احمد مشتاق کو سمجھنے کی پہلی کوشش- نوید صادق

نوید صادق

محفلین
احمد مشتاق کو سمجھنے کی پہلی کوشش
(نوید صادق)

کلاسیکیت (Classicism) حسن، خیر اور توازن سے عبارت تھی اور تخلیقی زندگی اسی ڈھرّے پر چلتی تھی لیکن بدصورتی، شر اور عدم توازن، انسانی زندگی کی تہہ میں زیریں لہر کے طور پر ہمیشہ بیدار رہے ۔اٹھارویں صدی کے وسط میں فرانس، انگلستان اور جرمنی میں سیاسی، سماجی اور معاشرتی انقلاب کے ردِ عمل میں لوگوں کے خیالات اور افکار میں ایک واضح تبدیلی کے آثار ملتے ہیں ۔ 1781ء میں وارٹن برڈ نے پہلی بار لفظ ’’رومانویت۔‘‘ کا استعمال کیا۔گوئٹے اور شلر نے باقاعدہ ادب میں اس لفظ کا اطلاق کیا۔بعدازاں مادام ڈی سٹائل اور شیگل نے اسے پہلی بار ایک باقاعدہ اصطلاح کے طور پر ادب میں رائج کیا۔روسو کا جملہ’’ انسان آزاد پیدا ہوا ہے ۔ لیکن جہاں دیکھو وہ پا بہ زنجیر ہے ۔‘‘ رومانوی ادب کا مینی فیسٹو بن گیا۔
روسو نے ’’ تہذیب اور تمدن‘‘ پر کڑ ی تنقیدکی اور ثابت کیا کہ عام زندگی تصنع اور بناوٹ کا شکارانہی ’’دو امراض‘‘ کے سبب ہوتی ہے اوریہی ’’دو برائیاں ‘‘ زندگی میں غم کا باعث بنتی ہیں ۔ ولیم بلیک William Blake))، لارڈ بائرن ) (Lord Byron ، سموئیل ٹیلر کالرج ) (Samuel Taylor Coleridge ، جان کیٹس (John Keats) ، جیمز میکفرسن (James Macpherson)، پرسی بسشی شیلے Percy Bysshe Shelley) ( اور رابرٹ سودے (Robert Southey) نے اسی نہج پر ادب میں کا رہائے نمایاں سرانجام دیے ۔
اردو میں رومانویت کا آغاز بیسویں صدی میں سر سید احمد خان کیRationalizationیا دین کی قرینِ عقل تفہیم پر مبنی روایتی تحریک کے روایتی ردِّعمل میں ہوا۔سرسید احمد خان اور ان کے رفقاء نے با مقصد اورمثبت ادب کی آڑ میں فرد کی زندگی کے جذباتی پہلوؤں کو یک سر پسِ پشت ڈال دیا۔ جس کے ردِ ّعمل میں انگریزی دان طبقے کے درآمدہ رومانوی ادب نے جڑ پکڑ لی۔ مزید برآں ، سیاسی، سماجی، معاشرتی حالات اور مغربی علوم کی برِصغیر میں ترویج اس رومانوی تحریک کے پھلنے پھولنے کا باعث ہوئے ۔رومانویت ، جذبے کی شدّت، تخّیل کی لامتناہی پرواز، روایت سے بغاوت اور مصدورہ معاشرت اور سماجی اقدار کی تردید کا نام ہے ۔
ڈاکٹر سید عبداللہ رومانویت کی تعریف کے ضمن میں لکھتے ہیں :
۔’’ رومانویت ایک ایسے اسلوبِ اظہار کا نام ہے جس میں فکر کے مقابلے میں تخیل کی گرفت مضبوط ہو۔ رسم و روایت کی تقلید سے آزادی ہو۔ خیالات کے اظہار پر کوئی قدغن نہ ہو۔۔‘‘
ڈاکٹر محمد حسن لکھتے ہیں ۔
’’رومانویت کا لفظ ’رومانس ‘سے نکلا ہے ۔ اس کا اطلاق اس قسم کی نثری کہانیوں پر ہوتا تھا، جن میں انتہائی آراستہ و پرشکوہ پس منظر کے ساتھ عشق و محبت کی داستانیں سنائی جاتی تھیں جو عام طور پردورِ وسطیٰ کے جنگجو اور خطر پسند نوجوانوں کی مہمات سے متعلق ہوتی تھیں ۔‘‘
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ فرانسیسی ادبا نے اعلیٰ تر اور ارفع تر معیارات پر پورے اترنے والے کلاسیکی ادب کے تقابل میں اس تحریک کے لیے ’’رومانویت‘‘ کی اصطلاح اِسے کلاسیکی چلن کے متحارب رجحان کی بنا پر ’’عامیانہ چلن‘‘ کے معنوں میں رائج کیا۔اردو دنیا میں یہی اصول ایک اور انداز میں کارفرما دیکھا گیا اور عظیم نظم نگار نظیر اکبر آبادی کے لیے ’’بازاری شاعر‘‘ کے الفاظ استعمال کیے گئے ۔
