کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

شمشاد

لائبریرین
کچھ میر کے ابیات تھے، کچھ فیض کے مصرے
اک درد کا تھا جن میں بیاں‌یاد رہے گا
 

شمشاد

لائبریرین
ترکِ الفت بھی نہیں کر سکتے
ساتھ دینے سے بھی معذور ہیں دوست

گفتگو کے لئے عنواں بھی نہیں
بات کرنے پہ بھی مجبور ہیں دوست
 

زونی

محفلین
بے ارادہ چل رہا ہوں زندگی کی راہ پر
میرے مسلک میں نہیں ھے کاروبارِ رہبری
 

شمشاد

لائبریرین
مجھ کو ساقی سے گلہ ہو نہ تُنک بخشی کا
زہر بھی دے تو مرے جام کو بھر بھر کر دے
 

شمشاد

لائبریرین
ہم اپنے آپ میں‌ یوں گُم ہوئے ہیں مدت سے
ہمیں تو جیسے کسی کا بھی انتظار نہیں
کسی کو ٹوٹ کر چاہیں یا چاہ کر ٹوٹیں
ہمارے پاس تو اتنا بھی اختیار نہیں
 

شعیب خالق

محفلین
ٓندھی چلی تو دھوپ کی سانسیں الٹ گئیں
عریاں شجر کے جسم سے شاخیں لپٹ گئیں

دیکھا جو چاندنی میں گریبانِ شب کا رنگ
کرنیں پھر آسمان کی جانب پلٹ گئیں​
 

شمشاد

لائبریرین
یوں کہ عبارت کی زباں اور ہے کوئی
کاغذ میری تقدیر کا سادہ بھی نہیں ہے
کس موڑ پہ لے آیا ہمیں ہجر مسلمل
تا حد ِ نگاہ وصل کا وعدہ بھی نہیں ہے
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top