔۔ قبل اس کے کچھ خود کش "نونے" ادھر کا رخ کریں۔
درست نشاندہی کی جناب۔ اندیشۂ نقضِ امن اور خدشۂ فسادِ خلق کے ڈر سے میں نے متعلقہ الفاظ و حروف میں کچھ ترامیم جاری کی ہیں۔ پھر سے اس مراسلے کو دیکھئے کہ کیا اب ٹھیک ہے؟
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
درست نشاندہی کی جناب۔ اندیشۂ نقضِ امن اور خدشۂ فسادِ خلق کے ڈر سے میں نے متعلقہ الفاظ و حروف میں کچھ ترامیم جاری کی ہیں۔ پھر سے اس مراسلے کو دیکھئے کہ کیا اب ٹھیک ہے؟
میاں ہم نے ازراہ تفنن لکھا تھا۔۔۔ آپ دل پر لے گئے۔۔۔ ایسے سنجیدہ نہیں ہوتے ہر بات پر۔۔۔۔ :)
 

مدثر عباس

محفلین
ﭘﺘﺎ ﭘﺘﺎ ﺑﻮﭨﺎ ﺑﻮﭨﺎ ﺣﺎﻝ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﺟﺎﻧﮯ ﮨﮯ
ﺟﺎﻧﮯ ﻧﮧ ﺟﺎﻧﮯ ﮔﻞ ﮨﯽ ﻧﮧ ﺟﺎﻧﮯ ﺑﺎﻍ ﺗﻮ ﺳﺎﺭﺍ ﺟﺎﻧﮯ ﮨﮯ
ﻣﯿﺮ ﺗﻘﯽ ﻣﯿﺮ
ﺗﺸﺮﯾﺢ
ﯾﮧ ﺷﻌﺮ ﺧﺎﻟﺼﺘﺎ ﺍﺭﯾﻨﺞ ﻣﯿﺮﺝ ‏( Arrange Marriage ‏) ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﻟﮑﻬﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ . ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺷﺎﻋﺮ ﮐﺎ ﯾﮧ ﮐﮩﻨﺎ ﮐﮧ ﮔﻞ ﮨﯽ ﻧﮧ ﺟﺎﻧﮯ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﮐﯽ ﺩﻟﯿﻞ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺟﺲ ﻟﮍﮐﯽ ﺳﮯ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨﮯ ﻭﮦ ﺭﺍﺿﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﮔﺮﭼﮧ ﺍﺱ ﻟﮍﮐﯽ ﮐﮯ ﻣﺎﮞ ﺑﺎﭖ ﺑﮩﻦ ﺑﻬﺎﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺧﺎﻧﺪﺍﻥ ﻭﺍﻟﮯ ﺭﺍﺿﯽ ﮨﯿﮟ . ﺷﺎﻋﺮ ﻧﮯ ﺍﺳﺘﻌﺎﺭﮮ ﮐﺎ ﮐﯿﺎ ﺧﻮﺏ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ . ﺳﺴﺮﺍﻝ ﮐﻮ ﺑﺎﻍ ﮐﮩﺎ ﮨﮯ ﺳﺎﻟﮯ ﺳﺎﻟﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﭘﺘﻮﮞ ﮐﮩﺎ ﮨﮯ ﺟﺒﮑﮧ ﺳﺎﺱ ﺍﻭﺭ ﺳﺴﺮ ﮐﻮ ﺑﻮﭨﺎ . ﯾﮧ ﺷﻌﺮ ﺍﺭﺩﻭ ﺷﺎﻋﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﯾﮏ ﻃﺮﻓﮧ ﻣﺤﺒﺖ ﺍﻭﺭ ﺍﺭﯾﻨﺞ ﻣﯿﺮﺝ ﮐﮯ ﺣﻮﺍﻟﮯ ﺳﮯ ﺑﮩﺖ ﺍﮨﻤﯿﺖ ﮐﺎ ﺣﺎﻣﻞ ﮨﮯ . ﺍﻭﺭ ﺩﻭﻟﮩﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﯾﮏ ﻗﺴﻢ ﮐﯽ ﺗﺴﻠﯽ ﺑﻬﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺟﺐ ﻣﯿﺮ ﺗﻘﯽ ﻣﯿﺮ ﺟﯿﺴﯽ ﺷﺨﺼﯿﺖ ﮐﯽ ﻟﻮ ﻣﯿﺮﺝ ﻧﮧ ﮨﻮ ﺳﮑﯽ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﮐﺲ ﻣﻠﮏ ﮐﺎ ﻋﺎﺷﻖ ﮨﻮﮞ؟
ﺷﺎﺭﺡ : ﻣﺪﺛﺮ ﻋﺒﺎﺱ
 