رومانوی ادیب کے لئے اس کا جذبہ اور وجدان ہر دوسری چیز پر فوقیت رکھتا ہے ۔اس کے ہاں اسلوب اور خیالات دونوں میں آزادی کا میلان نمایاں ہوتا ہے ۔’’حال ‘‘ اس کے ہاں ’’بعید ترین روشن ماضی ‘‘کے دھندلے مستقبل کی چھب دکھلاتا نظر آتا ہے ۔وہ چیزوں کو صاف صاف اور واضح بیان کرنے کی جگہ ماضی کے انتہائی دھند لے مناظرکی تصویر کشی کرتا ہے ۔بقول شخصے دن کی روشنی کی نسبت اسے چاندنی اور اندھیرے کی ملی جلی کیفیات زیادہ لبھاتی ہیں ۔
اردو تنقیدمیں ’’کلاسیکیت‘‘ اور’’ رومانویت‘‘ دومتحارب تحریکوں کے طور پر لیے جاتے رہے اور اردو دنیا میں ’’رومانویت‘‘ صرف بے محابا جذبات کے بے ساختہ اظہار کے تذکرے سے آگے سفر نہیں کر سکی۔جبکہ اس کے باوا آدم روسوؔ اور اس کے پیروؤں نے اسے باقاعدہ ’’نظریہ حیات‘‘ کے طور پر اپنایا اور آگے بڑ ھایا۔مغربی زندگی کی موجودہ نہج بنیادی طور پر اسی ادبی اور فکری تحریک کا شاخسانہ ہے ۔
ہم اپنی معاشرتی زندگی کے بے ڈھب وتیروں میں اردو ادب کے ’’رومانوی ادبا‘‘ کا کوئی بڑ ا دخل نہیں دیکھتے !شاید اس کا سبب ہماری ایمانیات کے استحکام میں تلاش کیا جائے تو ہم بہتر اور واضح تر نتائج اخذ کر سکیں ۔اگر اردو دنیا میں ’’رومانویت ‘‘کوئی معنی رکھتی ہے تو متقدمین میں صرف نظیرؔ اکبر آبادی اس تحریک کے واحد شاعر قرار دیے جائیں گے ۔یہ بات اگر یوں کہی جائے کہ ’’کلاسیکیت‘‘ ہمارے اندر تہذیبی سطح پر ایک اندوختے کے طور پر پہلے سے موجود تھی لہٰذاجڑ پکڑ گئی اور ہمارا روایتی ادب با مقصد کر گئی۔یوں غالب کے بعد حالی، اور حالی کے بعد اقبال کا ظہور ایک فطری عمل کے طور پر ہوا۔
شاید اس کا سبب یہ تھا کہ رومانویت کی نسبت مغرب سے نئی نئی درآمد کی گئی’’ حقیقت پسندی‘‘(Realism) ادب کے لیے بازاری سطح سے بلند تر رہنے کا وسیلہ بن گئی اور’’ حقیقت پسندی‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’معاشرتی حقیقت پسندی‘‘ کا ڈول بھی آسانی سے اپنی بنیادیں استوار کر گیا۔’’اردو دنیا ‘‘میں ’’ حقیقت پسند تحریک‘‘ کے بانی مبانی سعادت حسن منٹو تھے تو ’’معاشرتی حقیقت پسندی‘‘ کا باب’’ انجمن ترقی پسند مصنفین‘‘ رقم کر رہی تھی۔
پاکستانی ادب کا آغاز ہی کٹرّ ’’حقیقت پسندی‘‘ اور کٹّر’’ معاشرتی حقیقت نگاری‘‘ سے ہوا! حالات نے ان دونوں رجحانات کے جڑ پکڑ نے کے لیے زمین پہلے سے ہی ہموار کر رکھی تھی۔
اقبال کے بعداس مقبولِ عام ادبی فضا نے مغرب سے مستعار لیے گئے تازہ ترین نظریات کے لیے بہت بڑ ی گنجائش پیدا کر دی ۔مگر ان مختلف النوع تحریکوں کے ز یرِ اثر مشغول فنکاروں کی خوشہ چینی کی مجموعی کارکر دگی اکیلے ناصر کاظمی کی ماضی پرستی کے آگے دم توڑ گئی۔
