طارق شاہ

محفلین

یارو مِرا شِکوہ ہی بَھلا کیجیے اُس سے
مذکور کسی طرح تو ، جا کیجیے اُس سے

خواجہ میر درد
 
آخری تدوین:

سید فصیح احمد

لائبریرین
وہ عجیب پھول سے لفظ تھے تیرے ہونٹ جن سے مہک اٹھے
میرے دشتِ خواب میں دور تک کوئی باغ جیسے لگا گئے

میری عمر سے نہ سمٹ سکے میرے دل میں اتنے سوال تھے
تیرے پاس جتنے جواب تھے تیری اک نگاہ میں آ گئے

امجد اسلام امجد
 

طارق شاہ

محفلین

تِرے بعد کوئی نہیں مِلا، جو یہ حال دیکھ کے پُوچھتا
مجھے کِس کی آگ جُھلس گئی، مِرے دل کو کِس کا مَلال تھا

احمد ندیم قاسمی
 

طارق شاہ

محفلین

آکاشوں کے پاتالوں کے
دل کا چورنکالا کس نے

خالی تھا بھر کر چَھلکایا
اِس جیون کا پپیاله کس نے

فراق گورکھپوری
 

طارق شاہ

محفلین

وقت کے کتنے ہی رنگوں سے گزرنا ہے ابھی
زندگی ہے تو کئی طرح سے مرنا ہے ابھی

کٹ گیا دن کا دہکتا ہُوا صحرا بھی تو کیا
رات کے گہرے سمندر میں اُترنا ہے ابھی

ذہن کے ریزے تو پھیلے ہیں فضا میں ہر سُو
جسم کو ٹُوٹ کے ہر گام بِکھرنا ہے ابھی

کون ہے جس کے لئے اب بھی دھڑکتا ہے دل
کس کو اِس اُجڑے جزیرے میں ٹھہرنا ہے ابھی

ایک اِک رنگ اُڑا لے گئی بے مہر ہُوا
کتنے خاکے ہیں جنھیں شام جی! بھرنا ہے ابھی

محمود شام
 

طارق شاہ

محفلین


زیست آزار ہُوئی جاتی ہے
سانس تلوار ہُوئی جاتی ہے

جسم بیکار ہُوا جاتا ہے
رُوح بیدار ہُوئی جاتی ہے

کان سے دل میں اُترتی نہیں بات
اور گفتار ہُوئی جاتی ہے

ڈھل کے نِکلی ہے حقیقت جب سے
کچھ پُراسرار ہُوئی جاتی ہے

اب تو ہر زخم کی منہ بند کلی
لبِ اظہار ہُوئی جاتی ہے

پُھول ہی پُھول ہیں ہرسمت ندیم
راہ دُشوار ہُوئی جاتی ہے

احمد ندیم قاسمی
 

طارق شاہ

محفلین

اب آس ہے، نہ کوئی تمنّا، نہ جستجُو
باقی نہیں ہیں زیست میں، آثار زیست کے

کیا زندگی کا رنگ ہو، جانے ہمارے بعد
ہم آخری امِیں ہیں ، طرحدار زیست کے

مشتاق عاجز
 

طارق شاہ

محفلین

کیسے چھوڑیں اُسے تنہائی پر
حرف آتا ہے مسیحائی پر

اُس کی شہرت بھی تو پھیلی ہر سُو
پیار آنے لگا رُسوائی پر

ٹھہرتی ہی نہیں آنکھیں جاناں !
تیری تصویر کی زیبائی پر

رشک آیا ہے بہت حُسن کو بھی
قامتِ عشق کی رعنائی پر

سطح سے دیکھ کے اندازے لگیں
آنکھ جاتی نہیں گہرائی پر

ذکر آئے گا جہاں بھونروں کا
بات ہو گی مِرے ہرجائی پر

خود کو خوشبُو کے حوالے کردیں
پُھول کی طرز پذیرائی پر

پروین شاکر
 

طارق شاہ

محفلین

دل و نِگاہ پہ کِس طور کے عذاب اُترے
وہ ماہتاب ہی اُترا، نہ اُس کے خواب اُترے

کہاں وہ رُت کہ جبینوں پہ آفتاب اُترے
زمانہ بیت گیا اُن کی آب و تاب اُترے


پروین شاکر
 

طارق شاہ

محفلین

رہے یوں ناز اپنے ذہن پر، لاحق غموں میں بھی !
خوشی کا اِک نہ اِک پہلوُ یہ تاہم ڈھونڈ لیتا ہے

شفیق خلش
 

طارق شاہ

محفلین

خیالِ یار، ہی درماں غمِ فرقت کی زخموں کا !
کہ بیتے ساتھ لمحوں سے، یہ مرہم ڈھونڈ لیتا ہے

شفیق خلش
 
Top