آواز
وہ تو واقف نہ تھی الفاظ کے تقدّس سے۔ ۔ ۔ ۔
معنی و حرف کی حرمت سے بھی آگاہ نہ تھی!
اس سے شکایت کیسی؟
اپنے ہی عہدِ محبت کا جسے پاس نہیں۔ ۔ ۔
کوئی احساس نہیں۔ ۔ ۔ ۔
اس سے گلہ کیا معنی؟
اس سے پہلے کہ ہر اک لفظ تازیانہ بنے۔ ۔ ۔
حرفِ شکوہ سے کوئی اور ہی افسانہ بنے
اپنے خاموش تکلّم کا بھرم رکھ لینا۔ ۔ ۔ ۔
کچھ مت کہنا۔ ۔ ۔ ۔ ۔
بس چُپ رہنا !!!
 

الف عین

لائبریرین
اچھی نظم ہے، بس ایک حرف تنگ کر رہا ہے، تازیانہ۔۔ یہاں جو ارکان استعمال ہوئے ہیں، ان میں درست نہیں بیٹھتا۔
 

مغزل

محفلین
بہت خوب محمود صاحب ، باقی گفتگو تو ہو ہی چکی ہے ، سو میری جانب سے مبارکباد، گر قبول افتد زہے عزو شرف
 
Top