آؤ زندگی سیکھیں

اس وقت مجھے یہ بہت بڑا سبق ملا کہ ناجائز آمدنی جس طرح آتی ہے اسی طرح نکل جاتی ہے الحمدللہ اس کے بعد کبھی آمدنی کے لئے کوئی ناجائز طریقہ اختیار نہیں کیا اور میں دوسروں کو بھی یہ ہی تلقین کروں گا کہ کبھی بھی آمدنی کے لئے ناجائز طریقہ اختیار نہ کریں اس سے کبھی برکت نہیں ہوئی اللہ ہم سب کو عمل کی توفیق دے آمین
سبحان اللہ،
بڑے لوگوں کی بڑی باتیں، کیا مجال جو جناب نے اپنی غلطی کو مجبوری کا نام دے کر فرار حاصل کرنے کی کوشش کی ہو۔ ۔ ۔ اسے ہی تو اعلیٰ ظرفی کہتے ہیں۔ جزاک اللہ سید شہزاد ناصر بھیا!
 

گو کہ میں اس دھاگے میں مزاح کو دور رکھنا چاہ رہا تھا لیکن سید شہزاد ناصر بھیا کا واقعہ پڑھ کر ایک لطیفہ یاد آگیا:
2 چور کسی گاؤں سے رات کو بیل چوری کر لائے۔ راستے میں جنگل پڑتا تھا، صبح صادق تک وہیں انتظار کیا۔ 1 چور اٹھا کہ میں پاس والے گاؤں جا کر کسی قصاب سے بات کر کے آتا ہوں۔ دوسرا چور کچھ دیر جاگنے کے بعد نیند کی آغوش میں چلا گیا۔
اتفاق سے کچھ دیر بعد چوروں کا ایک اور ٹولہ وہاں سے گزرا، اور بیل لے گیا۔ جب پہلا چور واپس آیا تو بیل کو غائب پا کر دوسرے چور کو لات رسید کر کے جگایا، اور پوچھا "سچ بتا بیل کتنے میں بیچا"
دوسرے چور نے ادھر ادھر دیکھا، بیل کو نا پا کر سمجھ گیا کہ ہوا کیا ہوگا، بولا "یار غصہ نہ کر، جتنے میں لایا تھا اتنے میں ہی بِک گیا"
 
زندگی ۔۔۔۔۔۔۔۔
زندہ رہنے والوں کو اپنی ٹھوکروں پہ رکھ اپنے حوادث میں الجھا اپنی حقیقتوں کو خود عیاں کرتی ہے ۔
بہت کڑے امتحان لیتی ہے ۔۔۔۔۔ پھر بھی " بے وفا " ٹھہرتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آوارگی بھرے بچپن کی اک جھلک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نان چھولے کھانے کو بہت دل کر رہا تھا ۔ والد اور والدہ اپنی ڈیوٹی پر جا چکے تھے ۔ اور ان کی جیب اور پرس میری دسترس سے دور تھا ۔ گھر میں ہر ممکنہ جگہ کی تلاشی لینے کے باوجود کھوٹا سکہ بھی ہاتھ نہ لگا تھا ۔ کہ گھر والے اب میری عادتوں کو جانتے بہت محتاط ہو چکے تھے ۔
گھر سے باہر نکلا تو دیکھا کہ " مائی حجن " اپنے گھر کے دروازے پہ کھڑی ہیں ۔ اللہ بلند درجات سے نوازے آمین ۔ بہت عمر رسیدہ بہت مشفق خاتون تھیں ۔ ان کو سلام کرتے جب ان کے سامنے سے گزرا تو انہوں نے آواز دی کہ " بیٹا مجھے اک سیر گھی لا دے " اور سو روپے کا اک نیا نکور نوٹ مجھے تھما دیا ۔ سن تہتر میں یہ سو روپے کی کیا حیثیت تھی ۔ یہ آج کے مجھ جیسے " اولڈ ینگ مین " خوب جانتے ہیں ۔
" بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا " میں نے سو کا نوٹ پکڑا اور سیدھے نان چھولوں کی ریڑھی کا رخ کیا ۔ خوب رج کر کھائے ۔ غباروں پہ نشانہ بازی بھی کی ۔ آنے آنے والی لاٹریاں بھی خوب نکالیں ۔ آوارہ گردی کرتے صبح سے شام ہو گئی ۔ جب گھر کا رخ کیا تو " مائی حجن " سے بچنے کے لیئے گلی کی دوسری جانب سے داخل ہوا ۔ گھر میں داخل ہوتے ہی پتہ چلا کہ آج صبح کوئی بچہ " مائی حجن " سے سو روپے لے کر گیا تھا ۔ اور واپس نہیں آیا ۔ مائی حجن نے گلی کے سارے بچوں کو اپنے گھر بلایا تھا ۔ سو اب مجھے بھی " مائی حجن " کے ہاں جانا تھا ۔ یہ جان کر ڈر سے پسینے چھوٹنے لگے مگر جانا تو تھا ہی کہ " مائی حجن " بہت مان سمان والی ہمدرد سارے محلے کی " جگت ماں " خاتون تھیں ۔
باجی اور میں مائی حجن کے گھر گئے ۔ مائی نے مجھے دیکھا اور اپنے پاس بلایا میری تو جان ہی نکل گئی کہ آج پھر گھر والے " الٹا لٹکائیں ہی لٹکائیں "
مائی حجن نے مجھے غور سے دیکھ کر میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور کہنے لگیں کہ یہ تو بہت پیارا بہت اچھا بچہ ہے ۔ اسی کے دھوکے میں اس بچے کو میں نے پیسے دے دیئے ۔ میں معصوم مسکین صورت بنا انہیں دیکھتا رہا ۔ اتنے میں اک اور بچہ اپنی والدہ کے ساتھ گھر میں داخل ہوا ۔ مائی حجن نے اسے غور سے دیکھا اور کہنے لگیں کہ " یہ تو وہی لگے ہے " اس بچے کی ماں نے اپنی جوتی اتار وہیں بچے کی سینکائی شروع کر دی ۔ بچہ بیچارہ مار کھائے روتا جائے قسمیں اٹھائے اور کہے کہ میں نے مائی حجن سے پیسے نہیں لیئے ۔ لیکن کون سنے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مائی حجن نے مجرم پہچان لیا تھا ۔ اب وہ بچہ مرغا بنا ہوا تھا ۔ اور اس کی ماں اس سے تفتیش کر رہی تھی ۔ اور پھر یہ کہہ کر ساتھ لے گئی کہ اس کے ابو کو بتاتی ہوں وہ ہی اس کا علاج کریں گے ۔۔۔
اور میں دل میں سوچ رہا تھا کہ " چوری میں نے کی ۔ مزے میں نے کیئے ، اور مار یہ بیچارہ کھا رہا ہے ۔ " اب کیا کروں ۔ ؟
سارا دن کی آوارگی میں صرف اٹھارہ بیس روپیئ ہی خرچ ہوئے تھے ۔ باقی سب میں نے اک سیفٹی پن کے ذریعے اپنی شلوار کے اندر ٹانگے ہوئے تھے ۔ اس بچے کی حالت دیکھ مجھ سے رہا نہیں گیا ۔سوچا ماں نے اتنا مارا ہے تو گھر جا کر اس کو کتنی مار پڑے گی ؟
جانے کون سا جذبہ تھا کہ میں نے چھپ کر پیسے نکالے اور جیسے ہی مائی حجن کو اکیلا دیکھا ۔ پیسے ان کے سامنے رکھ کر اپنے جرم کا اعتراف کر لیا ۔۔۔۔۔۔۔
مائی حجن نے مجھے تعجب سے دیکھا ۔ اور مجھے وہیں باورچی خانے میں بند کر اس بچے کے گھر چل دیں ۔ اور اس کے گھر جا کر بچے کو پیار کرتے اپنی غلطی کا اقرار کرتے بچے کو بے قصور سزا ملنے پر اس کے والدین سے معافی مانگی اور بچے کو 20 روپئے نقد سے نوازتے کہا کہ جو پیسے لے گیا تھا وہ کوئی اور تھا اور پیسے واپس دے گیا ہے ۔
واپس آکر مجھے باورچی خانے کی قید سے آزاد کر کے اپنے سامنے بٹھا لیا ۔ اور پوچھنے لگیں کہ میں نے ایسا کیوں کیا ۔ کس وجہ سے اپنے جرم کو تسلیم کیا ۔ ؟
میں کیا جواب دیتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
چپ چاپ ان کی نصیحتیں سنتا رہا ۔ اور جب تک وہ حیات رہیں انہیں ٹھگتا رہا ۔۔۔۔۔۔۔۔
پڑھنے والے فیصلہ کریں کہ ۔۔۔۔۔ میں نے اس واقعے میں زندگی سے کیا سیکھا ۔۔۔۔۔۔۔؟

سچ بولنے کی ہمت ہر کسی میں کہاں ہے
 
"انسان زندگی سمجھنے میں زندگی گزار دیتا ہے، اور جب زندگی سمجھ آنے لگتی ہے تو زندگی ختم ہو جاتی ہے"
کچھ دن پہلے نجانے کس دھن میں یہ بات کہہ گیا تھا میں۔ کل رات کو خیال آیا کہ فورم پر اتنے تجربہ کار لوگ موجود ہیں تو کیا ہی اچھا ہو کہ سب اپنی زندگی کا کوئی ایسا واقعہ شیئر کریں جس سے انہوں نے کچھ سیکھا ہو، یقینا ً ان کے تجربات سے دوسروں کو بھی کچھ سیکھنے کا موقع ملے گا اور زندگی آسان ہو جائے گی۔
زیادہ سے زیادہ محفلین کو مدعو کریں تا کہ سیکھنے کے لئے زیادہ سے زیادہ مواد اکٹھا ہو سکے۔​

بہت دکھی اور سبق آموز ، آزمائش کے دنوں میں ایمان اور خودداری سلامت رکھنا انتہائی کٹھن کام ہے
 

اکمل زیدی

محفلین
جو چیز مقدر میں لکھی ہے اسے پانے کے لئے ایمان کا سودا کرنے کی ضرورت کیا ہے، وہ تو مل کر ہی رہنی ہے۔ اور اگر اللہ تعالیٰ نے ہمیں کوئی چیزعطا نہیں کی تو یقیناً وہ ہمارے حق میں بہتر نہیں ہوگی۔
واہ۔۔۔ واہ۔۔۔۔۔۔۔جیو امجد بھائی۔۔۔۔
 
Top