اصل شعر کچھ یوں ہے کہ "سرہانے میرؔ کے کوئی نہ بولو"​
مکمل کلام پیش خدمت ہے۔ ادھر سے ابر اٹھ کر جو گیا ہے​
ہماری خاک پر بھی رو گیا ہے​
مصائب اور تھے پر دل کا جانا​
عجب اک سانحہ سا ہوگیا ہے​
مقامر خانۂ آفاق وہ ہے​
کہ جو آیا ہے یاں کچھ کھو گیا ہے​
کچھ آؤ زلف کے کوچے میں درپیش​
مزاج اپنا ادھر اب تو گیا ہے​
سرہانے میرؔ کے کوئی نہ بولو​
ابھی ٹک روتے روتے سو گیا ہے​
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
اصل شعر کچھ یوں ہے کہ "سرہانے میرؔ کے کوئی نہ بولو"

مکمل کلام پیش خدمت ہے۔ ادھر سے ابر اٹھ کر جو گیا ہے​
ہماری خاک پر بھی رو گیا ہے
مصائب اور تھے پر دل کا جانا
عجب اک سانحہ سا ہوگیا ہے
مقامر خانۂ آفاق وہ ہے
کہ جو آیا ہے یاں کچھ کھو گیا ہے
کچھ آؤ زلف کے کوچے میں درپیش
مزاج اپنا ادھر اب تو گیا ہے
سرہانے میرؔ کے کوئی نہ بولو
ابھی ٹک روتے روتے سو گیا ہے
نوازش محترم
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
شال پہنائے گا اب کون دسمبر میں تمہیں
بارشوں میں کبھی بھیگو گے تو یاد آؤں گا
فکاہیہ تشریح:
ہم اس حقیقت سے آنکھیں نہیں چرا سکتے کہ محبت کی داستان میں رنگ بھرنے کو مبالغہ آرائی اور لفاظی عام ہے۔ مگر مبالغہ آرائی اور لفاظی کو بھی کوئی بنیاد تو میسر ہو۔ شاعر اپنی اہمیت جتانے کے چکر میں زمینی حقائق بالکل ہی فراموش کر بیٹھا ہے۔ ایسی صورتحال تب ہوتی ہے جب آپ تیز تیز دلائل دینے کی کوشش میں مصروف ہوں اور پھر آپ کا تمام زور منطقی دلائل کی بجائے بیاں پر رہ جائے۔ ہم نے ساری عمر یہی دیکھا ہے کہ شال اوڑھائی جاتی ہے، پہنائی نہیں جاتی۔ اس پر ستم بالائے ستم یہ کہ وہ بھی بارش میں۔ یعنی صریح ظلم۔ ایک طرف تو محبوب کی نازکی کو یکسر نظرانداز کر دیا گیا ہے، دوسری طرف جب گرم وزنی شال پر بارش کا پانی پڑے گاتو اس کا وزن دس گنا بڑھ جائے گا۔ اور پھر بھیگنے کے بعد گیلی شال میں جو دسمبر کی ٹھنڈ مزا کروائے گی تو ایک بار محبوب بھی پکار اٹھے گا۔ "چس کرا دتی اے۔" درحقیقت شاعر نے اپنی لفاظی سے سرد موسم میں گیلی شال اوڑھانے کی منظر کشی میں محبوب کو جو ٹوپی پہنائی ہے وہ صحیح معنوں میں داد کی مستحق ہے۔ویسے ابھی مزاحیہ شرح لکھتے لکھتے مجھے راجندر ناتھ کا بڑا خوبصورت شعر یاد آیا ہے کہ

اک دن برسات میں بھیگے تھے ہم تم دونوں
اب کبھی برسات میں بھیگو گے تو یاد آؤں گا

شیلف میں رکھی ہوئی اپنی کتابوں میں سے
کوئی دیوان اٹھاؤ گے تو یاد آؤں گا
از قلم نیرنگ خیال
21 دسمبر 2017
 
آخری تدوین:
Top