طارق شاہ

محفلین

زندگی خوابِ پریشاں ہے، کوئی کیا جانے
موت کی لرزشِ مژگاں ہے کوئی کیا جانے

رامش و رنگ کے ایوانوں میں لہلائے حیات
صرف اکِ رات کی مہمان ہے کوئی کیا جانے

جوش ملیح آبادی
 

طارق شاہ

محفلین

ہر سمت شہر میں ہے فقط قاتلوں کا راج
حاکم بھی ڈرکے دینے لگا ہے انہیں خراج

کوشش یہی ہے اُس کی، رہے اُسکا تحت و تاج
لفظی تسلیوں کے سِوا کیا بچا ہے آج

فیروز خسرو
 

طارق شاہ

محفلین

آگے بڑھے نہ قصۂ عشقِ بُتاں سے ہم
سب کچھ کہا، مگر نہ کھُلے رازداں سے ہم

اب بھاگتے ہیں سایۂ عشقِ بُتاں سے ہم
کچھ دل سے ہیں ڈرے ہوئے، کچھ آسماں سے ہم

الطاف حسین حالی
 

سید فصیح احمد

لائبریرین
برادرِ عزیز میرے پاس شعر یونہی لکھا ہوا ہے ، اگر آپ نے کہیں
آب زر کے ساتھ دیکھا ہے ، تو درست ہی ہوگا ، یا کوئی اور اس بابت
حوالے کے ساتھ لکھ دے تو اور بھی اچھا ہو :)
جی ضرور طارق بھائی! در اصل مُجھے قوی گُمان ہے کہ یہاں ہی اردو ویب کے کسی مراسلے میں پڑھا تھا میں تلاش کر کے حوالہ رسید کر دوں گا۔ سلامتی ہو! :)
 

طارق شاہ

محفلین

رعنائی بہارِ گُل و گلستاں گئی
وہ کیا گئے کہ رونقِ بزم جہاں گئی

آخرغبارِ راہِ محبّت بھی چُھپ گیا
کچھ دُور تو نِگاہ پسِ کارواں گئی

شکیل بدایونی
 

طارق شاہ

محفلین

عشق نے پا لِیا خود اپنا مقام
اُن کی پہلی نظرکو کیا کہیے

دُور ہو کر بھی پاس ہے کوئی
اہتمامِ نظر کو کیا کہیے

شکیل بدایونی
 

طارق شاہ

محفلین

نہ تِرے حُسن کی خوشبو، نہ تِرے عِشق کا رنگ
یُوں تو گزُرے مِری نظروں سے ہزاروں گُل رُو

احمد ندیم قاسمی
 
Top