پاکستانی ادب میں تصدق حسین خالدؔ، میرا جیؔ اور ن۔م۔راشدؔ نے مغرب کے نغمے مشرق کی لَے پر الاپے تو غزل ایک قصۂِ پارینہ بنتی نظر آنے لگی۔مگرناصر کاظمی کی کامیابی نے غزل کے دریچے پر پڑ ا ہوا پردہ اٹھا دیا اور ہمیں ممتاز پاکستانی نظم نگاروں میں غزل گوئی کا رجحان پنپتا نظر آنے لگا۔فیض احمد فیضؔ، حفیظؔ جالندھری ، احمد ندیمؔ قاسمی، عزیز حامدؔ مدنی، ظہرؔ کاشمیری، ظہور نظرؔ، مجید امجدؔاور عارفؔ عبدالمتین جیسے نظم نگارغزل کی طرف لوٹتے نظر آئے ۔غزل کے لیے فضا سازگار ہوتی چلی گئی اورحفیظؔ ہوشیارپوری ، اداؔ جعفری، سیف الدین سیفؔ، احمد فرازؔ، شہزادؔ احمد اور ظفرؔ اقبال جیسے غزل گو مسندِ سخن پر جلوہ افروز ہوئے ۔یہ تھی وہ فضا جس میں احمد مشتاق کے سخن نے آنکھ کھولی اور پاکستانی ادب کے قارئین کے دلوں پردستک دی۔
احمد مشتاق کے ہاں خوابوں کی ایک دنیاآراستہ ہے ۔ماضی کی خوشگوار اور تلخ یادیں ان کا سرمایہ ہیں ۔ ان کا تخیل مضبوط بنیادوں پر استوار ہے ۔لیکن یہ خوبیاں تو شاعری خصوصاً اردو شاعری میں نوے فیصد شعرا کے ہاں مل جاتی ہیں ۔ اگر احمد مشتاق بھی اس گروہ میں شامل ہو گئے تو کیا ہوا؟ ان سے ایسا کیا خاص سرزد ہوا کہ ہم ان پر لکھنے بیٹھ گئے ہیں ؟ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ احمد مشتاق کی شاعری ان کے ذاتی تجربات کی دین ہے یا محض سنی سنائی کہانی اور اس کی خوبصورت پیش کش؟ وہ اپنے ہم عصروں سے مختلف ہیں کہ نہیں ؟ اب تک کے شعری رجحانات میں وہ کوئی واضح تبدیلی لا پائے ہیں کہ نہیں ؟
احمد مشتاق کے ہاں معاملاتِ محبت بڑ ے دلچسپ اور خوبصورت اندا ز میں سامنے آتے ہیں ۔ اردو شاعری میں سراپا نگاری عام رہی ہے ۔محبوب کے اوصاف مفصل بیان کئے جاتے رہے ہیں ۔احمد مشتاق نے یہ انفرادیت پیدا کی ہے کہ محبوب کے سراپاکے روایتی بیان کی جگہ اس کی طلسمی شخصیت کے حسی اثرات اردگرد کی فضا میں رچادیے ہیں ۔اس عالم میں شاعر اور محبوب کا گردوپیش ایک آئنے کا کام دیتا ہے ۔محبوب کا ماحول کو یکسر بدل دینا، اور شاعرکے ذہن میں ماضی کے حوالے سے گونجتے رہنا ایک عجیب سماں باندھ دیتا ہے ۔کہیں کہیں قاری کو محسوس ہوتا ہے کہ ایک بے تعلق شخص بے خیالی میں ایک داستان بیان کیے جا رہا ہے ۔ یہاں ’’بے تعلق‘‘ کی اصطلاح پر اعتراض ممکن ہے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ شاعر ’’خود بیتی‘‘ کی جگہ ’’جگ بیتی‘‘ بیان کر رہا ہو۔لیکن ایسا بالکل نہیں ۔ یہ احمد مشتاق کا خاص انداز ہے ۔ گمان گزرتا ہے کہ شاعر کے ہاں جذبات میں شدت کی کمی ہے لیکن شاید ان احساسات کی وجہ ان کے لہجے کی نرمی، آواز کی ملائمت، کیفیات کی لطافت اوردھیما پن ہے ۔ اوریہی رویہ انہیں اپنے قریب کے معروف و مقبول شعراء سے الگ کرتا ہے ۔ شایداسی بنا پر خالد ؔاحمد، ہمارے احمد مشتاقؔ کواُن کے فکری اور جذبی تموج کا جھلمل انعکاس قرار دیتے ہیں اور انہیں متحرک تمثال کاری کی عمدہ ترین مثال کہتے ہیں ۔اُن کے اظہار کا چاند اس مد و جزر کی ایک ایک لہر میں ایک ایسا طلسمی رنگ بھر دیتا ہے جسے اڑ ا لے جانا ہر شاعر کی دلی خواہش کے طور پر ابھرتا ہے ۔پورا چاند تمام دیوانوں کے دلوں میں ایسی ہی ناقابلِ تکمیل خواہشیں پیدا کرتا رہتا ہے ۔ یہی باتیں احمد مشتاق کو دیگرہم عصر شعراء سے منفرد مقام عطا کرتی ہیں ۔
اس راہ سے چھپ چھپ کر گزری، رُت سبز سنہرے پھولوں کی
جس راہ پہ تم کبھی نکلے تھے ، گھبرائے ہوئے ، شرمائے ہوئے

