کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

شمشاد

لائبریرین
نہ کر مجھ پر اندھیروں کو مسلط
میں سورج ہوں، نکلنا چاہتا ہوں

کسی کے تجربوں کا کیا بھروسہ
میں خود گر کر سنبھلنا چاہتا ہوں
 

شمشاد

لائبریرین
نہ مزہ ہے دشمنی میں نہ ہے لطف دوستی میں
کوئی غیر غیر ہوتا کوئی یار یار ہوتا
 

شمشاد

لائبریرین
سارے چہرے سارے رشتے سارے در انجان ہوئے
ہم تو جیسے اپنے گھر میں آپ ہی اب مہمان ہوئے

سارے منظر چُپ چُپ ہیں اور ساری فضائیں ہیں خاموش
شہر کی ساری گلیاں سونی رستے سب سنسان ہوئے
 

شمشاد

لائبریرین
بکھری اک بار تو ہاتھ آئی ہے کب موجِ شمیم
دل سے نکلی ہے تو کب لب پہ فغاں ٹھہری ہے
 

زونی

محفلین


خودی کی ھے یہ منزل اولین
مسافر یہ تیرا نشیمن نہیں
تیری آگ اس خاک داں سے نہیں
جہاں تجھ سے ھے تو جہاں سے نہیں
جہاں اور بھی ہیں ابھی بے نمود
کہ خالی نہیں ھے ضمیرِ وجود


( اقبال)
 

شمشاد

لائبریرین
مٹی مٹی سی امیدیں تھکے تھکے سے خیال
بجھے بجھے سے نگاہوں میں غم کے افسانے

امیدِ پرسشِ غم کس سے کیجیے ناصر
جو اپنے دل پہ گزرتی ہے کوئی کیا جانے
(کاظمی)
 

زینب

محفلین
اس شہر میں کتنے چہرے تھے کچھ یاد نہیں،سب بھول گئے

اک شخص کتابوں جیسا تھا ،وہ شخص زبانی یاد ہوا۔۔
 

شمشاد

لائبریرین
پہلے تو مقتول کے سب ساتھ تھے
پھر گواہی سے ہی تائب ہو گئے

کس نے دیکھیں قتل کی سچائیاں
سارے منصف اس کی جانب ہوگئے
 

شمشاد

لائبریرین
اب ملاقات میں وہ گرمئی جذبات کہاں
اب تو رکھنے وہ محبت کا بھرم آتے ہیں
ساغر صدیقی
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top