طارق شاہ

محفلین

بتائیں کیا، کہ بنایا ہے اُس نے کاجل سے
نظر سے دل میں اُترتا جو خال، کیا شے ہے

وہی ہیں ولولے دل میں خلش اوائل کے
غموں سے عشق میں ہونا نڈھال کیا شے ہے

شفیق خلش
 

طارق شاہ

محفلین
میرے اندر بھی ہے ایک شہرِ دِگر، میرے مہتاب، اک رات اِدھر سے گُزر
کیسے کیسے چراغ ان دریچوں میں ہیں، کیسے کیسے قمر اِن مکانوں میں ہیں

عرفان صدیقی
 

طارق شاہ

محفلین
اِس جبرِ مصلحت سے تو رُسوائیاں بھلی
جیسے کہ ہم اُنھیں وہ ہمیں جانتے نہیں

کمبخت آنکھ اُٹھی نہ کبھی اُن کے رُوبرُو
ہم اُن کو جانتے تو ہیں، پہچانتے نہیں

خماربارہ بنکوی
 

طارق شاہ

محفلین
واعظ خُلوص ہے تِرے اندازِ فکر میں
ہم تیری گفتگو کا بُرا مانتے نہیں

حد سے بڑھے توعلم بھی ہے جہل دوستو
سب کچھ جو جانتے ہیں، وہ کچھ جانتے نہیں

خماربارہ بنکوی
 

طارق شاہ

محفلین
غم کا فسانہ سُننے والو، آخر شب آرام کرو
کل يہ کہانی پھر چھيڑيں گے، ہم بھی ذرا اب سو لے ہيں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم لوگ اب تو پرائے سے ہيں، کچھ تو بتاؤ حالِ فراق
اب تو تمہيں کو پيار کرے ہيں، اب تو تمہيں سے بولے ہيں

فراق گورکھپوری
 

طارق شاہ

محفلین
رُخصت ہُوا تو آنکھ مِلا کر نہیں گیا
وہ کیوں گیا ہے؟ یہ بھی بتا کرنہیں گیا

شاید وہ مِل ہی جائے مگرجستجو ہے شرط
وہ اپنے نقشِ پا تو مِٹا کر نہیں گیا

شہزاد احمد
 

طارق شاہ

محفلین
کل فکر یہ تھی کشورِ اسرار کہاں ہے
اب ڈھونڈ رہا ہوں کہ درِ یار کہاں ہے
پھر حُسن کے بازار میں بِکنے کو چلا ہُوں
اے جنسِ تدبّر کے خرِیدار کہاں ہے
جوش ملیح آبادی
 

طارق شاہ

محفلین
فِطرت ميری عِشق و محبّت، قِسمت ميری تنہائی
کہنے کی نوبت ہی نہ آئی، ہم بھی کِسو کے ہو لے ہيں

اُف وہ لبوں پر موجِ تبسّم جيسے کروٹيں ليں، کونديں
ہائے وہ عالمِ جُنبشِ مژگاں جب فِتنے پر تولے ہيں

فراق گورکھپوری
 

طارق شاہ

محفلین
دِین پر ہے کوئی نازاں، تو کوئی دُنیا پر
مجھ سیہ بخت کی جھولی میں، نہ دُنیا ہے، نہ دِیں
ناقدِ جبرِ طبائع کی نِگاہوں کے حضوُر
اولیاء ہی نہ مُقدّس، نہ شیاطِینِ لعِیں
جوش ملیح آبادی
 

طارق شاہ

محفلین
ایک حرف اُس کی عبارت کا پڑھا جاتا نہیں
لِکھ دِیا کِس خط میں ہے یہ خطِ پیشانی مجھے
خواجہ حیدرعلی آتش
 

طارق شاہ

محفلین
جب ساز کی لے بدل گئی تھی
وہ رقص کی کون سی گھڑی تھی

اب یاد نہیں کہ زندگی میں
میں آخری بار کب ہنسی تھی

پروین شاکر
 
Top