اب تک ہے ہے وہی عالم دل کا، وہی رنگِ شفق، وہی تیز ہوا
وہی سارا منظر جادو کا، میرے نین سے نین ملائے ہوئے

شفق میں رنگ ہیں بیتے ہوئے زمانے کے
بہت اداس ہیں دن تیرے یاد آنے کے
وہ پتیوں سے بھری ٹہنیاں ، تری بانہیں
بلا رہے ہیں شجر تیرے آستانے کے

یہ پانی خامشی سے بہہ رہا ہے
اسے دیکھیں کہ اس میں ڈوب جائیں

تمام رات پھڑ کتے رہے گلاب کے پھول
ہوا بھی تیز تھی اور ٹہنیوں کا جال بھی تھا

رسّے کے پلوں پر سے گزرتے ہیں مسافر
ٹھہری ہوئی جھیلوں میں گھرا ہے نگر اپنا

ساحل سے پوچھو مشتاقؔ
کتنی دور سمندر ہے

احمد مشتاق ’’کبھی اِس سے بات کرنا‘‘، ’’کبھی اُس سے بات کرنا‘‘جیسے مراحل سے بھی اپنے انداز میں گزرتے ہیں ۔وقت کے ساتھ ساتھ تہذیب کے دھارے بھی رخ بدل گئے ۔ محبوب بدل گیا۔عاشق بدل گئے ۔ اقدار بدلتی ہیں تو سب کچھ تبدیل ہو جاتا ہے ۔آ ج اگر ہمیں حسرت کا محبوب دکھائی نہیں دیتا تو حسرت جیسا عاشق بھی دستیاب نہیں ۔ اب بڑ ائی تو اسی میں ہے کہ آپ جس عہد میں سانس لے رہے ہیں ، بات بھی اُسی عہد کی کریں ۔ حسرت کا محبوب چپکے چپکے اپنے عاشق سے ملنے آتا تھا لیکن احمد مشتاق کا محبوب تو جدید عہد کا محبوب ہے ۔ اور احمد مشتاق نے جو ہوا، جیسے ہوا، اپنے وجدان کا حصہ بنا کر بیان کر ڈالا۔فرق صرف اتنا ہے کہ دوسرے شعرا کی طرح عشق و محبت کے معاملات میں خود پیش قدمی کی جگہ احمد مشتاق ہر قدم کی خواہش محبوب سے رکھتا ہے ۔اظہارِ محبت محبوب کرے ۔نفسیات دان اسے مردانہ بالا دستی کی خواہش سے بھی تعبیر کرتے ہیں ۔شاید یہ کہنا زیادہ مناسب ہو کہ احمد مشتاق کے ہاں ’’چاہنے ‘‘ کی نسبت ’’چاہے جانے ‘‘ کی خواہش زیادہ قوی ہے ۔اس پر مستزاد یہ کہ کہیں کہیں تو احمد مشتاق کا عاشق محبوب کو ناز نخرے بھی دکھاتا ہے ۔ کجا یہ کہ عاشق انتظار کرے ، محبوب کو اس امتحان سے گزارا جاتا ہے ۔ اس پر احسان جتایا جاتا ہے ۔یہ کُل وقتی عاشق نہیں ۔اسے اور بھی کام کاج ہیں ۔ اُردو شاعری میں اس رویے کی مثال نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہو گی۔
تو آپ سے آپ آ گیا تھا
میں کب تجھے ڈھونڈنے چلا تھا

پرانا چاند ڈوبا جا رہا ہے
وہ اب کوئی نیا جادو جگائیں

اس لیے گھر سے نہ نکلے تم نہ آ جاؤ کہیں
تم نہ آئے عمر بھر ہم یاد ہی کرتے رہے

جانے تم کو ڈھونڈنے نکلیں ، جی کی اداسی زورکرے
جانے والو! کن را ہوں پر پھول گراتے جاؤ گے

خالی ڈھنڈار پڑ ی ہے بستی
پھر کوئی آگ جلانے آئے

وہ جن دنوں میں کرم بے حساب تھا تیرا
وہی تو دن تھے مرے کھیلنے کے کھانے کے

اب ایسا ہی زمانہ آ رہا ہے
عجب کیا وہ تو آئیں ، ہم نہ آئیں

تھا مقرر کہ ملاقات رہے گی اُس سے
وہ تو پہنچا تھا مگر مجھ سے ہی آیا نہ گیا
شاعر کے باطن میں ایک جھجھک ہے ۔اسے احساسِ شکست خوردگی یا انکساری کا نام بھی دیا جا سکتا ہے اور یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ شاعر کے اندر ایک خوف ہے ۔ معاشرتی خوف ۔وہ چاہتا ہے کہ ہر کام بالا بالا ہو جائے ۔ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو۔ اور تو اور محبوب بھی اگر اس بات سے بے خبر رہے تو اچھا ہے ۔اس میں اپنی ذات سے گریز کا ایک پہلو بھی نکلتا ہے اورخود اذیّتی کی ایک دبی دبی خواہش۔یہی رویہ عشق میں اس کی ناکامرانیوں کا باعث بنتا ہے ۔ احمد مشتاق کی شاعری میں محبوب تو بدل گیا ہے ، لیکن عاشق عجیب و غریب شخصیت کا مالک ہے ۔اس کے اندر محبوب کی خواہش ہے ۔ وصل کی آرزو ہے ۔اس کے سامنے آ جانے یا پاس سے گزر جانے پر ا سکی دنیا یک لخت تبدیل ہوجاتی ہے ۔ لیکن حوصلے کی شدید کمی یا جو بھی کہہ لیں ! اسے حسرت والی شرافت بھی کہا جا سکتا ہے لیکن فی الحال ہم اس سے گریز کرتے ہوئے بات آگے بڑ ھاتے ہیں ۔George Herbert کہتا ہے ’’ محبت اور کھانسی چھپائے نہیں چھپتے ‘‘۔ احمد مشتاق کے ساتھ بھی یہی ہوتا ہے ۔ محبوب آتا ہے تو جیسا کہ اوپر بیان ہوا، منظر ہی بدل جاتا ہے ۔اور زمان و مکان اُس کے رنگ میں رنگ جاتے ہیں ۔ کہیں شادمانی کا عنصر ماحول پرغالب آ جاتا ہے تو کہیں اندر کی جھجھک، انکسار، خود اذیتی، معاشرتی خوف ، شاعر کے اندر کے انسان کی انا کا پرتو سارے پر چھا جاتا ہے ۔
نہ کبھی آنکھ بھر آئی نہ ترا نام لیا
بچ کے چلتے رہے ہر کوچہَ رسوائی سے

