آ کے سجّادہ نشیں قیس ہوا میرے بعد -منور خان غافل

فاتح

لائبریرین
استاد محترم
میں اپنے لیئے کچھ وقت ضرور نکالتا ہوں
اور وہ وقت صرف میرا ہوتا ہے
کبھی کبھی قہوہ کی جگہ اور بھی کچھ پی لیتا ہوں
تب تو اصل استاد آپ ہوئے کیونکہ ہماری تان تو لے دے کر کالی کافی پر آ کر ہی ٹوٹتی ہے۔۔۔ اس سے آگے کی منازل طے نہیں کیں اب تک :laughing:
 

باباجی

محفلین
تب تو اصل استاد آپ ہوئے کیونکہ ہماری تان تو لے دے کر کالی کافی پر آ کر ہی ٹوٹتی ہے۔۔۔ اس سے آگے کی منازل طے نہیں کیں اب تک :laughing:
سر جی مقصد تو آتش کو اور ہوا دینا ہوتا ہے
تو کبھی کبھی آتش کی شدت کو بڑھانے کو موڈ ہوجاتا ہے :)
 
کیا کہنے اس غزل کے
بہت ہی خوبصورت غزل ہے

تہِ شمشیر یہی سوچ ہے مقتل میں مجھے
دیکھیے اب کسے لاتی ہے قضا میرے بعد

بعد مرنے کے مری قبر پہ آیا وہ میر
یاد آئی مرے عیسٰی کو دوا میرے بعد


کیا کہنے واہ واہ کئی دفعہ پڑھی طبعات سیر نہ ہوئی

شاد و آباد رہیں
 

فاتح

لائبریرین
کیا کہنے اس غزل کے
بہت ہی خوبصورت غزل ہے

تہِ شمشیر یہی سوچ ہے مقتل میں مجھے
دیکھیے اب کسے لاتی ہے قضا میرے بعد

بعد مرنے کے مری قبر پہ آیا وہ میر
یاد آئی مرے عیسٰی کو دوا میرے بعد

کیا کہنے واہ واہ کئی دفعہ پڑھی طبعات سیر نہ ہوئی
شاد و آباد رہیں
بہت شکریہ جناب، ممنون ہوں
 
آ کے سجّادہ نشیں قیس ہوا میرے بعد نہ رہی دشت میں خالی کوئی جا میرے بعد
یہ کلام مرزا محمد تقی ہوس کا ہے، نام مرزا محمد تقی خان، تخلص ہوس، 67-1766 میں فیض آباد میں پیدا ہوئے ۔لکھنئو میں نشو ونما ہوئی وہیں مفتی گنج میں رہتے تھے ۔ میر حسن کے بعد مصحفی کے شاگرد ہوئے۔ 36-1835 میں وفات پائی۔ نمونہ کلام:
میں تم کو نہ کہتا تھا کہ آئینہ نہ دیکھو - آخر ہدف چشم فسوں ساز ہوئے تم
لے گئے جب تیرے دیوانے کو عیسی نے کہا ۔ ہر گھڑی میں کیا علاج مرد سودائی کروں
منع کیوں کرتا ہے زاہد آہ و زاری سے ہمیں - ہم سے کس دن خوش تھے وہ جو اب خفا ہو جائیں گے
 

رفیق خیال

محفلین
یہ غزل
آ کے سجادہ_نشیں قیس ہوا میرے بعد
منور خان غافل کی ہے جو میر صاحب کے نام سے منسوب ہو گئی ہے
 
