فرقان احمد

محفلین
کیوں میری تمنا کی طرف دیکھ رہے ہو!
کیا تم نے کبھی آگ پہ خِرمن نہیں دیکھا

اُس نے بھی تبسم کا ہُنر دیکھ کے نیرؔ
آلام چھُپانے کا مرا فن نہیں دیکھا

شہزاد نیر
 

لاريب اخلاص

لائبریرین
مکان چہرے دکان چہرے

ہماری بستی کی جان چہرے

اجاڑ نسلوں کے نوحہ گر ہیں

خزاں رسیدہ جوان چہرے

دھواں دھواں منظروں کا حصہ

خیال خوشبو گمان چہرے

روایتوں کے نقوش جن پر

وہ کھنڈروں سے مکان چہرے

کوئی تأثر ہو زندگی کا

کریں خوشی غم بیان چہرے

کوئی نہیں ہے کسی سے واقف

نگر میں سب بے نشان چہرے

حنیفؔ قدریں بدل چکی ہیں

نہ ڈھونڈ وہ درمیان چہرے

فرحان حنیف وارثی
 

لاريب اخلاص

لائبریرین
یہ کس نے کہا تم کوچ کرو باتیں نہ بناؤ انشاؔ جی

یہ شہر تمہارا اپنا ہے اسے چھوڑ نہ جاؤ انشاؔ جی

جتنے بھی یہاں کے باسی ہیں سب کے سب تم سے پیار کریں

کیا ان سے بھی منہ پھیرو گے یہ ظلم نہ ڈھاؤ انشاؔ جی

کیا سوچ کے تم نے سینچی تھی یہ کیسر کیاری چاہت کی

تم جن کو ہنسانے آئے تھے ان کو نہ رلاؤ انشاؔ جی

تم لاکھ سیاحت کے ہو دھنی اک بات ہماری بھی مانو

کوئی جا کے جہاں سے آتا نہیں اس دیس نہ جاؤ انشاؔ جی

بکھراتے ہو سونا حرفوں کا تم چاندی جیسے کاغذ پر

پھر ان میں اپنے زخموں کا مت زہر ملاؤ انشاؔ جی

اک رات تو کیا وہ حشر تلک رکھے گی کھلا دروازے کو

کب لوٹ کے تم گھر آؤ گے سجنی کو بتاؤ انشاؔ جی

نہیں صرف قتیلؔ کی بات یہاں کہیں ساحرؔ ہے کہیں عالیؔ ہے

تم اپنے پرانے یاروں سے دامن نہ چھڑاؤ انشاؔ جی


قتیل شفائی
 

عدنان عمر

محفلین
‏کیا کروں میں کہ مجھ کو تیرے بنا
ساتھ اپنا بھی اب نہیں بھاتا
جس سمے تم نے ساتھ چھوڑا تھا
وہ سمے چھوڑ کر نہیں جاتا
۔۔۔۔۔۔
فیصل فارانی
 

لاريب اخلاص

لائبریرین
غنچوں کے چٹکنے کی صدا تھے میرے بابا
پھولوں کے مہکنے کی ادا تھے میرے بابا

پہنچاتے تھے ہر شخص کو جو فیض مسلسل
بس قادرِ مطلق کی عطا تھے میرے بابا

ہر لفظ میں اُن کے لیے اِک جذبہ ءِ تحسیں
اخلاص و عنایت کی نوا تھے میرے بابا

دنیا میں وہ انسان کی عظمت کے تھے پیکر
دیں دار تھے ، تصویرِ حیا تھے میرے بابا

ہر محفلِ بے رنگ کو کرتے تھے وہ خوش رنگ
سب جلتے چراغوں کی ضیا تھے میرے بابا

ہر شخص پہ ہوتی تھی کرامات کی بارش
ہاں سب کے لیے حرفِ دعا تھے میرے بابا

اُن کے لیے رابیلؔ ہے ہر آن دعائیں
میرے لیے انعامِ خدا تھے میرے بابا

گُلِ رابیل
 
تیری جستجو میں یہاں وہاں، میری ساری عمر گزرگئی
ہے کہاں نہاں میری داستاں ، میری ساری عمر گزر گئی

میرا عشق کتنا عجیب ہے تو حبیب ہے نہ رقیب ہے
میں ہوں اپنی ذات میں خوش گماں میری ساری عمر گزرگئی
 
Top