چاک سب بند ہیں گریباں کے
دل کا اک تار پیرہن میں نہیں

اب رات تھی اور گلی میں رکنا
اس وقت عجیب سا لگا تھا

چپکے چپکے گھر میں بیٹھے عاشقی کرتے رہے
چھاؤں میں رہ کر عبادت دھوپ کی کرتے رہے
کاش ہم نے بھی سنی ہوتی کبھی دل کی پکار
چاہتی تھی ہم سے جو دنیا وہی کرتے رہے
اب بتائیں بھی تو کیسے دل کے بجھنے کا سبب
ہم کہ اپنے آپ سے پہلو تہی کرتے رہے

ایک مدت اسے دیکھا، اسے چاہا لیکن
وہ کبھی پاس سے گزرا تو بلایا نہ گیا

تو نے ہی تو چاہا تھا کہ ملتا رہوں تجھ سے
تیری یہی مرضی ہے تو اچھا نہیں ملتا

میرؔصاحب فرما گئے ہیں ،
وصل اُس کا خدا نصیب کرے
میرؔ جی چاہتا ہے کیا کیا کچھ
اس ’’کیا کیا کچھ‘‘ کے بعد رہ کیا جاتا ہے ۔احمد مشتاق کے ہاں بھی حسرتیں اِسی طرح کی ہیں ۔ لیکن ناکامی میرؔ کا بھی مقدر ہوئی اور ہمارے احمد مشتاق کا بھی۔احمد مشتاق کے ہاں میرؔ سے تھوڑ ی سی انفرادیت یوں نکل آتی ہے کہ وہ اس غم پر بھی مسکرا کر آگے بڑ ھ جاتے ہیں ۔ٔواشگاف انداز میں احتجاج نہیں کرتے ۔واویلا نہیں مچاتے ۔رونا دھونا نہیں کرتے ۔ اور قاری محسوس کرتا ہے کہ شاید اس دبی دبی مسکراہٹ کا باعث محبت کی کمی اور عشق کی آنچ کی خامی ہے ، لیکن بات تو ٹائپ کی ہے ۔ نہ عشق کی آنچ کی خامی ہے اور نہ محبت کی کمی۔ احمد مشتاق نے اپنے اندر غم کی آگ کو کبھی ٹھنڈا نہیں پڑ نے دیا۔ یہ اور بات کہ وہ اس کا بیان اس طرح کرتے ہیں کہ اردو شاعری کے رازونیاز سے آگاہ قاری حیران و پریشان رہ جاتا ہے کہ وہ تو توقع کر رہا ہوتا ہے کہ اب شاعر خود بھی روئے گا اور اُسے بھی رلائے گا لیکن معاملہ اس کے بالکل اُلٹ ہوتا ہے ۔ یہاں احمد مشتاق نے اردو غزل کو ایک نئے رنگ سے آشنا کیا ہے ۔ درد کی ایک زیریں لہر۔جی زیریں لہر ان کے کلام میں ہر جگہ جھلکیاں لیتی دکھائی دیتی ہے ۔ اور کبھی کبھی کہیں کہیں تو’’ شاعر احمد مشتاق‘‘ حد کر دیتا ہے کہ’’ عاشق احمد مشتاق‘‘ کو ماضی کو بھول جانے کے مشورے دینے سے بھی گریز نہیں کرتا۔اور یہ بات احمد مشتاق کی زندگی اور اس کی رنگا رنگی سے دلچسپی پر دال ہے ۔یہ عجیب و غریب رویے احمد مشتاق کے ہاں جگہ جگہ شکلیں بدل بدل کر سامنے آتے ہیں ۔ اوریہی رنگ رنگ کے شعری پیکر دیکھ کر محسوس کیے بغیر ان کے نقاد یہ فتویٰ صادر فرما دیتے ہیں کہ ان کے ہاں کوئی ایک تھیم نہیں ۔وہ کہیں ٹک کر نہیں بیٹھتے ۔

گم ہے انہی گلیوں میں کوئی ہم سفر اپنا
یہ جھانکنا یونہی تو نہیں دربدر اپنا

دلِ ہنگامہ طلب یہ بھی خبر ہے تجھ کو
مدتیں ہو گئیں اک شخص کو باہر نکلے

بڑ ے گلاب کی شاخیں پسند ہیں مجھ کو
مرا نصیب یہی ہے کہ دور سے دیکھوں

دل میں تو دھڑ کنے کی صدا بھی نہیں مشتاق
رستے میں ہے وہ بھیڑ کہ رستا نہیں ملتا

بھلی لگتی ہے آنکھوں کو نئے پھولوں کی رنگت بھی
پرانے زمزمے بھی گونجتے رہتے ہیں کانوں میں

یہ تنہا رات، یہ گہری فضائیں
اسے ڈھونڈیں کہ اس کو بھول جائیں

وہ چھوڑ گیا ہے مجھ کو مشتاقؔ
دریا نے بدل لیا ہے رستہ

رشتہَ تارِ تمنا نہیں ٹوٹا اب تک
اب بھی آنکھوں میں تری زلف کا خم رہتا ہے

ابھی محفوظ ہے ترا چہرہ
ابھی بھولی نہیں تری آواز


ہم اپنے دکھ بھرے دل کی کہانی کہتے رہتے ہیں
ستارے ٹوٹتے رہتے ہیں ، دریا بہتے رہتے ہیں

