حسرت جاوید

محفلین
یُوسفِ مصرِ تمنا تیرے جلوؤں کے نثار
میری بیداریوں کو خوابِ زلیخا نہ بنا

ذوقِ بربادیٔ دل کو بھی نہ کر تُو برباد
دل کی اُجڑی ہوئی بگڑی ہوئی دنیا نہ بنا

یہ تمنا ہے کہ آزادِ تمنا ہی رہوں
دلِ مایوس کو مانوسِ تمنا نہ بنا
 

رومی

لائبریرین
یہ اُداسیوں کے موسم یونہی رائیگاں نہ جائیں
کسی یاد کو پُکارو کسی درد کو جگاؤ

یہ جدائیوں کے رستے بڑی دور تک گئے ہیں
جو گیا وہ پھر نہ آیا، مِری بات مان جاؤ

احمد فراز
 

شمشاد

لائبریرین
بساط عجز میں تھا ایک دل یک قطرہ خوں وہ بھی
سو رہتا ہے بہ انداز چکیدن سرنگوں وہ بھی
(چچا ِغالب)
 

سیما علی

لائبریرین
میں نہیں ہوں نغمۂ جاں فزا مجھے سن کے کوئی کرے گا کیا
میں بڑے بروگ کی ہوں صدا میں بڑے دکھی کی پکار ہوں
 

سیما علی

لائبریرین
حسینوں پر نہیں مرتا میں اس حسرت میں مرتا ہوں
کہ ایسے ایسے لوگوں کے لیے ظالم قضا کیوں ہے
 
تمہارے خط میں نیا اک سلام کس کا تھا
نہ تھا رقیب تو آخر وہ نام کس کا تھا

وہ قتل کر کے مجھے ہر کسی سے پوچھتے ہیں
یہ کام کس نے کیا ہے یہ کام کس کا تھا

وفا کریں گے نباہیں گے بات مانیں گے
تمہیں بھی یاد ہے کچھ یہ کلام کس کا تھا

رہا نہ دل میں وہ بے درد اور درد رہا
مقیم کون ہوا ہے مقام کس کا تھا

نہ پوچھ گچھ تھی کسی کی وہاں نہ آؤ بھگت
تمہاری بزم میں کل اہتمام کس کا تھا

تمام بزم جسے سن کے رہ گئی مشتاق
کہو وہ تذکرۂ ناتمام کس کا تھا

ہمارے خط کے تو پرزے کئے پڑھا بھی نہیں
سنا جو تو نے بہ دل وہ پیام کس کا تھا

اٹھائی کیوں نہ قیامت عدو کے کوچے میں
لحاظ آپ کو وقت خرام کس کا تھا

گزر گیا وہ زمانہ کہوں تو کس سے کہوں
خیال دل کو مرے صبح و شام کس کا تھا

ہمیں تو حضرت واعظ کی ضد نے پلوائی
یہاں ارادۂ شرب مدام کس کا تھا

اگرچہ دیکھنے والے ترے ہزاروں تھے
تباہ حال بہت زیر بام کس کا تھا

وہ کون تھا کہ تمہیں جس نے بے وفا جانا
خیال خام یہ سودائے خام کس کا تھا

انہیں صفات سے ہوتا ہے آدمی مشہور
جو لطف عام وہ کرتے یہ نام کس کا تھا

ہر اک سے کہتے ہیں کیا داغؔ بے وفا نکلا
یہ پوچھے ان سے کوئی وہ غلام کس کا تھا

✍️داغ دہلوی
 
Top