فرقان احمد

محفلین
یہ تری جفا کی ہے اتنہا کہ تو مجھ کو یاد نہ کر سکے
یہ مری وفا کا کمال ہے کہ نہ تجھ کو دل سے بھُلا سکوں
مرے جذبِ عشق کو کیا ہوا، وہ کہاں گئی کششِ وفا
مجھے کوئی یاد کرے گا کیا جو تمہیں کو یاد نہ آسکوں
 

فرقان احمد

محفلین
تیری نگاہِ لُطف اگر ہمسفر نہ ہو​
دُشوارئ حیات کبھی مُختصر نہ ہو​

اِتنا سِتم نہ کر کہ نہ ہو لذّتِ سِتم​
اِتنا کرم نہ کر کہ مری چشم تر نہ ہو​
 

فرقان احمد

محفلین
یہ تنہا رات، یہ گہری فضائیں
اُسے ڈھونڈیں، کہ اُس کو بُھول جائیں

خیالوں کی گھنی خاموشیوں میں !
گھُلی جاتی ہیں لفظوں کی صدائیں

یہ رستے رہرووں سے بھاگتے ہیں
یہاں چُھپ چُھپ کے چلتی ہیں ہوائیں

یہ پانی خامشی سے بہہ رہا ہے
اِسے دیکھیں، کہ اِس میں ڈُوب جائیں

جو غم جلتے ہیں شعروں کی چتا میں
اُنہیں، پھر اپنے سینے سے لگائیں

چلو ایسا مکاں آباد کر لیں!
جہاں لوگوں کی آوازیں نہ آئیں
 

عروہ خان

محفلین
میں ٹھہری موم کی عورت

جو سورج کی تمازت سے بھی
خود کو دور رکھتی تھی

میں ڈرتی تھی پگھلنے سے
بکھرنے سے بھی ڈرتی تھی

کسی کے پاوں سے لگ کر
کسی انجان چوکھٹ پر
میں رونے سے بھی ڈرتی تھی
میں رہنے سے بھی ڈرتی تھی

......مگر.......
پھر یوں یوا اک دن
کسی کی چار باتوں پر

نزاکت اپنی کھو بیٹھی
قفس بےباب تھا لیکن
میں اس میں قید ہو بیٹھی

مرے صیاد نے مجھ پر
بہت احسان کر ڈالا

مری روشن ان آنکھوں کو
بہت سنسان کر ڈالا
مری ہستی کو تنہائی کی
ڈوری میں پرو ڈالا

مجھے شمع بنا ڈالا
بنا کر پھر جلا ڈالا

مرا اب کام جلنا ہے
پگھلنا ہے بکھرنا ہے

میں ٹھہری موم کی عورت

......ہمیشہ.....
مجھ کو جلنا ہے

سخنور...عروہ شاہنواز خان
 

عروہ خان

محفلین
ب
یہ تنہا رات، یہ گہری فضائیں
اُسے ڈھونڈیں، کہ اُس کو بُھول جائیں

خیالوں کی گھنی خاموشیوں میں !
گھُلی جاتی ہیں لفظوں کی صدائیں
یہ رستے رہرووں سے بھاگتے ہیں
یہاں چُھپ چُھپ کے چلتی ہیں ہوائیں
یہ پانی خامشی سے بہہ رہا ہے
اِسے دیکھیں، کہ اِس میں ڈُوب جائیں
جو غم جلتے ہیں شعروں کی چتا میں
اُنہیں، پھر اپنے سینے سے لگائیں
چلو ایسا مکاں آباد کر لیں!
جہاں لوگوں کی آوازیں نہ آئیں
بہت خوب
 

showbee

محفلین
یہ جو زندگی کی کتاب ہے، یہ کتاب بھی کیا کتاب ہے
[FONT=Verdana, arial, helvetica, serif]کہیں ایک حسین سا خواب ہے، کہیں جان لیوا عزاب ہے

کہیں آنسو کی ہے داستان، کہیں مسکراہٹیں بے حساب ہیں
کئی چہرے اِس ہیں چُھپے ہوئے، ایک عجیب سا یہ بے نقاب ہے

کیہں کھو دیا کہیں پا لیا، کہیں رو لیا، کہیں گا لیا
کہیں چھین لیتی ہے ہر خوشی، کہیں مہربان بے حساب ہے

کہیں چھاؤں ہے کہیں دھوپ ہے، کہیں اور کوئی روپ ہے
کہیں برکتوں کی ہے بارشیں، کہیں تشنگی بے حساب ہے
[/FONT]
یہ جو زندگی کی کتاب ہے، یہ کتاب بھی کیا کتاب ہے
 

فرقان احمد

محفلین
یہ ہرایک سمت مسافتوں میں گندھی پڑی ہیں جو ساعتیں!
تِری زندگی ۔۔۔ مِری زندگی ۔۔۔ اِنهی موسموں کی شمیم ہے
کہِیں محْملوں کا غبار اُڑے، کہیں منزلوں کے دِیے جلیں
خَمِ آسماں، رہِ کارواں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہ مُقام ہے، نہ مقیم ہے
 
Top