کامرانی اور ناکامیابی ہر دو صورتوں میں لمحاتِ وصل کے تجربات کا بیان ادیب سے جراَت مندی اوربلا کی مہارت کا تقاضا کرتے ہیں ۔یہ تجربات لمحاتی ہونے کے باوجود انسانی حیات پر گہرا اثر رکھتے ہیں ۔شاعری اس معمے کو اشاراتی انداز میں بیان کرتی ہے ۔زیرک شاعرتشبیہوں اور استعارات کی مدد سے اپنے شعر میں تجربے کی ایک دنیا سمیٹ دیتا ہے ۔ الفاظ براہِ راست ہمارے باطن سے کلام کرتے ہوئے ہمیں زندگی کی فعال قوتوں سے منسلک کر دیتے ہیں ۔یہ جملے شاید ایک عام قاری کے لیے بے معنی اور ناقابلِ فہم ہوں لیکن ادب کے پورے پس منظر پر نگاہ رکھنے والوں کے لیے نامانوس نہیں ۔میر تقی میر فرما گئے ہیں ۔
وصل میں رنگ اُڑ گیا میرا
کیا جدائی کو منہ دکھاؤں گا
(میر تقی میر)
حسرت ؔموہانی کہتے ہیں :
حائل تھی درمیاں جو رضائی تمام شب
اس غم میں ہم کو نیند نہ آئی تمام شب
ہمارے احمد مشتاق یوں گویا ہوتے ہیں :
تم ملے بھی تو ملاقات نہ ہونے پائی
شام آئی تھی مگر رات نہ ہونے پائی
ان کہی بات نے اک حشر اٹھا رکھا تھا
شور اتنا تھا کوئی بات نہ ہونے پائی

لبھاتا ہے اگرچہ حسنِ دریا ڈر رہا ہوں میں
سبب یہ ہے کہ اک مدت کنارے پر رہا ہوں میں
کوئی کمرہ ہے جس کے طاق میں اک شمع جلتی ہے
اندھیری رات ہے اور سانس لیتے ڈر رہا ہوں میں

اجلا ترا برتن ہے اور صاف ترا پانی
اک عمر کا پیاسا ہوں ، مجھ کو بھی پلا پانی

دل کو یادِ شامِ ہجر پھر اداس کر گئی
پھر چراغِ وصل سے روشنی اتر گئی

ہر بوسے کو نصیب نہیں لمحہَ نشاط
جسموں میں جاگتی ہے یہ لذت کبھی کبھی

میں نے اپنے آپ سے دھوکا کیا!
تم نے اپنی خواہشوں کا کیا کیا؟

وہ جو رات مجھ کو بڑ ے ادب سے سلام کر کے چلا گیا
اُسے کیا خبر مرے دل میں بھی کبھی آرزوئے گناہ تھی

گھر کی باس اور جسم کی خوشبو بڑ ے بڑ وں کو بھلا دیتی ہے
مجھ میں کیا سرخاب کا پر ہے آخر کیوں تجھ کو یاد آؤں

وہی شرافت و نجابت، وہی خوفِ رسوائی جس کا بیان اوپر کیا جا چکا ہے ، شاعر کے اندر ایک جذباتی کشمکش کا باعث بنتے ہیں ۔اوریہی جذباتی کشمکش اور گھٹن اُن کے اشعار کو بڑ ا بناتے ہیں ۔
احمد مشتاق کے ہاں تجربے کی نوعیت سراسر ذاتی ہے ۔ اور ان تجربات کی طرف وہ اپنے اشعار میں اشارہ دے کر آگے بڑ ھ جاتے ہیں اور قاری منہ میں انگلی دابے آئینہَ حیرت بنا رہ جاتا ہے کہ شاعر کیا کہہ گیا ہے ۔ یہاں ایک بات جس کا بیان ازحد ضروری ہے کہ احمد مشتاق کو اپنے تجربے کے بیان کے لئے نہ تو تجرید کی ضرورت پیش آتی ہے اور نہ ہی تصوف اور فلسفے کی بھول بھلیاں ان کا مطمحِ نظر بنتی ہیں ۔ان کی شاعری زمین پر چلتے پھرتے ایک انسان کی شاعری ہے ۔وہ انسان جو ربط و ضبط کا پتلا ہے ۔ اپنے جیسوں کے لیے جیتا مرتا ہے ۔اس کے الفاظ، اس کی تراکیبب بھی اسی انسان کے روزمرہ سے ہیں ۔احمد مشتاق کے تلاذمے خالص زمینی ہیں کہ وہ زمین سے جڑ ے ہوئے انسان ہیں ۔ ان کا تخیل محبوب کی مدح یا اس کی جدائی کی کیفیات کے بیان کے لیے انہیں خلاؤں کی پرواز پرمجبور نہیں کرتا۔
وقت ایک کھلی حقیقت ہے ۔ہر لحظہ رواں دواں وقت ہر زخم کامرہم ہے ۔ تغیر کی علامت ہے ۔شاعر بھی وقت کے سائے سائے مسلسل تغیر پذیر زمانے کا کھلی آنکھوں مشاہدہ کرتا ہے ۔تغیراتِ شب و روز کا خالص اپنی آنکھ سے تجزیہ کرتا ہے ۔اپنے ذاتی تجربات ، جذبات اور احساسات کوگزرتے وقت کے حوالے سے جانچنے کی کوشش کرتا ہے ۔دوسرے لفظوں میں کہا جا سکتا ہے کہ وہ اپنا کتھارسس کرتا ہے ۔ ذاتی احتساب کے مرحلوں سے گزرتا ہے ۔کائنات، معاشرہ، عشق کوئی بھی اس کے اس عمل بچ نہیں پاتا۔احمد مشتاق بھی اپنے تجربات ، جذبات اور گرد و پیش کا اسی حوالے سے تجزیہ کرتے نظر آتے ہیں ۔اور اپنے مخصوص انداز میں ان حقیقتوں کی Reflections پیش کرتے چلے جاتے ہیں ۔
پانی میں کانپتے ہیں ابھی تک پلوں کے عکس
وہ سیلِ بے پناہ تو کب کا گزر گیا