آکے سجادہ نشیں قیس ہوا میرے بعد
نہ رہی دشت میں خالی کوئی جا میرے بعد

میان میں اس نے جو کی تیغ جفا میرے بعد
خوں گرفتہ کوئی کیا اور نہ تھا میرے بعد

دوستی کا بھی تجھے پاس نہ آیا ہے
تو نے دشمن سے کیا میرا گلا میرے بعد

گرم بازاریٔ الفت ہے مجھی سے ورنہ
کوئی لینے کا نہیں نام وفا میرے بعد

منہ پہ لے دامن گل روئیں گے مرغان چمن
باغ میں خاک اڑائے گی صبا میرے بعد

چاک اسی غم سے گریبان کیا ہے میں نے
کون کھولے گا ترے بند قبا میرے بعد

اب تو ہنس ہنس کے لگاتا ہے وہ مہندی لیکن
خون رلا دے گا اسے رنگ حنا میرے بعد

میں تو گلزار سے دل تنگ چلا غنچہ روش
مجھ کو کیا پھر جو کوئی پھول کھلا میرے بعد

وہ ہوا خواہ چمن ہوں کہ چمن میں ہر صبح
پہلے میں جاتا تھا اور باد صبا میرے بعد

سن کے مرنے کی خبر یار مرے گھر آیا
یعنی مقبول ہوئی میری وفا میرے بعد

ذبح کر کے مجھے نادم یہ ہوا وہ قاتل
ہاتھ میں پھر کبھی خنجر نہ لیا میرے بعد

میری ہی زمزمہ سنجی سے چمن تھا آباد
کیا صیاد نے اک اک کو رہا میرے بعد

آ گیا بیچ میں اس زلف کی اک میں ناداں
نہ ہوا کوئی گرفتار بلا میرے بعد

قتل تو کرتے ہو پر خوب ہی پچھتاؤ گے
مجھ سا ملنے کا نہیں اہل وفا میرے بعد

برگ گل لائی صبا قبر پہ میری نہ نسیم
پھر گئی ایسی زمانے کی ہوا میرے بعد

گر پڑے آنکھ سے اس کی بھی یکایک آنسو
ذکر محفل میں جو کچھ میرا ہوا میرے بعد

زیر شمشیر یہی سوچ ہے مقتل میں مجھے
دیکھیے اب کسے لاتی ہے قضا میرے بعد

شرط یاری یہی ہوتی ہے کہ تو نے غافلؔ
بھول کر بھی نہ مجھے یاد کیا میرے بعد
منور خان غافل
 
کچھ دن پہلے محفل کے ایک دھاگے "کون ہے جو محفل میں آیا 9" پر مکرم وارث صاحب نے ایک مشہور زمانہ مصرع لکھا تھا "شاید آجائے کوئی آبلہ پا میرے بعد"۔
بس اسی مصرع نے مہمیز کیا مجھے میر تقی میر کے نام سے غلط طور پر منسوب وہ غزل یہاں پوسٹ کرنے پر (شاید کچھ اشعار مجھ سے چھوٹ گئے ہیں):

آ کے سجّادہ نشیں قیس ہوا میرے بعد
نہ رہی دشت میں خالی کوئی جا میرے بعد


چاک کرتا ہوں اسی غم سے گریبانِ کفن
کون کھولے گا ترے بندِ قبا میرے بعد


وہ ہوا خواہِ چمن ہوں کہ چمن میں ہر صبح
پہلے میں جاتا تھا اور بادِ صبا میرے بعد


منہ پہ رکھ دامنِ گل روئیں گے مُرغانِ چمن
ہر روِش خاک اڑائے گی صبا میرے بعد


تیز رکھنا سرِ ہر خار کو اے دشتِ جنوں
شاید آ جائے کوئی آبلہ پا میرے بعد


تہِ شمشیر یہی سوچ ہے مقتل میں مجھے
دیکھیے اب کسے لاتی ہے قضا میرے بعد


بعد مرنے کے مری قبر پہ آیا وہ میر
یاد آئی مرے عیسٰی کو دوا میرے بعد

(منور خان غافل)

اور اسے عابدہ پروین نے بھی گایا ہے جو کہ یو ٹیوب پر دو قسطوں میں موجود ہے۔

فاتح صاحب! اس غزل سے متعلق مظفر علی سید کا ایک تحقیدی مضمون 1954 کے ماہِ نو میں شائع ہوا تھا۔ بعد میں اس مضمون کو ماہِ نو کے چالیس سالہ ایڈیشن میں شامل کیا گیا تھا تو خوش قسمتی سے دوست کے توسط سے اس ایڈیشن کی دونوں جلدیں مجھ تک بھی پہنچیں یوں چالیس سالہ مخزن پڑھنے کا موقع ملا۔ اس تحقیدی مضمون میں انھوں نے تاریخی شواہد سے یہ ثابت کیا تھا کہ غزل میر ہی کی ہے اور غلطی سے غافل کے نام سے منسوب ہوگئی ہے۔ البتہ ہوا یوں ہے کہ چونکہ دونوں نے ایک ہی زمین میں اشعار کہےتھے اس لیے یہ غزل جوکہ کلامِ میر میں تدوین ہونے سے رہ گئی تھی ، غافل کے کلام میں شامل ہوگئی۔اس سب کے دوران اس میں خود غافل کے اشعار بھی شامل ہوگئے۔ غافل کے کلام میں یہ جس تذکرے سے نقل کی گئی اس میں غافل نے نہ تو اپنا تخلص استعمال کیا تھا اور نہ ہی اس غزل کی تضمین کے حوالے سے جو اشعار موجود تھے ان سے یہ پتہ چلتا تھا کہ یہ غافل کی ہے۔ مظفر صاحب نے اس غزل کے اٹھارہ اشعار اور بھی دیے تھے اور اسلوبی حوالے سے اس پر محققانہ بحث کی تھی۔ اب چونکہ مضمون میرے سامنے موجود نہیں اس لیے مجھے حقائق کی تفصیل بیان کرتے ہوئے مشکل پیش آرہی ہے۔میری کوشش ہوگی کہ اگر دوست یہ مضمون تصویر بنا کر ای میل کردے تو میں اسے یہاں پیسٹ کردوں۔ میں نے اس مضمون کے حوالے سے اپنے ایک استادِ محترم سے بھی رائے لی تھی اور انھوں نے اس حوالے سے مثبت رائے پیش کی تھی۔ میری ایک ہم جماعت نے ماہِ نو پر تحقیق کی ہے لیکن ابھی تک مقالہ غیر مطبوعہ ہے اس لیے ان کی تحقیق شامل کرنے سے قاصر ہوں۔
 

فاتح

لائبریرین
فاتح صاحب! اس غزل سے متعلق مظفر علی سید کا ایک تحقیدی مضمون 1954 کے ماہِ نو میں شائع ہوا تھا۔ بعد میں اس مضمون کو ماہِ نو کے چالیس سالہ ایڈیشن میں شامل کیا گیا تھا تو خوش قسمتی سے دوست کے توسط سے اس ایڈیشن کی دونوں جلدیں مجھ تک بھی پہنچیں یوں چالیس سالہ مخزن پڑھنے کا موقع ملا۔ اس تحقیدی مضمون میں انھوں نے تاریخی شواہد سے یہ ثابت کیا تھا کہ غزل میر ہی کی ہے اور غلطی سے غافل کے نام سے منسوب ہوگئی ہے۔ البتہ ہوا یوں ہے کہ چونکہ دونوں نے ایک ہی زمین میں اشعار کہےتھے اس لیے یہ غزل جوکہ کلامِ میر میں تدوین ہونے سے رہ گئی تھی ، غافل کے کلام میں شامل ہوگئی۔اس سب کے دوران اس میں خود غافل کے اشعار بھی شامل ہوگئے۔ غافل کے کلام میں یہ جس تذکرے سے نقل کی گئی اس میں غافل نے نہ تو اپنا تخلص استعمال کیا تھا اور نہ ہی اس غزل کی تضمین کے حوالے سے جو اشعار موجود تھے ان سے یہ پتہ چلتا تھا کہ یہ غافل کی ہے۔ مظفر صاحب نے اس غزل کے اٹھارہ اشعار اور بھی دیے تھے اور اسلوبی حوالے سے اس پر محققانہ بحث کی تھی۔ اب چونکہ مضمون میرے سامنے موجود نہیں اس لیے مجھے حقائق کی تفصیل بیان کرتے ہوئے مشکل پیش آرہی ہے۔میری کوشش ہوگی کہ اگر دوست یہ مضمون تصویر بنا کر ای میل کردے تو میں اسے یہاں پیسٹ کردوں۔ میں نے اس مضمون کے حوالے سے اپنے ایک استادِ محترم سے بھی رائے لی تھی اور انھوں نے اس حوالے سے مثبت رائے پیش کی تھی۔ میری ایک ہم جماعت نے ماہِ نو پر تحقیق کی ہے لیکن ابھی تک مقالہ غیر مطبوعہ ہے اس لیے ان کی تحقیق شامل کرنے سے قاصر ہوں۔
میرے پاس موجود ہے وہ "نام نہاد" تحقیق بھی جس کا آپ ذکر کر رہے ہیں اور اس میں جو فضولیات دلیلوں کے نام پر پیش کی گئی ہیں وہ اتنی بھونڈی ہیں کہ ہنسی آتی ہے۔
عطا کاکوی نے اس نام نہاد تحقیق کا جواب "میر کی ایک مفروضہ غزل پر محاکمہ" کے عنوان سے لکھا ہے جو ان کی کتاب "تحقیقی مقالے"میں شامل ہے۔ اس کا مطالعہ مفید ثابت ہو گا۔
اس غزل سے متعلق مظفر علی سید کا ایک تحقیدی مضمون 1954 کے ماہِ نو میں شائع ہوا تھا۔
اور ہاں مظفر علی سید کا مذکورہ مضمون "ماہِ نو" کے مئی 1952 کے شمارے میں شائع ہوا تھا جو اس کے چالیس سالہ مخزن میں بھی شائع ہوا۔
 
آخری تدوین:

فاتح

لائبریرین
میری کوشش ہوگی کہ اگر دوست یہ مضمون تصویر بنا کر ای میل کردے تو میں اسے یہاں پیسٹ کردوں۔
لیجیے، یہ کام میں کیے دیتا ہوں آپ کی سہولت کے لیے:
35178565413_357db24e2e_o.jpg

35178564133_1a2d87e89d_o.jpg

35600080110_c300431a85_o.jpg

35818169192_4c1e259614_o.jpg

چاروں صفحات ایک البم میں ڈاؤن لوڈ کرنے کا ربط
اب ان بونگی دلیلوں کی بنیاد پر اگر کوئی یہ کہے کہ "ثابت کر دیا" تو اس کی عقل پر سوائے ماتم کرنے کے کچھ نہیں کیا جا سکتا۔
عطا کاکوی کا جوابی مضمون بھی پیش کرتا ہوں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
اس مضمون کو پڑھنے کے بعد بھی اگر کسی کو یہ خیال گزرتا ہے کہ یہ غزل میر تقی کی ہے تو رگِ گُل سے بلبل کے پر باندھنے والوں میں ہی ان کا شمار کیا جا سکتا ہے۔ ;)
میں نے یہ غزل اُس وقت مہدی حسن کی آواز میں سنی تھی جب مجھے "سجادہ نشیں" کا مطلب بھی علم نہیں تھا اور ایک سنوکر کلب پر ایک بزرگ نے اس کا مطلب سمجھایا تھا تب سے میر سے عشق ہو گیا تھا۔ برسوں بعد جب یہ کھلا تھا کہ یہ غزل میر کی نہیں ہے تو انتہائی دکھ ہوا تھا۔ پھر کسی نقاد کا یہ مقولہ یاد آ گیا کہ ہر اچھا شعر میر تقی میر ہی کا ہے تو دل خوش ہو گیا :)
 

سید ذیشان

محفلین
میں نے یہ غزل اُس وقت مہدی حسن کی آواز میں سنی تھی جب مجھے "سجادہ نشیں" کا مطلب بھی علم نہیں تھا اور ایک سنوکر کلب پر ایک بزرگ نے اس کا مطلب سمجھایا تھا تب سے میر سے عشق ہو گیا تھا۔ برسوں بعد جب یہ کھلا تھا کہ یہ غزل میر کی نہیں ہے تو انتہائی دکھ ہوا تھا۔ پھر کسی نقاد کا یہ مقولہ یاد آ گیا کہ ہر اچھا شعر میر تقی میر ہی کا ہے تو دل خوش ہو گیا :)

ویسے میرؔکا اس غزل کے مطلع سے ملتا جلتا شعر بھی موجود ہے ،جس میں قیس کی جگہ ۔قافیہ کی وجہ سے۔ فرہاد کا ذکر ہے۔

میرے سنگِ مزار پر فرہاد
رکھ کے تیشہ کہے ہے یا استاد

باقی غزل میر کی ہو یا پھر کسی اور شاعر کی، اس کی عمدگی میں کوئی شک نہیں۔
 
میرے پاس موجود ہے وہ "نام نہاد" تحقیق بھی جس کا آپ ذکر کر رہے ہیں اور اس میں جو فضولیات دلیلوں کے نام پر پیش کی گئی ہیں وہ اتنی بھونڈی ہیں کہ ہنسی آتی ہے۔
عطا کاکوی نے اس نام نہاد تحقیق کا جواب "میر کی ایک مفروضہ غزل پر محاکمہ" کے عنوان سے لکھا ہے جو ان کی کتاب "تحقیقی مقالے"میں شامل ہے۔ اس کا مطالعہ مفید ثابت ہو گا۔

