طارق شاہ

محفلین

جہانِ دل میں کام آتی ہیں تدبیریں نہ تعزیریں
یہاں پیمانِ تسلیم و رضا ایسے نہیں ہوتا

ہر اِک شب ، ہر گھڑی گزُرے قیامت، یُوں تو ہوتا ہے
مگر ہر صبح ہو روزِ جزا ایسے نہیں ہوتا

فیض احمد فیض
 

طارق شاہ

محفلین

دِل کے دهڑکوں کا یہ عالم ہے کہ ، بے منّتِ دست !
پُرزے ہو ہو کے، گریبان اُڑا جاتا ہے

غلام ہمدانی مصحفی
 

طارق شاہ

محفلین

اُس کا دل جب شک کا گھر ہوتا گیا
پیار اپنا در بدر ہوتا گیا

ٹُوٹ کر کچھ یوں گِرے دیوار و در
گھر ہمارا رہگزُر ہوتا گیا

باغباں کی بے حسی سے ہار کر
ہر شجر ہی، بے ثمر ہوتا گیا

حُسن کا جادُو نہ زیادہ چل سکا
عشق، لیکن پُختہ تر ہوتا گیا

آدمی کی حیثیت گھٹتی گئی
مقتدر بس سیم و زر ہوتا گیا

یوں کیا میں نے سرِ تسلیم خم
اُس کا در اور میرا سر ہوتا گیا

خود سَری لیلیٰ کی بڑھتی ہی گئی
قیس بھی تو مُعتبر ہوتا گیا

جتنا ساحِل کے قریب آتے گئے
اتنا ہی وہ، دُور تر ہوتا گیا

ساحل سلیم
 
آخری تدوین:

طارق شاہ

محفلین

اشک آنکھوں میں چُھپاتے ہُوئے تھک جاتا ہُوں
بوجھ پانی کا اُٹھاتے ہُوئے تھک جاتا ہُوں

پاؤں رکھتے ہیں جو مجھ پر اُنھیں احساس نہیں
میں نِشانات مِٹاتے ہوئے تھک جاتا ہُوں

برف ایسی کہ پگھلتی نہیں پانی بن کر
پیاس ایسی کہ بُجھاتے ہُوئے تھک جاتا ہُوں

اچھی لگتی نہیں اِس درجہ شناسائی بھی
ہاتھ ہاتھوں سے مِلاتے ہُوئے تھک جاتا ہُوں

غم گُساری بھی عجب کارِ محبّت ہے کہ میں
رونے والوں کو ہنساتے ہُوئے تھک جاتا ہُوں

اتنی قبریں نہ بناؤ مِرے اندر مُحسن
میں چراغوں کو جلاتے ہُوئے تھک جاتا ہُوں

محسن نقوی
 

طارق شاہ

محفلین

مثالِ زخمِ تبسم چھپا رہا مجھ میں
ستم تو یہ ہے کہ رنگِ صبا رہا مجھ میں

قدم قدم پہ مِلے مجھ کو چاہنے والے
خود اپنا آپ، کہ ہر پل خفا رہا مجھ میں

تِرا یہ حُسن بڑا دل فریب ہے، لیکن
مزاجِ یار کا عالم سدا رہا مجھ میں

میں اپنی موت کو اکثر گلے لگاتا تھا
ہرایک زخم مِرا جب ہرا رہا مجھ میں

کمالِ ضبط کا منظر نظر سے گزُرا ہے
مثالِ گردشِ زِنداں بنا رہا مجھ میں

وہ سازشوں کے عجب رنگ آزماتا ہے
سوالِ وصل کا جب آسرا رہا مجھ میں

بساطِ دل پہ مِلے قتل کے نشاں شفقت
کہ درد آج بھی، جلوہ نما رہا مجھ میں

شفقت علی
 

طارق شاہ

محفلین

یہ کارِ خیر ہے، اِس کو نہ کارِ بد سمجھو
مجھے تباہ کرو، اور اسے مدد سمجھو

میں اِس کہانی میں ترمِیم کر کے لایا ہُوں
جو تم کو پہلے سُنائی تھی، مُسترد سمجھو

مجھے خدا سے نہیں ہے کوئی گلہ ، لیکن
تم آدمی ہو تو پھر آدمی کی حد سمجھو

یہ صرف پیڑ نہیں ہے صدی کا قصہ ہے
یہ جو بھی بات کرے اُس کو مُستند سمجھو

یہاں کسی نے بھی آئندگاں نہیں دیکھے
سو جو گزار چُکے ہو، وہی ابد سمجھو

عابد ملک
 

طارق شاہ

محفلین

عجیب فاصلہ حرف و بیان میں رکھا
مرے یقین کو بھی اُس نے گمان میں رکھا

میں منفرد تو نہ تھا پھر بھی مہرباں نے مِرے
تمام عمر مجھے امتحان میں رکھا

بساط زر پہ نہ دیکھیں، مِرے خُدا نے مُجھے
جہاں بھی رکھا، بڑی آن بان میں رکھا

بہت عزیز ہیں اپنے شکستہ پر مجھ کو
کہ اِن نے مجھ کو ہمیشہ اُڑان میں رکھا

میں دلکشا ہُوں بہت ، مُجھ کو میر و غالب نے
سخنوروں کے بڑے خاندان میں رکھا

وہ جس کا حصہ بھی ہونے نہیں دِیا اُس نے
چُھپا کے مجھ کو اُسی خاندان میں رکھا

وہ سایہ دار تھا زخمِ نظر، سو میں نے بھی
ہمیشہ خود کو اُسی سائبان میں رکھا

سُخن کِیا تھا، سبھی پل میں ہوگئے اُس کے
اِک ایسا لہجہ جو اُس نے زبان میں رکھا

اگر کوئی نہ تھا مجھ کو خریدنے والا
تو کیوں کسی نے سجا کر دکان میں رکھا

نہ اُس کی چھت ہے، نہ دیوار ہے نہ در کوئی
یہ کِس نے اب مجھے ایسے مکان میں رکھا

فلک نژاد تھا میں، اِس لئے تو اُس نے صفی
مری زمیں کو بھی، اک آسمان میں رکھا

ڈاکٹر صفی حسن نقوی
 

اوشو

لائبریرین
کُھلی جو آنکھ ، تو وہ تھا، نہ وہ زمانہ تھا
دہکتی آگ تھی، تنہائی تھی، فسانہ تھا
 

طارق شاہ

محفلین

مست پیالہ حجاب میں دیکھا
یہ تماشا شراب میں دیکھا

خوفِ تعزیزِ حسرتِ فردا
یادِ ماضی عذاب میں دیکھا

اُس کی آغوشِ حُسن کا دربار
اپنی قسمت، کہ خواب میں دیکھا

مہکا مہکا سا اُس کا بِھیگا بدن
حسرتوں کے شباب میں دیکھا

عکسِ محبُوب دِلرُبا، ہم نے
موسمِ لاجواب میں دیکھا

جب بھی دیکھا ہے حُسن والوں کو !
شوقِ خانہ خراب میں دیکھا

بعد مُدّت کے اُس کا حُسن، وسیم
دل کے تازہ گلاب میں دیکھا

وسیم بدایونی
 

طارق شاہ

محفلین

یہ کیا گورکھ دھندہ ہے
اُلجھن یہ سُلجھائے کون

بھٹکے کون خیالوں میں
اور سپنوں میں آئے کون

اعظم نصر
 
Top