طارق شاہ
محفلین

غزل
آشنا دست بر دُعا نہ ہُوا
دِل سے میرے ذرا جُدا نہ ہُوا
ذکرِ عِشق اُن سے برمَلا نہ ہُوا
پیار بڑھنے کا سِلسِلہ نہ ہُوا
کیا کہُوں اُن کے عَزْم و وَعدوں کا!
کُچھ بھی قَسموں پہ دَیرپا نہ ہُوا
بَن کے راحت رہے خیالوں میں
بس مِلَن کا ہی راستہ نہ ہُوا
شے مِلی اِس سے، اَور کرنے کی!
ظُلم پر جب بھی مَیں خفا نہ ہُوا
تگ و دَو کم رہی نہ منزِل کی
اِک عَمل نُصرت آشنا نہ ہُوا
گو ہُوں مُجرم نہ بُھولنے کا اُنھیں!
کب تصوّر میں کُچھ مزہ نہ ہُوا
اب خلشؔ! فکر کب چُکوتے کی
حق میں اپنے، اگر ہُوا نہ ہُوا
شفیق خلشؔ
مدیر کی آخری تدوین: