طارق شاہ

محفلین

عمر جلووں میں بسر ہو یہ ضروری تو نہیں
ہر شبِ غم کی سحر ہو، یہ ضروری تو نہیں

چشمِ ساقی سے پیو، یا لبِ ساغر سے پیو
بے خودی آٹھوں پہر ہو یہ ضروری تو نہیں

نیند تو درد کے بستر پہ بھی آ سکتی ہے
اُن کی آغوش میں سر ہو، یہ ضروری تو نہیں

شیخ کرتا تو ہے مسجد میں خُدا کو سجدے !
اُس کے سجدوں میں اثر ہو یہ ضروری تو نہیں

سب کی نظروں میں ہو ساقی، یہ ضروری ہے مگر
سب پہ ساقی کی نظر ہو، یہ ضروری تو نہیں

خاموش دہلوی
 

طارق شاہ

محفلین

گئے تھے ہم بھی جگر ، جلوہ گاہِ جاناں ميں !
وہ پُوچھتے ہی رہے، ہم سے بات بھی نہ ہُوئی

جگر مُرادآبادی
 

طارق شاہ

محفلین

اِدھر سے بھی ہے سوا، کچُھ ادُھر کی مجبوُری
کہ ہم نے آہ تو کی، اُن سے آہ بھی نہ ہُوئی

جگر مُرادآبادی
 

طارق شاہ

محفلین

موئے نہ عشق میں، جب تک وہ مہرباں نہ ہُوا
بَلائے جاں ہے وہ دل ، جو بَلائے جاں نہ ہُوا

خُدا کی یاد دِلاتے تھے نزع میں احباب !
ہزار شُکر کہ ، اُس دم وہ بدگُماں نہ ہُوا

مومن خاں مومن
 

سید فصیح احمد

لائبریرین
تم سے الفت کے تقاضے نہ نباہے جاتے
ورنہ ہم کو بھی تمنا تھی کہ چاہے جاتے

دل کے ماروں کا نہ کر غم کہ یہ اندوہ نصیب
زخم بھی دل میں نہ ہوتا تو کراہے جاتے

شان الحق حقی
 

طارق شاہ

محفلین


وحدت میں تیری حرف دوئی کا نہ آ سکے
آئینہ کیا مجال تجھے منہ دِکھا سکے


میر درد
 
آخری تدوین:

طارق شاہ

محفلین

بہت دنوں میں کہیں ہجرِ ماہ و سال کے بعد
رُکا ہوا ہے زمانہ تِرے وصال کے بعد

کسی نے پھر ہمیں تسخِیر کر لیا شاید
کوئی مِثال تو آئی تِری مثال کے بعد

عجیب حبس کے عالم میں چل رہی تھی ہَوا
تِرے جواب سے پہلے، مِرے سوال کے بعد

ہمیں جو چُپ کے دھُندلکوں سے جھانکتی تھی بہت
وہ آنکھیں دیکھنے والی ہیں عرضِ حال کے بعد

ہم، اہلِ خواب کی مجبُوریاں سمجھتے ہیں
سو ہم نے کچھ نہیں سوچا تِرے خیال کے بعد

سلیم ، ہم نے اِک ایسا بھی دن گزُارا ہے
کہ جیسے شام کا منظر کہیں زوال کے بعد

سلیم کوثر
 

طارق شاہ

محفلین

ابھی تو اِس دُکھی جہاں میں موت ہی کا دَور ہے
ابھی تو ، جس کو زندگی کہیں، وہ چیز اور ہے

فراق گورکھپوری
 

طارق شاہ

محفلین

نہ کوئی صُورت و سِیرت میں یارکو پہنچا
نہ حق تمہیں ، مِرے انکارِ کار کو پہنچا

دُکانیں حُسن فروشوں نے بھی سجائیں تھیں
پہ کوئی حُسن و صفت میں نہ یار کو پہنچا

حافظ شیرازی

ترجمہ : مولوی احتشام الدین حقی
 
آخری تدوین:

طارق شاہ

محفلین

معلوم نہیں آنکھیں یہ کیوں، پھُوٹ بہی ہیں
رونے کی طرف کِس لئے یہ ٹُوٹ بہی ہیں

کشتی کی طرح آنکھیں مِری اشک میں یارو
جس تارِ نگہ سے بندھی تھی ، چُھوٹ بہی ہیں

میں، مثلِ حباب آنکھیں تو رو رو کے بہادیں
پر وہ یہی کہتا ہے، سدا جُھوٹ بہی ہیں

سرسبز، یہ کِس جلوہ سے ہوئیں آنکھیں، جو اِتنا
دریا کی طرح، کھیت مِرا لوُٹ بہی ہیں

اے درد ! سمجھ سہج نہ اِن آنکھوں کا بہنا
چھاتی کی طرح دل کو مرے کوٹ بہی ہیں

خواجہ میر درد
 

سید فصیح احمد

لائبریرین
معلوم نہیں آنکھیں یہ کیوں، پھُوٹ بہی ہیں
رونے کی طرف کِس لئے یہ ٹُوٹ بہی ہیں

کشتی کی طرح آنکھیں مِری اشک میں یارو
جس تارِ نگہ سے بندھی تھی ، چُھوٹ بہی ہیں

میں، مثلِ حباب آنکھیں تو رو رو کے بہادیں
پر وہ یہی کہتا ہے، سدا جُھوٹ بہی ہیں

سرسبز، یہ کِس جلوہ سے ہوئیں آنکھیں، جو اِتنا
دریا کی طرح، کھیت مِرا لوُٹ بہی ہیں

اے درد ! سمجھ سہج نہ اِن آنکھوں کا بہنا
چھاتی کی طرح دل کو مرے کوٹ بہی ہیں

خواجہ میر درد

ایسی کم یاب اور نفیس ردیف و قوافی کی ترکیب کو چُن کر بیاں کی اَنتہا کرنا بے شک درد کا ہی خاصہ ہے !!
 

طارق شاہ

محفلین

سیاہ رات ہو، ہر شے کو نیند آئی ہو
مِرے وجُود کی تقریبِ رُونمائی ہو

رکھا گیا ہو ہراِک خواب کو قرینے سے
زمینِ حجلۂ ادراک کی صفائی ہو

رفیق سندیلوی
 

طارق شاہ

محفلین

کوئی نالہ یہاں رسا نہ ہُوا
اشک بھی حرفِ مُدّعا نہ ہُوا

تلخیِ درد ہی مُقدّر تھی
جامِ عشرت ہمیں عطا نہ ہُوا

ساغر صدیقی
 
Top