اور ہاں مظفر علی سید کا مذکورہ مضمون "ماہِ نو" کے مئی 1952 کے شمارے میں شائع ہوا تھا جو اس کے چالیس سالہ مخزن میں بھی شائع ہوا۔
شراکت کا شکریہ۔ جزاک اللہ۔
 
عطا کاکوی کا مضمون بھی عطا ہو تو ایڈوانس میں شکریہ۔
میر کی ایک مفروضہ غزل پر محاکمہ ۔ عطا کاکوی
35989087785_e76feb81cc_o.jpg



35989087225_cfaa164022_o.jpg


35989086485_9ceed71fd7_o.jpg


35947456266_26fa52f174_o.jpg


35149108494_f1cf035e73_o.jpg


35856501241_3cf60b1e0d_o.jpg


35989084475_6d2ee94756_o.jpg


35856497681_0a8c351f16_o.jpg


آٹھوں صفحات ایک البم میں ڈاؤن لوڈ کرنے کا ربط

اس مضمون کو پڑھنے کے بعد بھی اگر کسی کو یہ خیال گزرتا ہے کہ یہ غزل میر تقی کی ہے تو رگِ گُل سے بلبل کے پر باندھنے والوں میں ہی ان کا شمار کیا جا سکتا ہے۔ ;)
 

فرخ منظور

لائبریرین
عام طور پر یہ غزل میر تقی میرؔ سے منسوب کی جاتی ہے۔ دراصل یہ غزل منور خان غافل کی ہے۔ یہ غزل دیوان غافل مطبع نول کشور سے دیکھ کر نقل کی گئی۔


آ کے سجّادہ نشیں قیس ہوا میرے بعد
نہ رہی دشت میں خالی مری جا میرے بعد

میان میں اس نے جو کی تیغِ جفا میرے بعد
خوں گرفتہ کوئی کیا اور نہ تھا میرے بعد

دوستی کا بھی تجھے پاس نہ آیا ہے ہے
تُو نے دشمن سے کیا میرا گلا میرے بعد

گرم بازار ہی الفت ہے مجھی سے ورنہ
کوئی لینے کا نہیں نامِ وفا میرے بعد

منہ پہ لے دامنِ گُل روئیں گے مرغانِ چمن
باغ میں خاک اڑائے گی صبا میرے بعد

چاک اسی غم سے گریبان کیا ہے میں نے
کون کھولے گا ترے بندِ قبا میرے بعد

اب تو ہنس ہنس کے لگاتا ہے وہ مہندی لیکن
خوں رُلائے گا اسے رنگِ حنا میرے بعد

میں تو گلزار سے دل تنگ چلا غنچہ روش
مجھ کو کیا پھر جو کوئی پھول کھِلا میرے بعد

وہ ہوا خواہِ چمن ہوں کہ چمن میں ہر صبح
پہلے میں آتا ہوں اور بادِ صبا میرے بعد

سن کے مرنے کی خبر یار مرے گھر آیا
یعنی مقبول ہوئی میری دعا میرے بعد

ذبح کر کے مجھے نادم یہ ہوا وہ قاتل
ہاتھ میں پھر کبھی خنجر نہ لیا میرے بعد

میری ہی زمزمہ سنجی سے چمن تھا آباد
کیا صیاد نے اک اک کو رہا میرے بعد

آ گیا بیچ میں اس زلف کی اک میں نادان
نہ ہوا کوئی گرفتارِ بلا میرے بعد

قتل تو کرتے ہو پر خوب ہی پچھتاؤ گے
مجھ سا ملنے کا نہیں اہلِ وفا میرے بعد

برگِ گُل لائی صبا قبر پہ میرے نہ نسیم
پھِر گئی ایسی زمانے کی ہوا میرے بعد

گر پڑے آنکھ سے اس کی بھی یکایک آنسو
ذکر محفل میں جو کچھ میرا ہوا میرے بعد

تہِ شمشیر یہی سوچ ہے مقتل میں مجھے
دیکھیے اب کسے لاتی ہے قضا میرے بعد

شرط یاری یہی ہوتی ہے کہ تُو نے غافلؔ
بھول کر بھی نہ مجھے یاد کیا میرے بعد



(منور خان غافلؔ)
 
آخری تدوین:
Top