کدھر بہہ گیا سبز دریا کا پانی
کنارہ کہاں رہ گیا کون جانے

وہ اپنے گھر میں رہے خوش، ہم اپنے گھر میں خوش
یہ تجربہ تھا محبت میں کامیاب رہا

مزہ تو یہ ہے کہ وہ خود تو ہے نئے گھر میں
اور اس کی یاد پرانے مکاں میں رہتی ہے

باغ کہیں ، شجر کہیں ، شاخ کہیں ، ثمر کہیں
آج ورق ورق ملی، عہدِ بہار کی کتاب


وہ جن کے ساتھ چلتا تھا زمانہ
ابھی اس راہ سے تنہا گئے ہیں

دل فسردہ تو ہوا دیکھ کے اس کو لیکن
عمر بھر کون جواں ، کون حسیں رہتا ہے

خشک تالاب ، ٹوٹی ہوئی سیڑ ھیاں ، ادھ کِھلے پھول، پر سوختہ کھڑ کیاں
پھر کوئی شہر آنکھوں میں پھرنے لگا، پھر مجھے راستے یاد آنے لگے

چھوٹا سا ایک گھر تھا درختوں کی اوٹ میں
بامِ بلند و زینہَ پیچاں نہ تھا کوئی

اب نہ بہل سکے گا دل، اب نہ دیے جلایے
عشق و ہوس ہیں سب فریب، آپ سے کیا چھپایے

گذر رہی ہے تمنا کے ساحلوں سے ہوا
لرز رہے ہیں درختوں کے سائے پانی میں

کل رات کی برف کو بھرا پیڑ
ہولے ہولے جھٹک رہا ہے

کوئی شر ر نہیں بچا پچھلے برس کی راکھ میں
ہم نفسانِ شعلہ خو آگ نئی جلایے

کبھی شعلے سے لپکتے تھے مرے سینے میں
اب کسی وقت دھواں سا کوئی دم رہتا ہے

بہت رک رک کے چلتی ہے ہوا خالی مکانوں میں
بجھے ٹکڑ ے پڑ ے ہیں سگرٹوں کے راکھ دانوں میں

انتظار حسین احمد مشتاق کے شاعری کے بارے میں لکھتے ہیں ’’ اس میں نظریے کی سخت کمی ہے ، سماجی دکھ سکھ کا احساس بھی نہیں پایا جاتا۔پھر قومی تقاضے پورے کرنے کی لگن بھی نہیں ملتی۔ ایسی بات نہیں ہے کہ مشتاق کے پاس ان چیزوں کی کمی ہے ۔بفضلہ تعالیٰ یہ سب کچھ اس کے دامن میں ہے ۔ مگر یہ سب چائے کی میز کے صرفے میں آ جاتا ہے ۔شاعری کی عبادت گاہ میں مشتاق جوتیاں اتار کر داخل ہوتا ہے ‘‘۔ نظریے کی حد تک تو بات سمجھ آتی ہے ۔ لیکن یہ سماجی دکھ سکھ کا نہ ہونا قطعی عجیب بات ہے ۔’’جوتے اتار کر شاعری کی عبادت گاہ میں داخل ہونا‘‘ سے شاید یہ مراد لی جاتی ہے کہ شاعر کا اپنے گرد و پیش کی دنیا سے کوئی ربط نہیں ۔سیاسی، سماجی اور معاشرتی تبدیلیاں اس پر اثر انداز نہیں ہو رہیں ۔لیکن اگراس بات کو شاعری کا فارمولا یا نصب ا لعین بنا لیا جائے تو پھر شاعری محض’’ میں اور تُو‘‘ کا کھیل بن کر رہ جائے گی۔احمد مشتاق جیسے حساس شاعر سے اس طرح کی باتوں کا منسوب کیا جانامناسب نہیں لگتا ۔ان کے کلیات سے کچھ اشعار بغیر کسی وضاحت کے پیش کرنا چا ہوں گا۔ تعبیر ہمارے قارئین کے ذمے ۔

