کاشفی

محفلین
غزل
(دواکر راہی)
اس شہرِ نگاراں کی کچھ بات نرالی ہے
ہر ہاتھ میں دولت ہے، ہر آنکھ سوالی ہے

شاید غمِ دوراں کا مارا کوئی آجائے
اس واسطے ساغر میں تھوڑی سی بچا لی ہے

ہم لوگوں سے یہ دنیا بدلی نہ گئی لیکن
ہم نے نئی دنیا کی بنیاد تو ڈالی ہے

اُس آنکھ سے تم خود کو کس طرح چھپاؤ گے
جو آنکھ پسِ پردہ بھی دیکھنے والی ہے

جب غور سے دیکھی ہے تصویر تری میں نے
محسوس ہوا جیسے اب بولنے والی ہے

دنیا جسے کہتی ہے بے راہروی راہی
جینے کے لیے ہم نے وہ راہ نکالی ہے
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
کیا بات ہے کاشفی بھائی۔ ہمیشہ کی طرح خوبصورت اور بہت اعلی انتخاب۔۔۔ بہت نوازش آپ کی کہ آپ کے توسط سے ہمیشہ عمدہ چیز ہی پڑھنے کو ملتی ہے۔
 

کاشفی

محفلین
کیا بات ہے کاشفی بھائی۔ ہمیشہ کی طرح خوبصورت اور بہت اعلی انتخاب۔۔۔ بہت نوازش آپ کی کہ آپ کے توسط سے ہمیشہ عمدہ چیز ہی پڑھنے کو ملتی ہے۔
بہت شکریہ بھائی۔ آپ اور آپ جیسی ادبی شخصیات کو ہماری شیئر کی ہوئی غزلیں پسند آتی ہیں۔۔سچ میں دلی خوشی ہوتی ہے۔ سلامت اور خوش باش رہیئے۔۔۔
 
Top