طارق شاہ

محفلین
ماضی شریکِ حال ہے، کوشِش کے باوجود
دُھندلے سے کچھ نقُوش ابھی تک نظر میں ہیں
لِلہ اِس خلُوص سے پُرسِش نہ کیجئے
طُوفان کب سے بند مِری چشمِ ترمیں ہیں
اقبال عظیم
 

طارق شاہ

محفلین
تاکیدِ ضبْط ، عہدِ وفا، اذنِ زندگی
کتنے پیام اِک نگہہ مُختصر میں ہیں
اقبال عظیم
 

طارق شاہ

محفلین
حالِ دل کہہ دیں کسی سے، بارہا سوچا مگر
اِس اِرادے کو ہمیشہ مُلتوی کرتے رہے
خود کو دیتے بھی رہے ترکِ تعلّق کا فریب
اور درپردہ ، کسی کو یاد بھی کرتے رہے
اقبال عظیم
 

طارق شاہ

محفلین
تشبیہہ دے کے قامتِ جاناں کو سَرْو سے
اونچا ہرایک سَرْو کا قد ہم نے کر دیا
سراج الدین ظفر
 

طارق شاہ

محفلین
جادُو ہے یا طِلسْم تُمھاری زبان میں
تم جُھوٹ کہہ رہے تھے، مجھے اعتبارتھا

بیخود دہلوی
 

طارق شاہ

محفلین
میں سمجھ گیا وہ ہیں بے وفا مگر اُن کی راہ میں ہُوں فِدا
مُجھے خاک میں وہ مِلا چکے، مگر اب بھی دل میں غُبار ہے

اکبر الٰہ آبادی
 

طارق شاہ

محفلین
ولی بھی، رند بھی، شاعر بھی، کیا نہیں اقبال
حساب ہے کوئی کم بخت کے کمالوں کا
علامہ محمد اقبال
 

طارق شاہ

محفلین
کسی کی یاد میں اِتنا نہ رو، ہُوا سو ہُوا
کہ دل گنْوا کے اب آنکھیں نہ کھو، ہُوا سو ہُوا

کوئی اُسے نہ سُنائے ہمارا حالِ خراب
مبادہ اُس کو بھی افسوس ہو، ہُوا سو ہُوا

احمد فراز
 

طارق شاہ

محفلین
وحشت کا اثر خواب کی تعبیر میں ہوتا
اِک جاگنے والا مِری تقدیر میں ہوتا

اِک عالمِ خُوبی ہے میّسر، مگر اے کاش
اُس گُل کا علاقہ، مِری جاگیر میں ہوتا


افتخارعارف
 

طارق شاہ

محفلین
وہ قریب آنا بھی چاہے اور گُریزاں بھی رہے
اُسکا یہ پِندارِ محبُوبی مُجھے بھایا بہت

کِتنی یادیں، کِتنے منظر آبدِیدہ ہوگئے
جب بھی تنہا آئینہ دیکھا، وہ یاد آیا بہت

سُرُور بارہ بنکوی
 

طارق شاہ

محفلین
اِس انجمن میں عزیزو! یہ عین ممکن ہے
ہمارے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہے

آغا شورش کاشمیری
 

طارق شاہ

محفلین
جس سے کيا ہے آپ نے اقرار جی گيا
جس نے سنا ہے آپ سے انکار مرگيا

کس بيکسی سے داغ نے افسوس جان دی
پڑھ کر ترے فراق کے اشعار مرگيا

داغ دہلوی
 

طارق شاہ

محفلین
اُس کی پائل اگر چھنک جائے
گردشِ آسماں ٹھٹھک جائے

ہائے اُس مہ جبیں کی یاد عدم
جیسے سینے میں دم اٹک جائے

عبدالحمیدعدم
 

طارق شاہ

محفلین
جبینِ تمنّا کی تابانیاں ہیں
کہ دل میں ابھی تک پُرافشانیاں ہیں

نہ جینا ہے مشکل محبت میں عابد
نہ یہ ہے، کہ مرنے میں آسانیاں ہیں

سیّدعابدعلی عابد
 

طارق شاہ

محفلین
عجب نہیں جو محبت مری سرشت میں ہے
یہی شرار نہاں روحِ سنگ وخشت میں ہے

نہ بجلیوں کوخبر ہے نہ خوشہ چیں کو پتہ
کہ اِک نہال تمنّا ہماری کشت میں ہے

سیّدعابدعلی عابد
 
Top