بدلتے موسمو! غافل نہیں ہم
ہم اپنا کام کرتے جا رہے ہیں

گویا زمین کم تھی تگ و تاز کے لیے
پیمائشِ نجوم و قمر کر رہے ہیں ہم

شام ہوتے ہی برسنے لگے کالے بادل
صبح دم لوگ دریچوں میں کھلے سر نکلے

اک زمانہ تھا کہ سب ایک جگہ رہتے تھے
اور اب کوئی کہیں ، کوئی کہیں رہتا ہے

کیسے مکاں اجاڑ ہوا کس سے پوچھتے
چولھے میں روشنی تھی نہ پانی گھڑ ے میں تھا

شبنم کو ریت ، پھول کو کانٹا بنا دیا
ہم نے تو اپنے باغ کو صحرا بنا دیا

ایسی بستی سے تو اچھا ہے بیاباں اپنا
آدمی سانس تو لے سکتا ہے آسانی سے

محفوظ دستبردِ زمانہ سے کچھ نہیں
ہر شے کی گھات میں ہے یہ چیتا لگا ہوا

کبھی کبھی تو ہنسی آتی ہے
یہ دنیا کیسی دنیا ہے
احمد مشتاق بھی عجیب شاعر ہیں ۔اس قدر بھرپوراشعار کہہ چکنے کے بعد بھی ان کی ذات کا عجز ہے کہ کم نہیں ہوتا۔کہیں انہیں یہ گمان گزرتا ہے کہ لوگ انہیں سمجھ نہیں پا رہے ۔ کہیں جوہرِ بے زخم کی داد سے محرومی کا احساس ابھرتا ہے ۔کہیں وہ شعر کی موت اعلان کر بیٹھتے ہیں جس کا چرچا کچھ مخصوص اخباری کالموں سے ہو جاتا ہے ۔کبھی انہیں کہیں کہیں کوئی آواز اٹھتی سنائی دیتی ہے ۔

بڑ ے دکھ جھیل کر کمائی ہے
جو بھی ہے یہ بری بھلی آواز

ڈوبی ہوئی آوازیں ، ٹوٹے ہوئے سناٹے
یہ سب مری باتیں ہیں ، یہ سب مرا کہنا ہے

ہاتھ اٹھا توسنِ تخیل سے
یہ کسی اور کی سواری ہے

ابھی چھایا نہیں ہے سنّاٹا
آ رہی ہے کوئی کوئی آواز

میں بجا طور پر یہ دعویٰ کر سکتا ہوں کہ احمد مشتاق ایک تغیر اور تلاطم آشنا شخصیت ہیں ۔ان کا کلام اٹھا کر دیکھ لیجیے ۔آپ بھی اُن کی متنوع تخلیقی شخصیت پر ایمان لے آنے پر مجبور ہو جائیں گے ۔
--------------------
(نوید صادق)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شکریہ: ماہنامہ بیاض۔مارچ 2009ء
 

الف عین

لائبریرین
شکریہ نوید۔۔۔ لیکن عنوان میں پہلی کوشش کیوں؟ شاید احمد مشتاق پر پہلے بھی لکھا گیا ہے، اور کسی نے نہیں تو شمس الرحمٰن فاروقی نے۔۔۔
 

نوید صادق

محفلین
میری پہلی کوشش سمجھ لیں۔ لیکن میرے ہاتھ جو کام احمد مشتاق کے حوالہ سے لگا، اسے دیکھ کر اسے پہلی کوشش کہنا پڑا۔
واللہ اعلم، میں ٹھیک ہوں کہ نہیں!
 

محمد وارث

لائبریرین
بہت خوبصورت تحریر ہے نوید صاحب، لا جواب اور یہ بھی کھلا کہ آپ نظم کے ساتھ ساتھ میدانِ نثر و تنقید و تحقیق کے بھی شاہسوار ہیں!
 

الف عین

لائبریرین
آئندہ شمارے (16)کے لئے منتخب کر لیا ہے اسے۔۔ کیا بیاض میں بھی دینے کا ارداہ ہے۔
یہ شمارہ تو اقبال اور شبنم رومانی نمبر ہو گیا۔۔ اس لئے مضامین کی جگہ نہیں۔۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
بہت اعلیٰ مضمون ہے نوید صاحب۔ تنقید کا ایسا معیار کم ہی پڑھنے میں آتا ہے۔ ہمارے دوست جواد احمد جو کہ فلسفہ پڑھاتے ہیں اور اچھے افسانہ نگار بھی ہیں۔ انہوں نے احمد مشتاق کی اس غزل کی دھن خود بنائی تھی اور بہت اچھی گائی تھی۔ جواد صاحب بہت اچھے کلاسیکی موسیقی کے گلوکار بھی ہیں۔ اس غزل کا آپ نے بھی ذکر کیا ہے۔ ہوسکے تو پوری غزل پوسٹ کردیجیے۔
تم ملے بھی تو ملاقات نہ ہونے پائی
شام آئی تھی مگر رات نہ ہونے پائی
ان کہی بات نے اک حشر اٹھا رکھا تھا
شور اتنا تھا کوئی بات نہ ہونے پائی
 

مغزل

محفلین
سبحا ن اللہ سبحان اللہ ۔ کیا کہنے نوید بھائی ۔آپ کے ہاں تنقید کا معیار ہمارے دل ودماغ کو آسود ہ تر کرگیا ہے بڑے عرصے بعد تنقید اپنے معیار پر نظر آئی آپ کی شخصیت کا یہ پہلو ہم سے اوجھل رہا ۔ بہت خوب بہت خوب ۔احمد مشتاق صاحب کی چند تصاویر مجھے خواجہ رضی حیدر کے ہاں ملی ہیں اسی دن میں نے خالد احمد صاحب سے بات بھی کروادی تھی۔ خواجہ صاحب نے احمد مشتاق سے امریکہ جا کر ملاقات کی تھی ہفتوں‌ساتھ رہے انہوں نے یادداشتیں بھی اکٹھی کی ہیں انشا اللہ آئندہ کسی شمارے میں شامل ہوں گی ۔ والسلام علیکم
 
Top